Qissa Malka aur Ghulam ka episode 1
اسلام وعلیکم کیا حال ہے آپ سب کا اُمید ہے آپ سب خیریت ہوں گے ۔
آج کی کہانی میں خوش آمدید
بہت پرانے زمانے کی بات ہے کسی سیاح یعنی ملک و ملکوں گھومنے پھرنے والے نے اپنا انکھوں دیکھا واقعہ
یوں بیان کیا کہ میں اپنی سیر و تفریح کے دوران بر صغیر کے شہر میں پہنچا تو وہاں میں نے پہلے دن ایک
معمولی سرائے میں رات گزارنے کے لیے ایک بستر حاصل کیا میں اس دن تکلیف دہ سفر کی وجہ سے
جسمانی طور پر بہت تھکا ہوا تھا ٹوٹا ہوا تھا سرائے کا مالک بہت خوش اخلاق اور باتونی قسم کا انسان تھا میں نے
اسے بتایا کہ میں ملکوں ملکوں گھومنے والا ایک سایہ ہوں مجھے اپنے اس قدیم علاقے کی سیر کراؤ اس کی
قدیم عمارتیں اور ان کی تاریخ بتاؤ یا کوئی ایسا شخص دو جو مجھے اس علاقے کو گھومنے پھرنے میں مدد کرے
اس نے کہا میں تمہیں صبح ایک ایسا بوڑھا کوچوان دوں گا جو کہ اپ کو اپنی تانگہ نواں سواری میں مناسب
اجرت لے کر اس علاقے کے مشہور تاریخی اور خاص دلچسپی کی جگہ دکھلائے گا ۔
سرائے کے مالک نے اپنے وعدے کے مطابق مجھے صبح ہی صبح ایک بوڑھے کو جوان سے ملایا اس نے مجھے
تانگے کے اگلے حصے میں بیٹھنے کے لیے کہا اس بوڑھے کوچوان نے مجھ سے پوچھا کہ اپ مجھے بتائیں کہ اپ
کو اس شہر کے کس قسم کی تاریخی عمارتیں دکھلاؤں میں نے اس سے کہا کہ تم یہ بخوبی جانتے ہو کہ میں
تمہارے ملک سے سینکڑوں میل دور سے آیا ہوں بس تم مجھے اس شہر کی ہر دلچسپ تاریخی جگہ پر گھماؤ اس
نے مجھے کہا اگر آپ کو واقعی اپنے شوق کو پروان چڑھانا ہے تو اپ اس بات کو برا تو نہیں مانو گے کہ میں
ایک انتہائی بدبودار کراہیت انگیز علاقے میں آپ کو لے جاؤں میں نے اس سے پوچھا کہ اس بدبودار
کراہیت میں ایسی کون سی دلچسپی کی حامل تاریخی چیز موجود ہے جو تم مجھے دکھانا ضروری سمجھتے ہو اس نے
تانگے کو ایک لمحے کے لیے روکا اور اس نے مجھے کہا کہ اپ مجھے ایک بار پھر یہ بات یہاں صاف طور پر
بتلائیں کہ واقعی میں اپ کو اس نجس غلیظ جگہ لے جاؤں جہاں اپ کو اپ کے مقصد کی چیز مل جائے گی۔
میں نے کہا ہاں بے شک مجھے اس کراہیت والی جگہ پر لے چلو لیکن یاد رکھو کہ مجھے وہاں پر مایوسی نہ ہو اس
نے کہا چلیں اپ نے اب مجھے اجازت دے دی ہے تو ایسا کریں کہ تیز خوشبو کی شیشیاں اور ایک بڑا سا
ریشم کا رومال لے لیں میں نے کہا وہ کیوں بوڑھے کو جوان نے کہا میں اپ کو جس جگہ لے جاؤں گا وہاں
ان تیز خوشبوں کے انتہائی ضرورت پیش آئے گی اس نے بتایا کہ جب ایک خوشبو فروش سے تیز خوشبو
مانگی تو اس نے مجھ سے پوچھا کہ ان خوشبوؤں کی تمہیں کیا ضرورت پیش اگئی تو میں نے کہا کہ مجھے اس کو
جوان نے کسی ایسی گندی جگہ لے کر جانا ہے جہاں اس کے بقول اس علاقے کی کوئی خاص دلچسپی کی چیز
ہے ۔
اس نے گوجوان سے پوچھا کہ ان شریف ادمی کو تم کہاں لے جا رہے ہو کوچوان نے اس کے کانوں میں
کوئی سرگوشی کی آچھا آچھا ہاں وہ جگہ تو آپ کے تجسس کو ضرور جلا بخشے گی لیکن وہاں کے ماحول میں
چھوٹنے والی بدبو اپ کے دماغ کو خراب کر دے گی میرا اپ کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ اپ باہر نہ جائیں میں
نے اس خوشبو فروش کے مشورے پر بالکل توجہ نہ دی طویل سفر کے بعد جب ہمارے تانگے کے پئیوں
نے حدود کو چھوا تو میرے نظروں میں آہستہ آہستہ سڑی ہوئی بدبو ٹکرانے لگی جو رفتہ رفتہ بڑھ رہی تھی
بلکہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس کے اس ران میرے لیے ناقابل برداشت ہو گئی میں نے اپنی جیب سے
ریشمی رومال اور خوشبو والی شیشیاں نکال لیں اس کے بعد میں نے رومال کو اپنی ناک کے گرد باندھ لیا اس
سے مجھے یہ فائدہ ہوا کہ ناک میں آنے والی بدھوں میں کچھ کمی محسوس ہو گئی تانگہبان کہنے لگا اف میرا یہاں
جینا تو بر ہو گیا مجھ سے یہ غلطی ہو گئی کہ مجھے بھی اس بازار سے خوشبو کی بوتل اور رومان لے لینا چاہیے تھا
تم نے تو مجھے خود یہاں سے انے سے پہلے تیز خوشبو اور ریشمی رومان لینے کو کہا تھا۔
میں نے اسے تنزیہ طور پر کہا جس سچی بات تو یہ ہے کہ مجھ سے اگے ان حالات میں تانگہ بڑھایا نہیں جانا
اگر اپ برا نہ مانیں تو ہمیں ذرا واپس بازار چل کر ریشمی رومال اور خوشبو کی بوتلیں لے لیں میں نے اس
سے کہا کہ تم ایسا کرو کہ مجھ سے ایک رومال لے لو جبکہ میں ایک رومال سے گزارا کر لوں گا کوچوان بولا
اس عمل سے اپ کے نتھنوں میں انے والی بدبو کی شدت پہلے سے زیادہ بڑھ جائے گی میں نے کچھ مروت
اور کچھ وہاں جانے کے تجسس میں اسے ایسا کرنے کا کام وہ بازد ہو گیا کہ اسے واپس بازار خوشبو لینے جانا ہے
لیکن میں نے اسے زبردستی اپنے نتھروں میں چڑھے دونوں رومال میں سے ایک اسے دے دیا اس بڈھے
کوچوان نے بھی میری جانب سے دیا گیا رومال فورا اپنے ناک پر باندھ لیا مجھے چند لمحے پہلے وہاں اٹھنے والی
بدبو میں جو قدر افاقہ ہوا تھا اس کے شدت میں پھر اضافہ ہو گیا بدبو اور خوشبو دونوں کا مشترکہ انتظاج مجھے
تنگ کرنے لگا۔
جوں جوں ہماری سواری آگے بڑھ رہی تھی تو وہاں میں نے ایک دلچسپ بات دیکھی کہ اس راہ میں
حالات سے بدحال لوگ اس گندگی کی جانب اپنے سروں پر گندگی کے ٹوکرے اٹھائے جا رہے تھے جو کہ
دیکھنے میں بھنگی نظر آتے تھے میں نے گوجوان سے پوچھا یہ بھنگی کہاں جا رہے ہیں تو اس نے کہا آپ کے
سوال کا جواب چند لمحوں میں آنے والا ہے چند لمحے بعد مجھے نوجوان ایسی جگہ لے گیا جہاں میں نے ایک بڑا
عجیب و غریب منظر دیکھا منظر یہ تھا کہ وہاں ایک جگہ کے وسط میں ایک انتہائی خوبصورت نوجوان لڑکی
برہنہ حالت میں ایک لمبی سی زنجیر سے بندی ہوئی تھی اور اس کے گرد بھنگیوں کی ایک کثیر تعداد قطار
لگائے ہوئے بیٹھی تھی ان میں سے ہر ایک بھنگی پہلے اپنے سر پر رکھا گندگی کا ٹوکرا اس پر پھینکتا اور پھر اس
زنجیر سے بندی لڑکی سے سرعام غلط برتاؤ کرتا تھا مجھے وہاں پر انسانی تذلیل والا یہ منظر دیکھ کر دکھ محسوس
ہوا دوسرے وہاں اتنی کراہیت انگیز تافن اٹھ رہا تھا کہ میرا وہاں کھڑا رہنا دوبر ہو رہا تھا میں نے کوچوان
کے جانب تجسس اور پریشانی کے عالم میں دیکھا کہ یہ کتنا دل گرفتا منظر ہے اور اس خوبصورت لڑکی کے
ساتھ شہر کے بھنگی یہ عمل کیوں کر رہے ہیں۔
کوچوان نے مجھے آہستہ سے کہا اپنی جذباتی اور چلاتی آواز کو اپنے سینے میں ذرا دبا کر رکھو تم نے یہ منظر دیکھ
لیا ہے اسے بغور دیکھ لو اس منظر کی کہانی میں وہاں تمہیں سناؤں گا جہاں فضا صاف اور خوشگوار ہوگی میں
نے اخری بار اس بے بس لڑکے کی طرف نظر دوڑائی جس سے شہر کے تمام بھنگی غلط برتاؤ کر رہے تھے وہ
نڈھال پڑی ہوئی تھی اسے یوں دیکھ کر لگتا تھا جیسے اسے پتہ ہی نہ چل رہا ہو کہ اس کے قریب کون ارہا ہے
اور کون جا رہا ہے پھر وہ کوچوان مجھے اپنے تانگے پر بٹھا کر اس گراہیت انگیز جگہ سے دور ایک پرفضائی
علاقے میں لے آیا میرا دماغ ابھی تک اس منظر کی بربریت دیکھ کر اور شدت بدبو سے معوف ہو رہا تھا
کافی دیر بعد میری طبیعت ٹھیک ہوئی تو میں نے اس بوڑھے کو جوان سے پوچھا کہ تم نے جو بھیانک اور
پردجسس منظر مجھے دکھایا ہے اس کے پیچھے کیا راز ہے وہ لوگوں کو اس لڑکی سے ایسا سلوک کیوں کر رہے
تھے بوڑھے کو جوان نے مجھ سے کہا پہلے یہ بتاؤ کہ میں نے جو منظر تمہیں دکھایا وہ تمہیں پردجز لگا یا نہیں۔
اس کی میں نے بہت تعریف کی بوڑھا کوچوان خوش ہو گیا پھر اس نے اس لڑکی کی کہانی یوں بیان کرنا
شروع کی تم نے اپنی انکھوں سے شہر کے درمیان میں قائم مرکزی گندگی کے ڈھیر میں زنجیروں سے
بندھی اس لڑکی کو دیکھا وہ کوئی عام لڑکی نہیں تھی بلکہ یہ ہمارے ملک شہنشاہ وقت کی ملکہ ہیں کیا کہا ملکہ
میرا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا بوڑھے نے کہا میں نے تمہیں اب ایک ایسے ہی سابقہ ملکہ کی کہانی
سنانی ہے کہ تمہیں اس کا بہت عرصے کے بعد یقین ائے گا اس بڈھے نے بتایا کہ ہمارے شہنشاہ وقت نے
ایک بار ایک غریب ریاستی علاقے کو فتح کرنے کے بعد اس کا دورہ کیا تو وہاں ایک جگہ اس نے دیکھا کہ
ایک غریب بوڑھی عورت ایک ٹوٹی جلی جھونپڑی کے پاس اپنی دو نوجوان بیٹیوں کو ایک طرف لیے
سپری سمٹی ہوئی بیٹھی ہے۔
موسم انتہائی سرد اور خوشگواؤں پر مشتمل تھا اس بوڑھی عورت نے جب اس فاتح شہنشاہ کو دیکھا تو وہ اس
کے خوف سے مزید ٹھٹر کر ایک جانب سے مٹ گئی شہنشاہ یعنی بادشاہ اپنے گھوڑے سے اترا اور اس نے
بڑھیا سے کہا تم ڈرو نہیں یہ بتاؤ یہ دو نوجوان لڑکیاں کون ہیں اس بڑھیا نے بڑی عاجزی سے اپنے ہاتھوں
کو جوڑتے ہوئے کہا بادشاہ سلامت میں ایک غریب ایسی بد نصیب عورت ہوں جس کا بیٹا اور شوہر فوجوں
سے لڑتا ہوا مارا گیا اب میرا کوئی روزگار اور اپنی جوان بیٹیوں کے سر چھپانے کا کوئی سہارا نہیں بادشاہ نے
غور سے ان نوجوان لڑکیوں کی جانب دیکھا وہ بظاہر تو دیکھنے میں بری حالت میں تھی لیکن ان کے دل کش
منفرد نقش و نگار بادشاہ کے دل میں کسی تیر کی مانند کو گئے اس نے اس بڑھیا کو اپنے پاس بلایا بڑھیا اس کے
قریب فہمی ہوئی ائی بادشاہ نے کہا ان بچیوں کے مستقبل کے بارے میں تو نے کیا سوچا بڑھیا نے کہا حضور
اج کل میری سوچنے کی صلاحیت بالکل ختم ہو گئی ہے ہم غریبوں نے اپنے مستقبل کے بارے میں کیا
سوچنا ہے اپنے مستقبل کے خواب اور تاویلیں تو اپ جیسے بادشاہوں کا مقدر ہوتی ہیں۔
اس کے بعد بادشاہ نے ان دونوں بدحال لڑکیوں کو اپنے پاس بلایا اور ان سے کچھ باتیں کی ان میں سے
چھوٹی جس کا نام شونم تھا اپنی بڑی بہن سے زیادہ خوبصورت تھی اس سے بادشاہ نے کہا تو کیا تو کسی بادشاہ
کی ملکہ بننا پسند کرے گی شوروم یعنی اس خوبصورت لڑکی نے بادشاہ کے سامنے شرماتے ہوئے کہا کہ میرا
ایسا مقدر کہاں تمہارا دل کیا کہتا ہے تمہارا مستقبل کیسا ہوگا بادشاہ نے اس لڑکی سے پوچھا لڑکی کہنے لگی میرا
مستقبل زیادہ سے زیادہ فقیروں جیسا یا اس سے بھی بڑا تیر مار لیا تو اپ کی فوج میں شامل کوئی سپاہی میرا
شوہر بن جائے گا بس بادشاہ نے اس کے جانب پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا بادشاہ نے اس سے
پوچھا اگر میں تمہیں اپنی ملکہ بنانا چاہوں تو تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا اس لڑکی نے مسکرا کر کہا مجھے تو
فخر ہوگا کہ میں کسی بادشاہ کی ملکہ بنوں۔
بادشاہ نے اس کی بڑھیا ماں کو بلا اور اُس سے پوچھا اگر میں تیری بیٹی کو اپنے محل کی ملکہ بناؤں بڑھیا نے
جب بادشاہ کے منہ سے یہ جملہ سنا تو سکتے کا شکار ہو گئی اس نے اپنا ہاتھ اپنے دل پر رکھ لیا ہاں بڑھیا تم نے
کوئی جواب نہیں دیا بڑھیا سکتے کہ عالم میں مسلسل کھڑی رہی بولو بولتی کیوں نہیں میں تمہاری خاموشی کا
کیا مطلب سمجھوں اچھا میں چلتا ہوں بادشاہ جانے لگا تو اس لڑکی شونم نے بادشاہ کو مخاطب ہو کر کہا بادشاہ
سلامت ذرا رکیں میں ماں کی طرف سے آپ کی جانب سے کیے گئے سوال کا جواب دے دی بادشاہ ایک
لمحے کے لیے رک گیا شورم نے سجدے کے عالم میں گھڑی اپنی بوڑھی ماں سے پوچھا ماں بادشاہ سلامت
کو ان کی جانب سے کیے گئے سوال کا جواب دو شونم نے اپنی بوڑھی ماں کو ہلایا تو وہ دھرم سے زمین پر گر
گئی بوڑھی کا خوشی کے مارے دم ہی نکل گیا تھابوڑھیا کے مرنے کے بعد بادشاہ اپنے گھوڑے سے اترا اور
ان دونوں بہنوں سے اظہار معذرت کرتے ہوئے کہنے لگا مجھے معاف کرنا میرے دل میں ائی ایک
خواہش کے اظہار سے تمہاری ماں کی موت ہو گئی کاش میں ایسا نہ کہتا بڑی بہن اپنی ماں کے اس اچانک
نگہانی موت پر رونے لگی۔
جبکہ چھوٹی شونم ابھی تک خاموشی سے بادشاہ کے جانب حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی بادشاہ
ایک بار پھر واپس جانے لگا تو شونر نے اپنی دبی آواز میں بادشاہ کو آواز دی بادشاہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس
نے شونم کی انکھوں میں اپنی محبت اور ملکہ بننے کی حسرت کو بھانپ لیا بادشاہ نے اگے آہستہ آہستہ بڑھتے
سپاہیوں کو حکم دیا کہ شونم کو لے کر میرے پاس اؤ شونم اس کے پاس اپنے لبوں سے مسکراتی ہوئی ائی
بادشاہ نے اس سے پوچھا ہاں شونم اب بتاؤ تم نے مجھے اواز کیوں دی شانم نے کہا بادشاہ سلامت کیا میرا
مقدر ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں ایک ملکہ بنوں میں آپ کی ملکہ بننے کے لیے تیار ہوں آچھا یہ بتلاؤ کہ میری
ملکہ بننے کے بعد مجھ سے وفا کرو گی وفا کرو گی مجھ سے مجھ سے وفا کرو گی بادشاہ نے یہ سوال تین مرتبہ
شورم سے کیا اور اس نے تینوں مرتبہ ایک ہی جواب دیا جی ہاں بادشاہ سلامت میں اپ سے وفا کروں گی۔
بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کو کہا کہ اس کی بوڑھی ماں کی میت کو تعظیم کے ساتھ دفناؤ اور پھر ان دونوں
بہنوں کو علیحدہ علیحدہ عربی گھوڑوں پر سوار کراؤ اور شونم کو خصوصی طور پر میرے برابر والے گھوڑے
کے ساتھ رکھو بادشاہ کا محل جب چھ کوس کے فاصلے پر رہ گیا تو بادشاہ نے دونوں بہنوں کو ایک قریبی
چھوٹے سے محل میں اتارا اور اس کے ساتھ ساتھ اس نے اپنے چند سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ میرے محل
میں جا کر دو اہم کام کریں۔
پہلا یہ کہ وہ میرے محل میں جا کر اس کے دربار کو سجائیں اور وہاں سے عرق گلاب ادھر اور شاہی خادم
عورتوں کے ذریعے قیمتی خوشبوئیں ملا پانی اور ریشم سے بنے ہوئے قیمتی صلے کپڑے بھیجو تاکہ ان دونوں
بہنوں کے جسم سے لتھڑی ہوئی غربت اور لتھڑی ہوئی گندگی کو اتارا جا سکے بادشاہ کی یہ دلی خواہش تھی
کہ یہ دونوں بہنیں بالخصوص شونم دیکھنے والوں کو زیادہ سے زیادہ خوبصورت اور واقعی اس کی ملکہ کے طور
پرسج جائیں بادشاہ کے حکم کے مطابق اس کے محل سے اس کی خدمتگار عورتیں آئیں اُنہوں نے دونوں
بہنوں کو کئی کئی بار قیمتی خوشبوجات سے ملے پانیوں سے نہلایا سوارہ سجایا اور پھر آخر میں دونوں کو قیمتی
ریشم کے بنے ہوئے کپڑے پہنائے۔
اس کے بعد بادشاہ دونوں کو اپنے محل میں بڑی شان سے لے کر گیا وہاں شونم کے منفرد حسن کی سب نے
تعریف کی اگلے روز شونم اور بادشاہ کی بڑی شان و شوکت سے شادی کی تقریب منعقد ہوئی شونم کو بادشاہ
نے تاج پہنایا ادھر شونم بھی بادشاہ کے ساتھ تخت پر بحیثیت ملکہ بیٹھی فخریہ انداز میں پھولے نہ سماتی تھی
شادی کے بعد بادشاہ کے مزاج سے یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ شونم سے شادی کر کے اور اس کو اپنی ملکہ
بنانے کے فیصلے پر مطمئن اور خوش ہے۔
اس دوران بادشاہ نے شونم کی بہن کی شادی اپنے ایک وزیر سے کروا دی بادشاہ اپنا سارا وقت اپنی ملکہ
شونم کے ناز نخرے اٹھانے اور اس کی دلجوئی کرنے میں گزارا کرتا اس نے اس کی خواہش کے مطابق اس
کا فتح کیا وہ علاقہ بھی وہاں کے لوگوں کو واپس کر دیا ایک دن شونم نے بادشاہ کو بتایا کہ وہ امید سے ہیں
بادشاہ نے خوش ہو کر محل میں کیسی تقریب رکھی جس میں ملک کے بڑے بڑے رئیس وزیروں امیروں
کے علاوہ ملک کی چند مشہور رقا سائیں اور جوتھی نجومی حضرات بھی مدو کیے گئے تھے۔
تقریب میں ملکہ شونم بڑی شان سے بادشاہ کے ساتھ موجود تھی اس کی اؤ بھگت کی جا رہی تھی تقریب
کے اخر میں موسیقی کے محفل ہوئی جس میں ملک کے بڑے بڑے گوئیوں نے شرکت کی اور ناچ گانے
کی اور موسیقی کی تقریب رات گئے تک چلتی رہی رقص اور موسیقی کے بعد بادشاہ نے تالی بجا کر ملکہ کے
حاملہ ہونے کی خوشی میں ہونے والی تقریب کو ختم کرنے کا اعلان کیا اسی دوران ملکہ نے یہ سنا کہ دربار
میں ملک کے بڑے بڑے نامی گرامی نجومی اور جوتشی موجود ہیں بالخصوص ایک رچی نامی جوسی جو ملک کا
بڑا نام گرامی دست شناس تھا یعنی ہاتھ کی لکیریں دیکھنے والا تھا ملکہ نے بادشاہ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ
وہ اپنا ہاتھ اس نجومی جوشی رچی کو دکھانا چاہتی ہے بادشاہ بلا اس کی یہ خواہش کہاں ٹالنے والا تھا اس نے
چوتھی رچی کو اپنے پاس طلب کیا اور اس سے کہنے لگا کہ ملکہ کا ہاتھ دیکھ کر اس کا انے والا کل بتاؤ۔
وہ کیسا ہوگا اس جوتشی رچی نے ملکہ کا ہاتھ پکڑا وہ اسے تھوڑی دیر تک اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر بغور دیکھتا رہا
اس نے بار بار اس کا ہاتھ چھوڑا بادشاہ نے اس سے کہا میری ملکہ اور اس کے بدن میں پیدا ہونے والے بچے
کا مستقبل کیسا ہوگا رچی یعنی اس جوشی نے ایک بڑا عجیب سا منہ بنا کر کہا ملکہ کے لکیروں کا اپنے طور پر اچھی
طرح حساب لگا کر کل بتاؤں گا لیکن مجھے اس سے پہلے بادشاہ کا سلامت کا ہاتھ اچھی طرح دیکھنا ہے میرا
ہاتھ کیوں دیکھنا ہے بادشاہ نے متجسس لہجے میں پوچھا میں دراصل دونوں کا ہاتھ جوڑ کر اپنا کوئی حساب نکالنا
چاہتا ہوں نجومی جونسی نے بادشاہ کے ہاتھوں کو تسلی سے دیکھا اس نے نہ جانے دونوں ملکہ اور بادشاہ کے
ہاتھوں میں کیا دیکھا کہ اس کے ماتھے پر اچانک پسینے کے بوندیں امڈ ائی۔
جاری ہے۔
Qissa Malka aur Ghulam ka episode 2
کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔
اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔
اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔