Aik Kahani Bohot Purani
بہت پرانی بات ہے ایک بہت بڑے جنگل کے سرے پر ایک لکڑہارا رہتا تھا اس کی بیوی اور دو بچے راجہ اور
رانی بھی اس کے ساتھ رہتے تھے راجہ لڑکا تھا اور بڑا تھا رانی لڑکی تھی اور چھوٹی ان بچوں کی ماں کچھ عرصہ
پہلے مر گئی تھی لکڑہارے نے دوسری شادی کر لی تھی اس کی دوسری بیوی یعنی دونوں بچوں کے سوتیلی
ماں بہت بری تھی وہ بچوں سے بہت جلتی تھی وہ چاہتی تھی کہ کسی طرح ان سے چھٹکارا پا لے وہ بعد میں
بات بات پر بچوں کو بہت ڈانٹتی اور ان سے خوب گھر کے کام کرواتی تھی اور کھانے کو بھی کم دیتی تھی
لکڑہارا بہت غریب تھا وہ سارا دن جنگل میں لکڑیاں کاٹتا اور پھر شام کو شہر جا کر بیچ آتا تھا اس سے اس کے
گھر کی دال روٹی بھی بہت مشکل سے چلتی تھی ۔
ایک مرتبہ پورے ملک میں زبردست قسم کا قہد پڑ گیا انسان جانور سب بھوک سے مرنے لگے اس حالت
میں روزانہ کی روٹی چلنے بھی ناممکن ہو گئی ایک رات لکڑہارا لیٹا ہوا سوچ رہا تھا کہ ہمارا کیا بنے گا وہ اس
صورتحال سے سخت پریشان تھا اسے اپنی تو کوئی فکر نہ تھی مگر بچوں کی فکر اسے کھائے جا رہی تھی اس نے
دکھ سے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور اپنی بیوی سے بولا اب آگے گاڑی کیسے چلی گئی ہم اپنے غریب بچوں
کا پیٹ کس طرح بھریں گے اب تو ہمارے پاس اپنے لیے ہی کچھ نہیں ہے اس کی بیوی جو اس کے بچوں
سے بہت جلتی تھی اور ان سے جان چھڑانے کے لیے موقع کی تلاش میں رہتی تھی فورا بولی کل صبح صبح ہم
بچوں کو دور گھنے جنگل میں لے جائیں گے وہاں کچھ لکڑیاں جمع کر کے ان کے لیے آگ جلا دیں گے۔
تاکہ جانور ان کے قریب نہ ائے اس کے بعد ان دونوں کو ایک ایک روٹی دے کر انہیں وہیں چھوڑ کر اپنے
کام پر چلے جائیں گے وہاں سے ہم واپس چپکے سے اپنے گھر چلے آئیں گے وہ دونوں کوشش بھی کریں گے تو
گھر کا راستہ تلاش نہیں کر سکتے اس طرح ہماری ان دونوں سے جان چھوٹ جائے گی لکڑہارا یہ سن کر
جلدی سے بولا نہیں نہیں میں یہ نہیں کر سکتا بھلا میرا دل یہ کس طرح گوارا کر سکتا ہے کہ میں اپنے
معصوم بچوں کو اکیلا جنگل میں چھوڑ دوں جنگلی جانور اور درندے ان کو چیر پھاڑ ڈالیں گے تو پھر ہم چاروں
فاقے کر کے ختم ہو جائیں گے تمہیں ہماری قبریں بنانے کے لیے بھی محنت کرنی پڑے گی ۔
اس کی بیوی نے جھنجھلا کر جواب دیا اس کے بعد وہ لکڑہانے سے برابر یہی کہتی رہی یہاں تک کہ وہ اس کی
بات ماننے کے لیے تیار ہو گیا مگر میرا دل بچوں کی یاد میں ہمیشہ تڑپتا رہے گا لکڑہارے نے بیوی سے کہا اُس
رات بچے خود بھی بھوک کی وجہ سے نہیں سو سکے تھے اور انہوں نے چپ کر اپنے ماں باپ کی باتیں سن
لی تھی یہ سن کر لڑکی جس کا نام رانی تھا بہت روئی اس نے اپنے بھائی راجہ سے کہا اب ہم اپنے ماں باپ کے
لیے بوجھ بن گئے ہیں وہ ہم سے جان چھڑانا چاہتے ہیں نہیں نہیں رانی راجہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تم
پریشان نہ ہو میں کوئی ترکیب سوچوں گا جب دونوں میاں بیوی سو گئے تو لڑکا یعنی راجہ اُٹھ کھڑا ہوا اس نے
اپنی چادر اڑی گھر کا پچھلا دروازہ کھولا اور آہستہ سے باہر نکل گیا باہر ہر طرف چاندنی پھیلی ہوئی تھی مکان
کے آگے پڑے ہوئے کنکر چاندی کے ٹکڑے معلوم ہو رہے تھے راجہ نے جھک کر بہت سے کنکر اٹھا کر
اپنی جیب میں بھر لیے پھر وہ گھر واپس ایا اور رانی سے کہنے لگا میری پیاری بہن اب تم بے فکر ہو کر سو جاؤ
اللہ ہماری مدد کرے گا یہ کہہ کر وہ بھی لیٹ کر سو گیا۔
دوسرے دن ابھی سورج صبح نہیں نکلا تھا کہ لکڑہارے کی بیوی دونوں بچوں کے پاس آئی اس نے بچوں کو
جگاتے ہوئے کہا چلو بچو جلدی سے کھڑے ہو جاؤ ہم سب آج لکڑیاں اکٹھی کرنے جنگل میں جائیں گے
اس نے ان دونوں کو روٹی کا ایک ایک ٹکڑا دیا اور کہا یہ تمہارے دوپہر کے کھانے کے لیے بھی ہے مگر
اس کو ابھی نہ کھا جانا ورنہ دوپہر کو کھانے کے لیے کچھ نہیں بچے گا رانی اس لڑکی نے خاموشی سے روٹی کے
وہ ٹکڑے لے لیے پھر وہ سب جنگل کی طرف چل پڑے تھوڑی دور چلنے کے بعد لڑکا یعنی راجہ کھڑا ہو گیا
اور مڑ کر اپنے مکان کی طرف دیکھنے لگا یہ حرکت اس نے کہیں بار کی اس کے باپ نے بھی اس کو بار بار
رک کر مکان کی طرف دیکھتے ہوئے پایا تو اس سے پوچھا راجہ کیا دیکھ رہے ہو بیٹا اور تم پیچھے کیوں رہ جاتے
ہو دھیان سے چلو۔
راجہ نے جواب دیا میں اپنے بلی کے بچے کو دیکھ رہا ہوں جو مکان کی چھت پر بیٹھا میری طرف دیکھ رہا ہے
اس کی سوتیلی ماں فورا ہی بول اٹھی ارے تم تو نرے ہی بدھو ہو وہ تمہارا بلی کا بچہ نہیں ہے وہ تو سورج ہے
جو چمنی کے اوپر چمک رہا ہے مگر دراصل راجہ بلی کے بچے کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا بلکہ وہ تو اپنی جیب سے
پتھر نکال نکال کر خاموشی سے گراتا چلا جا رہا تھا اور اس راستے کو ذہن نشین کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔
جب وہ بالکل بیچ جنگل میں پہنچ گئے تو لکڑہارا بولا بچو اب تم لوگ لکڑیاں جمع کرو میں یہاں آگ جلا دوں گا
راجہ اور رانی نے جھاڑیاں توڑ توڑ کر ایک کافی بڑا ڈھیر وہاں لگا دیا اس کے بعد لکڑہارے نے ان جھاڑیوں
کے ڈھیر میں آگ لگا دی جب شعلے اٹھنے لگے تو اس کی بیوی بولی بچوں اس آگ کے قریب ہی بیٹھ جاؤ اور
آرام کرو ہم لکڑیاں کاٹنے اندر جنگل میں جا رہے ہیں جب ہم کام سے فارغ ہو جائیں گے تو تم کو ساتھ لے
چلیں گے راجہ اور رانی دونوں الاؤ کے قریب بھی بیٹھ گئے دوپہر کو ان دونوں نے روٹی کے ٹکڑے کھا کر
سکون کا سانس لیا انہیں کلہاڑی کے چلنے کی آواز برابر اتی ائی وہ یہ سمجھ کر مطمئن تھے کہ ان کا باپ قریبی
لکڑیاں کاٹ رہا ہے مگر حقیقت میں وہ کلہاڑی کی آواز نہیں تھی بلکہ ایک پرانے درخت کی شاخیں آپس
میں ٹکرا رہی تھیں وہ کافی دیر تک اسی طرح بیٹھے اپنے باپ کا انتظار کرتے رہے تھکن سے ان کی آنکھیں
بند ہونے لگی اور وہ دونوں گہری نیند سو گئے جب وہ جاگے تو ہلکا ہلکا اندھیرا پھیل چکا تھا لڑکی یعنی رانی روتے
ہوئے بولی اب ہمیں اس جنگل سے کبھی نہیں نکل سکیں گے راجہ نے اسے اطمینان دلایا تھوڑی دیر انتظار
کرو ذرا چاند نکلنے دو اس کی روشنی میں ہم اپنے گھر کا راستہ تلاش کر لیں گے جب پورا چاند نکل ایا تو راجہ نے
اپنی بہن کا ہاتھ پکڑا اور انہی پتھروں کے سہارے چلتا رہا جو چاندنی میں چمک رہے تھے۔
یہ وہی پتھر تھے جو وہ راستے میں پھینکتا چلا ایا تھا وہ دونوں پوری رات چلتے رہے اور جب صبح کی پہلی کرن
نمودار ہوئی تو وہ ایک بار پھر اپنے گھر کے سامنے کھڑے تھے انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا ان کی سوتیلی ماں
نے دروازہ کھولا تو ان دونوں کو دیکھ کر حیرت سے اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا پھر اس نے غصے کا اظہار کرتے
ہوئے کہا تم بہت لاپرواہ اور شریر بچے ہو اتنی دیر تک تم جنگل میں سوتے رہے ہم تو سمجھے تھے کہ تم اب کمی
لوٹ کر نہیں اؤ گے مگر جب لکڑہارے نے اپنے بچوں کو دیکھا تھا وہ خوشی سے کھل اٹھا دونوں معصوموں
کو اس طرح جنگل میں اکیلے چھوڑ کر چلے انے پر وہ بہت غمگین اور دکھی تھا ۔
زندگی کی گاڑی چلتی رہی کچھ ہی عرصے کے بعد پھر قہد پڑا لوگ بھوک سے مرنے لگے بچوں نے ایک بار
پھر اپنی سوتیلی ماں کی بات سن لی جو کہہ رہی تھی ہم ہر چیز کھا چکے ہیں اب ہمارے پاس صرف آدھی روٹی
ہے اس بار ہم ان دونوں بچوں کو جنگل میں بہت دور اور گھنے علاقے میں چھوڑ کر ائیں گے تاکہ یہ دوبارہ
واپس نہ ا سکے یہ سن کر لکڑہارا بہت پریشان ہوا مگر اخر اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا جب دونوں میاں
بیوی سو گئے تو راجہ ایک بار پھر باہر کی طرف چلا تاکہ وہاں سے سفید کنکریاں لے آئے یہ سفید کنکریاں
ہی تھی جن کی وجہ سے وہ پچھلی باہر اپنے گھر واپس پہنچ گئے تھے مگر یہ دیکھ کر وہ ٹھٹک گیا کہ دروازے میں
تالا لگا ہوا ہے باہر جانے کا کوئی اور راستہ نہ تھا پھر بھی اس نے اپنی چھوٹی بہن کو تسلی دی اور کہا رانی رو نہیں
اللہ ہمیں ہر حال میں بچا لے گا دوسرے دن بالکل صبح کے وقت لکڑہانے کی بیوی نے بچوں کو جگا دیا اس بار
بھی اس نے انہیں روٹی کے دو ٹکڑے دیے مگر یہ ٹکڑے پچھلی وار سے بہت چھوٹے تھے جب وہ لوگ
جنگل کی طرف چلے تو راجہ جیب میں ہاتھ ڈال کر روٹی کے ٹکڑوں کا چورا بناتا رہا اور تھوڑے تھوڑے
فاصلے پر رک کر انہیں زمین پر گراتا گیا راجہ تم بار بار رک کر کیا کر رہے ہو تمہارا دھیان کدھر ہے اس کے
باپ نے پوچھا میں اپنے کبوتر کو دیکھ رہا ہوں جو چھت پر بیٹھا ہوا مجھے دیکھ رہا ہے راجہ نے جواب دیا اس
کے سوتیلی ماں نے کہا وہ تمہارا کبوتر نہیں ہے یہ تو سورج کی کرنیں ہیں جن سے چمنی چمک رہی ہے مگر
راجہ تو تھوڑے تھوڑے فاصلے پر روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے گراتا چلا گیا اس بار وہ جنگل میں اتنی
دور اور اس حصے میں آئے تھے جہاں اس سے پہلے خود لکڑہارا بھی نہیں آیا تھا ایک بار پھر الاؤ روشن کیا گیا
سوتیلی ماں کہنے لگی بچوں اب آرام سے یہاں بیٹھ جاؤ اگر تھک گئے ہو تو تم سو بھی سکتے ہو ہم جنگل میں اندر
لکڑیاں کاٹنے جا رہے ہیں شام کو ہماری واپسی ہوگی تو تم کو ساتھ لے چلیں گے دوپہر کو رانی نے اپنی روٹی
کے دو ٹکڑے لیے ایک خود کھایا اور دوسرا اپنے بھائی راجہ کو دے دیا راجہ تو پہلے ہی اپنے حصے کے ٹکڑے
ان کا چورا کر کے راستے میں پھینک آیا تھا تاکہ ان کی مدد سے واپسی کا راستہ تلاش کر لے اس کے بعد
دونوں بہن بھائی سو گئے۔
شام ہو گئی مگر ان غریب بچوں کو لینے کے لیے کوئی نہیں آیا شام کا دھن کا پھیلتے ہی وہ جاگ گئے راجہ نے
اپنی بہن کو تسلی دیتے ہوئے کہا رانی جان نکلنے کا انتظار کرو اس کی روشنی میں مجھے روٹی کے وہ ٹکڑے نظر آ
جائیں گے جب جان نکلا تو انہیں کہیں بھی روٹی کا کوئی ٹکڑا نہیں ملا کیونکہ چڑیاں انہیں چگ گئی تھیں راجہ
نے یہ دیکھ کر کہا رانی فکر کی کوئی بات نہیں ہے ہم جلدی راستہ تلاش کر لیں گے وہ پوری رات اور اگلے
پورے دن صبح سے شام تک جنگل میں سر ٹکراتے پھرے مگر انہیں اس جنگل سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ
نہیں ملا بھوک سے ان کا برا حال تھا انہوں نے چند بیروں کے علاوہ اور کچھ نہیں کھایا تھا وہ بیر بھی انہیں
جھاڑیوں میں مل گئے تھے تھا کارکر وہ دونوں ایک پیڑ کے نیچے بیٹھ گئے اور بیٹھتے ہی گہری نیند سو گئے۔
تیسرے دن ان کی حالت بہت خراب ہو گئی وہ دونوں سوچ رہے تھے کہ اگر اب بھی ہمیں کھانے کو کچھ
نہ ملا تو ہم مر جائیں گے دوپہر کو ان کی نگاہ ایک پرندے پر پڑی جو درخت کی شاخ پر بیٹھا ہوا بڑی سریلی
آواز میں گانا گا رہا تھا اس کا رنگ برف جیسا سفید تھا دیکھنے میں وہ بالکل روئی کا گالا معلوم ہو رہا تھا وہ اتنی
آچھی آواز میں اتنا پیارا گانا گا رہا تھا کہ راجہ اور رانی رک کر اس کا گانا سننے لگے جب اس کا گانا ختم ہو گیا تو اس
نے اپنے پر بھر بھرآئے اور ان کے آگے اڑنے لگا دونوں بہن بھائی اس کے پیچھے پیچھے چل پڑے ایسا لگ
رہا تھا جیسے وہ ان کو اپنے پیچھے انے کا اشارہ کر رہا ہو وہ اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے ایک چھوٹے سے مکان
کے پاس جا پہنچے اس کی چھت ڈھلوان تھی جب وہ اس کے بالکل قریب پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ وہ
مکان ڈبل روٹی کا بنا ہوا تھا اس کی چھت بھی روٹی سے بنائی گئی تھی اور کھڑکیاں شیشے جیسی شفاف چینی
سے بنی ہوئی تھی۔
راجہ نے جب یہ دیکھ کر خوشی سے تالیاں بجاتے ہوئے کہا اب ہماری سب پریشانی دور ہو جائے گی ہم
یہاں ہر روز بغیر کسی محنت کے اپنا پیٹ بھر سکتے ہیں یہ کہہ کر راجہ نے ہاتھ بڑھا کر تھوڑی سی چھت توڑ لی
تاکہ اسے کھا کر دیکھ سکے کہ واقعی یہ روٹی ہے یا کچھ اور ہے رانی کھڑکیوں کے پاس گئی اور اس نے ان کے
فریم کو چوسنا شروع کر دیا اسی وقت ایک لرزتی ہوئی آواز انہیں سنائی دی جوستا ہے یہ کون شیطان میرا یہ
چھوٹا سا مکان تو بچوں نے یہ جواب دیا جنت ہے یہ بچوں کی غریبوں کی کمزوروں کی یہ کہہ کر بچے روٹی
کھانے میں مصروف ہو گئے وہ کئی دن کے بھوکے بھی تو تھے اسی وقت دروازہ کھلا اور ایک بہت ہی بوڑھی
اور کمزور عورت جس کی کمر جھکی ہوئی تھی لاٹھی ٹیکتے مکان سے باہر نکلی وہ بہت مشکل سے چل رہی تھی
اس کو دیکھ کر بچے اتنے خوفزدہ ہوئے کہ ان کے ہاتھ سے روٹی کے ٹکڑے چھوٹ کر زمین پر گر پڑے یہ
دیکھ کر بوڑھی عورت نے بڑے پیار سے کہا ارے ننھے منے بچوں ڈرو نہیں اندر آ جاؤ میں تمہیں ڈھیر
ساری چیزیں کھانے کو دوں گی وہ ان دونوں کو بڑے پیار سے اندر لے گئی اور اس نے ان کے اگے
ڈھیروں مزے مزے کی چیزیں لا کر رکھ دیں۔
جو راجہ اور رانی نے خوب مزے لے کر کھائی جب وہ کھا چکے تو بوڑھی عورت نے ان کے سونے کے لیے
انہیں دو بہت ہی خوبصورت اور چھوٹے پلنگ دیے جن پر سفید چادریں بچھی ہوئی تھیں جب دونوں بہن
بھائی اپنے بستروں پر لیٹے تو انہیں بہت آرام ملا ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ جنت میں آگئے ہوں بوڑھی عورت
ان بچوں سے یوں تو بہت محبت کا برتاؤ کر رہی تھی لیکن حقیقت میں وہ ایک جادوگرنی تھی جو بھولے بھٹکے
مسافروں کو اسی طرح دھوکے سے اپنے گھر میں بلاتی تھی اور ان کی خوب خاطر تواضع کرتی تھی اور بعد
میں انہیں پکا کر کھا جاتی تھی جب رانی اور راجہ اپنے بستروں پر لیٹ کر سو گئے تو بوڑھی جادوگرنی نے زور
سے کہکا مارا اس کے منہ میں پانی بھریا تھا وہ چٹخارہ لیتے ہوئے بولی اب یہ میرے قابو میں ہے مجھ سے بچ کر
کہیں نہیں بھاگ سکتے دوسرے دن صبح کے وقت ابھی بچے جاگے بھی نہیں تھے کہ بڑھیا اُٹھ گئیں اس
نے ان دونوں کو دیکھا وہ ابھی تک سو رہے تھے سوتے میں وہ دونوں بہن بھائی بڑے معصوم لگ رہے تھے
اچھے غذا ملنے سے ان کے ایک گلابی گلابی کال چمک رہے تھے انہیں دیکھ کر بوڑھی جادوگرنی پر بڑھائی ان
کا گوشت تو بڑا مزیدار ہوگا ۔
پھر اس نے راجہ کو اس طرح اپنے بازوں میں اٹھا لیا جیسے وہ کوئی بہت ہی طاقتور عورت ہو اس وقت اس
کے جھکی ہوئی قبر بھی سیدھی ہو گئی تھی وہ بوڑھی اور کمزور معلوم نہیں ہو رہی تھی راجہ کو لے کر وہ باہر ائی
اور گھر کے برابر ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گئی وہ کمرہ کیا تھا ایک پنجرا تھا راجہ کو اندر فرش پر ڈال کر
اس نے باہر سے کنڈی لگا دی وہ چاہے کتنا ہی چیختا چلا تھا مگر اس کی آواز سننے والا وہاں کوئی نہ تھا اب بوڑھی
عورت رانی کے پاس آئی جو ابھی تک سو رہی تھی اسے معلوم بھی نہ تھا کہ اس کا بھائی کمرے میں اس کے
ساتھ نہیں ہے بڑھیا نے رانی کو زور سے جھنجوڑ ڈالا رانی ہڑبڑا کر اٹھ گئی وہ انکھیں پھاڑے بوڑھی عورت
کو دیکھ رہی تھی جس کی انکھوں میں اب محبت کے بجائے نفرت تھی اس نے چیختے ہوئے رانی سے کہا اٹھ
سست اور کاہل لڑکی چل پانی لے کر ا اور اپنے بھائی کے لیے کچھ پکا کر دے جب وہ کھا پی کر خوب موٹا تازہ
ہو جائے گا تب میں اسے کھا جاؤں گی رانی نے جب یہ سنا تو وہ چیخیں مار مار کر رونے لگی مگر رونے دھونے کا
کوئی فائدہ نہ تھا رانی کو اب وہی کرنا تھا جو بڑھیا چاہتی تھی۔
غریب راجہ کے لیے بہت عمدہ کھانا پکایا جاتا مگر رانی کو بچا کچا باسی کھانے کو ملتا تھا ہر سو وہ بوڑھی جادوگرنی
اور راجہ کے پنجرے کے پاس جا کر چلا دی راجہ اپنی انگلی باہر نکالو تاکہ میں اس کو پکڑ کر اندازہ لگا سکوں کہ
تم کتنے موٹے ہو گئے ہو اس کے جواب میں راجہ روزانہ اس کو ایک ہڈی تھمانے تھا بوڑھی جادوگرنی جس
کی نگاہ بہت کمزور تھی اس کو دیکھ نہیں پاتی تھی کہ یہ راجہ کی انگلی ہے یا کچھ اور ہے وہ روزانہ ہڈی کو پکڑتی
اور سوچتی کہ پتہ نہیں کیا بات ہے میں تو اس لڑکے کو اتنا عمدہ کھانا کھلاتی ہوں پھر بھی یہ موٹا کیوں نہیں
ہوتا اسی طرح چار ہفتے گزر گئے شانی ابھی تک ویسا ہی دبلا بدلا تھا بڑھیا سے اب صبر بھی نہیں ہو رہا تھا اس
نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب چاہے کچھ بھی ہو جائے میں اس لڑکے کو ضرور کھا جاؤں گی اس نے رانی کو اواز
دی اے لڑکی ذرا جلدی سے کچھ پانی لے کر ا راجہ چاہے موٹا ہو یا دبلا میں اس کو کل پکا کر کھا جاؤں گی
غریب رانی کی حالت قابل رحم تھی وہ سسکیوں سے رو رہی تھی اور پانی بھر بھر کر لا رہی تھی اس کا چہرہ
آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا اس نے روتے روتے کہا اے اللہ تو ہماری مدد کر اس سے تو اچھا تھا کہ ہمیں جنگل
میں درندے چیر پھاڑ کر کھا جاتے اس سے کم از کم ہم دونوں ایک ساتھ تو مر جاتے بند کرو یہ رونا دھونا اب
اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے جادوگر نی سختی سے بولی۔
دوسرے دن صبح کو رانی باہر ائی اس نے پانی سے بھری دیچکی دو باسوں میں لٹکا دی اور اس کے نیچے اگ
جلا دی بڑھیا نے اس سے کہا پہلے ہم اس کو بھونیں گے میں نے تنور تیار کر لیا ہے اور آٹا بھی گوند لیا ہے پھر
اس نے رانی کو تندور کی طرف دھکا دیا جس میں سے آگ کے سرخ سرخ شولے اٹھ رہے تھے بوڑھی
جادوگرنی نورانی سے کہا جا کر دیکھ کے تندور صحیح طرح گرم ہو گیا ہے یا نہیں تاکہ میں روٹی پکاؤں اصل
میں وہ بڑھیا غریب رانی کو تندور کے پاس اس لیے بھیج رہی تھی تاکہ وہ چلاکی سے اس کو آگ میں پھینک
دے اور اس لڑکی کو بھی کھا جائے مگر رانی اس کی چالاکی کو سمجھ گئی تھی اس نے انجان بنتے ہوئے کہا مجھے تو
معلوم نہیں کہ یہ کس طرح دیکھا جاتا ہے کہ تنور گرم ہوا ہے یا نہیں میں کس طرح دیکھوں ارے بے
وقوف لڑکی تو بہت کام چور ہے اس تنور کا منہ کافی بڑا ہے اتنا بڑا کہ میں اپنا سر اس کے اندر داخل کر سکتی
ہوں یہ کہہ کر اس نے اپنا سر تندور کے اندر داخل کیا ہی تھا کہ رانی نے پوری طاقت سے اس کو تندور کے
اندر دھکیل دیا اور لوہے کے ڈھکن سے تنور کا منہ ڈھک دیا بڑھیا کی دردناک چیخوں سے سارا جنگل گونج
اٹھا وہ بری طرح چیخ رہی تھی ایک بار تو اس کی آوازوں سے رانی بھی ڈر گئی پھر اس نے اپنے کانوں میں
انگلیاں ٹھوسلی اور بھاگتی اس طرف ائیں جہاں راجہ کہتا اس نے راجہ کے پنجرے کا دروازہ کھلا اور چلا کر
بولی راجہ راجہ ہم آزاد ہو گئے ہیں بوڑھی جادوگرنی جل کر مر چکی ہے۔
دروازہ کھلتے ہی راجہ اس طرح باہر نکلا جس طرح پرندے اپنے پنجرے سے نکلتے ہیں دونوں بھائی بہن
خوشی سے خوب اُچھلے کو دیں اب انہیں اس جنگل میں کسی کا ڈالنا تھا وہ بے دھڑک بوڑھی جادوگرنی کے
مکان کے اندر چلے گئے وہاں ایک کمرے میں انہوں نے بہت سے صندوق دیکھے ان صندوقوں میں
ہیرے جواہرات اور اشرفیاں بھری ہوئی تھی راجہ نے اپنی سب جیبیں ان سے بھر لی رانی نے بھی جتنے
جواہرات وہ لے سکتی تھی لے لیے تھوڑی دیر بعد راجہ نے کہا اب ہمیں اس جادو کے مکان سے باہر نکلنا
چاہیے کئی گھنٹے تک جنگل میں بھٹکنے کے بعد ہوئے کہ جھیل کے کنارے پہنچے اب ہم اس کے پار کیسے
جائیں گے راجہ نے کہا مجھے تو اس کے باہر جانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا یہاں کوئی کشتی بھی نہیں ہے رانی
نے کہا لیکن دیکھو سامنے جھیل میں ایک بہت بڑا شتر مرغ کھڑا ہے میں اس سے کہتی ہوں کہ ہماری مدد
کریں وہ اس کے پاس گئی اور بولی پیارے شتر مرغ ہم بہن بھائی بڑی مصیبت میں ہیں ہمیں جھیل کو پار کر
کے اپنے گھر جانا چاہتے ہیں تم ہم پر مہربانی کرو ہمیں اپنے اوپر بٹھا کر جھیل کے دوسری طرف اتار دو شتر
مرغ ان کے پاس ایا اور راجہ اس کی کمر پر بیٹھ گیا اور اس نے اپنے برابر میں اپنی چھوٹی بہن کو بھی بٹھا لیا مگر
رانی بولی نہیں بھائی ہم دونوں اگر اس چتر مرغ پر بیٹھ گئے تو ہمارا وزن زیادہ ہو جائے گا اس کو بڑی پریشانی
ہوگی ہم دونوں الگ الگ اس کی پیٹھ پر بیٹھ کر جائیں گے شتر مرغ نے ایسا ہی کیا وہ جھیل کے دوسرے
کنارے پر پہنچ کر آگے بڑھے تو انہیں جنگل کچھ جانا پہچانا سا لگا کچھ اور اگے بڑھ کر انہیں دور سے اپنا مکان
نظر اگیا اس کو دیکھتے ہی ان میں جان اگئی اور دونوں بھاگتے ہوئے اپنے مکان میں داخل ہو گئے ان کے
بچوں کو زندہ سلامت دیکھا تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا جب سے وہ اپنے معصوم بچوں کو جنگل میں اکیلا
چھوڑ کر آیا تھا اسے چین نہیں آتا تھا وہ ہر وقت اپنے بچوں کی یاد میں غمزدہ رہتا روتا رہتا اس کی بیوی جو ان
بچوں کی سوتیلی ماں تھی وہ بھی بیمار ہو کر مر چکی تھی راجہ اور رانی نے اپنے باپ کے آگے ہیرے جوانات
کا ڈھیر لگا دیا جو وہ بوڑھی جادوگرنی کے مکان سے لے کر ائے تھے اس طرح ان کی پریشانیاں ہمیشہ کے
لیے ختم ہو گئی سوتیلی ماں سے بھی جان چھوٹ گئی وہ خود ہی اپنے گناہوں سے گہرے الہی کا شکار ہو گئی اور
وہ اپنے باپ کے ساتھ خوش و خرم زندگی بسر کرنے لگے۔
کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔
اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔
اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔
بچوں کی کہانیاں ، سبق آموز کہانیاں ، نانی اماں کی کہانیاں