Muhabtain Zinda Rahti Hain

Muhabtain Zinda Rahti Hain

Muhabtain Zinda Rahti Hain

آج کی میری ایک کہانی ایک بہت ہی خوبصورت اور عشق کی ایک دلکش داستان ہے تو ائیے کہا نی کا اغاز

کرتے ہیں اس کا نام ریحان اقبال تھا عمر 26 سال نہایت وجیہ گورا رنگ دلکش کا دامت نہایت شریف

انسان تھا انسانیت سے پیار کرنے والا یہی وجہ تھی کہ اس نے انسان دوست تنظیم بنا رکھی تھی جس کے

فروغ کے لیے دن رات گوشہ رہتا تھا پیشے سے وہ وکیل تھا تنہا رہتا تھا کیونکہ اس کے ماں باپ اور چھوٹی

بہن راولپنڈی سے مری جاتے ہوئے 12 کہو کہ نزدیک حادثے کا شکار ہو گئے تھے اور وہیں موقع پر دم

توڑ دیا تینوں نے یہ ریحان کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا۔

 کئی دنوں تک غم سے نڈھال رہا وہ سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں وسیع گھر میں اکیلا رہتا تھا علاقے کے

سب لوگ اس کے دل و جان سے قدر کرتے تھے ایک دن وہ اپنے دوست ڈاکٹر شاہزیب سے ملنے جنرل

ہسپتال گیا ڈاکٹر صاحب کسی اپریشن میں مصروف تھے انہوں نے کہلوا بھیجا کہ وہ ان کے کمرے میں

تھوڑی دیر انتظار کرے ریحان نے ڈاکٹر کے کمرے میں انتظار کرنے کی بجائے مناسب سمجھا کہ وہ

ہسپتال کے وسیع پارک میں جائے جہاں مریضوں کے ملاقاتیوں کے لیے جگہ مختص تھی وہاں کھلی فضا

میں بیٹھا جائے وہ ایک سرد شام تھی اور موسم قدر خوشگوار تھا وہ ایک بینچ پر بیٹھ گیا کچھ ہی دیر بعد اس نے

محسوس کیا کہ بینچوں کے پیچھے بنائی گئی تیاریوں میں کچھ سرسراہٹ اور ہلچل کی آواز ارہی تھی اٹھ کر

پودوں کے درمیان نگاہ ڈالی تو اسے ایک متحرک وجود نظر آیا کہ رہنے کی آوازیں اسی سے ارہی تھی جس

نے اپنے چہرے اور جسم پر پتلی سی چادر ڈال رکھی تھی ریحان اسے دیکھ کر بہت پریشان ہوا ہیرانگیز چہرے

پر ایاں تھی پودوں کو ہٹا کر اس نے چہرے سے چادر اتاری دیکھا تو وہ ایک نوجوان لڑکی تھی۔

بہت کمزور نیم بے ہوش لڑکی کا رنگ گورا مناسب خدوخال خوبصورت چہرہ جس سے معصومے جھلکتی

تھی کیا وجہ تھی کہ اس ناگفتہ بہ اور حیران کن صورتحال کا شکار تھی اس نے لڑکی کی نبض ٹٹولی تو پتہ چلا کہ

وہ تو شدید بخار میں مبتلا ہیں وہ دوڑتا ہوا ایمرجنسی سٹریچر لایا دو تین ادمی اور بھی جمع ہو گئے تھے لڑکی کو اٹھا

کر سٹریٹر پر لٹا دیا تو وہ پھر اسے ایمرجنسی میں لے گیا۔

 ڈاکٹر شاہزیب آپریشن سے فارغ ہو چکا تھا ریحان نے اسے ڈاکٹر کے حوالے کیا وہ لڑکی کی حالت دیکھ کر

علاج معالجے میں لگ گیا ریحان کے کہنے پر اس نے علیحدہ کمرے کا بندوبست کر دیا ڈاکٹر اور ریحان دونوں

لڑکی کی طرف متوجہ تھے ڈاکٹر کی تشخیص کے مطابق لڑکی کو تیز بخار تھا کئی دن سے فاقہ زدہ لگتی تھی ڈاکٹر

نے بخار کے اور طاقت کے انجیکشن لگائی دوائیاں دی وٹامن دیے لڑکی ابھی تک بے ہوش تھی دوائی کے

اثرات سے اس کی حالت تبدیل ہوتی رہی دو گھنٹے بعد اس نے آنکھیں کھولی وہ ہونکوں کی طرح ادھر ادھر

نظریں دوڑا رہی تھی۔

 ڈاکٹر کو دیکھا جو اس کے علاج معالجے میں لگا تھا ساتھ میں ریحان ایسی توجہ دے رہا تھا جیسے کوئی اپنا عزیز ہو

لڑکی نے بولنے کی کوشش کی لیکن ڈاکٹر نے اسے منع کر دیا کہ فی الحال وہ کچھ نہ بولے مکمل آرام کرے

ریحان دوڑ کر اس کے لیے انرجی کی دوائیاں بسکٹ چکن سوپ اور دیگر طاقتور اشیاء لے آیا دو گھنٹے بعد وہ

لڑکی پوری طرح ہوش میں آچکی تھی اور بہت ہی حیران تھی کہ وہ کس طرح کمرے میں لائی گئی ۔

ڈاکٹر اور ریحان کیوں دل جمی اور توجہ سے اس کا خیال رکھ رہے تھے ریحان کو دیکھا تو اس نے اٹھنے کی

کوشش کی وہ دوڑکر لڑکی کے پاس آگیا اسے سہارا دیا کہ مزید آرام کریں لڑکی معلوم کرنا چاہتی تھی کہ

آخر وہ کون ہے ریحان نے مختصر اپنا تعارف کروایا میرا نام ریحان اقبال ہے میں ایک وکیل ہوں ہسپتال

اپنے دوست کو ملنے آیا تو اپ لاوارثوں کی طرح ننگے زمین پر بے ہوش پڑی تھی آپ کو اٹھا کر لے آئے ہم

کمرے میں اب آپ ارام کریں جب اپ کی طبیعت پوری طرح سنبھلی تو پھر بات کریں گے۔

 یہ کہہ کر ریحان باہر نکل گیا شام کو واپس آیا تو لڑکی مکمل ہوش میں تھی ریحان نے اس کی خیریت

دریافت کی وہ اپنے ساتھ لڑکی کے لیے مارکیٹ سے خوبصورت کپڑے جوتے اور دیگر سامان لایا تھا لڑکی

کے آگے اس نے وہ سامان رکھا تو لڑکی بہت ہی شش و پنج میں مبتلا تھی ایسی توجہ کے زمرے میں ہے وہ

شاہد کی احسان مند ہو رہی تھی اب چونکہ لڑکی تھوڑا بہتر محسوس کر رہی تھی تو ریحان نے لڑکی سے پوچھا

کہ وہ بتائے کہ وہ کون ہے کیسے ہسپتال پہنچی اس کے گھر والے کہاں ہیں گھر کہاں ہیں اپ ان کا پتہ دیں

میں ابھی ان سے رابطہ کرتا ہوں گھر والوں کے ذکر سے لڑکی اداس ہو گئی اور رونے لگی پھر ریحان کو اپنے

بارے میں سب بتایا میرا نام جنت ہےراولپنڈی میں اپنے ماں باپ کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہتی

تھی ابا کا کوئی خاص کاروبار نہ تھا گھر میں ہر وقت لڑائی جھگڑے رہتے تھے میں نے ایف اے کا امتحان پاس

کر لیا تھا اب بی اے  کرنے کا ارادہ رکھتی تھی کہ ابا ہمیں چھوڑ کراچی چلے گئے کوئی اتا پتہ نہ دیا سنا تھا کہ وہاں

شادی کر لی ہے اور ہم سے رشتہ توڑ دیا بعد میں پتہ چلا کہ وہ کراچی میں حادثے کے نتیجے میں چل بسے گھر

میں بڑی مشکل سے گزارا ہو رہا تھا اہل محلہ ہمدردی کے طور پر میری ماں کو سلائی کے لیے کپڑے دیتے ۔

جس سے میرا اور میری ماں کا مشکل سے دال دلیا چلتا ہمارے محلے کا ایک اوباش ٹھیکے دار تھا جو ہر وقت

میری ماں کے آگے پیچھے لگا رہتا تھا بہت تنگ کرتا تھا عورت اگر بیوہ ہو اور خاص طور پر خوبصورت ہو تو

زندگی عذاب سے کم نہیں ہوتی امی بہت پریشان ہوئی کوئی پرسان حال نہ تھا حالات کے ستم ظریفی یہ ہوئی

کہ امی نے مجبوری کے تحت اسی سے شادی کر لی کچھ دن تو خیر سے گزرے پھر مال کٹائی شور شرابہ شروع

ہوا امی بہت مصیبت میں پڑ گئی امی کو سب سے زیادہ میری فکر تھی اور اس فکر میں بیماری کی حالت میں بستر

سے جا لگی اور پھر ایک دن امی علاج نہ ہونے کی وجہ سے اس دنیا سے چلی گئی۔

 اب میں اکیلی تھی میرے سوتیلے باپ کی اب غلط نظریں میرے اوپر لگی رہتی وہ ہر وقت ہوس زدہ نگاہیں

گاڑے رہتا اس کی نیت میں فتور اگیا تھا وہ ہر وقت میرے آ گے پیچھے لگا رہتا آخر تنگ ا کر میں تن پر موجود

دو کپڑوں میں ہی گھر کو چھوڑ کر آگئی باہر نکلی ایک نئی دنیا میرے سامنے تھی کہاں جاتی نہ کوئی رشتہ دار تھا تو

نہ کوئی اپنا منزل کا پتہ نہ تھا اور راستوں سے میں انجان تھی اکیلی جوان لڑکی کو دیکھ کر لوگ ہمدردی چتانے

لگے نوجوان بزرگ سب اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے گاڑیوں کے دروازے کھلتے گئے میں بہت پریشان

تھی ڈری ڈری سہمی کچھ سمجھ نہ آرہا تھا کہ کیا کروں بھوک کمزوری نے نڈھال کر دیا تھا۔

 ذہن میں سوچ آئی کہ جنرل ہسپتال مری روڈ کے اگے عیدی فاؤنڈیشن والے مفت کھانا فراہم کرتے ہیں

بڑی دور سے ٹھوکریں کھاتی وہاں پہنچی اور پھر اسی ہسپتال کے کونے خدرے میں پناہ لی دو وقت کھانا

عیدی دسترخوان سے کھاتی اور پھر سارا دن مریضوں کے بیچ پڑی رہتی کبھی کبھی ہسپتال کے نزدیک گرلز

کالج چلی جاتی وہاں گیٹ پر بیٹھ کر آنے جانے والے طالبات کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتی رہتی مجھے

تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا سوچتی تھی کہ کاش میرے ماں باپ بھی دوسروں کی طرح مجھے کالج

چھوڑنے اتے میں خوبصورت یونیفارم میں اتی جاتی کالج کے خاتمے تک وہیں رہتی پھر۔

Muhabtain Zinda Rahti Hain

 ایک دن وہ بھی چھوٹ گیا دراصل میں گیٹ پر بیٹھی ہوتی تھی تو وہ سیدھا کپڑوں میں ملبوس مجھے لوگ

بھیکارن سمجھنے لگے اور میرے اگے پیسے پھینکنے لگی میں اپنی بدنصیبی پر خون کے آنسو بہاتی وہ جگہ چھوڑ کر پھر

سے ہسپتال آ گئی جس دن اپ نے مجھے سہارا دیا میں تین دن سے بخار میں مبتلا تھی کچھ کھایا پیا نہ تھا اپ نے

بڑی مہربانی کی کہ مجھے یہاں پہنچا دیا میں اب کیسے آپ کا شکریہ ادا کروں ایک بے سہارا لا وارث یتیم لڑکی

کو اپنے مان سم مان دیا ریحان جنت کے حالات جان کر بہت دکھی ہوا وہ خود ایک انسان دوست تھا اسے

تسلی دی اور پھر اپنے بارے میں مزید بتانے لگا کہ میں خود اپنے گھر میں اکیلا رہتا ہوں ماں باپ بہن بھائی

کوئی بھی نہیں ہے میں ماں باپ کے چھوڑے وسیع گھر میں تنہا رہتا ہوں آپ کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں ہے

اگر اپ مناسب سمجھیں تو میرے ساتھ میرے گھر چلیں جب تک حالات ٹھیک نہیں ہوتے وہیں قیام

کریں وہ تو ٹھیک ہے لیکن لوگ کیا کہیں گے کوئی کچھ نہیں کہے گا سب مجھے جانتے ہیں آپ کے رہنے پر

خوش ہی ہوں گے دو دن جنت مزید ہسپتال میں رہی پھر اسے ڈسچارج کر دیا گیا اور ریحان اسے سیٹلائٹ

ٹاؤن اپنے گھر لے گیا ۔

یہ تین کمروں پر مشتمل خوبصورت مکان تھا جہاں پر ہر قسم کی سہولیات میسر تھی ڈرائنگ روم ٹی وی

لاؤنج اٹیچ باتھ روم وغیرہ وغیرہ ریحان نے جنت کو سارا گھر دکھایا اور گھر کی چابیاں حوالے کر دی اور خود

مارکیٹ چلا گیا گھنٹے بھر کے بعد واپس آیا تو دیدہ زیب ریڈی میڈ سوٹ جو تے کھانے پینے کی اشیاء اور

ضرورت کی ہر چیز ساتھ لایا جنت کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے ریحان نے کہا اب یہ گھر تمہارے

حوالے ہے تم ہی اسے سنبھالو گی جنت کہنے لگی اپ فکر نہ کریں اپ نے مجھ پر احسان کیا ہے اب اس گھر کی

مکمل دیکھ بھال میں خود کروں گی اور یوں دونوں بے لو اس گھر میں رہنے لگے۔

 ایک دن دفتر کے واپسی پر ریحان اپنے ساتھ کافی کتابیں کاپیاں وغیرہ لے کر ایا اور جنت کے اگے رکھ دی

جنت کتابیں دیکھ کر حیران رہ گئی یہ سب کیا ہے تمہیں پڑھنے کا شوق کہنا جنت تو تم اگے تعلیم حاصل کرنا

چاہتی تھی پر حالات کی وجہ سے نہ کر سکی دیکھو میں تمہارے لیے بی اے کا کورس لے کر آیا ہوں اب

تمہاری مرضی ہے کہ پرائیویٹ بھی یہ کرو کہ کالج میں داخلہ لو جنت کی آنکھوں میں خوشی کے آانسو تھے

اس کی درینہ خواہش پوری ہو رہی تھی کوئی تو تھا جو اس کے خوابوں کی تعبیر میں پیش پیش تھا میں کس

زبان سے اپ کا شکریہ ادا کروں اپ نے میرے لیے اتنا اچھا سوچا یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے جنت۔

Muhabtain Zinda Rahti Hain

 آج سے تم گھر کے ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی پر بھی توجہ دو بی اے کی تیاری کرو میں بھی وقتا فوقتا تمہاری

پڑھائی میں مدد کروں گا یوں جنت لگن اور دلچسپی کے ساتھ پڑھائی میں جھت گئی دو سال بعد اس نے بی

اے فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا اب اس کا ارادہ ایل ایل بی کرنے کا تھا اس نے اسلام اباد کے مسلم لا کالج

میں داخلہ لیا ریحان اپنے وکالت اور تنظیمی امور میں لگا رہا کبھی کبھی وہ وقت نکال کر مری بھوربن وغیرہ

چلے جاتے تھے اب جنت دبلی پتلی نہیں بیمار لڑکی نہ تھی 23 سال کی الرٹ دوشیزہ نہایت خوبصورت

قابل رشک شخصیت تھی جب وہ دونوں پہاڑوں کی چوٹیوں پر ہم رکاب ہوتے تو دیکھنے والوں کی نگاہیں

انہیں رشک امیز نظروں سے دیکھتی جنت اب لا کر رہی تھی اس کی دو مصروفیات تھیں ایک پڑھائی میں

انہماک دوسرا ریحان کا ہر گھڑی شدت سے انتظار اسے ریحان سے انتہا کی محبت ہو گئی تھی ریحان بھی اسے

دل و جان سے چاہتا تھا تین سال سے وہ دونوں ایک دوسرے کو شدت سے چاہ رہے تھے لیکن حیرانگی کی

بات یہ تھی کہ کبھی جنت نے اپنی محبت کا اظہار نہیں کیا تھا اور نہ ہی ریحان نے اسے اپنے دل کا کبھی حال

بتایا دونوں دل ہی دل میں ایک دوسرے کی محبت میں ڈوبے تھے دو سال بعد جنت نے ایل ایل بی بھی

پاس کر لیا اس میں بھی اس نے فرسٹ ڈویژن لی وہ بہت خوش تھی اور اس سے زیادہ خوش ریحان تھا اور

جنت کی ہر کامیابی پر نازہ تھا جنت اب چاہ رہی تھی کہ وہ اب وکالت کی پریکٹس کے ساتھ ساتھ سی ایس

ایس کرے اس سلسلے میں اس نے پبلک ایڈمنسٹریشن کے اعلی ادارے میں رجسٹریشن کروائی اور دل جمی

 کے ساتھ پڑھائی میں لگ گئی ریحان اس کے لیے متعلقہ کتابیں جنرل نالج کی ڈکشنریاں ملکی غیر ملکی رسائی

لا رہا تھا ایک سال بعد وہ سی ایس ایس کے امتحان میں اپیئر ہوئی اس نے سی ایس ایس میں ٹاپ پوزیشن لی۔

 وہ ریکارڈ ہولڈر بن گئی ٹی وی اخبارات ملکی غیر ملکی خبر رضا ایجنسیاں اس کی تعریف و توصیف میں بھرے

تھے اس کے انٹرویوز نشر ہو رہے تھے وہ ملکی اعلی شخصیت بن چکی تھی اب یہ اس پر منحصر تھا کہ وہ اپنے

لیے کس سروس کا انتخاب کرتی ہے فورا سروس کسٹم انکم ٹیکس ایڈمنسٹریشن ڈویژنل ڈاہ خانہ جات اس

نے ریحان سے مشورہ کر کے اپنے لیے فورا سروس منتخب کی اب وہ وزارت خارجہ کی اعلی افسر تھی گاڑی

بنگلہ نوکر سیکیورٹی سب سہولیات اسے دی گئی تھی۔

 وہ اب پنڈی سے اسلام اباد کی پوش ایریا کی سیکٹر ڈی میں منتقل ہو گئے تھے ریحان تو چاہتا تھا کہ وہ اپنا پنڈی

والا آبائی گھر فروخت کرتے لیکن جنت نے اسے منع کر دیا وہ اسے ہرگز نہیں بیچنا چاہتی تھی کیونکہ اسے

اس گھر سے بہت انس تھا اس گھر کی مٹی کی خوشبو میں اس کی حسین یادیں جڑی تھی جنت کی ریحان سے

محبت کے پانچ یادگار سال ہو چکے تھے ایک دن ریحان خوشی خوشی گھر میں داخل ہوا وہ اپنے ساتھ

ڈھیروں سامان لایا اس میں رنگ برنگی چمکدار جھنڈیاں قسم قسم کے غبارے موم بتیاں خوشبودار اگر

بتیاں دیگر مسرت کے مواقع پر استعمال ہونے والی اشیاء تھی ۔

جنت حیران تھی کہ یہ سارا اہتمام کس لیے ریحان یہ سب چیزیں اپ کس خوشی میں لائے ہیں ارے

جنت تم کل 26 سال کی ہو جاؤ گی نا ہم دونوں دھوم دھام سے تمہاری سالگرہ منائیں گے پر اپ کو کیسے پتہ

چلا ریحان کہ میں 26 سال کی ہوں دوسرا میں نے تو کبھی اپنی سالگرہ نہیں منائی ارے بے وقوف لڑکی

کیا تمہارے سرٹیفکیٹ ڈومیسائل میں ڈیٹ اف برتھ کا اندراج نہیں تم نے کبھی سالگرہ سیلیبریٹ نہیں

کی تو اب کر لیں گے اور جنت کل میں اسی خوشی کے موقع پر اپنی ایک درینہ خواہش اور ایک بہت بڑی خبر

کا انکشاف کروں گا امید ہے کہ تم بھی اپنے دل کی دنیا کو میرے سامنے کھولو گی جنت سمجھ گئی تھی کہ اس

بات کا کیا مطلب تھا اسے انہی لمحات کا تو شدت سے انتظار تھا سالوں سے وہ ترس گئی تھی کہ ریحان کب

اپنی زبان سے اقرار محبت کرے گا اور اب وہ وقت اگیا تھا ریحان بھی سوچ رہا تھا کہ وہ کل سالگرہ کے

موقع پر اپنی مدتوں پر محیط محبت کا اقرار و اظہار کرے گا وہ جنت کو ہمیشہ کے لیے اپنانے گا وہ سارا دن

سالگرہ کو شایان شان منانے کے لیے اہتمام کرتے رہے دوسری صبح جنت اپنے افس چلی گئی دوپہر کو چھٹی

کرنے کا ارادہ تھا ریحان بھی عدالت کیا اس کی واپسی چار بجے شام  کو تھی جنت نے افس سے 12 بجے چھٹی

لی وہ سیدھا مارکیٹ گئی اپنے لیے خوبصورت ترین کپڑوں کا انتخاب کیا جولری وغیرہ خریدی دو گھنٹے بیوٹی

پالر میں آرائشوں زبائش میں مصروف رہی اس نے ریحان کے لیے بھی اعلی قسم کی شاپنگ کی تھی ارمانی

کے سوٹ شرٹ سینٹ مائکل کی قیمتی ٹائیاں اٹیلین شوز پرفیومز اور دوسری مردانہ اشیاء پھر وہ خوش کچھ

گھر واپس آئے چار بجنے والے تھے ریحان کسی بھی وقت آ سکتا تھا اج اس کی ارمانوں اور دائمی مسرتوں کا

دن تھا چار بجے پانچ بجے شام کے چھ بج گئے ریحان ابھی تک نہ آیا حالانکہ وہ وقت کا بہت پابند تھا رات کے

اٹھ بج گئے ریحان کا تب بھی کوئی پتہ نہ تھا دفتر فون کیا تو بتایا گیا کہ ریحان صاحب تو تین بجے گھر کے لیے

دفتر چھوڑ چکے تھے۔

 اب جنت بہت پریشان اور ہراسہ تھی کچھ سمجھ میں نہیں ارہا تھا کہ کیا کریں ریحان کا فون بھی مسلسل بن

جا رہا تھا رات گیارہ بجے جنت نے گاڑی نکالی اور ریحان کو ڈھونڈنے کے لیے دو گھنٹے تک اسلام اباد اور

پنڈی کی سڑکوں کو ناپتے رہی لیکن بے سود آخر رات ایک بجے وہ گھر واپس لوٹی بستر پر روتی آنکھوں سے

ڈر گئی تھوڑی دیر بعد اس کے موبائل کی گھنٹی بجی اس نے نہایت بے تابع اور اجلت میں فون اٹھایا جنرل

ہسپتال پنڈی سے فون تھا بتا رہے تھے کہ ریحان کا سیریس ایکسیڈنٹ ہوا ہے وہ شدید زخمی حالت میں

ہسپتال میں داخل ہے۔

 جنت روتی دھوتی ہانپتے کاتے گاڑی نکال کر ہسپتال روانہ ہوئی ڈاکٹر شاہزیب اس کے انتظار میں تھا اسے

لے کر اسی کمرے میں لے گیا جہاں اج سے پانچ سال پہلے وہ داخل تھی اس نے دیکھا تو ریحان نہایت

زخمی حالت میں زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا ہاتھوں پیرو سر پر پٹیاں بندھی تھی اسے بتایا گیا کہ

ریحان اسلام اباد سے پنڈی آ رہا تھا کہ فیض آباد چوک پر ایک بزرگ ادمی سڑک کراس کرتے ہوئے اس

کی گاڑی کے سامنے اگئی ریحان نے اسے تو بچا لیا اور خود پل سے گاڑی سمیت نیچے گر گیا جنت نے ریحان

کی حالت دیکھی تو دیوانگی کی حالت میں اس کے قدموں پر اپنا سر رکھ دیا زار و قطار بیچاری رونے لگی ریحان

کے ہاتھوں پر اپنے کانپتے ہوٹ رکھ دیے تھوڑی دیر کے بعد ریحان کو ہوش آیا اس نے جنت کی حالت

دیکھی یہ کیا ہو گیا ریحان تقدیر نے کیا ہمیں ابھی اور بھی ازمانا تھا رو نہیں جنت تقدیر میں جو لکھا ہوتا ہے وہ

تو ہو کے ہی رہتا ہے میری باتیں غور سے سنو شاید میں اب زندہ نہ رہوں ایک بات کا دکھ رہے گا کہ میں

تمہیں کبھی اپنے دل کا حال نہ بتا سکا میں تو اس دن سے تم سے پیار کرتا ہوں جب تم اسی بستر پر بیماری کی

حالت میں تھی میں تم سے شدید محبت کرتا ہوں سوچا تھا کہ جب تم بہت ساری کامیابیاں حاصل کر لو گی تو

تب ہم شادی کریں گے میں تمہیں کامیاب دیکھنا چاہتا تھا اس لیے پہلے تم سے کبھی اظہار محبت نہیں کیا

تاکہ تمہارا دھیان ادھر ادھر نہ بھٹکے میں نے تو سوچا تھا کہ جب تم کسی مقام پر پہنچ جاؤ گی تو پھر ہم دونوں

شادی کر لیں گے۔

 لیکن شاید یہ نصیب میں نہیں تھا اپ کو کچھ نہیں ہوگا ریحان میں بھی اپ سے بے پناہ محبت کرتی ہوں اسی

دن سے جب پہلے دن گھر کی چابیاں اپ نے میرے حوالے کی تھی میں تو ترستی رہی کہ کب اپ اپنی

محبت کا اظہار کریں گے میں تو اپ کے بازوں کے حسار میں آنے کے لیے کب کی منتظر تھی جنت وقت

تیزی سے گزر رہا ہے میری باتیں غور سے سنو میرا تم سے یہ کہنا ہے کہ تمہیں ہر حال میں جینا ہوگا

میرے کچھ خواب تھے خواہشیں تھی تمنائیں تھی جو میں تو پوری نہ کر سکا لیکن تمہیں ان کی تکمیل کرنا

ہوگی دوسروں کے لیے جینے کا نام ہی زندگی ہے اج کل خودغرضی مطلب پرستی اور مفاد کا زمانہ ہے تمہیں

ہمیشہ بے لوث ہمدردی وہ نیک نیتی سے دوسروں کے کام انا ہے جنت تم مجھ سے وعدہ کرو تم انسانیت کے

لیے مجبور بے بس لاچار لوگوں کے لیے بھاگ دوڑ کرو گی ان کے کام آؤ گی تو تبھی میری روح تسکین پائے

گی میں وعدہ کرتی ہوں اپ سے لیکن اپ ٹھیک ہو جائیں گے میں اپ کی ہر خواہش کو پورا کروں گی اپ

کے سب خواب ہم دونوں مل کر پورا کریں گے میں اپ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی جنت یہ باتیں کر رہی

تھی کہ ریحان کا ہاتھ جو جنت نے اپنے چہرے پر رکھا ہوا تھا آہستہ آہستہ ڈھلکتا گیا اور سانسوں کی ڈور ٹوٹ

گئی ریحان مر گیا تھا۔

 جنت اس کے قدموں میں لپٹی اہ و بکا کرنے لگی پھر جنت نے وزارت خارجہ کی نوکری سے استعفی دے دیا

ایسوسییٹ کی صدر بنی 20 وکلا ایسسٹ کرتے تھے ہیومن رائٹس کی چیئر پرسن بنی اس نے اپنی زندگی

ریحان کی آرزوں کی تکمیل میں گزار دی آخر وہ ریٹائرڈ ہو گئی لیکن جس ریحان کی محبت اور بے لوث

خدمت کی وجہ سے اس نے اس زمانے بھر کی کامیابیاں سمیٹیں مقدر اور نصیب نے اسے ہی اس سے ہمیشہ

کے لیے جدا کر دیا آج بھی جنت 80 سال کی عمر میں اسلام اباد کی مارکلہ پہاڑیوں کے دامن میں واقع سیکٹر

ڈی کے اداس اور ویران بنگلے میں اپنے محبوب کی یادوں کو سینے میں بسائے زندگی کے آخری سفر کی تیاری

میں شب و روز گزار رہی ہے روزانہ بلا ناگا اداس اور ویران بنگلے سے موتیا کے پھول چن کر ایچ ایٹ کے

قبرستان میں ریحان کی قبر پر چڑھانا اس کا روز کا معمول ہے۔

 تو ناظرین یہ تھی ہماری اج کی کہانی امید کرتی ہوں اپ سب کو بہت پسند ائی ہوگی ناظرین آپ کو کیا لگتا

ہے کیا یہ کہانیاں صرف کہانیوں کی حد تک ہی محدود ہیں یا واقعی حقیقی زندگی میں بھی ان کی کوئی حقیقت

موجود ہے ناظرین اگر اپ نے بھی اپنی حقیقی زندگی میں کبھی کوئی ایسی سچی کہانی دیکھی یا سنی ہو تو ہم سے

ضرور شیئر کیجئے گا اپ کو یہ کہانی  کیسی لگی ہمیں کمنٹ سیکشن میں کمنٹ کر کے ضرور بتائیے گا اور اپ کا عشق

کے بارے میں کیا خیال ہے یہ بھی ہمیں کمنٹ کر کے ضرور بتائیے گا  مجھے اجازت دیں اللہ حافظ

کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment