Betoon Ki Gamandi Maa ||A Moral Story ||Sabak Amozz Kahani

Betoon Ki Gamandi Maa

Betoon Ki Gamandi Maa

اسلام علیکم اُمید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے ۔

آج میں آپ کے لیے ایک اور کہانی لے کر آیا ہوں ۔ آج کی کہانی ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو بیٹوں کی ماں ہونے کی وجہ سے دوسروں کی بیٹیوں کو حقیر اور ان کی ماؤں کو مطلبی سمجھتی تھی صغری بتول کو اللہ نے آگے پیچھے کی تین تینوں اولاد نرینہ دی  تھی یہ محض اوپر والے کا گرم ہی تھا کہ تینوں اولاد نرینہ تھی سرخ سفید رنگت گھنگریالے بالوں اور بڑی بڑی سرمکی آنکھوں والے تین شہزادے ان تینوں کے نام محمد غفران محمد زبان اور محمد فرحان تھے۔

 شکل و صورت میں بڑا ننہال پر پڑا تو چھوٹا درجہات پر ہاں منجلہ محمد زبان اپنی شکل آپ تھا نہ ماں پر نہ باپ پر یہ بھی اتفاق تھا کہ ان کی ایک بہن ایک نند اور دو کزنز کی شادی ان کی شادی کے دو ایک سال کے اندر اندر ہوئی لیکن کسی کو بھی اولاد نرینہ یعنی بیٹا نصیب نہ ہوا۔

 کسی کی ایک بیٹی تھی مریل سی تو کسی کی دو سوکھی سڑی چمڑی جیسی جیسے اطھوپیا کی کہن زدہ حبشی مخلوق اللہ معاف کرے صغری بتول کو تو بہترین ناک اری کرنے والے بچے ویسے ہی اچھے نہیں لگتے تھے دو منٹ میں طبیعت خوب جاتی جی متلانے لگتا قدرت کی ستم ظریفی ساری کی ساری بیٹیوں کی ماں کے مقدر میں تھی ساری بچیاں خواہ ننت کی ہوں یا بہن کی یا چچا زاد مامو ذات کی سب کی سب روندو سانپلی اور بہتی ناگ والی ۔

ایک نظر ڈالیں تو دوسری ڈالنے سے توبہ کر لیں یہ صغری بتول پہ اللہ کا مزید کرم تھا کہ انہیں اس نے تین بیٹوں سے نوازا اور بیٹے بھی حسین و جمیل حسمک کل کل کاریاں مارتے تو بڑے سے بڑا خشک مزاج بھی پیار کیے بغیر نہ رہ پائے شیر خواری میں ہی خوش مزاجی سے مالا مال دے کوئی غیر بھی اگر بیٹھتا تو اونٹ ہو کر مخاطب کرتے 24 میں سے 20 گھنٹے صغری بتول کو یہی فکر ناگ رہتی کہ کہیں اس کے جگر گوشوں کو نظر نہ لگ جائے۔

کبھی خود آیت الکرسی پڑھ پڑھ کر پھونک مارتی کبھی کسی کے بتانے پر سرخ مرچیں جلاتی کبھی پیسے سے وار کر صدقہ اُتارتی پھر بھی ایک پل چڑھنا ہوتا ذرا سی طبیعت خراب ہوتی یا چھینکوں کی آواز سنائی دیتی تو بس بے دم ہو جاتی ہائے فلاں کی نظر کھا گئی میرے جگر گوشوں کو بچہ خود ہی پانی سے پسل کر گرتا بارش میں نہانے سے بیمار یا سست ہوتا تو نزلہ ان عزیز اور رشتہ داروں پر نکلتا ۔

جو ان کے خیال میں ان کی ہستی کے اپنے بچوں سے جلتے تھے کسی تقریب میں جاتی فورا وہاں موجود بچوں سے تقابلی جائزہ شروع ہو جاتا حکمت عملی شروع سے یہی تھی کہ وہ بچوں کو شیر خوارگی کی عمر سے ہی گھر سے پیٹ بھر کر لے کر جاتی تاکہ لوگوں کے سامنے اتنے مہذب انداز میں فیڈر پینے سے نظر ہی نہ لگ جائے۔

اور جو بچے بڑے ہوئے تو ان کو پیٹ بھر کے کھانا کھلا کر لے کے جاتی تاکہ کھانوں کی طرف نہ دیدے پن سے نہ دیکھے ساری دنیا ان کے بچوں کی تعریفوں کے پھول باندھتےان کی یہ حکمت عملی اتنی کامیاب رہیں کہ باقی خواتین شادی بیاہ کی تقریبات میں کھانا دیر سے کھلنے کی وجہ سے پریشان کم ہوتی اور اپنے بچوں کے بھوک اور رونے پیٹنے کی وجہ سے زیادہ۔

 تب ان کی نظریں فاتحانہ طور پر چاروں اڑ گھومتی چہرے پر تمسخر ہوتا دل اچھل اچھل کر کہہ رہا ہوتا کہ دیکھو دیکھو یہ ہے فرق میری اور تمہاری اولاد میں ذرا دیکھو تو پچ کے گال بہتی رال نہ دیتی نظریں اور یہاں دیکھو صاف ستھرے خاموش تباہ بھری نیت کے بچے ہے۔

 کوئی مقابلہ ہے کوئی مقابلہ میرے بچوں سے اور اگر ہے کوئی ہم ساتھ تو سامنے آئے ان کی باڈی لینگویج سے اور پھر تم مسکرانا گفتگو سے سب آپنے پرائیوں سے دور ہوتے گئےغم میں تو سب ہی اپنے اپنے دکھ یاد کرتی اور خوشی میں سب ان کے قریب بھی نہ بھٹکتی لوگوں نے اپنی غمی خوشی کی خبر انہیں دینا ہی چھوڑ دی تھی ان کے طنز اور تفاخر کا جواب میکے اور سسرالی خواتین نے ان سے اجنبیت برتتے ہوئے دینا شروع کر دیا یہاں تک کہ اپنی سگی بھانجیوں بھتیجیوں سے میں ملاقات کو کئی کئی سال گزر جاتے۔

Betoon Ki Gamandi Maa

 انہیں دل میں اس رویے پر دکھ ہو تو ہو لیکن عملا وہ بیٹوں کی پرورش میں کتنی مصروف تھیں کہ ایسے مسئلے ان کے لیے بے معنی تھے وہ ارد گرد سے بے نیاز صرف اور صرف بچوں کے بہترین مستقبل کے لیے کوشاں تھی ایسا مستقبل کہ سب کی آنکھوں میں رشک اور دل میں حسرت ہو ۔

کہ کاش ہماری اولادیں بھی اس مقام اور مرتبے کو پہنچے ہوتی ماہ و سال کے تانے بانے میں مزید 10گیارہ سال گزر گئے جس مقصد کے لیے انہوں نے ہر شوق کو پیچھے چھوڑ دیا تھا وہ مقصد پورا ہو گیا تھا ان کی محنت رنگ لائی ان کے بڑے بیٹے نے سول سروس کے تحریری امتحان میں کامیابی حاصل کی ۔

دوسرا بھی منزل کے قریب پہنچ چکا تھا اس کا سی اے آخری سے مسٹر میں داخل ہو چکا تھا بس ڈگری کا انتظار تھا لیکن قسمت نے ایک بین الاقوامی کمپنی میں پرکشش محافظے پر نوکری پلیٹ میں رکھ کر دیتی تھی اب ان کی نئی مصروفیت شروع ہوئی انہیں کائنات میں سب سے حسین سب سے زیادہ تعلیم یافتہ سب سے منفرد بہو چاہیے تھی۔

 سب سے پہلے انہوں نے خاندان کی لڑکیوں کا جائزہ لینا شروع کیا عجیب بات ہے کہ اپنی سگی بھانجی اور بھتیجی سے ان کی چار ساڑھے چار سال سے ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن ان کے ذہن میں وہی مریم سوکھی جھریوں والی بندریاں نما بچیاں تھیں ناک بہتی ہوئی ریری کرتی روتی شکلیں۔

میرے شہزادوں کے لیے وہی رہ گئی ہیں کیا جیٹھانی اور نن کی اکلوتی بچیوں کا خیال آیا نانا تو کئی سال سے اسٹریلیا میں مقیم تھی ایک دو مرتبہ آئی تو بچے کو چھوڑ آئی تھی میں بول اس کے کہ وہاں کی پڑھائی پاکستانی سکولوں جیسی نہیں ہے جب وہ رشتوں کی تلاش میں تھی تو اچانک ان کی جیٹ دنیا افانی سے رخصت ہو گئی۔

میکا اور سسرال سے سبھی تعزیت اور پرزے کے لیے آئے اتفاق تھا یا سوچی سمجھی سکیم سب کی بچیاں بھی تین تین فوتگی والے گھر میں موجود نہیں دل میں تو انہوں نے سوچا ہو نہ ہو یہ ان کے بیٹوں کے رشتے کی تلاش کی سن گن پا چکی ہے اور مائیں ان بچیوں کو زور زبردستی کر کے ساتھ لائی ہوں گی۔

 بچپن والے وہ مریل مدھوک سی بھانجی وہ یہ تو نہیں ہے کہیں مرمرا تو نہیں گئے اب تو ایک حسینہ نازنین وہاں ان کی بہن کے گوٹے سے جڑی بیٹھی تھی یہ دوا لینے مما یہ پین کلر بھی ساتھ لے لیں مما طبیعت ٹھیک تو ہے نا تبھی اس کا بی بی چیک کری ہیں کبھی انسولین لگا رہی ہے کبھی سونے سے قبل اس کے پاؤں میں مساج کر رہی ہے۔

 حد ہو گئی شوخی سے دل میں سوچنے لگی ایک دو مرتبہ وہ خالہ صغری بتول کا بھی بی بی چیک کرنے کے لیے پرتول رہی تھی صغری بتول نے تو سوچا تھا جتنا انکار کرتے لیکن سب کے کہنے پر انہوں نے بازو آگے کر ہی دیا بڑے طریقے سلیقے سے اس نے قمیض کا تنگ بازو اوپر کیا ادھر ادھر کی گفتگو میں دھیان بٹا کر بلڈ پریشر بھی نوٹ کر لیا اور پھنکتی ہوئی ہنسی میں بولی حالہ میں اس لیے اوٹ پٹانگ باتیں اپ سے کر رہی تھیں کہ بی بی چیک کرتے ہوئے مریض کا دھیان غیر متعلقہ چیزوں کی طرف ہونا ضروری ہے ورنہ گڑبڑ ہو جاتی ہے۔

 سگنہ بتول کے دل میں اس کی کھنکتی ہنسی جلترن کی طرح جگہ بنا کے انہوں نے غور سے دیکھا اس کے جلد بچوں جیسی صاف شفاف اور لہجہ بچوں کی طرح معصوم انداز ایسا تھا کہ دل مولی رنگت دمکتی کالی سیاہ امتی گھٹاؤں جیسی زلفیں آنکھیں ایسی جن میں ایک مرتبہ دیکھ لے تو دل اتر پدل ہونے لگے۔

ہزار دوریوں کے باوجود انہیں اس لڑکی زارہ میں دلچسپی ہو چکی تھی نند کی اسٹریلین بیٹی تو خیر مکسچر تھی گوری چمڑی اور بنگانی حسن جیسے بہتا جھرنا نہیں ابشار باتوں ہی باتوں میں نند نے بتا دیا تھا کہ ہم تو وہیں رشتہ طے کر چکے ہیں پاکستان سے جانے والے لڑکوں کے بہت جلد پر پرزے نکلنا شروع ہو جاتے ہیں نادین کے رہتے ہیں نہ دنیا کے ہم نے انڈین مسلم فیملی میں بات طے کر دی ہے لڑکا وہاں کا رہنے والا ہے آچھا پڑھا لکھا اور برسر روزگار ہیں پاکستان کے سوا سروس کا تو مقابلہ نہیں ہو سکتا نا ان کی تو یہی بات ہوئی آنگورکھٹے ہیں۔

Betoon Ki Gamandi Maa

 تین دن کے بعد سب واپس چلے گئے گھر کے افراد اور جیٹھانی کی والدہ بس رہ گئی وہاں سے واپس آنے کے کئی دن بعد تک صغری بطور ششو پنج میں رہی آیا بھانجے کے لیے رشتے کی بات کی جائے یا آپ بھی نہیں محض اتفاق تھا کہ اسی وقت ان کی بہن جو صرف ایک سال چھوٹی تھی اس کا فون آگیا ۔

بہت سانوں کے بعد ان کی بہت بے تکلف تنز و تشنی اور تفاخر سے پاک گفتگو ہو رہی تھی پھر بھی دماغ میں کیڑا سا کل بنا رہا تھا سو زبان پر سوارلے آئی نور فاطمہ بڑی مدت کے بعد فون کیا ہے آج تم نے خیریت تو ہے افو تین دن اکٹھے بھی تو اتنی مدت کے بعد رہی ہیں آپ بھی بس خون نے جوش مارا تو موبائل فون اٹھا لیا۔

وہ ہنس کر بولی صغری بتول کے دل میں کمینی سی سوچ آئی یہ کیوں نہیں کہہ دیتی کہ تمہاری بیٹی پر نظر ہے داماد بنانے کے لیے چلیں دیکھتے ہیں اتنے بھی گرے پڑے نہیں جب تک رشتے کی بات خود سے نہیں ڈالے گی میں تو نہیں شروع کرنے والی دو ایک دن کے بعد پھر دفعہ ہوا کہ بہن کے نمبر سے کسی فیملی فنکشن کی تصاویر دھڑا دھڑ اپلوڈ ہوئی اور ابھی وہ دو چار تصویریں ہی دیکھ پائیں تھیں کہ ڈیلیٹ فور ایوری ون نے ان تصاویر کا صفایا کر دیا۔

قائل کرنے کے صدیوں پرانے حربے ایک اور فضول خیال ذہن میں آیا مسئلہ یہ تھا کہ یہ سارے دکھڑے کس نے روتی میاں سے بات کی تو وہ صدا کے بے نیاز جیسا مرضی دل میں آئے وہ کرو یہ کہہ کر چائنا سرچ کرنے لگی وہ اسی شش و پنج میں تھی کہ اس موضوع پر بچوں سے بات کی جائے یا نہیں کہ انہیں۔

ایک ہی وقت میں دو مختلف جگہوں سے کوریا سروس سے دو پارسل موصول ہوئے کچھ عجیب سی کیفیت میں انہوں نے پارسل وصول کیے کھول کر دیکھا تو ایک بہن کی طرف سے ملتانی سون حلوہ اور بہت ہی نفیس قسم کا شیفون میں کامدانی کا سوٹ تھا دوسرا پیکٹ ان کی چچا زاد بہن ماریہ کی طرف سے تھا دو کتب اور ایک دیدہ سے رنگوں میں بیڈ شیٹ ۔

بہت اچھی کوالٹی کا کپڑوں اور پرنٹ تو خیر تھا ہی شاندار اچھی بیڈ شیٹ ان کی کمزوری تھی بہت دیر تک وہ ہاتھ پھیر کر اسے محسوس کرتی رہی لیکن دماغ ان سوچوں میں مصروف کے دونوں کی طرف سے اکٹھے پارسا بھیجے جانے کا مقصد کیا ہے جیٹ کی وفات پر ان کی بہن اور چچا زاد بہن دونوں اپنی جوان جہاں بیٹیوں کے ساتھ ضرورتیں رشتہ کے اشتہار کے طور پر موجود تھی بھانجی تو خیر حسین تھی ڈاکٹر تھے ناز و انداز بھی دل منہ لینے والے تھے لیکن چچا زاد بہن کی بیٹی وہ دل ہی دل میں تنزیرہ انداز سے مسکرائی۔

 لو جی کامیاب ہو نہار لڑکوں کو دیکھ کر ایسے ہی بیٹیوں کی ماؤں کے دماغ منصوبے بناتے ہیں آگے پیچھے کبھی حال احوال پوچھنے کی زحمت نہیں کی اور اب قیمتی تحفے بھیجے جا رہے ہیں بھئی سچی بات ہے اتنے قابل ہوں نہار ثبوت تو بس کسی کے مقدر میں ہوتے ہیں گھنٹے دو گھنٹے اسی شش و پنج میں گزاریں کہ تحائف کا شکریہ ادا کریں یا نہ کریں کبھی سوچتی کہ شکریہ ادا کر دیا تو چپو ہی نہ ہو جائے کل کالا بریانی نہاری بنا کے بھجوانے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا پھر سوچا جب زبان کا کہیں رشتہ طے ہوا تو مبارکباد نہیں وہ بھی کوئی سوٹ شوٹ بھیج دیں گی۔

 چلو چھوڑو دفعہ مارو وہی ضرورت نہیں تعلقات کو بڑھانے کی خیال کے آنے پر کچھ یکسوئی نصیب ہوئی تھی کہ موبائل فون کی تیز چیختی چنگارتی آواز نے متوجہ کیا انہوں نے خیالوں میں مکن بے دہانی سے کال کا بٹن پریس کیا اور بولی جی فرمائیے صغراآپی اپ فارغ ہے کیا دو منٹ مجھے اپ سے ضروری بات کرنا ہے۔

دوسری جانب سے ان کی کزن ماریہ کی چہکتی آواز سنائی تھی دل ہی دل میں سگرا بتول نے اپنے آپ کو 70 مرتبہ نان تان کی جو انہوں نے بے دہانی میں فون کول اٹینڈ کر لی اب بیٹی کی تعریف کے سلسلے شروع ہو جائیں گے بدتلی اور قدر نبوت پر قابو پاتے ہوئے انہوں نے مریم سی آواز میں جواب دیا کیوں نہیں بس آج کچھ مصروفیت تھی نہیں آج نہیں پرسوں بہت اچھی خبر ہے سن کر خوش ہو جائیں گی بس۔

ہمیں اپ کی تھوڑی سی مدد کی ضرورت ہے کھنکھناتی لہجے میں ماریا نے کہا اور بات جاری رکھی آپی میں اپنے بیٹے کا رشتہ اور فاطمہ کی بیٹی زارا سے کر رہی ہوں آپ کو تو نور نے بتایا ہی ہوگا نا پرسوں ہم دعائے خیر کر رہے ہیں بس ہم دونوں میں سمجھنے بننے سے پہلے ہی جھگڑا ہو گیا ہے نور کہتی ہے کہ وہ آپ کے چھوٹی بہن ہے وہ اپنی طرف سے آپ کو متو کرے گی اور میں بندی حقیر عاجزانہ درخواست آپ سے کرتی ہوں کہ سگی بہن نہ سہی پر کزن تو ہونا رشتہ تو میرا بھی آپ سے پکا پکا ہے اپ میری طرف سے آئیں اور میرا مان بڑھائیں ۔

میں خود اپ کو لینے آ جاؤں گی اور میری طرف سے آپ لڑکے کی پھوپو بن کر جائیں گی میری تو کوئی نن یا بہن بھی نہیں ہے ماریہ بولے جا رہی تھی اور وہ ساتویں اسمان سے صغری بتول نیچے گرتے گرتے زمین سے بھی نیچے پاتال میں گر رہی تھی اپنی نکمی سوچ اور ناک کے ذہنیت پر ماتم کرتے ہوئے۔

کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment