Qissa Saat Bhaion Ka

Qissa Saat Bhaion Ka

Qissa Saat Bhaion Ka

نہ جانے کتنے پرانے وقتوں کی بات ہے ہندوستان میں ایک راجہ حکومت کرتا تھا وہ عوام میں بہت ہردل

عزیز تھا اور ہر دل عزیزی یوں ہی حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے کچھ خوبیوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے وہ

راجہ انتہائی رحم دل انصاف پسند تھا امیر و غریبوں سب کے ساتھ برابر کا برتاؤ کرتا کبھی کسی پر ظلم نہ کرتا

ظالموں پر اسے رحم نہ آتا تھا اور سخاوت کا یہ عالم تھا کہ خزانے کا منہ صدا کھلا رہتا تھا ضرورت مند اس کے

پاس جاتے تھے اور کبھی خالی ہاتھ نہ لوٹتے تھے کہا جاتا ہے کہ جس خزانے کا منہ کھلا ہوتا ہے وہ کبھی خالی

نہیں ہوتا چنانچہ راجہ کا خزانہ بھی ہمیشہ بھرا رہتا تھا جب وہ راجہ تخت پر بیٹھا تھا تو ملک کی حالت بہت

خراب تھی ہر طرف کوئی نہ کوئی مصیبت تھی لوگ غریب تھے جان و مال خطرے میں تھے چور اور ڈاکو نہ

صرف قافلوں کو لوٹ لیتے تھے بلکہ گھروں کو بھی صاف کر جاتے تھے ۔

کسی جگہ پر عمل نہیں تھا غریب عوام پر ظلم ہو رہا تھا وہ چلاتے تھے مگر سننے والا کوئی نہ تھا اس کی وجہ یہ تھی

کہ پہلے راجہؤں کی نیت خراب تھی انہیں صرف اپنے عیش و آرام سے مطلب تھا عوام کے سب کا کسی کو

خیال نہ تھا سرکاری آفسر ملک بھر میں منمانی کرتے پھرتے اور راجہ محل میں موج اڑاتے رہتے اخر

دکھوں کے بادل چھٹ گئے اور سکون کے دھوپ پھیلنے لگی خوش قسمتی سے نیا راجہ اپنے باپ دادا سے

بالکل مختلف تھا اس کے دل میں دوسروں کا درد تھا وہ اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں تھا اس نے ملک کی

باگ ڈورز ہاتھ میں لے کر کچھ اس قابلیت سے انتظام کیا کہ ملک سے غربت اور بد امنی دور ہوتی گئی۔

 راستے بے خطر ہوتے گئے لوگ گھروں میں چین کی نیند سونے لگے سرکاری افسروں نے جو راجہ کے

بدلے ہوئے تیور دیکھے تو انہوں نے بھی اپنی پرانی حرکتیں چھوڑ دیں جس پر کوئی بھی ظلم ہوتا یا بے انصافی

ہوتی وہ سیدھا راجہ کے پاس پہنچ جاتا اور انسان پاتا تھا اب محل کے دروازے ہر خاص و عام کے لیے ہمیشہ

کھلے رہتے تھے لوگ چین کے بانسری بجانے لگے ۔

اس راجہ کے سات بیٹھے تھے ساتوں بہت خوبصورت اور تندرست مگر راجہ کو اپنے سب سے چھوٹے

لڑکے سے بے حد محبت تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ چھوٹا راجکمار انتہائی نیک فرمانبردار اور سمجھدار تھا کبھی

کوئی ایسی بات نہ کرتا جس سے کسی کو دکھ پہنچے اس کے برخلاف بڑے بھائی بدتمیز اور خود سر تھے انہیں

اس بات کا غرور تھا کہ وہ راجہ کے بیٹے ہیں اور ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا وہ ادھر ادھر اودھم مچاتے

پھرتے لوگوں کو تنگ کرتے نقصان پہنچاتے بلاوجہ دوسروں کو ستاتے تھے لوگ انہیں ناپسند کرتے تھے

وہ اکثر راجہ سے شکایتیں کیا کرتے تھے راجہ کو بہت دکھ ہوتا اور انہیں بہت سمجھاتا سخت سست کہتا مگر ان

کے کان پر تو چوتک نہ رکتی راجہ کی خواہش تھی کہ اس کے بیٹے علم حاصل کریں اور فنے سپہ گری بھی سیکھ

لے مگر بڑے بھائیوں نے باپ کو مایوس سے کیا وہ جاہل  ہی رہے چھوٹے راج کمار راجو نے دل لگا کر علم

حاصل کیا اور سپہ گری میں بھی تاک ہو گیا پھر کیوں نہ وہ راجہ کا منظور نظر ہوتا راجہ اس پر فخر کیا کرتا تھا کہ

کم از کم ایک بیٹا تو ایسا ہے جس کے اندر انسانی خوبیاں موجود ہیں اور جو باپ کا نام روشن کرے گا چھوٹے

بھائی پر باپ کا اس قدر پیار دیکھ کر تنگ نظر پڑے بھائی حسد کی آگ میں جل اٹھے اور ہمیشہ اس کوشش

میں رہنے لگے کہ کسی طرح باپ کی نظروں میں اسے گرا دیں مگر راجو نے کبھی اس کا موقع ہی نہیں دیا وہ

سب کچھ سمجھتا تھا مگر باپ سے کبھی کچھ نہیں کہا۔

 آخر ایک زمانہ ایسا بھی آیا جب راجہ بوڑھا ہو گیا ایک دن اس نے سب بھائیوں کو بلا کر کہا میں اب زیادہ

دن زندہ نہیں رہوں گا اس لیے جلدی اپنے جانشین کا انتخاب کرنا چاہتا ہوں ایک راجہ کے اندر کچھ

خوبیوں کا ہونا لازمی ہے اور وہ ساری خوبیاں صرف راجو کے اندر موجود ہیں اس لیے میں نے اسے ہی

جانشین بنانے کا فیصلہ کیا ہے بڑے بھائیوں کے دل میں آگ ہی تو لگ گئی بھلا وہ یہ کیسے برداشت کر لیتے

کہ ان کے ہوتے ہوئے سب سے چھوٹے کو جانشین بنایا جائے انہوں نے بھی دل میں ٹھان لیا کہ کسی بھی

طرح راجہ کو فیصلہ بدلنے پر مجبور کر دیں گے اس وقت تو وہ خاموش رہے مگر جو ہی راجو وہاں سے ہٹا وہ

راجہ کے پاس پہنچ گئے اپ کا فیصلہ غلط ہے انہوں نے ایک زبان ہو کر باپ سے کہا کیا بکتے ہو راجہ نے

آنکھیں نکال کر کہا تم چاہتے ہو کہ میں تم میں سے کسی کو جانشین بناؤں تم جو سب کے سب جاہل نکمے اور

بدتمیزوں آخر کیا خرابی ہے راجو میں باپ نے کہا بیٹے ان کی بات سن کر بولے وہ اپ کی جان کا دشمن ہے

سب سے بڑا بھائی بولا جھوٹ بالکل جھوٹ راجہ غصہ سے  چلایا ۔

بھلا وہ میری جان کا دشمن کیوں ہونے لگا کیا میں نے اسے جانشین نہیں بنایا ضروری ہے تمہاری جان ہے

وہ آپ کی جان کا دشمن اس لیے ہے کہ جانتا ہے کہ اگر آپ کو اس کے حرکتوں کا پتہ چل گیا تو اپ اپنا

فیصلہ بدل دیں گے اس لیے وہ آپ کی جان کے پیچھے پڑا ہے دوسرے بھائی نے مکاری سے کہا یہ الزام ہے

راجو ایسا نہیں ہو سکتا راجہ نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا ہم ثابت کر دیں گے آج رات کو ہی راجکمارو

نے جواب دیا اور راجہ کو فکر میں ڈوبا چھوڑ کر چلے آئے راجو کی یہ عادت تھی کہ ہر روز جب راجہ کے

سونے کا وقت ہوتا تو وہ دودھ کا پیارا لے کر جاتا تھا اور خود باپ کو پلاتا تھا بڑے بھائی کیونکہ سازش کر رہے

تھے حسد میں جل رہے تھے اس لیے انہوں نے چپکے سے دودھ میں زہر ملا دیا راجو اس سازش سے بے خبر

دودھ کا پیالہ لے کر جب باپ راجہ کے پاس پہنچا اور جو ہی راجہ نے پیالہ ہونٹوں سے لگایا سب سے بڑے

بھائی نے جو وہیں قریبی چھپا کھڑا تھا جھپٹ کر پیالا راجہ کے ہاتھوں سے چھین کر گرا دیا دودھ زمین پر بکھر

گیا اور ایک بلی اسے چاٹنے لگی راجہ نے گرج  کر کہا یہ کیا بدتمیزی تھی اور دوسرے ہی لمحے اس کا منہ

حیرت سے کھلا رہ گیا بلی دم توڑ رہی تھی بڑے بھائی نے پہلے راجو کی طرف گور کر دیکھا اور پھر اپنے باب

راجہ سے کہا دیکھا آپ نے بلی مر رہی ہے اور اسی طرح اپ بھی ختم ہو جاتے راجو یہ سب ماجرہ دیکھ رہا تھا

اور ہکا بکا کھڑا تھا اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے راجہ نے اپنے بیٹے راجو کی طرف

تیز نظروں سے دیکھا ان نظروں سے جن میں غصہ بھی تھا اور نفرت بھی تو یہ ہے تیری اصلیت راجہ نے

دانت بیچ کر راجو سے کہا احسان فراموش مکار ظاہر تو ایسے کرتا ہے جیسے تجھ سے بڑا پاکباز کوئی ہوگا ہی نہیں

اور دل اتنا کالا اچھا ہوا وقت پر ہماری انکھیں کھل گئی ورنہ ۔

راجو گھبرایا ہوا کبھی راجہ کو دیکھتا کبھی بڑے بھائی کو اور کبھی مردہ بلی کو زبان گنگ ہو کر رہ گئی تھی راجہ کہہ

رہا تھا وزیر صاحب کو بلاؤ اور کہو کہ اعلان کر دیں ہم نے اپنا فیصلہ بدل دیا ہے ہمارے بعد ہماری اس

سلطنت چھ بڑے بھائیوں میں برابر برابر تقسیم کی جائے گی اور راجو مکار کو کچھ نہیں ملے گا یہ باپ کا دشمن

بن بیٹھا ہے اس کے بعد راجہ راجو سے مخاطب ہوا دور ہو جا میری نظروں سے خبردار جو کبھی اپنی منھوس

شکل مجھے دکھائی راجو کی دنیا تاریک ہو گئی بھائیوں نے بھرپور وار کیا تھا راجہ کو اس قدر طیش تھا کہ صفائی

میں کچھ کہنا بے فائدہ تھا چنانچہ راجو آنکھوں میں آنسو بھرے وہاں سے چلا گیا اور تنہائی میں ا کر پھوٹ

پھوٹ کر رونے لگا ادھر بھائیوں نے تمام لوگوں میں یہ جھوٹی خبر مشہور کرا دی کہ راجو نے اپنے باپ

راجہ کو زہر دینے کی کوشش کی تھی لوگوں کو حیرانی تو بہت ہوئی مگر جب راجہ نے اس خبر کو سچا بتایا تو سب

کو یقین آگیا اور ان کی نظروں سے راجو ایک دم بالکل گر گیا۔

 بڑے بھائیوں نے ایک میدان مان لیا تھا مگر ابھی ایک اور مشکل تھی ممکن تھا راجہ کو حقیقت معلوم ہو

جائے اور پھر وہ راجو کو ہی جانشین بنا دے اس لیے انہوں نے راجہ یعنی اپنے باپ کو ہی ختم کر دینے کا ارادہ

کر لیا تیسرے ہی دن راجہ کا قتل ہو گیا تمام ملک میں غم کی لہر دوڑ گئی ہر آنکھ آنسو بہا رہی تھی سب سے

زیادہ آنسو راجو کی آنکھیں بہا رہی تھی ستم یہ کہ سب کا شک راجو بنی تھا زہر والا واقعہ بالکل تازہ ہی تھا اب

تو سب کو یقین تھا کہ راجو نے راجہ کو انتقامن مار دیا ہے کیونکہ اسے راجہ نے جانشینی سے محروم کر دیا تھا

بڑے بھائی بھی مگرمچھ کے انسو بہا رہے تھے چند دنوں کے بعد رانجھا کی سلطنت چھ بڑے بھائیوں میں

برابر برابر تقسیم ہو گئی انہوں نے طے کیا کہ چند مہینے باپ کے محل میں ہی موج اڑا کر اپنا اپنا راج پاٹ

سنبھالیں گے راجہ کا محل سب سے بڑے راجکمار کے حصے میں ایا تھا راجہ کی آنکھیں بند ہوتی ملک کی

حالت پہلے جیسی خراب ہو گئی راج کمار سب کے سب بدترین حکمران تھے وہ ظالم لالچی اور جاہل  تھے

راجہ نے کڑی محنت سے جو امن و امان قائم کیا تھا وہ راجکماروں نے خاک میں ملا دیا تھا محل کے دروازے

عوام کے لیے بند ہو گئے تھے سرکاری افسروں کی پھر بنائی اور ہر طرف ظلموں ستم کا دور دورہ ہو گیا

چوریاں اور قتل دن دہاڑے ہونے لگے مگر راجکمار ان حالات سے بے خبر موج اڑا رہے تھے۔

Qissa Saat Bhaion Ka

 راجہ کو جو تھوڑا بہت ڈر تھا وہ اب ختم ہو چکا تھا اب وہ عذاب تھے راجو کو محل کے ایک چھوٹی سی تنگ و

تاریک کوٹلی دی گئی تھی جس میں وہ دن رات پڑا رہتا اور اپنی بد نصیبی پر آنسو بہاتا رہتا چند دن پہلے وہ ایک

راجکمار تھا باپ کا سب سے پیارا اور لاڈلا رعایا کی آنکھوں کا تارا مگر آج وہ اپنے بھائیوں کا خادم تھا بھائیوں

نے باپ کے مرنے کے بعد اسے ملک سے باہر نکال دینے کی ٹھان لی مگر اسے باپ کے دیس سے اتنا پیار

تھا کہ اس ذلت کے ساتھ وہاں رہنا منظور کر لیا بھائیوں نے اس کے سپرد گھوڑوں کی دیکھ بھال کا کام کر دیا

آب وہ راج کمار سے سائز بن گیا راجاؤں کے سائز بھی مزے کرتے ہیں مگر راجو کو پیٹ بھر کھانا بھی

مشکل سے ملتا اور اٹھتے بیٹھتے بھائیوں کی جھڑکیاں الگ سنتا کئی بار مصیبتوں سے اکتا کر اس نے ملک چھوڑ

دینے کا ارادہ کیا مگر پھر خیال آیا کہ اس کے بھائی بہت خراب ہیں رعایہ کا کوئی نہ کوئی سچا ہمدرد تو ہونا چاہیے

ہو سکتا ہے وہ کبھی عوام کی خدمت کر ہی سکے چنانچہ وہ تمام دکھ سہتا رہا اس کے بھائی سارا دن ادھر ادھر

اودھم مچاتے پھرتے رعایا کو تنگ کر دے اور رات کے وقت شراب کے نشے میں دھت مدہوش شور

مچاتے ہوئے محل میں داخل ہوتے راجو ان کے تھکے ہوئے گھوڑوں کو استبل میں باندھ کر کھلاتا پلاتا ان

کے جسم پر مالش کرتا اور تب کہیں ادھی رات کے قریب اسے آرام کا وقت ملتا ۔

ایک رات جب راجو استبل سے واپس ا رہا تھا تو اس نے اپنے بھائیوں کو زور زور سے باتیں کرتے اور کہکے

لگاتے سنا وہ کان لگا کر کھڑا ہو گیا بڑا بھائی کہہ رہا تھا پڑوسی راجہ کے ساتھ بیٹیاں ہیں بہت ہی خوبصورت ہم

چھ بہنوں سے شادی کریں گے مگر مشکل یہ ہے کہ راجہ کا کہنا ہے کہ وہ ساتوں بہنوں کی شادی ایک ساتھ

کرے گا اور ساتویں بہن جو سب سے چھوٹی ہے اس کی ایک شرط ہے اس نے اعلان کروا دیا ہے کہ اس

سے شادی کرنے کے تمام خواہش مند لوگ ایک جگہ جمع ہو جائیں پھر وہ اپنا پالتو کبوتر اڑائے گی جس کے

سر پر کبوتر بیٹھ جائے گا اسی کے ساتھ اس کا بیاہ ہوگا اور یہ پرسوں ہی ہونے والا ہے ہم کل صبح ہی روانہ ہو

جائیں گے تاکہ پرسوں وہاں پہنچ جائیں پرسوں شام کو ہی شادیاں ہو جائیں گی راجہ نے اطلاع دی ہے ٹھیک

ہے بالکل ٹھیک ہے سب چلائیں اور مارے خوشی کے ناچنے لگے۔

 اگلے دن منہ آندھیرے وہ عمدہ لباس پہن کر گھوڑوں پر سوار ہو کر روانہ ہو گئے راجو اکیلا رہ گیا اس نے

سوچا کہ اسے بھی جانا چاہیے حالانکہ اس کے ظالم بھائی اسے دھمکی دے گئے تھے کہ اگر اس نے محل سے

قدم بھی باہر نکالا تو اس کی خیر نہیں ہم دیکھا جائے گا اس نے سوچا اور اپنا شاہی لباس نکال کر گھوڑے پر

سوار ہو کر وہ بھی چل دیا چلتے چلتے اس کا گزر ایک گھنے جنگل میں سے ہوا جس میں بہت سے جنگلی درندے

تھے خونخوار درندے دن میں بھی رات کا سا آندھیرا چھایا تھا اچانک گھوڑا ٹھٹک کر رک گیا راجو نے دیکھا

کہ ایک لمبا جوڑا شیر جھاڑی میں سے نکل کر سامنے اکڑا ہوا تھا اور وہ رحم طلب نظروں سے راجوں کو دیکھ

کر بار بار اپنا اگلا پیر اٹھا رہا تھا راجو اس کے دکھ کو سمجھ گیا وہ بہادر تھا اس لیے شیر کو دیکھ کر اس کے اوسان

خطا نہیں ہوئے وہ گھوڑے پر سے اترا اور شیر کے پیر کو وہ اور دیکھا اس میں ایک بڑا سا کانٹا چبا ہوا تھا راجو

نے وہ کانٹا نکال دیا مگر یہ کیا شیر نے جست لگائی اور راج کمار کے گھوڑے کو کھانے لگا یہ کیا کیا تو نے راجو

نے غصے سے کہا اور تلوار سونت کر اس پر جھپٹا کیا یہی بدلہ ہے نیکی کا مگر شیر راجو کے قدموں کے پاس ا کر

بیٹھ گیا گویا وہ اپنی خاموش زبان سے کہہ رہا ہو تم فکر نہ کرو جہاں تمہیں جانا ہے مجھے معلوم ہے میں تھوڑی

دیر میں ہی تمہیں پہنچائے دیتا ہوں میں زخمی تھا اس لیے کئی وقتوں سے بھوکا تھا مجھے احسان فراموش نہ

سمجھو میں تمہارا وفادار غلام ہوں تھوڑی دیر کے بعد ہی وہ شیر پر سوار اس راجہ کے ملک کی طرف اڑا چلا جا

رہا تھا شام ہوتے ہوتے وہ راجہ کے شہر کے باہر ایک جنگل میں پہنچ گئے رات ہونے والی تھی اس لیے راجو

نے وہیں ٹھہرنے کا ارادہ کیا تاکہ رات گزار کر اگلے دن راجہ کے محل کی طرف روانہ ہو جائے اور اپنی

قسمت آزمائیں ہو سکتا ہے ساتویں راجکماری کا کبوتر اس کے سر پر ہی بیٹھ جائے گا اس نے ایک چھوٹی

راجکماری کی خوبصورتی کی بہت شہرت سنی تھی مگر مشکل یہ تھی کہ اس کے بھائی اسے وہاں پہچان لیتے ان

سے بچنا بھی تو تھا۔

آخر ایک ترکیب اس کی سمجھ میں اگئی اور وہ خود بخود مسکرا دیا اگلے دن محل کے سامنے ہزاروں لوگوں کا

ہجوم تھا وہ سب جھوٹی راجکماری سے شادی کرنے کی خواہش رکھتے تھے اور بہترین لباسوں میں لپٹے

ہوئے تھے مگر وہ سب اس گندے اور گھناونےفقیر کو بڑی نفرت سے دیکھ رہے تھے جس کے تمام بدن

پر کیچڑ ملی ہوئی تھی رنگت کالی تھی اور اس پر مکھیاں بھنک رہی تھیں۔

 راجکماری محل سے باہر ائی لوگ اس کی خوبصورتی دیکھ کر دنگ رہ گئے اس کے ہاتھوں میں کبوتر بھی تھا

راجکماری نے کبوتر ہوا میں اڑا دیا لوگ ہاتھوں میں دانے لیے کبوتر کو للچا رہے تھے مگر کبوتر سب کے

سروں پر سے اڑتا ہوا ٹھیک اس فقیر کے سر پر جا کر بیٹھ گیا مجمع چیخ اٹھا راجکماری کا رنگ بھی اتر گیا راجہ نے

کہا کبوتر کو پھر اڑایا جائے گا یہ گندا فقیر راجکماری کے قابل نہیں ہو سکتا میری قسمت کا فیصلہ ہو چکا ہے جی

راجکماری نے درد بھری اواز میں کہا اور محل میں داخل ہو گئی اسی دن راجو کے بڑے بھائیوں کی شادی چھ

راجکماریاں سے ہو گئی اور راجو جو فقیر بنا بیٹھا تھا اس کی شادی چھوٹی راجکماری کے ساتھ ہو گئی۔

وہ گندا فقیر راجو ہی تھا اس کے بھائی اسے پہچان نہ سکے ساتوں بھائی کئی دن تک محل میں رہے اور بڑے

بھائی گندے فقیر کا مذاق اڑاتے رہے اور بڑی راجکماریاں چھوٹی راجکماری کی بے وقوفی پر ہستی رہیں

بیچاری راجکماری گھٹ گھٹ کر روتی بڑے بھائیوں نے فیصلہ کیا کہ گندے فقیر کو ہر وقت اور ہر قدم قدم

پر ذلیل کرنا چاہیے ایک دن انہوں نے راجا سے کہا ہم شکار پر جانا چاہتے ہیں ساتوں جائیں گے دیکھیں کون

کون عمدہ شکار مار کر لاتا ہے راجہ نے جواب دیا ضرور جو ہتھیار تمہیں پسند ہو لے جاؤ استبل میں سے عمدہ

سے عمدہ گھوڑے لے جاؤ۔

 مگر شکار کھیلنا صرف راجکماروں کو ہی زیب دیتا ہے یہ گندا فقیر کہاں جائے گا نہیں یہ بھی جائے گا بھائیوں

نے کہا وہ تو دل بھر کر اس کی ہنسی اڑانا چاہتے تھے بڑے راجکماروں نے عمدہ تلواریں اور تیز رفتار گھوڑے

پسند کر لیے اور فقیر نے ایک ڈنڈا اور ایک لنگڑا گڈھا جب وہ سب شکار پر روانہ ہوئے تو راجکماریاں

جھروکوں میں سے جھانک رہی تھی لنگڑے گدھے پر سوار راجو عجیب سا لگ رہا تھا پڑی راجکماریاں ہنستے

ہنستے لوٹ پوٹ ہو گئی اور چھوٹی جلدی سے اپنے کمرے میں اگئی خوب روئی راستے میں راجو چپکے سے

بھائیوں سے الگ ہو کر سیدھا وہاں پہنچا جہاں اس نے رات بسر کی تھی اور جہاں شیر اس کا انتظار کر رہا تھا۔

 راج کمار ان جنگلوں میں شکار کھیلنے ائے ہیں راجو نے شیر سے کہا خبردار انہیں ایک بھی جانور نہ مل پائے

شیر زور سے دھڑا سارا جنگل کام گیا اور جنگل کے بے تعداد جانور وہاں جمع ہونے لگے ادھر راجو نے جسم

سے کیچڑ صاف کی اور اپنا شاہی لباس پہن کر چہرے پر نقلی مونچے لگا کر شیر پر بیٹھ گیا اس کے بھائی جنگل

میں مارے مارے پھرتے رہے مگر ایک بھی جانور شکار کے لیے نہ ملا آچانک دور انہیں ہزاروں جانور ایک

جگہ کھڑے نظر آئے وہ خوشی خوشی اس طرف بڑھے اور جو ہی شکار کرنا چاہا کہ آواز ائی خبردار جنگل کے

بادشاہ کی رعایہ کو ستایا تو تمہاری خیر نہیں اب انہوں نے دیکھا شیر کے اوپر جنگل کا بادشاہ سوار تھا وہ اسی کی

آواز تھی انہوں نے درخواست کی ہے جنگل کے بادشاہ ہم راج کمار ہیں ہماری عزت کا سوال ہے اگر بغیر

شکار کیے ہم واپس گئے تو ہماری ناک کٹ جائے گی بس ایک ایک جانور ہمیں دے دو جنگل کے بادشاہ نے

تھوڑی سی دیر سوچا اور پھر کہا ایک شرط پر تمہاری بات مان سکتا ہوں دیکھو ان جانوروں کو میرے غلام

شکار کر سکتے ہیں بولو کیا تم مجھے لکھ کر دیتے ہو کہ تم میری غلامی قبول کرتے ہو راجکمار مان گئے عزت کا

معاملہ تھا انہوں نے تحریری لکھ کر دے دیا اور انہیں ایک ایک ہرن مل گیا وہ غرور سے پھولے ہوئے

محل کی طرف چلے۔

 انہیں یقین تھا فقیر کے ہاتھ کچھ نہ لگا ہوگا جب وہ محل میں پہنچے تو دیکھا کہ فقیر سر جھکائے کھڑا تھا اور راجہ

اسے ڈانٹ رہا تھا کندھے فقیر تو جھوٹ بول رہا ہے کہ جنگل میں ایک بھی جانور نہیں تھا آخر یہ راج کمار

کہاں سے لے ائے اتنے سارے ہرن ذلیل ہائے میری بیٹی کا مقدر پھوٹ گیا یہ واقعی جھوٹ بول رہا ہے

راجکمارو نے کہا جنگل جانوروں سے بھرا پڑا ہے ہم نے تو بے شمار جانور مارے تھے مگر سب کو لاتے کس

طرح آخر ہم راجکمار ہیں اور ایک فقیر یہ کیا جانے شکار کیا ہوتا ہے تم جھوٹ بولتے ہو راجو نے کہا تم جنگل

کے بادشاہ کے غلام ہو اسی نے تمہیں یہ جانور دیے ہیں راج کمار چلا کر بولے مہاراج یہ ہماری توہین کر رہا

ہے زبان کو لگام دے گندے ذلیل راجہ نے گرج کر راجو سے کہا چھوٹی راجکماری نے جب شوہر کی  ذلت

دیکھی تو اس کا روتے روتے برا حال ہو گیا بہرحال وہ اس کی بیوی تھی ثبوت حاضر ہے۔

Qissa Saat Bhaion Ka

 راجو نے وہ تحریر راجہ کو دے دی راجا نے تحریر پڑھی اور یہ جھوٹ ہے راجکماروں نے کہا ہم کسی جنگل

کے بادشاہ کو نہیں جانتے یہ نقلی تحریر ہے میں جنگل کے بادشاہ کو ابھی لے کر آتا ہوں راجو یہ کہہ کر چلا گیا

اور پھر محل میں جنگل کا بادشاہ داخل ہوا بڑی شان و شوکت کے ساتھ اس نے کہا کہ راج کمار واقعی اس

کے غلام ہیں جنہیں اس نے جانور دے دیے تھے راج کمار گھبرا گئے راجہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا ایسا

لگتا تھا جیسے وہ راجکماروں کو کچا ہی چبا جائے گا اسی وقت راجکمارو کو جنگل کے بادشاہ نے مخاطب کیا کیوں جی

تم سات بھائی تھے نا ساتواں کہاں ہے راجکمانہ نے جواب دیا کہ وہ بدمعاش ہمارے باپ کو مار کر بھاگ گیا

ہے اسی وقت جنگل کے بادشاہ نے چہرے پر سے نقلی موچ علیحدہ کر دی اور اب ان کے سامنے ان کا بھائی

راجو کھڑا تھا راجکماروں کی آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگا راجب یہ حیران تھا راجو نے کہا میں ہی ان کا

ساتواں بھائی ہوں مگر انہوں نے مجھ پر اتنے بڑے ظلم کیے ہیں کہ کیا بتاؤں انہوں نے ہی ہمارے باپ

راجہ کا خون کیا ہے یہ سب مکار ہیں اور پھر اس نے راجہ کو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی ہوں اور اپنے

بھائیوں کے ظلم و ستم کی داستانیں سنائی کہ کس طرح وہ سلطنت کے لالچ میں باپ اور بھائی کے دشمن بن

گئے۔

 راجہ کو جب ان چھ بھائیوں یعنی اپنے چھ دامادوں کی حقیقت پتہ چلی تو اسے بہت افسوس اور دکھ ہوا راجہ

راج کمارو کو واقعی سخت سزائیں دیتا مگر ان کے رونے پیٹنے پر راجو کو ترس اگیا اور اس نے راجہ سے

درخواست کی کہ انہیں اپنی اصلاح کرنے کا موقع دیا جائے ایک موقع پھر بھی راجہ نے انہیں فورا اپنے

ملک سے نکال دیا اور راجو کو اپنی سلطنت سونپ دی چھوٹی راجکماری بڑی بہنوں سے اکثر کہا کرتی تھی

دیکھا تم نے میرا کبوتر کتنا عقلمند تھا اور راجکماریاں شرمندہ ہو جاتی کہا جاتا ہے کہ اس ذلت کے بعد واقعی

بڑے راجکماروں کے انکھیں کھل گئیں اور وہ نیک بن گئے

کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment