Ek Khofnak Sachi kahani ||Ulta Mantar

Ek Khofnak Sachi kahani

Ek Khofnak Sachi kahani

اسلام علیکم اُمید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے ۔

آج میں آپ کے لیے ایک اور کہانی لے کر آیا ہوں ۔ آج کی کہانی ایک فوجی اور عامل کی پراسرار کہانی یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں فوج میں شامل تھا پاکستان کے قیام میں آنے کے بعد میری پوسٹنگ مانسہرہ کے علاقے میں ہو گئی۔ اس علاقے میں زیادہ تر جنگلات اور پہاڑی علاقے تھے۔ اس علاقے میں میرا زیادہ دل نہیں لگتا تھا۔ اس لیے ہمیں ڈیوٹی کے بعد علاقے میں ادھر ادھر گھومتا رہتا تھا۔ کبھی کبھی جنگلات کی طرف نکل جاتا پھر بھی اداسی کم نہ ہوتی تھی۔

 میں اپنی ماں کی اکلوتی اولاد تھا جبکہ میرے والد کا انتقال اس وقت ہوا جب میری عمر صرف اٹھ ماہ تھی میرے ابا جی یہ کسان تھی ان کی تھوڑی سی زمین تھی لیکن اماں جان نے کھائے بھینس اور بکریاں پال رکھی تھی اس لیے اچھا گزارا ہو جاتا تھا۔

 ایک رات ابا جان کھیتوں میں پانی لگانے کے لیے گئے تو ان کو وہاں سانپنے ڈس لیا گھر انے تک ان کی حالت خراب ہو گئی اور دوپہر تک وہ حکیم صاحب کے علاج اور سانپ کے کاٹے کے دم درود کے باوجود وہ مجھے اور اماں کو اکیلا چھوڑ کر اس دنیا سے چلے گئے۔

 اماں پر تو دکھ کا پہاڑ ٹوٹ پڑا اس وقت ان کی عمر صرف 21 سال تھی اور میری والد ان سے دو سال ہی بڑے تھے اُس زمانے میں ویسے بھی شادیاں بہت کم عمری میں کر دی جاتی تھیں اس لیے اماں بھی کم عمری میں بیا کر کم عمری میں ہی بیوہ ہو گئی کم عمر تو وہ تھی اس پر بے پناہ حسین بھی تھی  میکے میں ماں باپ اللہ تعالی کو پیارے ہو چکے تھے ۔

صرف ان کی بڑی بہن تھیں جن کی شادی ہو چکی تھی ان کے دو بیٹے تھی اس مصیبت میں خالہ نے کسی حد تک ہمارا خیال رکھا لیکن پھر اماں نے خود ہی کمر کس لی ان کے حسن اور کم عمری کے سبب ان کے لیے کئی رشتے آئے لیکن انہوں نے صرف میری خاطر اور ابا جان کی محبت میں دوسری شادی کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔

 یوں وقت گزرتا گیا اور میں نے گاؤں کے سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا پھر ایک دوست کی مدد سے فوج میں شمولیت اختیار کر لی جبکہ میری اماں چاہتی تھی کہ میں اپنی زمین سنبھالوں لیکن فوج میں شامل ہونا میرا شوق تھا اور بانوں کو حاصل کرنا میرا جنون بانو میری اکلوتی خالہ کی بیٹی تھی اس سے بڑے دو بھائی اور اسے چھوٹی ایک بہن تھی خوبصورت لڑکی تھی۔

لیکن وہ اپنے چچا زاد جاوید کو پسند کرتی تھی اور میرے لیے اس کی نظروں میں خاصی ناپسندیدگی ہوتی تھی کیونکہ بچپن ہی سے جاوید اور میری آپس میں نہیں بنتی تھی ہر وقت ہمارے درمیان ٹھنے ہی رہتی تھی رفتہ رفتہ ہم دونوں ایک دوسرے کے نام سے بھی خار کھانے لگی اور ظاہر ہے وہ جاوید کی محبوبہ تھی اس لیے مجھے ناپسند ہی کرتی تھی۔

Ek Khofnak Sachi kahani

لیکن مجھے تو اس سے زیادہ اس دنیا میں کوئی آچھا لگتا ہی نہ تھا پھر فوج میں شمولیت اختیار کرنے کا میرا ایک طرح سے یہ بھی مقصد تھا کہ جب وہ مجھے پسند ہی نہیں کرتی تو میں اسے دور ہی ہو جاؤں کیونکہ جب جب میں اسے دیکھوں گا اپنی نارسائی کا دکھ اور بھی ہوگا لیکن یہاں بھی ا کر اُس کی یادیں تیسرے بن کر کبھی کبھی دل میں جاگ اٹھتی تھی اسی لیے گھر بھی کم ہی جاتا ۔

لیکن پیسے باقاعدگی سے اماں کو بھیجتا تھا یہاں پر بھی جب اس کی یاد ستاتی تو ڈیوٹی سے فارغ ہو کر جنگل میں نکل جاتا کبھی کبھی میرے پاس بسکٹ کی پیکٹ اور پانی کی بوتل ہوتی تھی تو کافی وقت میں جنگل میں گزار کے آتا تھا۔

 ایک دن ایسے ہی جنگل میں گھوم رہا تھا کہ ایک جگہ ایک عامل قسم کا شخص مجھے نظر آیا وہ اس سردی کے موسم میں بھی گھٹنوں تک آتی ہوئی ایک دھوتی لپیٹ کر پہاڑی سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا دیکھنے میں کوئی عامل ہی لگ رہا تھا میں نے کچیلی کپڑے بال چٹاوا کی صورت کندھوں پر بکھرے ہوئے تھے سوکھا سا تھا۔

 وہ کالے جسم پر میل اور راگ کی تہسی بچھی تھی اس کی عمر کوئی 50 سے 55 کے درمیان لگ رہی تھی سوکھے ہوئے ہاتھ بہر اور گندے غلیظ ناخن لیکن اس کی آنکھیں بڑی چمکیلی اور پراسرار تھی لگتا تھا جیسے اس کی آنکھوں میں لائٹیں لگی ہوں میں اس کے پاس گیا میں نے اسے ایک بسکٹ کا پیکٹ دیا اور پانی بھی دیا حالانکہ وہ مجھے منع کرتا رہا لیکن میں نے زبردستی اسے یہ چیزیں کھلا دی ۔

یہیں سے میری اور اس کی دوستی کا اغاز ہوا وہ عامل کچھ عرضی کے لیے جنگلوں میں جاب اور تپسیہ کرنے ایا تھا اب اس کے اس جنگل میں بس 10 دن رہ گئے تھے پھر اس نے واپس وہیں لوٹ جانا تھا جہاں اس جیسے کئی عامل ایک خاندان کی طرح رہتے تھے۔

 بنارس کا شمشان گھاٹ ان کا گھر تھا نہ جانے کیوں مجھے اس عامل سے دلی لگاؤ سا ہو گیا تھا اپنی وضع کرتا کہ برعکس وہ خاصہ نرم دل اور بے ضرر سا انسان لگتا تھا میں اب روز ہی وہاں جانے لگا اکثر کچھ کھانے پینے کی اشیاء بھی اس کے لیے لے جاتا تھا وہ اکثر عجیب و غریب قسم کی پوزیشن میں کوئی منتر منہ میں بڑبڑاتا رہتا تھا۔

Ek Khofnak Sachi kahani

کبھی وہ ایک بازو زمین پر ٹکا کر اپنا باقی جسم عوام میں معلق کرتا تو بھی سر کے پر الٹا زمین پر کھڑا ہو کر جاب کرتا تھا جب میں وہاں جاتا تو وہ میرے ساتھ باتیں بھی کرتا اس نے بتایا کہ بہت سال پہلے وہ ہریانہ میں ایک بریانی کی دکان چلاتا تھا وہ اور اس کی بیوی بہت محبت سے رہتی تھی۔

لیکن ان کی کوئی اولاد نہیں تھی اس کی بیوی بچوں کے لیے پاگل ہو جا رہی تھی اس نے دن رات مسجدوں مندروں میں ماتھا رگڑا تو شادی کے بارے میں سال ان کو اولاد کی امید ہوئی لیکن جب اس کا بچہ پیدا ہونے لگا تو زچکی کے عمل میں ہی وہ اس دنیا سے سدھار گئی اور وہ بچہ بھی جس کے لیے اس نے جانے کیا کیا جتن نہیں کیے تھے وہ بھی پیدا نہ ہو سکا وہ بھی ماں کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔

 اس بات سے اس کا دل ایسے اچاٹ ہوا کہ اس نے دکان مکان بیچ دیا اور خود انجانے راہوں پر در در کی ٹھوکریں کھانے لگا پھرتے پھر اتے وہ عاملوں کے گروہ میں شامل ہو گیا اور اب وہ اس جنگل میں دن رات تب سیا کر رہا تھا مجھے اس کی ذات میں اور بھی زیادہ دلچسپی پیدا ہو گئی تھی اس کا اور میرا دکھ ایک جیسا لگتا تھا وہ بھی ایک عورت میں اور میں بھی ایک عورت کی خاطر در بدر ہو گئے تھے۔

 پھر اس کا جانے کا وقت آگیا وہ میں بہت اداس تھے میں نے اس سے خطوں کے طاقت کے لیے پتہ پوچھا تو وہ ہنسنے لگا کہنے لگا کہ ہم عاملوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا تم کس پتے پر چٹھی لکھو گے گھر جاتے جاتے کہنے لگا کہ تو نے میری بڑی خدمت کی ہے بول کہ تجھے کیا چاہیے منتروں میں ایسی طاقت ہوتی ہے۔

کہ ان سے سب کچھ حاصل ہو جائے میں نے اس کو اپنی اور بانوں کی ساری کہانی سنا دی تو اس نے مجھے کاغذ پر ایک منتر لکھ کر دیا کہ یہ منتر تین راتوں تک سورج ڈھلنے کے بعد 21 سرخ ثابت مرچوں پر پڑنا ہے اور اپنے آگے آگ جلا کر بیٹھنا ہے پھر منتر پڑھ کر وہ مرچیں اگ میں جلا دینی ہے۔

 یہ عمل کرنے سے وہ تمہاری محبت میں گرفتار ہو جائے گی لیکن یاد رکھنا تین دن سے زیادہ یہ عمل نہیں کرنا یہ کہہ کر وہ رخصت ہو گیا میں کچھ دن تک تو اس کی جانے کے بعد اداس رہا لیکن پھر رفتہ رفتہ کام میں مصروف ہو گیا انہی دنوں گاؤں سے خط آیا جس میں ماں نے اپنی خیریت کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ بانو کا رشتہ پکا ہو گیا ہے جاوید سے اس خبر کو پڑھ کر میرے دل میں بے چینی مزید بڑھ گئی میں نے چشم تصور سے اپنے دشمن جاوید کے ساتھ اسے دلہن بنے دیکھا۔

تو دل جیسی کسی نے مٹھی میں بھر لیا میں نے اسی رات سرخ مرچوں پر اس مندر کے جاپ کا ارادہ کر لیا جو اس عامل نے مجھے بتایا تھا سرخ مرچیں میں نے اپنی فوجی باورچی خانے سے حاصل کر لی تھی میں نے اس عامل کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق منتر پڑھ کر تین راتیں یہ عمل کیا پھر تیسری رات میرے دل میں یہ خیال آیا ۔

کہ یہ بات تو میں نے اس عمل سے پوچھی ہی نہیں کہ اگر لڑکی کسی لڑکے سے محبت نہیں کرتی ہو تو اس کو اپنا بنانے کے لیے تین راتیں اور اگر لڑکی سخت نفرت کرتی ہو کسی اور سے محبت کرتی ہوں اور اس کا رشتہ وہاں پکا ہو جائے تو پھر کتنے دن عمل کرنا چاہیے۔

 اس بات کو سوچ کر کہ بانو تو مجھے ناپسند کرتی ہے بلکہ نفرت کرتی ہے تو میں نے تین راتیں مزید یہ عمل کر لیا پھر اس طرح میں نے چھ راتوں تک یہ عمل کیا پھر اس عمل کے اثرات دیکھنے کے لیے اپنی چھٹی کی درخواست لکھی لیکن وہ منظور نہیں ہوئی کیونکہ ان دنوں بڑا افسر چھٹی پر کیا ہوا تھا اللہ اللہ کر کے وہ کچھ دنوں بعد واپس آیا تو میں نے اس سے چھٹی کی درخواست کی جو اس نے منظور کر لی۔

 اگلے دن میں گاؤں جانے کے لیے سامان باندھ ہی رہا تھا کہ گاؤں سے تار ملا اماں نے لکھا تھا کہ بانو اللہ کو پیاری ہو گئی ہے بھاگم بھاگ گاؤں پہنچا بانو کے گھر والے اس کی اچانک موت پر بہت صدمے میں تھی میری اماں بھی بہت رو رہی تھی اور میرے دل کی حالت میں بہت خراب تھی۔

جب رات میں ہم اپنے گھر آئے تو میں نے اماں سے اس کی موت کی وجہ پوچھی تو اماں نے عجیب بات بتائی انہوں نے بتایا کہ اپنی موت سے کچھ دن پہلے بانو بڑی عجیب سی باتیں کرنے لگی تھی وہ بار بار ہمارے گھر آتی اور مجھ سے پوچھتی کہ خالہ تیرا بیٹا کب واپس آئے گا اخر فوج میں نے اس کو چھٹی کیوں نہیں دیتی وہ بڑی بے چین لگتی تھی تیری تصویر کے سامنے بار بار جا کر کھڑی ہو جاتی تھی۔

 پھر وہ بیمار پڑ گئی کسی دوا کسی دم درود سے اس کو آرام نہیں ایا بستر پر بڑی تڑپتی رہتی کہتی میرے جسم میں آگ لگ رہی ہے میرے جسم میں مرچیں بھر رہی ہیں پھر آخری تین جب اس کی موت ہوئی تو اس کی سانسوں سے جلتی ہوئی مرچوں کی سچ مچ میں بو ارہی پھر وہ کرتی سانسوں میں اس کو خون کے الٹے ہوئے تو اس الٹی میں جلی ہوئی مرچوں کا ڈھیر تھا اماں تو نہ جانے کیا کیا بولتی رہیں لیکن میرے دل کی حالت عجیب تھی کہ کیسے میرے ہاتھوں میری محبت دنیا سے چلی گئی۔

 میں اج بھی بانو کی موت کے غم سے نہیں نکل پایا ہوں احساس ندامت میرے دل کو کچوکے لگاتا رہتا ہے کہ اول تو عامل کی باتوں پر ا کر میں وہ عمل ہی نہ کرتا اور اگر کرتا تو پھر عامل کے کہنے کے مطابق صرف تین دن تک کرتا خیر محبت میں میں اتنا خود غرض ہو گیا تھا کہ اس کو پانے کے لیے میں کچھ بھی کرنے کو تیار تھا بانو کو پانے کے ہیرز اور ہوس میں میں اتنا پاگل ہو چکا تھا کہ عامل کے منع کرنے کے باوجود تین دن کے عمل کو چھ دن تک کیا اور پھر اس کا بھیانک انجام بانوں کی موت کی صورت میں مجھے بھگتنا پڑا

کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment