Aqalmand ladka

Aqalmand ladka

Aqalmand ladka

 

اسلام علیکم اُمید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے ۔

آج کی کہانی میں خوش آمدید

پرانے زمانے کی بات ہےکسی ملک میں جو آدمی رہا کرتا تھا وہ بوڑھاہو چکا تھا اس کا ایک بیٹا تھا جس کا نام علی

تھا بوڑھے کے پاس اور کل 300اشرفیاں تھی جو اس نے عمر بھر بچت کر کے جمع کی تھی بوڑھا سوچتا تھا

کہ آب میرا کیا بھروسہ کسی دن بھی  موت کا بلاوا آسکتا ہے میرا بیٹا بڑا ہو چکا ہے اس کو اپنے پیروں پر کھڑا

ہو جانا چاہیے بہت غور و فکر کے بعد اس نے اپنے بیٹے کو بلایا اور کہا بیٹا میں بہت بوڑھاہو چکا ہوں اور میں

چاہتا ہوں کہ میرے مرنے سے پہلے تم اپنے پیروں پر کھڑے ہو جاؤ تم تجارت شروع کرو میں نے معلوم

کر لیا ہے کہ ایک قافلہ دو روز بعد سیناپور روانہ ہونے والا ہے۔

 اس میں بڑے بڑے تاجر شامل ہیں میں تمہیں سوچ رفیاں دے رہا ہوں دوسرے شہر جا کر منور بخش

سامان خریدوں اور تجارت کرنے سے اور ہاں سنو ان اشرفیوں کو ایسے ویسے باتوں میں ضائع مت کر دینا

علی جان کے عمر 18 برس تھی وہ بڑا نیک سمجھدار اور فرمانبردار لڑکا تھا مگر اسے تجارت سے کوئی دلچسپی

نہیں تھی ابھی وہ کوئی فیصلہ نہیں کر سکا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے پھر بھی اس کا جی چاہتا کہ وہ کوئی ایسا ہنر سکے

جس کی وجہ سے وہ کامیاب زندگی بسر کر سکیں کیونکہ وہ ایک فرمانبردار بیٹا تھا اس لیے جب اس کے والد

نے اسے تجارت کا پیشہ اپنانے کے لیے کہا تو اس نے اپنے والد سے زیادہ بحث نہیں کی اس نے وہ اشرفیاں

 لے لی  اور سفر کی تیاریاں کرنے لگا قافلے کے بارے میں معلومات حاصل کی اور پھر سنگاپور روانہ ہو گیا

چند روز سفر کرنے کے بعد قافلہ سنگاپور پہنچا ایک سرائے میں قیام کیا اس شہر میں ایک بہت بڑا باغ تھا

رات کو علی جان اُس باغ نے سیر کرنے کو نکل کھڑا  ہوا وہاں پہنچا تو کیا دیکھتاہے کہ ہزاروں کم کمے جگمگا

رہے ہیں اور باغ دن کی طرح روشن ہے اس نے دیکھا کہ باغ کا فرش سنگ مرمر کا ہے جس پر قیمتی کا لین

 بچھے ہوئے ہیں جگہ جگہ بڑی خوبصورت میزے رکھی ہوئی ہیں ان میزوں پر لالوجواہر چڑھےہوئے ہیں

میزوں پر کچھ لوگ بیٹھے تھے۔

 ایک آدمی بڑے غور سے علی جان کو دیکھ رہا تھا وہ اُس کے پاس آیا اور بولا صاحبزادے یہاں کھڑے

حیران کیوں ہو کوئی بات جاننے کی خواہشمند ہو تو میں حاضر ہوں یہ کون لوگ ہیں اور کیا کر رہے ہیں علی

جان نے اس شخص سے پوچھا برخُردار یہ نوجوان شترنج کھیل رہے ہیں یہاں اس کی تربیت دی جاتی ہے یہ

شطرنج کا ہنر سکھانے کی درسگاہ ہے علی جان کہنے لگا کیا میں یہ ہنر سیکھ سکتا ہوں ہاں تم بھی سیکھ سکتے ہو

قاعدےکے مطابق تمہیں سو اشرفیاں بطور ہمیں اُجرت دینا ہوگی چھ مہینے کا یہ سارا سلسلہ ہوگا اس

دوران تمہارا کھانا پینا رہنا سب درسگاہ کے ذمے ہوگا علی جان کے پاس جو اشرفیاں تھیں وہ دےکر اس

نے شطرنج کھیلنے کے درسگاہ میں داخلہ لے لیا ۔

چند دنوں میں اسے شطرنج کھیلنے میں بڑا مزہ آیا جلدی وہ ایک ذہین اور ماہر کھلاڑی بن گیا بعض اوقات وہ

اپنے استادوں سے بھی آگے بڑھنے لگا جب اس کا وقت ختم ہوا تھا سب طالب علم اپنے اپنے گھروں کو

جانے لگے علی جان نے شطرنج کے کھیل میں بڑا نام پیدا کر لیا تھا لیکن وہ بہت اُداس تھا یہ بغیر پیسوں کے

گھر کیسے جائے گا اور اپنے والد کا کیا بتائے گا بہرحال وہ بوجل دن کے ساتھ گھر روانہ ہوا راستے میں جنگلی

پھل اور چشمے کے پانی پر گزارا گیا اور پیدل سفر کرتے ہوئے گھر پہنچا۔

 جب علی جان خالی  ہاتھ لوٹا تو اس کے والد کو بڑا دُکھ ہوا اور انہوں نے علی جان کو بتایا کہ اس نے وقت اور

پیسہ برباد کر کے اپنا مستقبل خراب کر لیا ہے سال بھر تک علی جان اپنے گھر میں بیکار پرارہا ایک دن اُس

کے والد نے اُسے اپنے پاس بٹھایا پھر نصیحتیں دی زمانے کے اونچ نیچ سے آگاہ کیا وقت اور پیسے کی قدر و

قیمت سمجھائی تجارت کے فائدے بتائیں اور ایک بار پھر سو اشرفیاں دے کر اسے تجارت کے لیے روانہ

کیا قافلہ پھر منزلیں طے کرتا ہوا سیدھا سنگا پُر  پہنچا ایک بار پھر سرائے میں سامان اتارا گیا اور شام کو علی جان

پھر باغ کی سیر کو نکل کھڑا ہوا باغ میں اس بار بہت پیارا سا نغمہ سنائی دے رہا تھا جب وہ اندر داخل ہوا تو

دیکھا جہاں اس نے شطرنج کھیلنا سکھی تھی وہاں ساز بجائے جا رہے ہیں ساز کی آوازیں اُسے اپنی طرف

کھینچنے لگی وہ اپنے باپ کے نصیحتیں بھول گیا اس کا دل چاہا کہ وہ بھی ساز بچانا سیکھ لیں اس نے بات کی تو

معلوم ہوا کہ وہیں سو اشرفیاں اور پھر وہی چھ مہینے علی جان نے سو اشرفیاں عطا کی اور پھر وہیں ساز

بجاناسیکھنالگا ان میں اس کا دل ایسا لگا کہ وہ اسی میں ڈوب گیا کچھ عرصے بعد اس نے ساز بجانے میں اتنی

مہارت حاصل کر لی کہ اپنے استادوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا جب اس کا سارا سلسلہ ختم ہوا تو امتحان ہوا علی

جان اس میں کامیاب ہوا پھر سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے علی جان ایک بار پھر اداس ہوا کہ

اب اپنے باپ کے پاس کس منہ سے جاؤں گا اور کیسے بتاؤں گا کہ تجارت کے بجائے اب ایک اور ہنر سیکھ

لیا ہے وہ پہلے کی طرح پیدل سفر کرتا ہوں اپنے گھر پہنچا۔

 اس بار اس کے والدکا ردعمل بہت شدید تھا بیٹے کو خالی ہاتھ  دیکھ کر انہیں  بہت غصہ آیا  اس نے علی  جان کو

خوب  بُرا بھلا کہا پھر ایک سوال اور گزر گیا ایک دن اس کے والد نے اسے شفقت سے اپنے پاس بٹھایا اور

کہنے لگا دیکھو بیٹے میں ایک بار پھر تمہیں سو اشرفیاں دے دیتا ہوں یہ آخری اشرفیاں ہیں میرے پاس اگر

تم نے ان کو بھی فضول کاموں میں اُڑا دیا تو ہم بالکل کنگال ہو جائیں گے روٹی کہ ایک ایک ٹکڑے کو

ترسیں گے اور تم کبھی اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہو سکو گے۔

 علی جان نے سو اشرفیاں لے لی باپ کے نصیحتوں کو اپنے پلے سے باندھا اور چند دنوں کے بعد وہ پھر ایک

قافلے کے ساتھ روانہ ہو گیا اس بار اس نے فیصلہ کیا کہ وہ پوری احتیاط سے کام لے گا اور کوئی ہنر سیکھنے

کے بجائے ان اشرفیوں سے مانوسباب خریدے گا اور پھر آچھے منافع پر بیچے گا اور ایک بار پھر وہ اسی شہر

میں تھا سرائی میں سامان رکھنے کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ اس بار وہ باغ کا رخ نہیں کرے گا وہ شام کو

غسل کے لیے حمام  گیا واپسی پر وہ باغ  کے قریب سے گزرا تھا تو اس نے دل میں کہا کہ ایک نظر دیکھنے میں کیا حرج  ہے۔

 تھوڑی دیر بعد ہی وہ باغ کے اندر تھا اس نے دیکھا کہ جہاں اس نے شطرنج کھیلنا اور ساز بجانا سیکھا تھا وہاں

نوجوان بیٹھے ہیں اور کچھ علم حاصل کر رہے ہیں لکھنے پڑھنے کی خواہش نے علی جان کو بے چین کر دیا پھر

اس نے وہیں داخلہ لیا سواشرفیاں دیں اور پھر پہلے کی طرح اس نے محنت اور دلچسپی سے تعلیم حاصل کی

علی  جان نے پڑھنا نکلا سیکھ لیا لیکن اس بار خالی ہاتھ گھر لوٹنے اور بوڑھے باپ کو اپنی شکل دکھانے کی ہمت

اس میں نہیں تھی۔

Aqalmand ladka

 اس دوران علی جان کی ملاقات ایک ایسے سوداگر سے ہوئی جو دور کے کسی شہر جا رہا تھا وہ اپنا سامان اونٹوں

پر لاد چکا تھا علی جان نے اس سوداگر کے ہاں ملازمت کر لی قافلہ چلتا رہا یہ راستہ ایسا تھا جہاں پانی کی کمی تھی

قافلے کے پاس ختم ہو گیا تو جان کے لالے پڑنے لگے پانی کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا کافی تلاش کے بعد

وہ ایک کنویں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی یہ کنواں بہت گہرا تھا اور اس میں پانی بھی بہت تھوڑا تھا سوداگر

نے علی جان کو حکم دیا کہ وہ کنویں کے اندر اتر جائیں علی جان نے اس کا حکم منا اور کنویں میں اتر گیا ۔

اس نے مشک میں پانی بھرا ابھی وہ اوپر چڑھنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ کنواں کے دیوار میں بنے ہوئے ایک

چھوٹے سے دروازے پر اس کی نظر پڑی مشک ایک طرف رکھ کر وہ دروازے کی طرف بڑھا دروازے

کو ہلکا سا دھکہ دینے پر وہ کھلا گیا علی جان نے اندر جھانک کر دیکھا کمرہ بہت روشن منور اور بڑا تھا اس نے

قالین بچھے تھے وہاں ایک بوڑھا موجود تھا وہ سر جھکائیں بہت اُداس بیٹھا تھا اس کے ہاتھ میں ایک ساز تھا

علی جان اندر داخل ہوا اور بوڑھے کے ہاتھ سے ساز لے کر بجانے لگا نغمے کی میٹھی دھند سن کر بوڑھے نے

اپنی انکھیں کھولی اور علی جان کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھا جب دھند ختم ہوئی تو بوڑھے نے اسے دل

کھول کر داد دی اور پھر پوچھا اے آدم ذات تو یہاں کیسے آگیا۔

 علی جان نے سارا قصہ سنایا اس کے بعد وہ چلنے لگا توبوڑھے نے اُسے روکا اور کہا تم نے مجھے گیت سنا کر بہت

خوش کیا میں تمہیں 300 اشرفیاں انعام  میں دوں گا اس کے علاوہ اگر کوئی خواہش ہے تو بتاؤ میں پوری

کروں گا علی جان نے پوچھا بزرگ آپ کون ہیں اور یہاں کیا کر رہے ہیں بزرگ کہنے لگا میں ایک جن زاد

ہوں پانچ دن ہوئے میرا اکلوتا بیٹا مجھےاکیلا چھوڑ کر اس دنیا سے چلا گیا اس کی یاد  نے مجھے اُداس کر دیا ہے

میں خود بھی مرنے کو تیار ہوں اور اپنے غم کو کم کرنے کے لیے اپنے بیٹے کا یہ ساز اٹھا لایا تھا مگر یہ مجھے بجانا

نہیں آتا تھا تم نے اپنے جادو بھرے نغمے سے میرے دل میں ایک نئی روح پھونک دی ہے تم کیا چاہتے

ہو۔

 تمہاری خواہش کیا ہے آپ اوپر چڑھنے میں میری مدد کیجیے علی جان نے کہا بوڑھے نے 300 اشرفیاں

سے بھرا تھیلاعلی  جان کے ہاتھ میں تھما دیا اور کہا کہ آنکھیں بند کرو علی جان نے آنکھیں بند کی اور جب

اس نے انکھیں کھولیں تو اُس نے  اپنے آپ کو کنویں سے باہر پایا قافلہ جا چکا تھا علی جان قدموں کے نشان

دیکھتا ہوا قافلے کے پیچھے چل پڑا اور دوسرے دن قافلے کے ساتھ مل گیا سب اُسے زندہ دیکھ کر بہت

حیران ہوئے علی جان نے اُسے سوداگر کو سارا واقعہ سنایا اور اشرفیاں  سے بھرا تھلا بھی دکھایا راستے میں

قافلہ جب سستانے کے لیے رکا تو قافلے کا سردار ایک طرف بیٹھ کر خط لکھنے لگا۔

 پھر اس نے خط کو ایک لفافے میں  بند کر ایک طرف مہر  اور لگائی اور علی جان کو بلا کر کہا تم بہت اچھے

نوجوان ہومیں تمہاری شرافت سے بہت متاثر ہوا ہوں میری ایک ہی بیٹی ہے جو بڑی سوگر اور خوبصورت

ہے میں اس سے تمہاری شادی کرنا چاہتا ہوں تم جلنے سے میرے گھر چلے جاؤ اور میں نے پہنچنے تک شادی

کی تیاری مکمل کر لو اور ہاں دیکھو اپنی رقم سنبھال کر رکھنا  میں تین دن بعد گھر پہنچ جاؤں گا  یہ خط جاتے ہی

میری بیوی کو دے دینا اس نے علی  جان کو وہ خط دے  کر روانہ کر دیا علی جان بغیر رکے منزل طہ کرتا رہا

 تھکن محسوس ہوئی تو ایک جگہ سستانے کو رک گیا اُسے خیال آیا کہ میں نے پڑھنا لکھنا تو سیکھ لیا ہے ذرا

دیکھو تو صحیح اس خط میں لکھا کیا ہے ۔

اس نے خط کھولا  اور پڑھنا شروع کر دیا خط میں لکھا تھا میں 300 اشرفیوں سے بھرا تھیلا تم کو اپنے نوکر کے

ہاتھ بھجوا رہا ہوں اس کو پھسلانے کے لیے میں نے اسے کہا ہے کہ میں تمہاری شادی اپنی بیٹی سے کر رہا

ہوں تم فورا اس کا سر کاٹ دینا میں تین دن میں آ رہا ہوں فقط تمہارا شوہر ۔

علی جوان نے وہ خط پڑھ کر پھینک دیا دوسرا خط لکھا تھا جس کا مضمون یہ تھا اس عزیز مہمان کا خوب اچھی

طرح استقبال کرنا اس کی تواضع میں کوئی کمی نہ رہے اس کے پہنچتے ہی ہماری بیٹی کی شادی فورا اس سے کر

دینا میرے آنے کا انتظار نہ کرنا علی جان نے اپنے لکھے ہوئے خط کو  لفافے میں بند کر کے جیب میں ڈالا اور

آگے چل پڑا سوداگر کے گھر پہنچ کر اس نے خط اس کی بیوی کے حوالے  کیا خط پڑھ کر سوداگر  کی بیوی نے

علی جان کے خوب خاطر تواضوں کی اور دوسرے دن بڑی دھوم دم سے اپنی بیٹی کی شادی علی جان سے کر

دی تیسرے دن صبح علی جان اور اس کی بیوی گھوڑے پر سوار ہو کر وہاں سے رخصت ہوئے جاتے وقت

علی جان نے نوکروں کو ہدایت کردی کہ میں تجارت کے سلسلے میں باہر جا رہا ہوں رات کے وقت کسی

کے لیے دروازہ میں کھولنا  اگر کوئی دیوارپھلانگ  کر آ جائے تو اس کے خوب  پٹائی کرنا یہ میرا حکم ہے۔

Aqalmand ladka

 اسی رات کو سوداگر اپنے گھر پہنچا اور بڑی دیر تک دروازہ کھٹکھٹایا لیکن جب کسی نے دروازہ نہ کھولا تو مجبورا

اسے دیوارپھلانگ  کرآنا پڑا نوکر تو پہلے ہی تاک  میں بیٹھے تھے انہوں نے آو دیکھا تاؤ دیکھا  اس کی پٹائی

شروع کر دی لیکن جب انہوں نے سوداگر کی چیخوں پکار سنی تو اپنے ہاتھ روک لیے سوداگر بیچارہ بے

ہوش ہو گیا جب اسے ہوش آیا تو بیوی سے پوچھا کوئی میرا خط لے کر آیا تھا تم نے اس کے ساتھ کیا کیا بیوی

کہنے لگی میں نے تو وہی کیا جو آپ نے حکم دیا تھا میں تو آپ کا حکم مانا اور اشرفیوں کے تھیلے کا کیا کیا کون  سی

اشرفیاں  کا تھیلا کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ بیوی نے حیرت سے پوچھا یہ سن کر سوداگر کے چہرے کا

رنگ بدل گیا ارے تم کیسی باتیں کر رہی ہو میں نے خط میں لکھا نہیں تھا کہ شرفیوں کا تھیرا لے کر اسے

قتل کر دینا بیوی نے اپنے شوہر کی طرف یوں دیکھا جیسے اس کا دماغ چل گیا ہو پھر وہ بولی یہ آپ کو کیا ہو گیا

ہےبھلا کوئی اپنے داماد کو بھی مارتا ہے داماد کون سا داماد سوداگر نے گھبرا کر کہا ارے تمہاری بیٹی کا شوہر ہمارا

داماد یہ تم نے کیا کیا سوداگر بولا تم نے اس کی شادی کب کر دی دو دن ہو چکے ہیں بیگم نے کہا تم انہیں تو خط

میں لکھا تھا کہ اس نوجوان سے لڑکی کی شادی کر دینا ۔

بیگم نے بھولے بند سے کہا یہ سننا تھا کہ سوداگر نے اپنا سر پیٹ لیا اس نے بیوی کو ڈانٹا کوسا اور پھر پوچھا کہ

وہ کہاں چلا گیا نوجوان وہ تو صبح ایک گھوڑے پر سوار ہو کر میاں بیوی یہاں سے چلے گئے ایک نوکر نے

جواب دیا سوداگر سمجھ گیا کہ اسے اپنی چالاکی کی سزا مل گئی نوجوان تو اس سے بھی عقلمند نکلا چنانچہ اس نے

اپنے داماد سےصلح کرنے کا فیصلہ کر لیا ادھر علی جان چلتے چلتے ایک بڑے شہر میں پہنچا جس کے بازاروں

میں بڑی رونق تھی وہاں ایک ڈنڈورچی اعلان کر رہا تھا لوگو سنو پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی جو کوئی شطرنج کا

کھیل اچھا کھیلتا وہ شاہی محل پہنچ جائے جو شخص بادشاہ کے ساتھ تین بازیاں کھیل کر تینوں جیتے گا بادشاہ

اس کواناموں کرام سے نوازے گا لیکن جو ہار جائے گا اس کا سر قلم کر دیا جائے گا۔

 یہ اعلان علی جان کے کانوں تک بھی پہنچا علی جان دربار میں پہنچا اس نے بادشاہ سلامت کے ساتھ شطرنج

کھیلنے کی درخواست کی بادشاہ نے شرط بتائی کہ اگر تم ہار گئے تو سر کاٹ دیا جائے گا علی جان نے شرط تسلیم

کی کھیل شروع ہوا تین بازیاں ہوئیں اور تینوں علی جان نے جیت لی بادشاہ بہت خوش ہوا اور اس نے

وعدے کے مطابق اُسے ناموں کرام سے نوازا گھر پہنچ کر علی جان نے اپنی آپ بیتی  اپنے  بوڑھے باپ کو

سنائی باپ یہ کہانی سن کر بڑا خوش ہوا اس نے علی جان سے کہا واقعی تم بہت ذہین ہو تم نے کتنے ہی ہنر سیکھ

لیے ہیں اور ہنر سے تمہیں فائدہ پہنچا بیوی بھی مل گئی اور کتنی ہی دولت بھی مل گئی علی جان نے بڑے

ادب سے جواب دیا ابا جان آادمی کتنے بھی ہنر سیکھے کم ہیں۔

کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment