Bin Mangy Mohabbat Mili Heart Touching Love Story
ماں کی اہمیت میرے سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا ماں کی چھت نہ ہو تو زندگی وقت کے ظالم ہاتھوں کھلونا
بن جاتی ہے ابھی میں نے پاؤں پاؤں چلنا سیکھا تھا کہ موت کے بے رحم ہاتھ نے ماں کو مجھ سے چھین لیا اور
کچھ دنوں بعد ابا نے دوسری شادی کر لی سوتیلی ماں نے جوں تو کر کے بال پوس کر مجھے جوان کیا دوسری
ماں مجھ سے بے تحاشہ کام لینا چاہتی تھی سچ کہو تو وہ مجھ سے سارے گھر کا کام لینا چاہتی تھی جس قدر ہمت
میرے تنے ناتوا میں تھی کام کرتی رہی لیکن پھر ہمت نے جواب دیا تو بیمار پڑ گئی علاج ہوا جلد اچھی نہ ہو
سکی۔
روز بروز لاگر ہونے لگے سوتیلی ماں اس صورتحال سے تنگ ا گئی وہ چاہتی تھی کہ میں جلدی سے بھلی چنگی
ہو کر پھر سے گھر کا کام سنبھال لوں اور میں تھی کے چارپائی چھوڑنے کا نام نہ لیتی تھی شاید میں ٹھیک ہوں
نہ ہی نہیں چاہتی تھی ماں نے دیکھا یہ کام کرنے کی بجائے اپنے تیمارداری مجھ سے کراتی ہے تو اس نے
میرے باپ سے کہا اس کو تبدیلی آب و ہوا کی ضرورت ہے کیوں نہ ہم اس کو اس کی خالہ کے پاس کچھ
دنوں کے لیے بھیج دیں شاید وہاں جا کر ٹھیک ہو جائے میری سگی خالہ فیصل آباد میں رہتی تھی ابو ایک دن
مجھے ان کے گھر چھوڑ کر چلے گئے وہ میری سوتیلی ماں سے بہت ڈرتے تھے خالہ نے مجھے پیار دیا تو میں
جلدی اچھی ہو گئی۔
خالہ چاہتی تھی کہ میں آگے پڑھ لوں لیکن سوتیلی ماں نے مجھے بہت ڈرپوک بنا دیا جب بھی سڑک پر چلتی
ہر شخص مجھے گھورتا ہوا دکھائی دیتا اور میں سہم جاتی میرے اندر خود اعتمادی نام کی کوئی چیز نہ تھی آگے
پڑھنے سے نفرت ہو گئی جب بھی پڑھنے کے لیے کتاب اٹھاتی سوتیلی ماں مجھے اٹھا دیتی اور کہتی بعد میں پڑھ
لینا پہلے یہ کام کر دو وہ کام کر دو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے آج تک کبھی کسی کو سہیلی نہ بنایا مجھے
لڑکیوں سے بھی ڈر لگتا تھا میری خالہ کا صرف ایک ہی بیٹا تھا حسنین جو کبھی مجھے اچھا لگتا اور کبھی برا لگنے
لگتا۔
خانہ کا گھرانہ مختصر لیکن کافی خوشحال تھا گھر میں دولت کی ریل پیل تھی انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کی
تربیت بہت ہی لاڈ پیار سے کی تھی خالہ اپنے بیٹے کے خوب ناز اٹھاتی تھی حسنین بہت خوبصورت تھا جب
بھی اچھے کپڑے پہنتا تو شہزادہ لگتا تھا میں بھی بری شکل و صورت کی نہ تھی پھر بھی حسنین جیسی نہ تھی
مجھے اس کی صورت پر رشک آتا تھا ویسے بھی میں بہت سیدھی سادی تھی ہر وقت چادر اوڑ ہی رہتی فیشن
میرے قریب سے نہ گزرا۔
جب میں پہلی بار اپنی خالہ کے گھر گئی تو میں نے حسنین کو سلام کیا اس نے تو میرے سلام کا جواب تک دینا
گوارا نہ کیا بڑی نخوت سے دیکھا اور چلا گیا یہ بات ہے اس کی مجھے بہت بری لگی میری آنکھوں میں آنسو
اگئے تھے خالہ اگرچہ مجھے پیار کرتی تھی لیکن گھر کا کام بھی یہ خوب لیتی تھی فرق صرف یہ تھا کہ سوتیلی
ماں کا کام انعام لعنت ملامت کی صورت میں دیتی تھی جبکہ خالہ پیار کے دو بول کہہ کر ہی میرا دل جیت
لیتی تھی حالانکہ گھر کام والی بھی آتی تھی جو جھاڑو برتن اور کپڑے دھونے کا کام کر جاتی تھی میں صرف
خالہ کا دیگر کاموں میں ہاتھ بٹا دیتی تھی میں یہاں خوش تھی یہاں سب اچھے تھے۔
خالہ اور خالو پیار کرتے تھے صرف حسنین ایسا تھا جو اپنے رویے سے مجھے دکھ پہنچا رہا تھا وہ لاپرواہ نفرت
سے بھرا اور بے نیاز بنا رہتا تھا جس سے مجھے اپنی ذات کی نفی محسوس ہوتی تو میرا دل گھٹنے لگتا تھا رفتہ رفتہ
میں نے یہ محسوس کیا کہ حسنین کی لا تعلقی کم ہوتی جا رہی ہے اب اس کو احساس ہو جلا تھا کہ میں ایک فرد
ہوں جو اس کے گھر میں رہتی وہ مجھ سے اب ہم کلام ہونے لگا لیکن صرف کام کی حد تک مثلا ذرا میرے
کپڑے استری کر دو جوتے پالش کر دو ایک دن آیا اور کہنے لگا صائمہ مجھے بہت جلدی ہے ذرا میرے جوتے
پالش کر دو میں اس سے ڈرتی تھی کیونکہ اس کا مجھ پر بہت روپ تھا حالانکہ وہ کچھ کہتا نہیں تھا لیکن جب
بھی کچھ کہتا تو تیمکانہ اور نفرت بھرے انداز میں کہتا میں جلدی جلدی اس کے جوتے پالش کرنے لگی ایک
روز جب کہ میں سر جھکائے تیز تیز جوتے پالش کرنے میں مصروف تھی سر اوپر اٹھایا تو دیکھا وہ مجھے گھور
رہا تھا میں گھبرا گئی تو وہ ہنس پڑا کہنے لگا پالش تمہارے چہرے پر بھی لگ گئی ہے یہ سن کر میں شرمندہ ہو گئی
جلدی جلدی پالش کرنے کے بعد جب میں نے جا کر آئینہ دیکھا تو حیران رہ گئی کہ پولش کا تو میرے
چہرے پر نام و نشان بھی نہ تھا نہ جانے حسنین نے ایسا کیوں کہا تھا۔
ایک دن وہ استری سٹینڈ اپنے کمرے میں لے گیا اور میرے پاس ایا کہ میری شرٹ استری کر دو میں نے
کہا اچھا ٹھیک ہے جب میں استری کرنے لگی تو وہاں سٹینڈ نہیں تھا کہنے لگا وہ میرے کمرے میں ہے تم
استری لے کر اوپر آ جاؤ میں نے خالہ کی طرف دیکھا وہ بولی ہاں ہاں
چلی جاؤ وہیں استری کر کے دے دو کپڑے اس میں کیا حرج ہے اس دن میں نے نیا جوڑا پہنا تھا وہ سلگ کا
سوٹ کافی خوبصورت تھا جو خالو میرے لیے کوئٹہ سے لائے تھے استری کرنے میں محو تھی کہ حسنین
میرے پاس آگیا کہنے لگا اس جوڑے میں تم اچھی لگ رہی ہو اپنے دفاع میں کچھ بھی نہ سوچا تو میں نے اس
کا شکریہ ادا کر دیا کہا شکریہ بھائی جان۔
ابھی میرے منہ سے بات ختم نہ ہوئی کہ میرے چہرے پر ایک زوردار تھپڑ پڑا میں اس اچانک حملے کے
لیے تیار نہ تھی میری چیخ نکل گئی آنکھوں سے آنسو بہنے کےلی لگتا تھا اس نے پوری قوت سے مجھے تھپڑ
رسید کیا تھا ویسے اس کے ہاں لے کر روتی ہوئی اس کے کمرے سے جانے لگی تو وہ کہنے لگا میری ایک بات
سنتی جاؤ مجھے تم بھائی نہ کہنا اور اب یہاں سے دفع ہو جاؤ میں روتے روتے باتھ روم میں گھس گئی اور پانی
کھول دیا تاکہ اس کے شور میں رو سکوں خوب جی بھر کے رونے کے بعد اپنا چہرہ دیکھا تو حیران رہ گئی
میرے چہرے پر اس کی پانچ انگلیوں کے نشان پڑ چکے تھے اس روز میں خالہ کے سامنے بھی نہ گئی اپنے
کمرے میں جا کر منہ لپیٹ کر سو گئی شام کو مجھے حسنین نے اواز دی صائمہ ایک کپ چائے بنا لاؤ بادل
ناخواستہ مجھے اٹھنا پڑا حالانکہ ڈر سے میں نے چائے بنائی اور وہ کچن میں خود ہی آگیا اور کہنے لگا مجھے معاف کر
دو میں نے تمہارے ساتھ ٹھیک نہیں کیا لیکن ائندہ مجھے بھائی مت کہنا۔
اب ہر وقت مجھے حسنین سے خوف آنے لگا میں تو اس کے سائے سے بھی ڈرنے لگی دن رات کو گڑنے لگی
کافی کمزور ہو گئی دل چاہتا تھا کہ آئینہ نہ دیکھوں بلکہ اپنا چہرہ ہی بگاڑ لوں جس پر حسنین کا تھپڑ پڑا تھا اس تھپڑ
کا درد میرے دل پر رقم ہو گیا تھا خدا جانے میرے ساتھ کیا مسئلہ تھا اب جب کہ وہ مجھے بہت برا لگتا تھا
لیکن پھر بھی اس کا رعب ایسا تھا کہ میں اس کی کسی بھی بات سے انکار نہیں کر سکتی تھی وہ جو کہتا مان لیتی
اور ویسے ہی اس کا ہر کام کرتی لیکن اب میں بہت پریشان رہنے لگی تھی اس کے سامنے جانے سے کتراتی وہ
خود ہی میرے سامنے آ جاتا تھا اس روز وہ اپنے دوستوں کے ساتھ پکنک پر جا رہا تھا خالہ نے مجھے آواز دی
بیٹی تم جا کر حسنین کی تیاری کروا دو میں اس کے کمرے میں گئی وہ بیگ میں اپنے کپڑے رکھ رہا تھا میں نے
تیاری میں اس کی مدد کی وہ بہت جلدی میں تھا کہنے لگا کاش میرے بس میں ہوتا تو میں ضرور تم کو ساتھ لے
جاتا۔
میں حیرت سے اس کی بات سن رہی تھی کہ مجھ پر حکم چلانے والا مجھ پر ہاتھ اٹھانے والا آج مجھے کیا کہہ رہا
ہے یہ تو وہ ہے کہ مجھے سخت لہجے میں حکم دیتا ہے لیکن ابھی تو بڑا ہی پرسکون ہے جبکہ میرا دل دھڑک کر
پاگل ہوا جا رہا تھا اور میری حالت ایسی عجیب ہے کہ میں بیان بھی نہیں کر سکتی وہ مجھے اپنے اشاروں پر چلا رہا
تھا اور میں اس کے کہنے کے علاوہ کوئی کام بھی نہیں کر سکتی تھی انہی دنوں مجھے لینے کے لیے ابو آ گئے میں
خوش ہو گئی کہ چلو حسنین کے حکم امیز لہجے کے عذاب سے تو بچوں گی سوتیلی ماں بیمار تھی ان کو میری
ضرورت تھی گھر اتے ہی سارا کام میرے سر پر ا پڑا پھر بھی خواہش تھی کہ حسنین کے بارے میں سوچنے
کی فرصت ہی نہ ملے تو اچھا ہے کچھ دن بعد امی ٹھیک ہو گئی تو وہ پھر سے فرعون بن گئے ابو نے ماں کا رویہ
دیکھا تو مجھے پھر خالہ کے پاس چھوڑ گئے خالہ نے بتایا کہ جب سے تم گئی ہو حسنین طبقہ گھر سے نکلا ہوا ہے
دیر کو گھر آتا ہے خدا جانے کدھر رہتا ہے رات ہو گئی وہ گھر نہ آیا خالہ نے کہا بیٹی میں اور تیرے خالوسو ہو
جائیں اور حسنین ائے تو اسے کھانا دے دینا یہ سن کر تو میری بھوک اڑ گئی نہ جانے کیوں اب مجھے حسنین
سے اس قدر خوف آنے لگا تھا کہ بیان کرنا مشکل ہے خانہ اور خالو اپنے کمرے میں جا کر لیٹے ہی ہوں گے
کہ ہارون سنائی دیا دل دھک دھک کرنے لگا میں نے اچانک ایک فیصلہ کیا اور جا کر اپنے کمرے میں لیٹ
گئی۔
حسنین نے گیٹ بند کیا اور اندر اگیا اس نے مجھے آواز نہیں دی خود ہی کھانا گرم کیا کھایا اور پھر وہ میرے
کمرے میں آگیا اس نے لحاف میرے اوپر ڈھانپ دیا کمرے کی لائٹ جل رہی تھی اس نے لائٹ بند کی
اور اپنے کمرے میں چلا گیا ان باتوں سے پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ اس کے دل میں رحم ہے میرے لیے
کوئی جگہ ہے وہ مجھے بھی انسان سمجھتا ہے اس تمام رات مجھے نیند نہ آئی صبح اٹھی تو دھوپ نکل آئی تھی
شرمندہ شرمندہ اٹھ کر بیٹھ گئی صبح نہ جانے کب ہو گئی تھی جلدی سے اٹھ کر منہ ہاتھ دھویا نیچے آئی خالہ
ناشتے کا کام سمیٹ چکی تھی اور میں چور ہی بنی کھڑی تھی جا کر دیکھ تیرے خالو کپڑے استری کروانے کو
پریشان ہو رہے ہوں گے جب میں خالو کے کمرے میں گئی تو حیران رہ گئی خالو نے خود ہی کپڑے استری کر
لیے تھے اور جوتے بھی خود پالش کر چکے تھے میں نے ان سے معذرت کی تو کہنے لگے بیٹی کوئی بات نہیں
اگر آج تمہاری انکھ دیر سے کھلی تو کیا ہوا تم اس گھر کی نوکرانی تھوڑی ہو جو ہر ایک کام لازمی تم ہی کرو ہم کو
بھی اپنے کام خود کرنے چاہیے نا مجھے خالو کی یہ بات سن کر بہت خوشی ہوئی خالو بولے حسنین سے پتہ کر لو
بیٹا شاید وہ پریشان ہو رہا ہو میں بھاگی بھاگی حسنین کے کمرے میں پہنچی دیکھا جو شخص اٹھ کر پانی نہیں پیتا تھا
اپنے جوتے پالش کر رہا تھا میں نے جلدی سے برش اور جوتا اس کے ہاتھ سے لے لیا بولا اتنی کیوں گھبرا
رہی ہو تم سو رہی تھی تم نے کچھ جرم تو نہیں کیا نا جو ایسی مچل رہی ہو اس کی بات سے میرا تھوڑا حوصلہ ہوا
ڈر سے جو میرا رنگ زرد تھا وہ نہ رہا شرمندہ ہی سر جھکائے جوتا پالش کرنے لگی جیسے کہ یہی میری قسمت
ہو۔
آج جو حسنین نے محبت بھرے لہجے میں مجھ سے بات کی تو میری آنکھوں سے نہ جانے کیوں آنسو گرنے
لگے جی چاہتا تھا اسی گھر میں رہوں ہمیشہ کے لیے لیکن حسنین جو مجھے پیر کے جوتی سمجھتا تھا بھلا وہ مجھے
کیوں کر گلے کا ہار بنا سکتا تھا میں یہی سوچا کرتی تھی آج پہلی بار مجھ کو ایک دوسرا احساس ہوا تھا میں کسی اور
عہد پر سوچنے لگی تھی شاید یہ لوگ مجھ سے پیار کرتے ہوں اور میری یتیمی کو بھلا کر مجھے وہ مقام دے دیں
جو مجھ کو ملنا چاہیے۔
اگلے دن حسنین کی چھٹی تھی وہ اپنے دوست کے گھر سے چل دیا گیا تھا خالہ کچن میں تھی مجھے خوشی تھی کہ
آج میری بھی چھٹی ہو گئی ہے میں بھاگ کر گئی حسنین کے میلے کپڑے اکٹھے کیے اور مشین میں ڈالنے ہی
والی تھی کہ شرٹ کی جیب میں مجھے کچھ محسوس ہوا جب کھول کر دیکھا تو حیران رہ گئی کسی لڑکی کا خط تھا جو
اس نے حسنین کو لکھا تھا کہ تمہارے دوست ڈاکٹر نے مجھ کو مشکل میں ڈال دیا ہے وہ مجھے دوا نہیں دیتا میں
بہت مصیبت میں ہوں پلیز تم میرے سے شادی کر لو ورنہ میں بدنام ہو جاؤں گی یہ پڑھتے ہی میری
حالت عجیب ہو گئی خط واپس جیب میں ڈال دیا اور ا کر لیٹ گئی سوچنے لگی کہ یہ کیا معاملہ ہے کیا وہ حسنین
کے دوست ہیں کیا حسنین اس لڑکی سے شادی کرے گا اور کیا حسنین اتنا برا ہے پتہ نہیں اس نے کتنی
لڑکیوں کو برباد کیا ہوگا سمجھ میں نہیں ارہا تھا کہ اس خط کو پڑھنے کے بعد میری کیوں ایسی حالت ہو گئی کہ
میری انکھوں سے انسو بہنے لگے جو تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے میں نے سوچ لیا تھا کہ اب اس گھر کی بہو
کے خواب میں نہیں دیکھوں گی۔
اج کل کے لڑکے برباد کسی لڑکی کو کرتے ہیں اور شادی کسی اور لڑکی سے جہاں تک ہو سکا میں حسنین سے
دور رہوں گی تمہیں حفاظت کروں گی لیٹے لیٹے دفعتا مجھے خیال آیا کہ اگر یہ خط خالہ نے نکال دیا تو حسنین
کے لیے آچھا نہ ہوگا نہ صرف اس کا راز فاش ہوگا بلکہ وہ خالہ کی نظروں سے بھی گر جائے گا تبھی میں اٹھی
میں نے خط حسنین کے میلے گردے کی جیب سے نکال کر اپنے پاس رکھ لیا خالہ میرے کمرے میں ائی
دیکھا میں لیٹی ہوئی ہوں تو سمجھیں شاید میری طبیعت ٹھیک نہیں کیونکہ میں بلا وجہ لیٹتی نہ تھی وہ خود جا
کر کپڑے دھونے والی تھی کہ حسنین اگیا شاید اس کو خط یاد اگیا تھا اس نے چلتی چلتی اپنے میلے کپڑے دیکھے
خط اس کو نہ ملا ماں سے پوچھنے کی اس میں جرات نہ تھی مگر وہ سمجھ گیا کہ خط ماں کے ہاتھ نہیں لگا کیونکہ
خالہ کے چہرے پر کسی بھی قسم کے تاثرات نہ تھے تبھی وہ میرے کمرے میں آگیا اس نے مجھے اواز دی
سنو کیا تم جاگ رہی ہو صائمہ اس کی آواز سن کر میں اٹھ بیٹھی سمجھ گئی کہ وہ کیوں ایا ہے کیونکہ عام حالات
میں وہ میرے کمرے میں نہیں آتا تھا کیا تم نے میلے کپڑے میرے کمرے سے اٹھائے تھے ابھی اس نے
یہ فقرہ بھی مکمل نہیں کیا تھا کہ میں نے دراز کھولی اور خط اس کو دے دیا خط کو اس نے مٹھی میں لے لیا
لیکن اس کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا تھا کیا تم نے اس خط کو پڑھا تھا جی ہاں میں نے اس بات پر سر ہلا دیا لمحہ
بھر تک مجھے گھورتا رہا میں نے سر جھکا لیا میری انکھیں فرش کو دیکھ رہی تھی جیسے وہ نہیں مجرم میں اچانک
میری سسکی نکل گئی ٹپ ٹپ آنسو فرش پر گرنے لگے وہ تصویر حیرت بنا کھڑا تھا تم کیوں رو رہی ہو کیا کیا
ہے تم نے آپ نے کسی کی زندگی برباد کی آپ کو رحم نہیں آیا دکھ نہیں ہوتا اپ کو کسی کو دکھ دے کر خدا
جانے مجھ میں ایسی طاقت کہاں سے آگئی تھی جو میں بولتی جا رہی تھی حیرت تھی کہ حسنین جو اس قدر
تنگ مزاج اور مغرور آدمی تھا اس وقت میری باتوں کو خاموشی سے کیوں کر سن رہا تھا جب میں بول چکی تو
اس نے کہا تم کو کسی لڑکی سے اتنی ہمدردی کیوں ہے تم نہیں جانتی کہ وہ اچھی لڑکی نہیں ہے ورنہ میں
ضرور اس سے شادی کر لیتا بہرحال تم اس معاملے کو دبا دو اور کسی سے بھی اس بات کا ذکر مت کرنا
سمجھی۔
یہ کہہ کر وہ میرے کمرے سے نکل گیا اس کے بعد دو دن تک میرے سامنے نہ آیا انہی دنوں ابا جان اگئے
وہ خالہ سے میرے لیے کوئی فیصلہ کن بات کرنے آئے تھے انہوں نے کہا ابا تم تو جانتی ہو کہ سوتیلی ماں
اس کو اپنے گھر میں برداشت نہیں کر سکتی زندگی کا کیا بھروسہ میں دل کا مریض ہوں تم اس بارے میں
سوچو اس کی شادی کرنی ہے خانہ ابا کا مطلب سمجھ گئی بولی میں دل سے چاہتی ہوں کہ اپنی مرحوم بہن کی
نشانی کو ہمیشہ گلے سے لگا کر رکھو لیکن حسنین کو راہ پر لانا مشکل نظر آتا ہے دو چار بار اس مسئلے پر میں نے اس
سے بات کرنے کی کوشش کی ہے وہ ہر دفعہ ٹال مٹول کر جاتا ہے تم کچھ دنوں ٹھہرو وہ راہ پر آجائے گا پھر
اس بچی کو باہر دھکا دینے کی ضرورت نہ رہے گی۔
حسنین اس دن کے بعد کافی بدل گیا ہر وقت گھر میں رہتا لیکن میرا سامنا نہ کرتا جب میں کھانا لے کر
کمرے میں جاتی وہ باہر نکل جاتا جب میں باہر اتی تو اندر چلا جاتا مجھے بار بار خیال آتا کاش حسنین پہلے ہی ایسا
رہتا اخر ایسا کیا مسئلہ ہے کہ مجھ سے دور بھاگتا ہے ابو بیمار ہو گئے تو مجھے بلوا لیا گیا خالو مجھے گھر چھوڑ آئے امی
نے جاتے ہی میری بری حالت کر دی باتوں باتوں میں کلیجہ چھلنی کرنے لگی کہ کمبخت ہوں بدھو کہیں کی
حسنین کو مائل نہ کر سکی کیا مٹی کا مادو ہے تو تجھ کو تیری خالہ کے پاس اس لیے چھوڑ رکھا تھا کہ اس کا لڑکا تجھ
کو پسند کر لے گا وہ دولت مند لوگ ہیں ذرا تجھ میں کوئی بات ہوتی تو آج عیش کرتی نہ ہم تو تیری شادی
نہیں کر سکتے اتنے روپے کہاں میرے پاس میں تو بس چپ چاپ آنسو بہاتی رہی ڈر تھا کہ کہیں ابا دیکھ نہ
لے سن نہ لے وہ بیمار ہیں ان کو اور بھی صدمہ ہوگا۔
انہیں کیا بتاتی میں نے حسنین سے شادی نہیں کرنی اس کو جس چیز کی ضرورت تھی وہ اس کو مل گئی تھی مجھ
سے شادی کر کے اس کو کیا ملے گا ابو کی بیماری جان لیوا ثابت ہوئی میری بدقسمتی کہ وہ چل بسے یہ سہارا بھی
میرا ٹوٹ گیا اتنا روئی کے آسمان بھی رویا ہوگا ابو کی وفات کے بعد تین ماہ تک سوتیلی ماں کے گھر رہی
سوتیلے بہن بھائیوں اور ماں کی خدمت کرتی رہی سوتیلی ماں ان دنوں کافی غمزدہ تھی ۔
ایک دن خالہ اور خالو ائے ماں سے کہا ہم اس کا رشتہ لینے آئے وہ خوش ہو گئی جیسے بھی تھی لیکن دل سے
چاہتی تھی کہ میں اپنے گھر کی ہو جاؤں اور خالہ ہی کی بہو بن شاید انہوں نے حسنین کو منا لیا ہوگا اور اب وہ
میری شادی اس سے کر رہے تھے جس دن شادی تھی میں تو باپ کو یاد کر کر کے بے ہوش ہو جا رہی تھی
آج مجھے اپنی سگی ماں کے ساتھ ساتھ اپنے ابو بھی یاد ا رہے تھے وہ ہوتے تو سر پر ہاتھ رکھ کر مجھے رخصت
تو کر دیتے شادی سادگی سے ہوئی کوئی زیادہ اہتمام نہ ہوا باراتی بھی کم تھے کیونکہ یہ حسنین کی مرضی تھی
کہ شادی دھوم دھام سے نہ ہو لیکن بری بہت اچھی تھی اتنی قیمتی اور خوبصورت کے محلے کی عورتوں نے
دیکھا تو انکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی جب مجھے دلہن بنا کر آئینہ دکھایا تو میں حیران رہ گئی آج پتہ چلا کہ میں تو
حسنین سے بھی زیادہ خوبصورت تھی کمرہ خوب سجا ہوا تھا یہ وہی کمرہ تھا جس میں میں نوکرانیوں کی طرح
صفائی کیا کرتی تھی اور حسنین کے جوتے پالش کیا کرتی تھی اس کمرے میں ڈر ڈر کے قدم رکھا کرتی تھی
اچانک مجھے خط والی بات یاد اگئی تو میں رونے لگی تبھی دلہا نے کمرے میں قدم رکھا میرا گھونگٹ اٹھانے
سے پہلے ہیرے کی انگوٹھی پہنائی اور کہنے لگا تم میری جیون ساتھی ہی نہیں میری رازدار میں ہی ہوا عائشہ
کمگسار بھی بن کے رہنا انہوں نے میرے آنسو پوچھے اور کہا کئی لڑکیاں دیکھیں مگر کسی میں وہ بات نہیں
جو تم میں سبھی تم کو مٹی کا مادو کہا کرتے تھے نا آج کوئی میرے دل سے پوچھے کہ اس مٹی کے مادھو میں دل
تو سونے کا ہے اور یہ کتنا جاندار اور کتنا قیمتی ہے ان کے لبوں سے ایسے بول سن کر میں تو حیران رہ گئی یقین
نہیں آرہا تھا وہ جو اوپر سے بیزار رہتے تھے اندر سے کس قدر مجھ سے محبت کرتے تھے تب نفرت ترک کر
کے انہوں نے مجھ سے محبت کی یہ معمہ آج تک حل نہیں ہو سکا میں نے اپنی زندگی میں جتنے بھی غم دیکھے
تھے اللہ نے سب بھلا دیے میں نے دل سے حسنین کی قدر کی اس کو میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی چاہا تھا وہ
میرا اتنا بڑا قدردان تھا یہ تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا شاید میرے صبر شکر اور برداشت کی وجہ سے
اللہ تعالی نے انعام کے طور پر مجھے بن مانگے محبت دے دی ،
دوستو جب محبت سچی ہو تو یوں مل جاتی ہے لیکن غلط راہ پر حسنین تھا جس طرح اس نے کئی لڑکیوں کی
زندگی تباہ کی خدارہ سب لڑکوں سے گزارش ہے کبھی کسی باپ کے شہزادی کے ساتھ ایسا نہ کرنا کیونکہ
ایک دن اللہ اپ کو بھی بیٹی دے گا اگر کوئی ایسے اپ کی بیٹی کے ساتھ کرے تو کیسی لگی دوستوں کہانی
کمنٹ باکس میں ضرور بتائیں ملتے ہیں اگلی کہانی میں تب تک کے لئے اللہ حافظ
کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔
اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔
اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔