Masoom Ladki ki Zulm Se Bharpoor Kahani
اسلام علیکم اُمید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے ۔
آج میں آپ کے لیے ایک اور کہانی لے کر آیا ہوں ۔یہ میرے ہوش سنبھالے سے پہلے کی بات ہے ابا کے ملنے والے ایک انکل ہمارے گھر ائے اپنے پر مشکل سات برس کی تھی میرے والد نے ان کو رہنے کے لیے گھر میں جگہ دے دی حالانکہ ہمارا گھر تو ہی کمرے پر مشتمل تھا اس شخص کا نام رمضان تھا لیکن والد اس کو مانی بلاتے تھے۔
امی نے مانی کے بارے میں پوچھا تو ابا نے بتایا کہ یہ میرا بچپن کا دوست ہے ان دنوں مشکل میں ہے اس کے پاس رہنے کی جگہ نہیں ہے تبھی میں نے کچھ عرصے کے لیے اپنے گھر میں ٹھہرا لیا ہے ہماری دوستی بھائیوں جیسی ہے اس نے اپنی مشکل بیان کی تو انکار نہیں کر سکا ۔
آپ نے اچھا کیا لیکن اس کو رات میں سنائیے گا کہا بچوں والے کمرے میں یہ بھی پڑھ کر سو رہے گا ابھی تو سردیاں ہیں ورنہ رات کو چھت پر سونے کا انتظام کر دیتا والدہ خاموش ہو رہی وہ اسے زیادہ بحث و تکرار نہیں کرتی تھی۔
رمضان اور افغانی دن کو ایک کارپینٹر کے پاس کام پر چلا جاتا اور شام کو لوٹ آتا وہ کبھی خالی ہاتھ نہ آتا تھا ہمیشہ ہم بچوں کے لیے پھل فروٹ اور کبھی صبح کے ناشتے کا سامان انڈے ڈبل روٹی وغیرہ لے آتا وہ صرف ناشتہ ہمارے گھر سے کرتا دوپہر کا کھانا اپنے کارپینٹر دین محمد کے پاس دکان پر۔
اور رات کو بھی کہیں باہر سے کھا لیتا تھا کبھی کبھی جب وہ آ جاتا تو والد اصرار کر کے اسے رات کے کھانے پر ساتھ بٹھا لیتے ہم سب بچے اس کو چچا کہتے تھے کیونکہ والد کہتے کہ یہ مجھے سگے بھائیوں جیسا عزیز ہے برے دنوں میں اس نے بھی ساتھ دیا تھا والد کی تنخواہ زیادہ نہ تھی۔
گھر کا گزارا بڑی مشکل سے ہو رہا تھا تاہم مانی چچا کے آ جانے سے اب کچھ آسودگی ا گئی تھی خرچہ ختم ہو جاتا تو وہ اپنے پیسوں سے راشن لے آتا کبھی تیل دال چاول ختم ہو جاتے اور اسے پتہ چل جاتا تو وہ یہ چیزیں خرید کر لا دیتا اور رقم نہ لیتا وہ کہتا کہ میں اس گھر میں رہتا ہوں اتنا تو میرا حق بھی بنتا ہے کہ اس گھر کی خوشحالی میں اپنا حصہ ڈالوں۔
امی سے کہتا اگر اپ مجھے ان بچوں کا سگا چچا سمجھ لیں تو میرے لیے اس سے بڑھ کر اور خوش نصیبی کیا ہوگی کہ میں آپ لوگوں کے کام ا سکوں ان باتوں سے امی متاثر ہو گئی کہ مانی واقعی ایک نیک دل اور اچھا انسان ہے اگر ہم نے اس کو رہنے کے لیے جگا دی ہے تو وہ بھی ہمارے احسان کا بدلہ چکانے کی پوری کوشش کرتا ہے کوئی اگر کسی تنگدست کی تنگدستی کو آسودگی میں بدل دے تو ایسا آدمی کس کو برا لگتا ہے۔
دراصل مانی کا کسی بات پر اپنے بڑے بھائی بھاوج سے جھگڑا ہو گیا تھا تبھی وہ سامان لے کر آبا کے پاس چلا ایا اب بھائی کے گھر جا رہنے پر تیار نہ تھا مانی اپنی کمائی میں سے ادھی رقم ہمارے گھریلو اخراجات میں ملانے لگا تبھی مل جل کر اچھی گزر بسر ہونے لگی۔
مانی لحاظ سے میرے والدین کو بھی سہولت ہو گئی ہم کل چار بہن بھائی تھے سبھی مجھ سے چھوٹے تھے ان نادانی کا وقت تھا مجھے مانی چچا اچھے لگتے تھے وہ پانی لانے کو کہتے یا کوئی کام کہتے تو میں دوڑ کر کر دیتی کیونکہ بچے کھانے پینے کے شوقین ہوتے ہیں اور ہم مانی کی دریا دلی سے بہت خوش رہتے تھے جو ہمارے لیے تقریبا روز بسکٹ ٹافیاں یہ کچھ ایسی چیزیں لاتے جن کو بچے پسند کرتے ہیں۔
اماں بھی اعتراض نہ کرتی کہ وہ ان کو اپنے گھر کا ایک فرد گردان چکی تھی ایک کمرے میں ہمارے والدین سوتے تھے دوسرے میں ہم سب بچے زمین پر سو جاتے تھے کمرے میں ایک چارپائی تھی جو مانی چچا کو مل جاتی تھی۔
اب تو اس شخص کو چچا کہتے بھی شرم آتی ہے لیکن یہ روداد اس وجہ سے بتا رہی ہوں کہ وہ والدین جو غیر اوپر بھروسہ کر لیتے ہیں میری زندگی سے سبق حاصل کریں یہ ایک حقیقت ہے کوئی مانے یا نہ مانے دنیا میں کوئی کسی کا نہیں ہوتا اپنے غیر تو بن سکتے ہیں لیکن غیر اپنے نہیں بن سکتے۔
بچے دن بھر کھیل کود سے تھک ہار کر رات کو گہری نیند سوتے ہیں ہم بھی فرش پر لائن سے گدا بچھا کر برابر برابر سے ہو جاتے تھے میں سکول جانے کے علاوہ امی کے کام بھی کرتی تھی لہذا تھک جاتی رات کو پھر ایسی گہری نیند آتی کہ کسی بات کا ہوش نہ رہتا تیسری جماعت کی بچی کو بھلا کس بات کا ہوش ہوتا ہے ۔
تبھی جب میرے بہن بھائی سو جاتے رات کو یہ شخص مجھے اٹھا کر اپنے ساتھ چارپائی پر لیٹا لیتا مجھے کسی بات کا مطلب سمجھ میں نہ آتا میں تو نیند میں ڈوبی ہوتی یا گہری حرودگی میں کبھی سو جاتی کبھی جاگ جاتی پھر وہ مجھے پیسے میٹھی گولیاں اور بسکٹ وغیرہ دے دیا کرتا اور کہتا کسی کو یہ بات نہ بتانا اور نہ بھی کہتا تب بھی میں کسی کو کیا بتاتی جبکہ میں خود بھی یہ بات اچھی طرح نہیں جانتی تھی کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
وقت گزرتا گیا یہاں تک کہ میں نے ہوش سنبھالا تب بھی اس کو وہی حرکتیں کر دے پایا اب فرق یہ تھا کہ ساتھ میں واہیات باتیں بھی شامل ہو گئی تھیں کبھی یہ باتیں میری سمجھ میں نہ آئی جس چارپائی پر مانی سوتا تھا اس کے آنے سے قبل یہ چار پائی میری تھی اور میں اس پر سویا کرتی تھی۔
جبکہ میرے چھوٹے بہن بھائی فرش پربچھے گدے پر سویا کرتے تھے ایک دو دن تو میں نے زمین پر سونے میں بہت بے چینی محسوس کی تھی دل میں غصہ بھی کرتی کہ بدبخت کہاں سے اگیا جو مجھے اپنی چارپائی سے محروم ہونا پڑا مانی روزانہ بہت صبح بیدار ہو جاتا اور اٹھ کر باہر چلا جاتا تب اپنی چارپائی پر پڑے رہنا مجھے بہت سکون دیتا۔
مجھ کو یہ کبھی خیال نہ آیا کہ یہ سب کچھ میرے حق میں برا ہے اور میں خسارے میں پڑی ہوں ہم بچوں کے کمرے کے ساتھ تھوڑی سی زمین تھی مانی نے آبا کو سلا دی کہ اگر تم برا نہ مانو تو اس پر چار دیواری بنوا کر کڑیوں کی چھت ڈلوا دوں کارپینٹر تو اپنا استاد ہے چھت کھڑکیاں دروازے سب بہت کم پیسوں میں بن جائیں گے مزدوری میں خود کر لوں گا۔
ابا اس ترویز پر خوش ہو گئے یوں بھی گھر میں ایک کمرے کی اشد ضرورت تھی انہوں نے کہا سر میں کڑوے تیل کی جگہ کی پڑ جائے کیا برا ہے بسم اللہ کرتے ہیں دیکھتے ہی دیکھتے چند دنوں میں ایک چھوٹا سا کمرہ تیار ہو گیا۔
مانی نے ہمارے کمرے کے درمیان دروازہ بنوا دیا تاکہ نیا کمرہ دوسرے کمرے سے جڑا رہے والد نے نئے کمرے میں نئے چارپائی ڈلوا کر یہ کمرہ مانی کے حوالے کر دیا۔ تاکہ وہ سکون سے علیحدہ رہ سکے اور بچے اپنے کمرے میں آرام سے پڑھائی کر سکے اب ہم بہنیں اگرچہ اپنے کمرے میں سوتی تھی۔
اور مانی نئے کمرے میں مگر درمیانی دروازہ اسانی سے کھل جاتا تھا تبھی جب میرے والدین اور بہن بھائی سو جاتے تو یہ شخص چپکے سے ہمارے کمرے میں آ جاتا اب مجھ کو کچھ سمجھ آگئی تھی میں اسے کہتی چاچا ہمارے کمرے میں رات کو نہ آیا کرو ورنہ میں آبا کو بتا دوں گی تبھی وہ مجھے یہ کہتا کہ تیرا ابا تمہاری بات کا یقین نہ کرے گا بلکہ میری بات کا یقین کرے گا کیونکہ میں اس کو اپنی آدھی تنخواہ دیتا میں کہہ دوں گا کہ تم خود آتی ہو۔
کیونکہ تم لوگ روز مجھ سے چیزیں لینے کی فرمائش کرتے ہو اور میں لاتا بھی ہوں کبھی فرمائش پوری نہیں کر سکتا تو تم اسی غصے میں میری شکایت کرتی ہو یہ بھونڈی سی تاویل تھی لیکن میں دبک جاتی کیونکہ اس نے مجھے بہت نا سمجھی کہ عمر سے دبکا لیا تھا تو میں اس سے ڈرتی بھی بہت تھی اور پھر میری ایک نہ چلتی۔
آٹھ برس یہ شخص ہمارے ساتھ رہا اور اپنے معمول سے نہ ہٹا ادھر میرے والدین اس کی خیر خواہی میں فکر مند رہتے تھے کہ کب تک مانی کنوارا رہے گا اب اس کی شادی کروا دینی چاہیے تاکہ اس کا گھر بس جائے آبا کے کہنے پر واردانے اس کے لیے شریک حیات کی تلاش شروع کر دی تھی بالاخر ایک جان پہچان کے متوسط گھرآنے میں رشتہ ڈھونڈ لیا۔
اور وہاں مالک کا نکاح ہو گیا شادی کے بعد کچھ دن تو وہ اپنی بیوی میں کھویا رہا پھر وہی پرآنی روش دہرائی جانے لگی جب اس کی بیوی میکے جاتی وہ ہمارے کمرے میں گھساتا میں کسی کو بتا بھی نہ سکتی تھی دل ہی دل میں چلتی اڑتی رہتی والدین نے تربیت ایسی کی تھی کہ کسی بات پر زبان کھولنا گردن زنی والی بات تھی ۔
ابا سے بھی ڈرتی تھی کہ جانے کیا کر گزری نہ ہی تب مجھ میں اتنی ہمت تھی کہ امی کو ہی بتا دیتی مانی سے میرا جھگڑا ہو جاتا تو وہ کئی قسم کی ڈراؤنی دھمکیاں دے کر مجھے چپ رہنے پر مجبور کر دیتا وہ عمر میں مجھ سے کافی بڑا تھا تبھی مجھ پر بہت روپ تھا میں پوری طرح اس کے دباؤ میں تھی۔
ایک دن اس نے کہا کہ میرا استاد کام بہت لیتا ہے اور معاوضہ کم دیتا ہے میں الگ سے دکان کرنا چاہتا ہوں تاکہ کچھ رقم اکٹھی ہو تو اپنا گھر لے سکو والد نے اپنے دوستوں سے قرض لیا اور کچھ اپنی جمع پونجی اس کو دے کر دکان کھول دی وہ چند ماہ میں ہی سارا مال ختم کر کے چلتا بنا۔
وہ چلا گیا لیکن اس کی وجہ سے میرا ضمیر مجھ کو ملامت کرتا رہا اور میں گونا گو الجھنوں کا شکار رہی میرا خیال کہیں ہوتا تھا کام کہیں عجیب خبدی ہو گئی تھی سہیلیاں میری حالت دیکھ کر گڑتی وہ سمجھتی کہ مجھ کو کسی سے محبت ہے اور میں اسی کے خیالوں میں کھوئی رہتی ہوں۔
انہیں کیا معلوم کہ مجھ کو اپنی اس داغدار ردا کا غم ہے جس کو ایک ظالم تار تار کر گیا ہے میں امتحان میں بھی اس وجہ سے کامیاب نہ ہو سکی وہ شخص جا چکا تھا میری سنہری عمر بھی میلی ہو کر نکل چکی تھی مگر دل کی خواہش ہے کہ ختم نہیں ہوتی اس کے بعد جتنے بھی حادثے میری زندگی میں ہوئی اس شخص کو ہی ان کا ذمہ دار سمجھتی۔
اس کے چلے جانے کے بعد احساس سیاہ میں اس پوری طرح گرفتار ہوئی کہ ہر وقت کوئی کھوئی رہنے لگی زور سوچ کر دماغ معوف ہو گیا تھا کہ اس گندے انسان کو کیسے موت کے گھاٹ اتارو حالانکہ یہ کام میرے بس کا تھا نہیں دعا کرتی خدا کرے یہ کہیں چلا جائے اس کا ایکسیڈنٹ ہو جائے یا یہ ڈوب کر مر جائے جب وہ چلا گیا تو کچھ دن میں نے سکھ کا سانس لیا قدر سکون بھی ملا ۔
میں اپنے کزن ارسلان کو بہت چاہتی تھی اس کے ساتھ مجھ کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ میں اس کے قابل نہیں ہوں عرصے تک بس چپکے چپک کے اس کی پرستش کرتی رہی اور میری بد نصیبی دیکھیے کہ جب وہ خود میرا بن جانے پر راضی ہوا تو میں نے خود ہی انکار کر دیا۔
انکار کرتے وقت میرے دل پر قیامت گزر گئی لیکن اس کے سوا چار انا تھا انہوں نے میرا رشتہ میرے والدین سے مانگا تھا ہمارے درمیان محبت کا کوئی چکر نہ تھا مگر ارسلان مجھے پسند کرتا تھا اور اس کی دلہن پر نہ تو میرا سب سے خوبصورت خواب تھا جب والدین نے ہاں کہہ دی تو ایک روز ارسلان نے مجھ سے بات کی بلکہ میری رضامندی کے بارے پوچھا۔
اس نے میری رائے لیتے وقت کہا تھا کہ دیکھو بنا اگر مجھ کو پسند کرتی ہو تو ہاں کہنا میں تم کو ہر قیمت پر حاصل کروں گا مگر ایک بات تم نے مجھ کو بتانی ہوگی کہ تمہارا ماضی میں کسی سے تعلق تو نہیں رہا ہے اور میں جھوٹ کبھی برداشت نہ کروں گا یہ سنتے ہی میرے سارے خواب پر بھر میں ٹوٹ گئے بھلا میں ارسلان کو یہ کیسے بتا دیتی کہ میں اپنی زندگی کی سب سے قیمتی بتا لوٹا چکی ہوں۔
اور اب ان کے قابل نہیں رہی یا پھر میں جھوٹ بول کر ان کو کیسے دھوکہ دیتی جس کی میں کسی دیوتا کی طرح پرستش کرتی تھی تب دل پر پتھر رکھ کر مجھے یہی کہنا پڑا میرا خیال چھوڑ دو ارسلان مجھے تو اچھے لگتے ہو اگر شادی کے نقطہ نظر سے نہیں میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔
کیونکہ مجھے کسی اور سے پیار ہے اور یہی سچائی ہے میرے انکار سے ارسلان مہینوں بیمار پڑا رہا کاش میں اسے بتا سکتی کہ میری چادر میلی ہی سہی مگر کچھ معصوم پر بچپن میں ظلم ہوا ہے اور میں نے تمہارے سوا کسی کو نہیں چاہا ہے۔
آج کے زمانے میں لڑکیاں جرات مند ہیں بھول سکتی ہیں مگر ہمارے زمانے میں لڑکیوں گونگی رکھی جاتی تھی اور وہ حق بات کہنے کا بھی حوصلہ نہیں رکھتی تھی میں نے اپنی جنت خود ہی ٹھکرا دی مانا کہ میں پیدائشی بزدل تھی جس نے کبھی اپنے حق کے لیے آواز نہ اٹھائی۔
میں نے تبھی اپنے دامن میں آئے پھولوں کو خود ہی گرا دیا مجھے اقرار ہے کہ میں نے غلط کیا مگر میں اور کیا کرتی ارسلان کا مزاج سمجھ لیا تھا اپنی مجبوری کی داستان اپنے اوپر ظلم کی آپ بیتی بھی سنا بھی دیتی تو یقین نہ تھا کہ مجھے معافی مل جاتی عارضی معافی تو ہر مرد دے دیتا ہے اور اعلی ظرف بھی بن جاتا ہے۔
مگر دل میں ان کے جو کانٹا اتر جاتا ہے اسے نکالنا مرد کے اپنے بس کی بات بھی نہیں ہوتی اور یہ سب بلانا اتنا اسان نہیں ہوتا اور کسی نہ کسی موقع پر یہ باتیں تلوار بن کر دل زخمی کرتی رہتی ہیں آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں کمنٹ باکس میں ضرور بتائیں ملتے ہیں اگلی کہانی میں تب تک کے لیے مجھے اجازت دی اللہ حافظ۔
کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔
اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔
اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔