Qissa teen jhoot ka

Qissa teen jhoot ka

Qissa teen jhoot ka

 

اسلام علیکم اُمید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے ۔

آج کی کہانی میں خوش آمدید 

کسی زمانے میں کسی جگہ ایک بادشاہ رہتا تھا اس کے ایک جوان بیٹی تھی بہت سے ملکوں سے شہزادے اور

وزیر زادے اُسے شادی کرنے کے لیے آئے لیکن شہزادی اُن میں سے کسی کو بھی پسند نہیں کرتی تھی

ایک دن بادشاہ نے بیٹی کو اپنے پاس بلایا اور اُس سے کہا میری پیاری بیٹی میری آنکھوں کا نور میرے دل کا

سروپ میں سب بادشاہوں کو اطلاع دے چکا ہوں کہ میری بیٹی کے لیے بر چاہیے اب تک کتنے بہادر

جوان آ چکے ہیں مگر تم نے ان سب کو ٹھکرا دیا اس کی آخر وجہ کیا ہے تم چاہتے کیا ہو شہزادی نے جواب دیا

ابا جان میں آس سے شادی کروں گی جو تین جھوٹ بولے اور ہر جھوٹ میں 40 جھوٹ ہوں اور اس

روانی سے بولے کہ دل کو موہ لے ۔

بادشاہ نے ہر طرف اپنے ڈھنڈورچیوں کو بھیجا جو اعلان کرتے پھرے بادشاہ اُس آدمی سے اپنی بیٹی کی

شادی کرے گا جو تین جھوٹ بولے اور ہر جھوٹ میں 40 جھوٹ ہوں ہر طرف سے شادی کے اُمیدوار

ائے اور دربار میں حاضر ہو کر اپنے کھڑے ہوئے جھوٹے قصے سنانے لگے بادشاہ نے اپنے ملک کے تمام

دانشمندوں کو اپنے دربار میں جمع کیا اور اُن سے کہا اگر کوئی سچ مجھے جھوٹ بولے تو تم لوگ کہنا کہ یہ

چھوٹے اور کوئی سچ بولے تو کہنا کہ سچ ہے لیکن اگر تم لوگوں نے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بتایا تو

تمہارے سر تن سے جدا کروا کے تمہاری ساری جائیداد لٹوا دوں گا۔

 مقابلہ شروع ہوا بادشاہ کا دامان بننے کا ارادہ رکھنے والے سب باری باری اپنا جھوٹ سنانے لگے ہر دفعہ جب

کوئی اپنا جھوٹ سنا چکا تو بادشاہ اپنے دانش مند بندوں سے پوچھتا یہ جھوٹ ہے یا سچ اور ہر دفعہ دانش مند

لوگ جواب دیتےبادشاہ عالم دنیا میں ایسا ہوتا ہے کتنے  بادشاہ اور بادشاہ زادے  آئے اور اپنا سا منہ لے کر

لوٹ گئے اسی شہر میں ایک غریب نوجوان رہتا تھا جو پہاڑی جنگلوں سے لکڑیاں اکٹھی کر کے لاتا تھا اور اپنا

پیٹ پالتا  تھا وہ ایک دن پہاڑوں کی طرف جا رہا تھا کہ اچانک بادشاہ کے ڈنڈورچیوں کو یہ اعلان کرتے سنا

کہ جو کوئی تین جھوٹ بولے گا جن میں سے ہر ایک میں 40 جھوٹ ہوں گے وہی شہزادی کا خاوند بنے گا

اہاہا یہ رہی بات  چلو جھوٹ بول دیتے ہیں اس نوجوان نے اپنے آپ سے کہا اور شاہی دربار کی رکھ لی وہ محل

کے دروازے پر پہنچا تو چوکیدار اس پر پل پڑے اور اس کو دھتکارنے لگے ارے تو حقیر ناچیز گداگر گلے

سڑے بھکاری تو یہاں کہاں سے آگیا چل بٹ یہاں سے اپنا راستہ ناپ نوجوان نے پہرے داروں سے کہا

مجھے بادشاہ سے کچھ عرض کرنا ہے ارے تو گداگر بادشاہ سے کیاخاک  قرض کرے گا چل چل دور ہو

جائے یہاں سے نوجوان نے دونوں ہاتھ باندھ کر کہا مجھے بادشاہ سے یہ عرض کرنا ہے کہ میرے مالک

کے پاس 200 بیڑے ہیں جن کو وہ بادشاہ کی نظر کرنا چاہتا ہے یہ سنتے ہی پہرے داروں میں سے ایک

دوڑکر بادشاہ کے پاس گیا اور کہا شہنشاہ عالم کوئی حقیر و فقیر آدمی آیا ہے کہتا ہے کہ میرے مالک کے پاس

200 بیڑے ہیں جن کو وہ بادشاہ کی نظر کرنا چاہتا ہے بادشاہ نے حکم دیا کہ اس کو یہاں لے آؤ نوجوان کو

بادشاہ کے سامنے حاضر کیا گیا بادشاہ نے پوچھا اے حقیر بندے کہاں ہیں تیری بھیڑیں۔

 غریب نوجوان نے کہنا شروع کیا بادشاہ اعظم اجازت پاؤں تو عرض کروں میں ایک غریب اور ناتواں

یتیم ہوں میں اپنے ماں باپ کے اکیلی اولاد تھا میرے بھائی سب کے سب مر گئے اور ہم صرف تین بھائی

زندہ رہ گئے ہم تینوں بھائیوں نے نہ کبھی ایک دوسرے کو دیکھا اور نہ ہی ایک دوسرے کو جانتے تھے

آچانک ہماری ملاقات ہو گئی اور ہم نے ایک دوسرے کو پہچان لیا دیکھتا کیا ہوں کہ ہم میں سے ایک کا چغا

بغیر گریباں کا ہے دوسرے کا بغیر استینوں کا اور تیسرے کا بغیر دامن کا جیسا کہ کہتے ہیں کہ اندھا اندھے

کو اندھیرے میں پہچانے ہم آپس میں مل گئے ایک دوسرے سے گھل مل گئے اور مل کر چلے بغیر راستے پر

پاؤں رکھیں اور بغیر راستے سے باہر آئے ہم چلتے گئے۔

 ایک جگہ اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ زمین پر تین سکے پڑے ہوئے ہیں ان میں سے دو بالکل گھسے پٹے ہیں اور

تیسرے پر مہر غائب ہے جس سکے پر مہر نہیں تھی اس کو ہم نے اٹھا لیا اور اگے چلے چلتے گئے چلتے گئے بہت

دور نکل گئے پھر چلتے گئے چلتے گئے اور ایک نشیب میں اتر گئے دیکھا نالے میں چارے میں کام انے والے

تین چھوٹی مچھلیاں پڑی ہیں دو تو بالکل بے جان ہے اور تیسری مری ہوئی ہے ہم نے مری ہوئی چھوٹی

مچھلی کو اُٹھا کر اس جوغے کے دامن میں رکھا جس میں دامن تھا ہی نہیں اور آگے چل نکلے چلتے چلتے ایک

جگہ پہنچ کر ہم نے دیکھا سامنے تین مکان کھڑے ہیں ان میں سے دو اوپر سے کھلے ہوئے ہیں اور تیسرا بغیر

دیواروں کا ہے جو مکان بغیر دیواروں کا تھا ہم اس کے اندر گئے وہاں تین دیکھ پڑے تھے دو تو چھلنی جیسے

تھے اور تیسرے کا پیندا غائب تھا ہم نے مری ہوئی ننی مچھلی کو اس دیگ میں ڈالا جس میں پیندا نہیں تھا اور

پھر ادھر ادھر لکڑیاں تلاش کرنے لگے لیکن لکڑی وکری کچھ نہ ملی چنانچہ ہم بغیر آگ جلائے اُسے پکانے

لگے ہم نے خوب ڈٹ کر پکایا ہڈیاں تو خوب پک گئی لیکن گوشت کچے کا کچا رہ گیا ہم نے ڈٹ کر گوشت

کھایا ہمارے پیٹ بھر گئے اتنے بھول گئے کہ جب ہم نے باہر نکلنا چاہا تو دروازے میں سے نکل نہ سکے

دیوار میں ایک دراڑ مل گئی اس سے ہو کر ہم باہر آئے اور اگے چل پڑے راستے پر ہم چلتے گئے چلتے گئے اور

ایک لک و دکھ صحرا میں جا پہنچے اچانک ہم نے دیکھا کہ سامنے گھاس کے اندر ایک خرگوش کا ایک بچہ چھپا

بیٹھا ہے وہاں ایک درخت تھا اس کی ایک شاخ سے ہم نے بغیر کاٹے ایک ڈنڈا بنا لیا اور یہ ڈنڈا خرگوش

کے بچے کو کھینچ کر مارا وہ تین کلر بازیاں کھا کر گر پڑا ہم نے اس کو پکڑ لیا اور کاٹا تو اس میں چھ من گوشت

اور اتنی ہی چربی نکلی گوشت کو ہم نے پکایا نہ سکھایا وہیں بیٹھ کر کھا لیا۔

Qissa teen jhoot ka

 لیکن پیٹ نہیں بھرا ہم بھوکے کے بھوکے رہ گئے میرے دونوں بھائی مجھ پر ناراض ہو گئے اور لوٹ کر

چلے گئے میں خوش ہوا کہ ساری چربی میری ہو گئی میں نے لانگ بوٹ جیسے چمڑے کے پاتابیں اتارے اور

ان پر چربی کی مالش کرنے لگا ساری چربی چمڑے کا ایک ہی بادامہ کھا گیا اور دوسرا بغیر مالش کے رہ گیا میں

بہت تھک گیا تھا بڑھ کر سو گیا اچانک شور اور دھکم دھکا کی اواز سنائی دی اور میں چونک کر اٹھ بیٹھا دیکھتا کیا

ہوں کہ میرے دونوں پاتابیں آپس میں لڑ رہے ہیں میں نے دونوں کے منہ پر آیک آیک گھونسا مارا اور

پھر پڑھ کر سو گیا ادھی رات کے وقت سردی سے میری آنکھ کھل گئی دیکھتا کیا ہوں کہ میرا چوہا جس کو اڑ

کر میں سویا تھا غائب ہے پتہ چلا کہ میرے پاتابا نے جس پر چربی کی مالش کی ہوئی تھی میرے اوپر سے

چوغےکو کھینچ کر اپنے اپ کو اس میں لپیٹ لیا ہے اور سو گیا ہے اور وہ پاتابا جس پر مالش نہیں ہوئی تھی

روٹ کر چلا گیا ہے۔

 میں نے مالش کیے ہوئے باتابے کو جگایا اس کو اپنے پاؤں میں ڈالا جوہے کو پہن کر اوپر سے پٹکا باندھا جوے

کے دامن کو جو تھا ہی نہیں اٹھا کر قبر میں ڈھونس لیا اور اپنے گھر کو چلا جب میں گھر سے گیا تھا تو وہاں میری

ماں اور ایک مرغا دونوں رہ گئے تھے اب واپس ا کر دیکھتا ہوں کہ وہاں نہ ماں ہے اور نہ ہی مرغا اچانک

اپنے پاؤں کی طرف دیکھا تو پتہ چلا کہ میرا جو ایک پاتابا رہ گیا تھا وہ میں غائب ہو چکا ہے مجھے بڑا دکھ ہوا سوچا

یہ کیا مصیبت ہے ان کو اب کہاں تلاش کروں۔

 فریاد لے کر اپنی بارگاہ میں آیا دروازے پر اپ کے نوکر کھڑے تھے انہوں نے مجھے اندر نہیں آنے دیا اتنا

کہہ کر غریب نوجوان نے اپنا سر جھکا لیا اور چپ ہو گیا اس کی باتیں سن کر بادشاہ کو بڑا تعجب ہوا اور اس نے

اپنے دانشمندوں کی طرف دیکھا دانشمند لوگ سب اُٹھ کھڑے ہوئے جھک جھک کر اداب بجا لائے اور

ایک زبان ہو کر کہا شہنشاہ عالم اس کتیا کے پلے نے جو کچھ کہا وہ جھوٹ ہے سراسر جھوٹ اپنے مالک کے

بھیجی ہوئی بھیڑوں کے بارے میں بھی وہ شاید یہی کہے گا کہ وہ گم ہو گئی ہیں بادشاہ دفعتا نوجوان کی طرف

دیکھتے ہوئے گرج اٹھا کہاں ہے بہنیں بتا بادشاہ اعظم آجازت پاؤں تو عرض کروں نوجوان نے کہنا شروع

کیا جب آپ کے نوکروں نے مجھے اندر جانے دیا تو میں بہت اداس ہو گیا اور اپنی ماں مرغے اور چربی سے

مالش کیے ہوئے بادابے کی تلاش میں چل پڑا چلتے چلتے گاؤں میں پہنچا دیر تک لوگوں سے پوچھ تاج کرتا

ڈھونڈتا پھرا آخر کسی طرح مرغا مل گیا وہ ایک ذمہ دار کے کھیت میں ہل چلا رہا تھا ہم دونوں نے السلام

علیکم کیا اور گلے ملے معلوم ہوا کہ چھ مہینے تک برابر محنت کر کے مرغے نے بوریاں سینے کے ایک سوئی

کمائی ہے اور اس کو بھی مالک اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں میں نے لڑ جھگڑ کر اُسے وہ سوئی حاصل کر لی پھر

میں نے مرغے سے کہا چلو گھر چلیں اس نے کہا نہیں میں ابھی نہیں چلوں گا میں چھ مہینوں کے لیے

بھرتی ہوا ہوں تین مہینے گزر چکے ہیں اور تین مہینے باقی ہیں مدت پوری ہو جائے گی تو میں اپنی اُجرت لے

کر خود گھر آ جاؤں گا میں نے سوئی کو لے لیا اور مرغے کو وہیں چھوڑ کر گھر روانہ ہو گیا واپس ا کر کیا دیکھتا

ہوں کہ میرا مکان غائب ہے میں اتنا اداس ہوا اتنا اداس ہوا کہ کیا بتاؤں اپنی بوڑھی ماں اور مالش کیے

ہوئے بادابے کی تلاش میں نکل گیا ۔

ایک ٹیلے پر چڑھ کر دیکھا تو وہ کہیں دکھائی نہ دیا ایک پہاڑی پر چڑھ کر چاروں طرف دیکھا تو نظر نہ ائے

مایوس ہو کر نیچے اتر آیا میرے پاس جو سوئی تھی اس کو میں نے زمین میں گار  دیا اور اس پر چڑھ کر ادھر

ادھر نظر ائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ میری بوڑھی ماں سیر دریا کے کنارے پر بیٹھی کپڑے دھو رہی ہے میں

نے سوئی اُٹھا لی اور چل پڑا کتنے ہی ٹیلوں اور پہاڑیوں سے گزر کر بالاخر اپنی ماں کے پاس پہنچا معلوم ہوا کہ

جب میں گم ہو گیا تھا تو میری ماں ایک آمیر ادمی کے ہاں نوکری کرنے لگی تھی میں نے ماں سے کہا چلیے گھر

چلیں ماں نے کہا نہیں ابھی میں گھر نہیں چلوں گی۔

 اپنی  اُجرت وصول کر کے اؤں گی میں نے تین سال تک نوکری کر کے تین مہینوں کی روٹی کمائی ہے اب

تین مہینے اور باقی رہ گئے ہیں یہ مدت پوری کر کے میں خود ہی گھر جاؤں گی تم اکیلے چلے جاؤ میں نے اپنے

ماتھے پر ایک چپت ماری اپنے چوغے  کے دامن کو جو تھا ہی نہی پھٹکے میں ڈھونس لیا اور واپس چل پڑا

تھوڑی دور پہنچا تو دیکھا کہ دریا کا پانی پھیل گیا ہے اور دریا پر جو پل تھا اُس کو بہا کر لے گیا ہے چڑچلاتی

دھوپ پھیلی ہوئی تھی مجھے بڑی پیاس لگی تھی پانی پینے گیا تو دیکھا کہ دریا کا پانی جم گیا ہے میں نے برف کو

توڑنا چاہا لیکن پتھریلیں زمین پر کوئی پتھر نہیں ملا جس سے میں برف کو توڑ سکتا لاچار ہو کر میں نے اپنے سر

سے برف کو توڑا گھڑے میں اپنا سر ڈال کر خوب ڈٹ کر پانی پیا اور پھر اگے چل پڑا۔

Qissa teen jhoot ka

 چلتے چلتے مجھے اچانک اپنی سوئی یاد اگئی میں واپس دریا کے کنارے گیا جا کر دیکھتا ہوں کہ سوئی وہاں نہیں

ہے میں بہت اُداس ہو گیا کہ میرے پاس لے دے کے یہی ایک چیز تھی اب وہ میں مجھ سے چھن گئی

اداس اور پریشان نے اپنی ماں کے پاس واپس گیا تب تک ان کی نوکری کی مدت پوری ہو چکی تھی انہوں

نے اپنے مالک سے کہا کہ میری مدت پوری ہو گئی ہے میری اُجرت دے دو میں چلتی ہوں مالک ان پر چیخنے

چلانے لگا ہیں تجھے آب اجرت بھی دینی پڑے گی یہ کہہ کر اس نے میری ماں کے زور سے ایک مکا جو مارا تو

بیچاری نے وہیں گر کر دم توڑ دیا ہاں یہ کیا مصیبت بھری زندگی ہے میں نے بہت اداس ہو کر سوچا اور اپنی

فریاد لے کر اپ کی بارگاہ میں آیا لیکن اپ کے نوکروں نے مجھے اندر نہیں انے دیا اتنا کہہ کر نوجوان نے

اپنی گردن جھکا لی اور خاموش ہو گیا۔

 بادشاہ کو اور زیادہ تاجب ہوا اور اس نے پھر اپنے دانشمندوں کی طرف دیکھا دانشمندوں میں سے ایک جو

سب سے زیادہ دانشور تھا کھڑا ہو گیا اور زمین تھا کہ چپ کر کہا شہنشاہ عالم اس کتیا کے بلے کی باتوں پر یقین

نہ کیجئے گا اس ذلیل کی ایک ایک بات جھوٹ ہے سفید جھوٹ اب اس سے بھیڑوں کا تقاضا کیجیے یہ شاید

کہے گا کہ وہ چوری ہو گئی بادشاہ اعظم آپ کی اجازت پاؤں تو کچھ عرض کروں نوجوان نے پھر کہنا شروع

کیا جب مجھ کو اندر نہیں جانے دیا گیا تو میں نے سوچا چلو چل کر میں خود ہی اس ظالم کی خبر لوں یہ سوچ کر

میں واپس اس امیر ادمی کے پاس پہنچا جس نے میری ماں کو مار ڈالا تھا پہنچتے ہی میں چیخ کر کہنے لگا بڑھیا کی

اجرت دے دو تم نے اس کا خون کیا ہے اس کے خون کی قیمت ادا کرو یہ کہتے ہوئے میں نے اس ظالم کو

گریبان سے پکڑ لیا اور کھینچتا ہوا باہر سڑک پر لے آیا لوگ جمع ہو گئے اور انہوں نے جھگڑا میرے حق میں

طے کر دیا اس ظالم نے مجھے ایک گدھا دیا میں اس گدھے پر سوار ہو کر اپنے گھر کو چلا چلتا رہا چلتا رہا اور ایک

جگہ میں نے دیکھا کہ سامنے سے اونٹوں اور گھوڑوں کے 40 قافلے ا رہے ہیں قافلوں کے سردار نے پکار

کر مجھ سے کہا اے گدھے والے تمہارے گدھے کی پیٹ کے کھال چھل گئی ہے نیچے اُتر جاؤ اس کی پیٹھ کا

کپڑا ٹھیک کر دو میں فورا گدھے پر سے اتر پڑا اور دیکھا کہ گدھے کی پیٹ پر واقع زخم پڑ گیا ہے میں نے اس

آدمی سے پکار کر پوچھا اے اس کی دوا کیا ہے اس نے ایک اخروٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا اس

اخروٹ کو جلا کر اس کی راکھ گدھے کے زخم پر لگا دینا ٹھیک ہو جائے گا ۔

میں نے اخروٹ کو جلا کر اس کی راہ کا زخم پر لگائی اور پھر گدھے کے پیٹھ کو دوبارہ کپڑے سے ڈھانپنے کو ہوا

تو کیا دیکھتا ہوں کہ گدھے کی پیٹھ پر اخروٹ کا ایک پودا ہوا ہے وہ پودا دیکھتے ہی دیکھتے کہ بڑا سا درخت بن

گیا دیکھتے ہی دیکھتے اس پر پھول لگے پھر پھل آئے اور انکھ جھپکتے میں وہ پھل پک کر تیار ہو گئی اب کیا کیا

جائے میں نے سوچا اگر درخت پر چڑھ کر اس کو ہلانے لگوں اور گدھے کی پیٹھ کو خراب کر ڈالوں گا بہتر

یہی ہے کہ اخروٹوں کو پتھر مار کر گراؤ یہ طے کر کے میں نے گدھے کو ایک ایسی جگہ لے جا کر کھڑا کر دیا

جہاں پتھر پتھر کچھ نہیں تھا میں نے استینیں چڑھائیں اور پتھر اخروٹ کے درخت پر پھینکنے لگا پھینکتا رہا

پھینکتا رہا لیکن نہ کوئی پھینکا ہوا پتھر نیچے گرا اور نہ ہی کوئی اخروٹ پھر بھی میں مایوس نہ ہوا اور پتھر پھینکتا چلا

گیا بالاخر سارے بدتر ختم ہو گئے اب مجھے خود اس کے اوپر چڑھنا پڑے گا میں نے سوچا اور یہ سوچ کر

درخت کے اوپر چڑھ گیا کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں ایک لمبا چوڑا باغ ہے اور اس کے سرے پر ایک نالہ ہے جو

ایک دلربا اہنگ میں گیت گاتا ہوا بہہ رہا ہے آہا تربوز اگانے کے لیے کیا اچھا باغ ہے میں نے خوش ہو کر

سوچا اور فورا ہی وہاں تربوز کے بیج بوتیے دیکھتے ہی دیکھتے ایسے تربوز تیار ہو گئے کہ کیا کہنے اتنے بڑے

بڑے کہ کوئی دونوں ہاتھ پھیلا کر بھی ان کا احاطہ نہیں کر سکتا میں نے ایک تربوز توڑ لیا نالے کے کنارے

بیٹھ گیا اور ابھی چھری کے نو کو تربوز میں گاڑھا ہی تھا کہ تربوز طلاح سے پھٹ گیا اور چھری میرے ہاتھ

سے چھوٹ کر اس کے اندر گر گئی میں اس کو اٹھانے کے لیے جھکا تو خود بھی تربوز کے اندر گر گیا میں بہت

دیر تک وہاں اپنی چھری کی تلاش میں بہتا رہا دفعتا مجھے ایک آدمی مل گیا میں نے اسے پوچھا صاحب اپ

نے راستے پر کہیں کوئی چھری تو نہیں دیکھی ارے اپ کو کسی چھوٹے سے چھری کی تلاش ہے اس ادمی

نے کہا یہاں ہم تو 40 قافلے تھے اور ہر ایک قافلے میں 40 اونٹ تھے جانے وہ سب کہاں گم ہو گئے

بادشاہ اعظم اسی مصیبت کا قصہ سنانے کے لیے میں اپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں اتنا کہہ کر غریب

نوجوان ہے اپنا سر جھکا لیا اور چپ ہو گیا۔

 بادشاہ سوچ میں پڑ گیا اس کے دانشمندوں میں سے ایک اٹھ کھڑا ہوا اور بہت ہی جھک کر اداب بجا لانے

کے بعد کہنے لگا شہنشاہ عالم اپنے خزانے سے دوچار سکے دے دلاکر اس کتیا کے بلے کو چلتا کیجیے شہزادی

دروازے کے پیچھے کھڑی ساری باتیں سن رہی تھیں وہ فورا اپنے باپ کے پاس آئی اور کہنے لگی اس نے

میری تینوں شرطیں پوری کر دی ہیں غریب ہے تو کیا ہوا میں اس کے ساتھ شادی کروں گی غریب

نوجوان نے جھک کر بادشاہ کے تعظیم کی اور پھر کہا بادشاہ اعظم میں نے کتنے سالوں تک پہاڑی چراگاںؤں

میں اپنے مالک کے بھیڑ بکریاں چراتا رہا ہوں اس محنت کے عوض میں اسے مجھے 200 بھیڑیں دینی تھی

لیکن اس نے بھیڑیں مجھے نہیں دی اور مجھ کو نکال دیا ازراہ کرم اپ اس ادمی سے میری 200 بھیڑیں دلوا

دیجیے میں ان کو شادی کے جہیز میں دوں گا بادشاہ نے بڑی دھوم دھام سے اس غریب نوجوان کے ساتھ

اپنی بیٹی کی شادی کر دی۔

کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment