Pakeeza Mohabbat Ki Anmol Kahani

Pakeeza Mohabbat Ki Anmol Kahani 

Pakeeza Mohabbat

دوستو آج کی کہانی ایک ایسی محبت کی کہانی ہے جسے سننے کے بعد آپ کی انکھوں میں آنسو ضرور آئیں گے

محبت کے اس رلا دینے والی کہانی کو آخر تک سننے ۔

آج کی کہانی میں نے اس کو پہلی بار دیکھا تو وہ سفید سوٹ پر سفید گاون اور سفیدی ثقاف ملبوس کیے تھی

سفید رنگت والی یہ گوری گوری لڑکی پہلی ہی نظر میں بہت آچھی لگی میری ایک کولیگ نیوز کا تعارف کرایا

کہ پاکیزہ نام ہے اور شاعرہ بھی ہے میں نے پاکیزہ کے چہرے کو تکنا شروع کر دیا واقعی یہ ایسی ہے میرے

یوں ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے سے وہ گھبرا گئی دو چار لمحے کو رکی اور کسی مصروفیت کا بہانہ کر کے چل پڑی پھر

اکثر ایسا ہونے لگا کہ میری نگاہیں اس کا تعاقب کر دی اس کی پرکشش شخصیت مجھے اپنی جانب کھینچتی یہاں

ملازمت کرتے عرصہ ہو گیا تھا مگر میں نے جیسی انفرادیت پاکیزہ میں دیکھی اور کسی میں نہ دیکھی تھی۔

 ایک بات عجیب تھی کہ اسے سفید رنگ غیر معمولی حد تک پسند تھا جب بھی نیا سوٹ سلواتی اس سفید بھی

ہوتا خواہ ریشمی ہو یا سوتی یہاں تک کہ جوتا بھی سفید پہنتی تھی کہیں یہ انتہا پسند تو نہیں یہ جانچنے کے لیے

میں نے اسے بھتیجے کی سالگرہ اور اس کے کچھ دنوں بعد اپنی بہن کی شادی پر بلایا تب بھی سفید ملبوس میں

آئی مجھے پتہ چل گیا کہ پارٹی ہو پکنے یا کوئی فنکشن اسے اس کے محبوب رنگ سے کوئی جدا نہیں کر سکتا میں

یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ پاکیزہ آخر کوئی دوسرا رنگ کیوں منتخب نہیں کرتی کیا اسے رنگوں سے چڑ ہے یا

نفرت ہے۔

 مگر نہیں وہ ایسی بالکل نہ تھی کہ کسی شے سے نفرت کرے یا پھر اسے چڑ بنا لے وہ تو نہایت سمجھی ہوئی

معقول اور صبر و عمل کا پیکر تھی اس کی ضرور کوئی خاص وجہ تھی تو اس نے فطرت کے باقی سارے رنگ

چھوڑ دیے تھے حالانکہ اس عمر کی لڑکیاں قوس وقزح کے رنگوں کی دیوانی ہوتی ہیں وہ نت نئے رنگ اپناتی

ہیں سفید توبوڑھوں  کا رنگ کہلاتا ہے یا پھر اس کا جس کا سہاگ چھن جاتا ہے کیا اس کا دل مر گیا ہے یا جی

کسی شوخ ملبوس کو نہیں چاہتا یہ ایک ایسا سوال تھا جس نے مجھے الجھن میں مبتلا کر رکھا تھا کئی بار خیال آیا

شاید یہ دوسری لڑکیوں سے خود کو منفرد دکھانے کو ایسا کرتی ہے ۔

تاہم یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ پاکیزہ نام کی طرح بے رنگی بھی اس پر خوب سجتی تھی اسے اور زیادہ دلکش

اور رنگین بنا دیتی تھی یہ کیا جادو ہے یہ رازضرور معلوم کر کے رہوں گی بس اس راز کو معلوم کرنے کو میں

نے اسے دوستی کا پختہ ارادہ کر لیا حالانکہ پاکیزہ سے دوستی کوئی آسان کام نہ تھا وہ بہت زیادہ الگ تھلگ اور

لیے دیے رہنے والی لڑکی تھی وہ کئی برس پاکستان سے دور بیرون ملک گزار کر آئی تھی بہانے بہانے سے

اس کی سیٹ کی طرف جانے لگی اگرچہ میں سینیئر تھی اور اسے دفتری امور کی وجہ سے میرے پاس آنا

چاہیے تھا میں پھر بھی اپنے عہدے کا لحاظ کیے بغیر خود اٹھ کر اس کے پاس چلی جاتی ۔

اور اسکو  وہ سمجھاتی جو اسکو سمجھانا میرا فرض تھا اس اخلاق اور مہربانیوں کے باعث بالاخر وہ میری گرویدہ ہو

گئی اس کی مجھ سے دوستی ہو گئی تھی ایک دن جب کہ وہ میرے گھر ائی ہوئی تھی پاکیزہ نے اپنی کہانی سنا دی

اس نے کہا مجھے نہیں معلوم یہ عشق تھا کہ وحشت تھی اس جہان چار سو میں میری ہی خواہشیں کیوں بے

ایمان ہو گئی اصل بات یہ ہے کہ ملتا تو وہی ہے جو انسان کے نصیب میں لکھا ہوتا ہے مجھے آج تک وہ شام

نہیں بھولتی جب میں اور شیری سمندر کے کنارے بنے ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھے تھے وہ کسی سوچ میں گم

تھا لیکن یوں لگتا تھا جیسے سوچ میں بھی وہ زیر لب کو غزل گنگنا رہا ہو ماضی کا ذکر کرتے کرتے تو ماضی کے

دنیا میں کھو گئی اس کی آواز اب مجھے دور سے آتی لگی دھیمی دھیمی مدھم مدھم جیسے خواب میں بول رہی ہو۔

 میں نے اس پر اعتماد کیا اور اس نے مجھے اچانک دھوکہ دے دیا اسی شام جب شہری نے ریسٹورنٹ بلایا تو

بہار کی رت خنکی کی نمکین چادر اوڑھے ہمارے چاروں طرف پھیلی تھی اور سورج نارنگی رنگ میں ڈوبا

آہستہ آہستہ سمندر میں گرتا جا رہا تھا شیری نے اپنی سوچ کا پردہ توڑتے ہوئے کہا تھا پاکیزہ آج بھی ٹھیک

ٹائم پر اگئی ہو آؤ بیٹھو کیسی ہو تمہیں کیسی لگ رہی ہوں تم مجھے ہمیشہ آچھی لگتی ہو تم ہمیشہ یہی کہتے ہو تم کیا

سننا چاہتی ہو جو تم کہنا نہیں چاہتے میں نے موقع دیکھ کر مطلب کی بات کر دی تھی تم کہنا کیا چاہتی ہو وہ

متعجب ہو گیا تھا جو تم سننا نہیں چاہتے لیکن آج میں کہہ دوں گی نہ بھی کہو تو جانتا کیا کہو گی اس نے اپنی انا کا

پردہ رکھ لیا آج تمہاری مبہم باتیں نہ چلیں گی کہ سب کچھ تم سمجھتے ہو دراصل تم بس پہلو تہی کرتے ہو جو

بھی سمجھ لو پاکیزہ مگر تم ہو واقعی پاکیزہ اسی لیے تو تم نے میرے دل میں گھر کر لیا ہے۔

 حالانکہ کتنی لڑکیاں میری دوست بنی اور پھر جدا ہو گئی لیکن تم سے جدا ہونے کی مجھ میں ہمت ہی نہیں

جانے کس دنیا کی مخلوق ہو تم شیری تم جو بھی سمجھ لو لیکن میں تم سے صرف اتنا پوچھنا چاہتی ہوں کہ کچھ

بدلی بدلی سی لگ رہی ہو کیا آئینہ دیکھا ہے آج اس نے بات کو بدلنا چاہا وہ بھی میں ڈٹی رہی آج تہیہ جو کر لیا

تھا کہ صاف بات کر کے رہوں گی آئینہ تمہیں روز دیکھتی ہوں لیکن آئینے انہیں آج پہلی مرتبہ مجھ سے

بات کی ہے کیا کہا اس نے تم سے ایک بڑی حقیقت کی نشاندہی کی ہے کہ میں زندگی کے ساتھ خوبصورت

برس تمہاری خاطر ضائع کر چکی اور ابھی تک تم نے میرا ہاتھ نہیں تھاما کیا سوچا پھر تم نے یہ کہ اب میں

زیادہ عرصے خود کو دھوکہ نہیں دے سکتی کیا تمہیں یاد ہے کہ وفا کے سفر میں ہم کتنی کٹھن منزلیں طے کر

چکے ہیں اور میں ثابت قدم رہی ہوں ہاں تقریبا سات برس سے ہم اچھے دوست ہیں شیری نے میری

طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا تو میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا میں نے قطعیت سے کہہ دیا کیا صرف

اچھے دوست شاعری میں دوستی کے اس رشتے کو اب تبدیل کرنا چاہتی ہوں کیا دشمنی میں وہ ہنسا نہیں

ازدواجی بندھن میں شہری میں کبھی تمہاری طرح غلط نہیں سوچتی کیا تم میرے بارے میں سنجیدہ نہیں ہو

سکتے۔

اتنی مدت کے ساتھ کے بعد بھی اب تو سنجیدہ ہو جاؤ پلیز میں تمہارے معاملے میں انتہائی سنجیدہ ہوں پاکیزہ

 یقین کرو تمہیں چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ایک لمحے کو بھی نہیں جب سے تم میری زندگی میں آئی

ہو میں نے آوارگی چھوڑ دی ہے تو پھر کب فیصلہ کرو گے کیا فیصلہ وہ انجان بن گیا میں نے کہا کہ مقدس

بندھن کے ذریعے تمہاری ہونا چاہتے ہو او یوں کہو کہ تم اپنی حیثیت تبدیل کرنا چاہتی ہو حالانکہ محبت کا

اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بات ایک ہی ہے جس انداز سے کہو شیری لیکن ہم مغرب میں رہ کر بھی

مشرقی  ہی رہیں گے یہ محبت کا فریب یہ دوستی کا ڈھونڈ کسی روز تم کو مجھ سے دور کرے گا۔

Pakeeza Mohabbat

 لیکن میں تم سے دور ہونا نہیں چاہتا ہم قریب ہیں دل سے قریب اور قریب رہیں گے اسی طرح ہمیشہ میں

ہمیشہ کے ساتھ کی بات کر رہی ہوں عمر بھر کے ساتھی بن جانے کی ہم ساتھی ہیں عمر بھر کے یقین کرو

پاکیزہ  مگر جو فاصلہ ہے وہ تمہارا قائم کردہ ہے میں تو اس فاصلے کو قائم نہ کرنا چاہتا تھا بغیر نکاح فاصلے ختم کر

کے میں اپنی عزت نہیں گوانا چاہتی شاعری ایسا ہو تو پھر عورت کے پلے رہ کیا جاتا ہے تمہارا اپنا فلسفہ ہے

بہرحال میں نے تم سے کبھی زبردستی اپنی کوئی بات نہیں منوائی جیسا تم نے چاہا میں نے احترام کیا ہے تبھی

تو مجھے اعتبار اگیا ہے تمہاری محبت کا اور اب میں سارے فاصلے مٹا دینا چاہتی ہوں مگر ایک جائز رشتے سے

بند جانے کے بعد لیکن میں فاصلے کم کر کے تمہاری قیمت نہیں گرانا چاہتا اس کے لیے مجھے اور لڑکیاں

بہت ہیں۔

 کیا مطلب شیری تمہارے ساتھ ایک پاکیزگی کا تصور وابستہ ہو گیا ہے اس لیے کہ تم اتنی پرکشش اتنی

مختلف ہو دوسری لڑکیوں اور ان کی دوستی سے میں تم کو ہمیشہ ایک لاحاصل قیمتی شے کی حیثیت سے دیکھتا

ہوں اور میری تم سے محبت اور وفا کا ثبوت یہ ہے کہ میں نے ابھی تک شادی کسی سے نہیں کی حالانکہ

میرے پاس روپے پیسے کسی شے کی کوئی کمی نہیں چاہوں تو دس بیویاں رکھ سکتا ہوں تم لفظوں سے کھیل

کر بات کا رخ بدل رہے ہو شیری دیکھو فطرت کے کچھ اصول ہیں تم نے مجھ سے شادی نہ کی تو ایک روز

ہماری چاہت ختم بھی ہو سکتی ہے میں نے بڑی صاف گوئی سے کام لیا کیا ایک اچھی دوست اچھی بیوی نہیں

بن سکتی دیکھو مجھے بیوی کی نہیں ایک محبوبہ کی ضرورت ہے تاکہ چاہنے اور چاہے جانے کی خواہش پوری

ہو سکے کیا بیوی کے روپ میں میں تم کو نہیں جا سکتی میں نے زچ ہو کر شہری سے سوال کیا تھا نہیں تمہاری

چاہت کے رشتے ختم ہو جائیں گے میرے لیے بہت کم حصہ باقی بچے گا چلو یوں ہی سہی مگر تمہاری چاہت

میری امانت ہوگی ہاں لیکن یہ شاعرانہ باتیں چولہے کی تپش میں تمہیں جلانے لگیں گی توے کی طرح

تب اٹھو گی سالن کی طرح یکسانیت کی آگ میں پک جاؤ گی اور گیس سلنڈر کی طرح پھٹ پڑو گی تمہارے

ایک ہاتھ میں چمچہ ہوگا اور دوسرے ہاتھ میں بچے گا فیڈر ہوگا تو مجھے روز ہی برا بھلا کہا کرو گی تم تو ایسے بات

کر رہے ہو جیسے یہ تجربہ تم کر چکے ہو میں تم سے تجربے کی بنیاد پر ہی کہہ رہا ہوں شہری تو پھر صاف بات

کرو مجھے دھوکے میں کیوں رکھا ہوا ہے میں نے آج سے سات سال پہلے ایک بیوی کو 10 سال برداشت

کیا تھا کیا تم شادی شدہ تھے اور بیوی کی موجودگی میں تم نے میرے ساتھ یہ سب لیکن میری بیوی پچھلے

اٹھ سالوں سے پاکستان میں ہے اور میں یہاں تمہارے ساتھ کیوں کیا ہوا وہ میری بیوی ہے بلکہ مجبوری

ہے اور میں اسے باقاعدگی سے خرچہ بھجوا دیتا کہ تم میری دوست ہو میری پسند ہو یوں کہہ لو محبوبہ ہو ۔

کیونکہ دوست تو اور بھی ہیں اگر ان میں سے کوئی محبوبہ نہیں تھی بے وقوف لڑکی شو کو اس میں رکھی گڑیا

اس وقت تک خوبصورت لگتی ہے جب تک وہ مجھے خرید نہ لے خریدنے کے بعد بھی وہ اچھی لگتی ہے لیکن

کچھ لمحوں کے لیے چند دن کے بعد جب گڑیا سے جیپ بھر جاتا ہے تو ہم اسے گھر کے کونے میں ڈال کر

بھول جاتے ہیں شیری عورت ایک بے جان گڑیا نہیں ہے کہ جب بھی چاہا استعمال کیا اور جب جی چاہا

پھینک دیا اس نے میری بات کا کوئی اثر نہ لیا وہ بازد رہا کہ جب عورت کسی کی ملکیت بن جاتی ہے تو اس کی

حیثیت بے جان گڑیا کسی ہو جاتی ہے میں تم سے محبت کرتا ہوں جان اقراری لفظوں کی قیمت ادا کر کے

میں تمہیں پابند کر کے بے وقت کرنا نہیں چاہتا کیا فرق پڑتا ہے کہ نکاح مجھ سے نہ سہی کسی اور سے صحیح وہ نکاح کے مقدس بندھن کو اقراری لفظ کہہ رہا تھا اس لیے کہہ رہا تھا کہ بے شک کوئی اور شخص میری قیمت

لگا دے وہ ایک بیوی کے ساتھ تلخ تجربے کی منازل طے کر چکا تھا لیکن میں اس جیسی نہ تھی میں تو اپنے

ہونے والے شوہر کے ساتھ زندگی کا سفر اعتماد کے ساتھ طے کرنا چاہتی تھی شادی نہ کرنے کی وجہ سے تو

مجھے روٹ جاؤ گی کوئی بات نہیں پھر بھی ہم اچھے دوست رہیں گے۔

 ایسا نہیں ہوگا ایسا ممکن نہیں ہے اگر میں نے کسی اور سے شادی کر لی تو تمہاری میری دوستی نہیں رہے گی

اس لیے کہ شاید میرا شوہر تمہاری بیوی کی طرح معصوم بے ضمیر اور مجبور نہ ہوگا اور میں بھی تمہاری

طرح دھوکے میں نہیں رکھوں گی یہ ہماری ملاقات کا جیسے آخری دن ہو میں وہاں سے اٹھ کر بغیر اسے خدا

حافظ کہے ریسٹورنٹ سے نکل آئی تھی یہ سوچ کر کہ اس کی یادوں سے بالاخر پیچھا چھڑا لوں گی ایک نئی

زندگی کی طرف قدم بڑھانے کے بعد کیونکہ اب میں نے گھر بسانے کا تہیہ کر لیا تھا آئینہ جھوٹ نہیں بولتا

میری عمر نکلی جا رہی تھی ایک سوال البتہ مجھے پریشان کر رہا تھا کہ کیا میں نے واقعی شیری سے محبت کی تھی

بے غرض یا کہ اس محبت کے پردے میں میری خود غرضی بھی شامل تھی اس کے ساتھ شادی کی آرزو یہ

خود غرضی تھی یا کہ فطری خواہش میں پہچان نہ سکی۔

Pakeeza Mohabbat

 اگلے روز اتوار تھا کہتے ہیں چھٹی کا دن تھا جو شیری اور میں ہمیشہ ساحل سمندر پر اور کبھی کسی کھلی جگہ

تفریحی مقام پر پکنک کی مانند اکٹھے گزارتے تھے میں کبھی گھر سے کھانا بنا کر لے جاتی تھی اور وہ کچھ اور

کھانے پینے کی اشیاء لے آتا تھا اج اس کی کتنی کمی محسوس ہو رہی تھی دل میں درد سا کان دروازے پر لگے

تھے جیسے ابھی دستک ہوگی اور وہ مجھے لینے آ جائے گی لیکن میں تو شام سارے رشتے اور بندھن توڑائی تھی

دوستی کے تعلق کو خیرباد کہہ دیا تھا اچانک دروازے پر دستک ہو گئی اور پھر جب میں نے دروازہ کھولا تو وہ

سفید گلاب لیے سامنے کھڑا تھا اس دن اتفاق سے میں نے سفید لباس پہن رکھا تھا تو مس رنگ میں کتنی

اچھی لگتی ہو حالانکہ یہ ایک بے رنگ رنگ ہے لیکن تم پر بہت سجدہ ہے میرا جی چاہتا ہے کہ تم ہمیشہ یہی

رنگ پہنا کرو سرخ رنگ تم پر نہیں سجتا اس لیے تم سفید گلاب لائے ہو اور چاہتے ہو کہ میں سہاگ رنگ

نہ پہنوں یہاں دولہنوں کا لباس سفید ہوتا ہے تم سرخ رنگ مت پہننا تم اپنی شادی کے دن بھی سفید

لباس بنوانا اب میری شادی سے تمہارا کیا واسطہ تم کیوں آئے ہو جبکہ جملہ میرے لبوں پر ادھورا رہ گیا تم کو

خدا حافظ کہنے کیونکہ تم نے مجھے جاتے ہوئے خدا حافظ بھی نہیں کہا تھا اسی ہفتے پاکستان جا رہا ہوں میں نے

سوچا کہ خدا حافظ کہتا جاؤں خدا حافظ میں نے یہ کہہ کر دروازہ بند کر دیا اسی اندر آنے کو بھی نہ کہا وہ سفید

گلاب ہاتھ میں لیے واپس چلا گیا میں نے بالکونی  سے جھانکا تھا وہ بہت ٹوٹا ہوا اور اداس لگ رہا تھا نہ جانے کیا

کہنے آیا تھا۔

 اور میں نے اس کی پوری بات بھی نہ سنی تھی تمام رات سو نہ سکی روتے گزر گئی دو دن بعد اس نے مجھے

فون کیا تم فورا پاکستان پہنچو میں وہاں تم سے شادی کروں گا گھر والوں کو شامل کر کے ہم شادی کریں گے

اب تو خوش ہونا اس ایک کال سے میں کھیل اُٹھی بھول گئی کہ اس کی بیوی بھی ہے بچہ بھی ہے ان کے

بارے میں سوچا ہی نہیں جلدی جلدی تیاری باندھی ملازمت سے استعفی دیا اور پاکستان چلی آئی۔

کیا پھرتم نے شیری سے شادی کی؟ میں نے بے تابی سے پاکیزہ سے سوال کیا نہیں اس نے ٹھنڈی آہ بھری

یہ خوشی میرے نصیب میں نہ تھی جس روز وہ شادی کا پیغام لے کر ہمارے گھر آ رہا تھا راستے میں ایک

منحوس لمحے ٹریفک کے حادثے نے اسے نگل لیا وہ جاں بحق ہو گیا تبھی سے میں نے سفید رنگ کے لباس

کو اپنا مقدر بنا لیا کیونکہ اس روز بھی میں سفید لباس پہنے اس کی آمد کا انتظار کر رہی تھی یہ کہہ کر اس نے

اپنے آنسو پوچھے اور میں سوچتی رہ گئی مقدر شاید اسی کو کہتے ہیں کہ کچھ لوگ تو نہ چاہتے ہوئے بھی مل

جاتے ہیں اور کچھ بہت چاہنے کے باوجود مل کر بھی نہیں مل پاتے۔

 پاکیزہ ہمارے ساتھ کیسے ہی کر لو اس نے شادی نہیں کی وہ اج بھی پاکیزہ ہے شادی کے وہ ایک فطری امر

جانتی ہے پھر بھی نہ کر سکی شادی نہ جانے کیوں دوستوں اپ کمنٹ باکس میں بتائیں کیا اس نے صحیح کیا یہ

اسے کسی اور سے شادی کر لینی چاہیے تھی یا پھر اپنی سچی محبت کی یادوں کے سہارے جینے کا فیصلہ صحیح تھا

اس محبت کی رلا دینے والی کہانی کے بارے اپنی رائے ضرور دیں مزید ایسی کہانیوں کے لیے ہماری ویب

سائٹ وزٹ کریں  اللہ حافظ

کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment