Bhikaari Aur Shagird Ka Ajeeb Qissa

Bhikaari Aur Shagird

پورانے زمانے کا ذکر ہے کسی گاؤں میں ایک بھکاری رہتا تھا وہ بھیک مانگنے میں تو ماہر تھا ہی ویسے بھی بہت

عقلمند تھا اس کا ایک شاگرد تھا جو بالکل بے وقوف تھا بھیک مانگنے کا طریقہ اس نے اپنے استاد سے ہی سیکھا

تھا دونوں کا اس دنیا میں کوئی عزیز رشتہ دار نہیں تھا اس لیے دونوں ساتھ ہی رہتے تھے دونوں ایک

دوسرے کے غم اور دکھ میں برابر کے شریک تھے اور ایک دوسرے کی خوشیوں کے ساتھی بھی تھے

بھکاری اب بہت بوڑھا ہو چکا تھا جبکہ اس کا شاگرد بالکل نوجوان تھا۔

 ایک دن خدا کا کرنا کیا ہوا کہ اس گاؤں کو سیلاب نے اپنی لپیٹ میں لے لیا سارے گاؤں کے مکان کچے

تھے وہ سیلاب میں بہ گئے ان دونوں کا مکان بھی نہ بچا سارا کا سارا گاؤں درہم برہم ہو گیا انہوں نے بھی

گاؤں چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا ایک روز صبح دونوں اپنے گاؤں کو خیرباد کہہ کر باہر نکل آئے انہوں نے

گاؤں کو آخری مرتبہ دیکھا تو ان کی انکھوں میں آنسو بھرے اس گاؤں میں انہوں نے زندگی کے نہ جانے

کتنے دن گزارے تھے گاؤں سے رخصت ہو کر وہ ناک کی صحت میں چل پڑے دونوں آپس میں ادھر

ادھر کی باتیں بھی کر رہے تھے چلتے چلتے سورج غروب ہونے ہی والا تھا کہ انہیں ایک شہر کے اثار دکھائی

دینے لگے مبارک ہو استاد آخر ہم ایک شہر تک پہنچ ہی گئے شاگرد نے کہا خدا کا شکر ہے بوڑھے کے منہ

سے نکلا دونوں تیز تیز قدم اُٹھانے لگے وہ سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے شہر میں پہنچ جانا چاہتے تھے تاکہ کچھ

کھانے پینے کو مل جائے دونوں ٹھیک اس وقت شہر میں داخل ہوئے جب سورج غروب ہو رہا تھا ۔

استاد مجھ میں تو اب ایک قدم بھی اٹھانے کی ہمت نہیں ہے خدا کے لیے کچھ کھانے کا بندوبست کرو شاگرد

نے بے دم ہو کر گرنے کے بعد کہا اُستاد کہنے لگا اچھا تم یہیں ٹھہرو میں کسی گھر سے کچھ لاتا ہوں بوڑھے

نے کہا اور چلا گیا جلد ہی وہ کچھ روٹیاں اور دال لے آیا دونوں نے صبر شکر سے انہیں کھایا کنویں سے پانی پیا

اور ایک درخت کے نیچے لیٹ کر سو گئے صبح ہوئی تو انہوں نے بھیک مانگنے کا باقاعدہ منصوبہ بنایا دونوں

کے دونوں نکل کھڑے ہوئے اور سارا دن بیگ مانگتے پھرے شام ہوئی تو اپنے ٹھکانے پر لوٹ آئے یہ

ایک گھنا درخت تھا رات بھی وہ اسی کے نیچے سوئے تھے یہاں پہنچ کر بوڑھے نے کہا اب ہمارے پاس

کچھ پیسے جمع ہو گئے ہیں تم یوں کرو کہ بازار سے ضرورت کی چیزیں لے آؤں ہم جنگل میں ایک جھونپڑی

ڈال لیں گے اور وہیں کھانا پکایا کریں گے اور وہیں زندگی کے دن گزاریں گے۔

 شاگرد نے خوش ہو کر کہا اچھا استاد میں ابھی لاتا ہوں اور پیسے لے کر چلا گیا شاگرد بازار پہنچا تو اس نے سوچا

تھوڑی سی مٹھائی بھی خرید لو تین چار دن سے کوئی میٹھی چیز نہیں کھائی یہ سوچ کر وہ ایک سیدھا مٹھائی کی

دکان پر گیا بازار بہت بارونق تھا اور اس میں خوب چہل پہل تھی مٹھائی کی دکان پر طرح طرح کی مٹھائیاں

سجی ہوئی تھیں اس نے پوچھا بھائی صاحب لڈو کیابھاؤ ہیں ٹکاسیر دکاندار نے کہا کیا کہا ٹکاسیر شاگرد نے

حیران ہو کر کہا ہاں ٹکے سیر اور برفی کیا بھاؤ ہے ہر چیز ٹکے سیر ہے اچھا تو ملا جلا کر ایک سیر دے دو اس نے

خوش ہو کر کہا۔

 مٹھائی والے نے ساری مٹھائیاں ایک سیر تول دی شاگرد نے اسے ایک ٹکا تھما دیا اور سبزی والے کی دکان

پر آیا بھائی صاحب گوبھی کے بھاؤ ہے اس نے پوچھا کیسے دکاندار نے کہا اور الو کیا بھاؤ ہے شاگرد نے حیران

ہو کر کہا ہر چیز ٹکے سیرہےکیا شاگرد حیران رہ گیا اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر دوڑا گیا اپنے استاد کے پاس

اُستاد نے جو اسے اس طرح بھاگتے اور ہانپنے کانپ نے دیکھا تو پوچھا کیا بات ہے بھاگتے ہوئے کیوں آ رہے

ہو خیریت ہے اور یہ کیا تم صرف ایک لفافہ اٹھائے ہوئے ہو تمہیں تو کتنی چیزیں لانی تھی استاد

مزےآگئے شاگرد نے خوشی سے پھول کر کہا کیا ہوا بوڑھے نے پوچھا استاد اس شہر میں تو ہر چیز دو پیسے سیر

بکتی ہے یہ دیکھو یہ ایک سیرمٹھائی دو پیسے کی لایا ہوں۔

 یہاں ہر چیز ہی دو پیسے سیر ہے مٹھائی بھی گھی بھی دالیں بھی سبزی بھی غرض ہر چیز دو پیسے سیر یہاں تو

مزے آ جائیں گے خوب کھاؤ پیو استاد اب ہم ساری عمر یہیں رہیں گے استاد اس کی باتیں سن کر چپ رہ گیا

اس کے منہ سے کوئی لفظ بھی نہ نکلا کیا بات ہے استاد تمہیں خوشی نہیں ہوئی نہیں بیٹا مجھے یہ سن کر کوئی

خوشی نہیں ہوئی مگر کیوں استاد جی اب ہم اچھی اچھی چیزیں ٹکے سیر لے کر کھایا کریں گے نہ کچھ پکانے کی

ضرورت نہ مصیبت بھرنے کی بازار سے خرید کر کھا لیا کریں گے استاد نے فکر مند ہو کر کہا تم بے وقوف

ہو مرخ ہو یہاں رہنا ٹھیک نہیں ارے استاد یہ تم کیا کہہ رہے ہو میں تو یہاں سے ہرگز نہ جاؤں گا

اس سے زیادہ مزے بھلا اور کہاں آئیں گے۔

 بھلا کوئی ایسی جگہ بھی ہو سکتی ہے جہاں ہر چیز ٹکے سیر بکتی ہو اسی لیے تو کہ رہا  ہوں بیٹا کہ یہاں رہنا ٹھیک

نہیں ہے یہ اندھیر نگری ہے تم کچھ بھی کہو استاد میں اس جگہ کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گا اور اگر میں یہاں نہ

رہوں تو استاد نے پوچھا تو بھی میں یہیں رہوں گا استاد لیکن میں کہتا ہوں تم بھی نہیں جاؤ تو زندگی کے باقی

دن یہیں عیش و آرام سے گزریں گے نہیں میں یہاں نہیں رہ سکتا استاد بھی اپنی ضد پر ہٹ گیا تو پھر میں

اکیلا ہی چلا جاؤں گا استاد نے کہا۔

 تمہاری مرضی ہے استاد جانا چاہو تو چلے جاؤ یہ سن کر بوڑھے استاد کو بہت صدمہ ہوا اس نے اس شاگرد کو

اپنی اولاد کی طرح پالا تھا اور اس سے بہت محبت کرتا تھا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک دن اس کا شاگرد

اس سے ایسی بے رخی سے پیش آئے گا خیر دونوں نے مٹھائی کھائی اور پڑھ کر سو رہے صبح ہوئی تو استاد اٹھ

کھڑا ہوا کہاں چلے استاد شاگرد نے پوچھا میں نے کہا تھا نا کہ میں یہاں نہیں ٹھہر سکتا تو کیا ابھی اور اسی وقت

جا رہے ہو ہاں بیٹا مجھے یہاں رہنے سے خوف آتا ہے مان جاؤ استاد یہاں سے نہ جاؤ شاگرد نے کہا دنیا کے

تختے پر اتنا عیش کہیں نہیں کر سکو گے جتنا یہاں اور اگر تم جائے بغیر رہ ہی نہیں سکتے تو دو چار دن تو عیش

کرتے جاؤ نہیں میں صرف دن نکلنے تک ٹھہر گیا تھا اب ایک لمحہ بھی یہاں نہیں رکوں گا استاد نے کہا استاد

نے اپنا جھولا کندھے پر ڈالا اور شہر سے باہر جانے والی سڑک پر نکل گیا ٹھہرو استاد میں تمہیں شہر کے باہر

تک چھوڑاتا ہوں یہ کہہ کر شاگرد بھی اس کے پیچھے لپکا پھر دونوں ساتھ ساتھ قدم اٹھانے لگے شاگرد

کہنے لگا میں حیران استاد آخر تمہیں یہاں رہنے میں کیا ڈر ہے کیا خطرہ ہے ہمارا کام تو بھیک مانگنا ہے ہمیں

کسی سے کیا ڈرنا ہمیں کون نقصان پہنچا سکتا ہے۔

 استاد کہنے لگا اس وقت تم میری ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے لیکن ایک دن آئے گا جب تم میری یہ باتیں یاد

کرو گے اور کہو گے کہ کاش میں نے اپنے استاد کی باتیں مان لی ہوتی میں اب بھی تمہیں یہی کہتا ہوں

میرے ساتھ چلے چلو لالچ میں نہ آؤ ہرگز نہیں استاد میں اسی جگہ رہوں گا شاگرد نے کہا اچھا تو میری ایک

بات سن لو اگر کبھی تم مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ تو اپنے استاد کو ضرور دلی دل میں یاد کر لینا ہو سکتا ہے کہ

قدرت مجھے تمہاری مدد کے لیے بھیج دے تم یوں ہی فکر کر رہے ہو استاد شاگرد بولا مجھے یہاں کوئی تکلیف

نہیں ہوگی مجھ پر کوئی مصیبت نہیں ٹوٹے گی میں تمہیں آخری بار سمجھاتا ہوں بیٹا میرے ساتھ چلو استاد

نے مایوس ہو کر کہا اور میں اب بھی تمہیں آخری بار کہتا ہوں استاد کہ تم یہیں رہو شاگرد نے اٹل لہجے میں

کہا اس نے اپنے رہنے کے لیے گھاس پھوس کی ایک جھونپڑی بنا لی تھی اور اس میں مزے سے رہنے لگا

تھا۔

 اب وہ ہر فکر سے ازاد تھا صبح اٹھ کر بھیک مانگنے کے لیے نکل کھڑا ہوتا اور جو دو چار آنے ہاتھ لگتے اس کی

ضرورت سے کہیں زیادہ ہوتے کیونکہ ہر چیز ڈکے سیر مل جاتی تھی وہ مٹھائیاں گھی دودھ خشک میوے

پیٹ بھر بھر کر کھاتا اور اپنے استاد کو بے وقوف خیال کر کے خوب ہنستا اور کہتا کاش استاد یہاں سے نہ جاتا

استاد یہ بے وقوفی نہ کرتا اب اس سے کوئی کام نہ ہوتا تھا نہیں گئی دن بھیک مانگنے کی بھی نہ جاتا جھونپڑی

میں کھانے پینے کی چیزوں کا ڈھیر لگا رہتا وہ ان میں سے لے لے کر خوب کھاتا اور کہکے لگاتا ہر فکر سے آزاد

ہونے اور خوب کھانے اور کوئی محنت مشقت کا کام نہ کرنے کی وجہ سے اس کا جسم موٹا ہونے لگا وہ اپنے

موٹے ہوتے جسم کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا اور اور بھی زیادہ کھاتا رفتہ رفتہ اس کا جسم پھولتا چلا گیا اور وہ

پھول کر اتنا کپا ہو گیا کہ اب اس نے چلا کوئی مشکل سے جاتا تھا۔

Bhikaari Aur Shagird

 جب پیسے ختم ہونے لگتے بازار میں جا کر کسی موڑ پر بیٹھ جاتا شہر کے لوگ اس کے موٹاپے پر ہنس کر اسے

کچھ نہ کچھ دے دیتے جن سے وہ پھر سیروں کے حساب سے چیزیں خرید کر جھونپڑی میں جمع کر لیتا اور

کھانے لگتا اب یہی اس کی زندگی تھی اور اس کا موٹاپہ روز بروز بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔

 اب اس ملک کے بادشاہ کا حال سنیے ایک ہی دن وہ اپنے تخت پر بیٹھا تھا دربار لگا ہوا تھا تمام درباری حاضر

تھے کہ اس کے سامنے ایک شخص کو پکڑ کر لایا گیا بادشاہ نے پوچھا یہ شخص کون ہے بادشاہ سلامت اس

شخص کو بازار سے پکڑ کر لایا گیا ہے یہ بازار میں کیا کر رہا تھا بادشاہ نے پوچھا بادشاہ سلامت اس نے ایک

شخص کی جیب کاٹی ہے بادشاہ نے اس سے پوچھا وہ کہاں ہے جس کی جیب کاٹی گئی ہے سپاہی بولا وہ باہر

موجود ہے بادشاہ نے کہا اسے پیش کرو اس شخص کو پیش کیا گیا بادشاہ نے اس سے پوچھا کیا اس شخص نے

تمہاری جیب کاٹی ہے اس نے خوش ہو کر کہا جی ہاں جناب تم نے اسے جیب کاٹنے ہی کیوں دی بادشاہ نے

غرا کر پوچھا جی وہ شخص گھبرا گیا تمہاری غفلت کی سزا تمہیں دی جائے گی جیب کترے کو چھوڑ دو کیونکہ یہ

تو لوگوں کو ہوشیار کرنے کا فرض انجام دے رہا تھا اور اسے پکڑ لو جس کی جیب کاٹی گئی ہے اس نے جیب

کٹنے ہی کیوں دی کل صبح اسے شہر کے چوراہے پر پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا بادشاہ کا حکم سنتے ہی جیب

کترے کو چھوڑ دیا گیا اور اس کی جیب کٹی تھی اسے پکڑ لیا گیا۔

دوسرے دن چوراہے پر دل دھرنے کی جگہ باقی نہ تھی اس بے گناہ شخص کو اور زنجیروں میں جکڑ کر

چوراہے تک لایا گیا وہ بیچارہ غریب تھر تھر کانپ رہا تھا ایک تو اس کی جیب کاٹی گئی اور اب ایک اسے پھانسی

پر چڑھایا جا رہا تھا لوگوں کی تعداد میں لمحہ با لمحہ اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا

 

آخر خدا خدا کر کے بادشاہ سلامت کی سواری ائی بادشاہ ایک اونچی جگہ پر کھڑا ہو گیا اور اس نے اشارہ کیا کہ

پھانسی اسے دے دی جائے جلاد آگے بڑھا اس نے پھندھا اس آدمی کی گردن میں ڈالا لیکن بندہ ڈھیلا تھا

اور وہ شخص بہت دبلا پتلا تھا جلال میں بھی اتنی عقل کہاں تھی کہ پھندے کی گرہ کو تنگ کر دیتا حیران اور

پریشان کبھی پھندے اور کبھی اس آدمی کی گردن کو دیکھنے لگتا کیا بات ہے تم اسے پھانسی کیوں نہیں دیتے

بادشاہ نے غصے کے عالم میں کہا عالم پناہ پھانسی کا پھندہ اس شخص کی گردن میں فٹ نہیں ہوتا بندہ بہت ڈیلا

ہے اور یہ شخص بہت دبلا پتلا ہے اب میں اسے پھانسی دوں تو کیسے دوں بادشاہ نے یہ سنا تو سوچ میں ڈوب

گیا اس کے وزیر اور امیر بھی پریشان ہو گئے سب مل کر سوچنے لگے کہ پھانسی کیسے دی جائے لیکن کسی کی

سمجھ میں نہیں آیا کہ پھندے کی گرہ کو تنگ کر کے پھانسی دی جا سکتی ہے۔

 جب کسی کی سمجھ میں کچھ نہ ایا تو بادشاہ خوش ہو کر بولا تم سب بالکل بےوقوف ہو گدھے ہو جو اتنی سی

بات بھی نہیں سوچ سکتے اگر اس شخص کی گردن میں پھانسی کا پھندہ نہیں آتا تو اسے چھوڑ دو اور شہر میں

جس کی گردن میں یہ پھندہ فٹ ا جائے اسے پھانسی دے دو لیکن پھانسی دینے سے پہلے ہمیں ضرور اطلاع

دے دی جائے کیونکہ ہم یہ تماشہ اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں بادشاہ کا حکم سن کر سب لوگ اس کی

عقلمندی کی داد دیے بغیر نہ رہ سکے اس نے کتنی شاندار ترکیب بتائی ہے اور وہ سب کتنے بے وقوف ہیں کہ

اتنی سی بات بھی نہ سمجھ سکے بندہ اتار کر سپاہیوں کو دیا گیا اور وہ ایسے شخص کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے

جس کی گردن میں پھندہ فٹا سکے سب سے پہلے وہ ایک موٹے حلوائی کے پاس پہنچے انہوں نے سوچا یہ

شخص کافی موٹا ہے اس لیے امید ہے کہ اس کی گردن میں پھندہ فٹ آ جائے گا انہوں نے اسے کہا نیچے

اترو الوائی سرکاری ادمیوں کو دیکھ کر بہت گھبرایا مگر مرتا بیچارہ کیا نہ کرتا نیچے اتر آیا سپاہیوں نے بندھا اس

کی گردن میں ڈال کر دیکھا لیکن وہ بہت ڈیلا تھا انہوں نے مایوس ہو کر پھندہ اس کی گردن سے نکال لیا اور

بولے جاؤ تم پھانسی کے لائق نہیں تمہاری گردن اتنی موٹی نہیں ہے جتنا کہ یہ پھندہ اسی طرح وہ لوگوں

کے گلے میں پھندہ ڈال ڈال کر دیکھتے رہے لیکن بندہ چونکہ بہت ڈھیلا تھا اس لیے کسی کی گردن میں فٹ

ہی نہیں آتا تھا اچانک سپاہیوں کو ایک بہت ہی موٹا آدمی نظر آیا اسے دیکھ کر خوش ہوئے اور اس کی طرف

بڑھنے لگے وہ شخص ایک مٹھائی کی دکان پر کھڑا تھا۔

Bhikaari Aur Shagird

 شاگرد تین چار دن سے بازار نہیں گیا تھا جھونپڑی میں بڑی کھانے کی چیزیں ختم ہو گئی تھیں اور اس کے

پاس پیسے بھی نہیں بچے تھے اس لیے وہ بازار کی طرف چل پڑا راستے میں بھیک بھی مانگتا گیا بازار پر پہنچتے

پہنچتے اس کو تین چار آنے بھی مل چکی تھی اس لیے وہ سب سے پہلے ایک مٹھائی کی دکان پر گیا اور اس سے

پانچ سیر مٹھائی تولنے کے لیے کہا حلوائی مٹھائی تولنے لگا اچانک اس کے ہاتھ سے ترازو چھوٹ کر نیچے گر

پڑا کیا بات ہے کیا تمہارے ہاتھوں میں جان نہیں جو مٹھائی نہیں تول رہے شاگرد نے غصے سے کہا وہ وہ آ

رہے ہیں مٹھائی والے نے خوفزدہ ہو کر کہا کون ا رہے ہیں تم اس قدر ڈرے ہوئے کیوں ہو شاگرد نے

حیران ہو کر پوچھا اتنے میں سپاہی پھندہ لیے ہوئے وہاں پہنچ گئے ان کو شاگردی نظر آیا تھا جسے دیکھ کر وہ

بہت خوش ہوئے تھے پہلوان ذرا اپنی گردن تو ادھر لانا ایک سپاہی نے مسکرا کر کہا کیوں کیا بات ہے

شاگرد نے حیران ہو کر کہا ایک شخص کو پھانسی دی جانے والی تھی لیکن یہ پھندہ اس کے گلے میں نہیں آیا

اس لیے ہمارے بادشاہ سلامت نے حکم دیا ہے کہ جس شخص کی گردن میں یہ بندہ فٹ آجائے اسے

پھانسی پر چڑھا دو اب صبح سے کسی ایسے آدمی کی تلاش میں ہیں لیکن ابھی تک کوئی ایسا ادمی ملا نہیں جس

کے گردن میں یہ پھندھا فٹ آ جائے اب تم نظر ائے ہو امید ہے کہ تمہاری گردن میں یہ پھندہ ضرور فٹا

جائے گا ارے مگر یہ کیا انصاف ہے شاگرد نے چلا کر کہا یہ ہمارے ہمارے بادشاہ سلامت کا انصاف ہے

اس کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھا سکتا یہاں ہر چیز ڈٹے سیر اس کے حکم سے بکتی ہے سپاہی نے کہا اور اس

نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا شاگرد کو جکڑ لیا گیا پھانسی کا پھندا اس کے گلے میں ڈالا گیا تو وہ بالکل فٹ آیا

سپاہی دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ ہمیں ہمارا مطلوبہ آدمی مل گیا اور اسے قید خانے کی طرف لے چلے اب

شاگرد کو معلوم ہوا کہ اس کے استاد یہاں رہنے سے کیوں ڈرتا تھا۔

 لیکن اب پچھتانے سے کیا حاصل ہو سکتا تھا اسے قید خانے میں ڈال کر بادشاہ کو یہ خوشخبری سنا دی گئی کہ

ایسا شخص بادشاہ سلامت مل چکا ہے جس کے گلے میں پھانسی کا پھندا فٹ آ گیا ہے بادشاہ اس خبر کو سن کر

بہت ہوش ہوا اس نے اسی وقت حکم دیا اسے کل شہر کے چوراہے پر پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا اس وقت

اسے ہم نے استاد کی باتیں بری طرح یاد آنے لگیں۔

 اب ادھر استاد کی سنیے وہ اس شہر سے نکلا تو بہت اداس تھا کیونکہ اس کا شاگرد اس شہر نے اسے چھین لیا تھا

وہ شہر شہر اور گاؤں گاؤں گھومتا پھرا بھیک مانگتا رہا اور جو رکھی سوکھی ملتی کھا کر سو رہا تھا خدا کو یاد کرتا اور

دن نکلنے پر پھر بھیک مانگنے نکل کھڑا ہوتا اس کی زندگی کے دن یوں ہی گزر رہے تھے کہ ایک دن اچانک

اسے اپنے شاگرد کا خیال آیا اس نے سوچا چل کر دیکھنا تو چاہیے کہ وہ کس حال میں ہے خیریت سے تو ہے

یہ سوچ کر اس نے اسی شہر کا رخ کیا جہاں پر شاگرد تھا سارا دن اور ساری رات چلتے رہنے کے بعد وہ شہر

میں داخل ہوا اور اس جگہ جا پہنچا جہاں اس نے شاگرد کے ساتھ قیام کیا تھا۔

 اس جگہ اس نے ایک جھونپڑی دیکھی لیکن اس کے اندر شاگرد وہاں موجود نہیں تھا وہ اسے ڈھونڈتا ہوا

شہر کے چوک کی طرف چل پڑا راستے میں اسے ہر کوئی شہر کے چوک کی طرف بڑھتا ہوا نظر آیا اس نے

ایک آدمی سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ آج ایک ادمی کو چوراہے پر پھانسی دی جائے گی استاد بھی

چوراہے کی طرف بڑھنے لگا ایک طرف سے اسے سات اٹھ سپاہی ایک بہت موٹے آدمی کو زنجیروں میں

جکڑے ہوئے لاتے دکھائی دیے استاد نے اس موٹے آدمی کو دیکھا تو پہچان نہ سکا جب وہ قریب ائے تو

شاگرد کی نظر اپنے استاد پر پڑی وہ چلا اٹھا استاد استاد کے کان کھڑے ہو گئے اب جو اس نے اس موٹے آدمی

کو غور سے دیکھا تو اسے پہچان لیا اور حیران ہو کر بولا یہ تم ہو ہاں استاد ارے تم اس حال کو کیسے پہنچے شاگرد

نے سارا ماجرہ کہہ سنایا استاد یہ سن کر سوچ میں پڑ گیا پھر شاگرد کے کان کے قریب منہ لے جا کر بولا اب

تمہیں موت کی سزا سے بچانے کی صرف ایک ہی ترکیب ہے شاگرد نے خوش ہو کر کہا وہ کیا ہے استاد استاد

کہنے لگا جب تمہیں پھانسی دی جانے لگے گی تو میں کہوں گا کہ پھانسی مجھے دے دو تم کہنا مجھے دو میں کچھ

سمجھا نہیں استاد شاگرد نے حیران ہو کر کہا میں نے تم سے جو کہا ہے وہی کرنا اگے تمہیں بچانا میرا کام ہے

بہت اچھا استاد شاگرد خوش ہو گیا۔

 وہ چلتے چلتے چوراہے تک پہنچ گئے شاگرد کو پھانسے کے تختے پر کھڑا کر دیا گیا پھانسی کا پھندا اس کی آنکھوں

کے سامنے جھل رہا تھا اسے دیکھ کر سہم گیا کہ کہیں اس کا استاد اسے بچانے میں ناکام نہ ہو جائے اور اس کی

جان چلی جائے آخر بادشاہ کی سواری اگئی لوگوں نے اسے دیکھ کر خوشی سے نعرے لگائے بادشاہ اپنے

مخصوص جگہ پر کھڑا ہو گیا اس نے ایک نظر سارے مجمع پر ڈالی اور بلند اواز میں کہنے لگا اے میری رعایا اے

میرے لوگو آخر کار بہت سی کوشش کے بعد ہمیں کیسے ادمی کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو ہی گئے جس کے

گلے میں پھانسی کا پنا فٹا گیا ہے اب میں حکم دیتا ہوں کہ اسے پھانسی دے دی جائے جلاد نے یہ سن کر پھانسی

کا پھندا ہاتھ میں پکڑا اور اسےشاگرد کی گردن میں پھنسانے لگا عین اسی وقت استاد زور سے چلایا ارے

ٹہرو اس کو پھانسی نہ دو بلکہ پھانسی مجھے دو سارے مجمع پر یہ سن کر سناٹا طاری ہو گیا جلاد کے ہاتھ رک گئے

بادشاہ چونک اٹھا سب مڑ مڑ کر استاد کی طرف دیکھنے لگے کہ یہ کون بےوقوف ہے جو کہہ رہا ہے کہ مجھے

پھانسی دو جو مجمع سے نکل کر پھانسی کے تختے کی طرف آ رہا تھا کون ہو تم اور تمہیں سرکاری کاموں میں

دخل دینے کی جرات کیسے ہوئی بادشاہ نے پوچھا استاد نے کہا بادشاہ سلامت اس کی جگہ مجھے پھانسی پر لٹکا

دیجیے نہیں بادشاہ سلامت یہ ظلم نہ کیجئے گا وہاں سے مجھے ہی دے شاگرد کہنے لگا ہرگز نہیں پھانسی مجھے دیں

استاد بولا ان کی تکرار جاری تھی اور سب لوگ حیران تھے آج تک انہوں نے اپنی زندگی میں کوئی ایسا ادمی

نہیں دیکھا تھا جو اپنے اپ کو پھانسی دلانے کے لیے ضد کرے اور یہاں تو ایسے دو ادمی موجود تھے بادشاہ

کی حیرت کبھی کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔

آخر اس نے چلا کر کہا اخر بات کیا ہے تم کیوں پھانسی پانا چاہتے ہو بس یوں ہی اپ اس کو چھوڑ دیں اور مجھے

پھانسی دے دیں استاد نے کہا بادشاہ نے حیران ہو کر کہا تم دونوں پھانسی پانے کے لیے اتنے بے چین کیوں

ہو دراصل بات یہ ہے بادشاہ سلامت استاد نے کہنا شروع کیا اتنے میں شاگرد نے اچانک چلا کر کہا استاد

انہیں مت بتانا تم خاموش رہو بادشاہ نے غصے سے کہا ہاں تو اے بزرگ بتاؤ اب بادشاہ کی بے چینی بڑھتی

جا رہی تھی وہ جاننا چاہتا تھا کہ یہ دونوں پھانسی پانے کے لیے بے چین کیوں ہیں دوسرے لوگ بھی سانس

روکے کھڑے تھے بات دراصل یہ ہے بادشاہ سلامت کہ آج کا دن بہت مبارک ہے آج کے دن جو بھی

پھانسی پائے گا سیدھا جنت میں جائے گا اس لیے مرنا تو ایک دن ہے ہی اس لیے اس موٹے کے بجائے اپ

مجھے پھانسی دے دیں یہ سننا تھا کہ دربار میں چاروں طرف سے ایک شور سنائی دیا وزیر نے کہا میں یہاں کا

وزیر ہوں اس لیے اپ مجھے پھانسی دیں تاکہ میں سیدھا جنت میں چلا جاؤں بادشاہ نے چونک کر اسے دیکھا

عین اسی وقت کئی دوسرے لوگ چلا اٹھے وہاں سے مجھے دی جائے پھانسی مجھے دی جائے بادشاہ پریشان ہو

گیا کہ پھانسی کسے دے اور کسے نہ دے شاگرد نے حیران ہو کر کبھی استاد کو اور کبھی مجمع کو دیکھا اور دل ہی

دل میں خوش ہو رہا تھا بادشاہ نے ہاتھوں کے اشارے سے مجمع کو خاموش کیا اور بولا سب سے زیادہ حقدار

تو میں ہوں میں تمہارا بادشاہ ہوں اس لیے آج پھانسی چڑھ کر جنت میں میں جاؤں گا سب لوگ حیران ہو

گئے بادشاہ کے آگے کون کیا کر سکتا تھا انکار کی جرات کسے دی سب لوگ بادشاہ کو پھانسی کے تختہ پر جاتے

ہوئے دیکھتے رہے۔

 یہاں تک کہ وہ تختے پر چڑھ گیا اس نے موٹے کو نیچے اترنے کا اشارہ کیا شاگرد خدا کا شکر ادا کرتا ہوا نیچے اتر

ایا وہ دل ہی دل میں بہت خوش تھا کہ اس کی جان بچ گئی بادشاہ نے جلاد کو حکم دیا کہ وہ پھانسی کا پھندا اس

کے گلے میں ڈال کر اسے پھانسی لگا دے جلاد نے حکم کی تعمیل کی اور بادشاہ کو پھانسی دے دی بادشاہ کے

پھانسی کا یہ منظر لوگ محو حیرت سے دیکھنے میں مشغول تھے کہ ان کا بادشاہ سیدھا جنت میں جا رہا ہے اس

موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے استاد اور شاگرد دونوں چپ چاپ دربار سے باہر نکل ائے اور اس سلطنت

سے دور نکل گئی اور خدا کا شکر ادا کیا شاگرد نے اپنے استاد کا شکریہ ادا کیا شاگرد نے کہا استاد تم سچ ہی کہتے

تھے یہ واقعی اندھیر نگری ہے اور پھر دونوں استاد شاگرد خوش آگے بڑھ گئے

کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment