Ayyar Sodagar ki Kahani

Ayyar Sodagar ki Kahani

Ayyar Sodagar ki Kahani

 

اسلام وعلیکم کیا حال ہے آپ سب کا اُمید ہے آپ سب خیریت ہوں گے ۔

آج کی  کہانی میں خوش آمدید

ایک نوجوان سودا گر دوسرے ملکوں میں سفر کر کے اپنا تجارتی مال فروخت کیا کرتا تھا ایک مرتبہ اس کے

ہاں کاشغر کے کچھ لوگ آ کر ٹھہرے جنہوں نے اسے بتایا کہ کاش غر میں صندل سونے سے بھی زیادہ

مہنگے قیمت پر فروخت ہوتا ہے نوجوان سوداگر نے فورا اپنے تمام روپے کا صندل خرید لیا اور اسے فروخت

کرنے کے لیے جب وہ کاشغر سے دو میل کے فاصلے پر تھا تو شام ہو گئی اور اس نے اپنے خیمے کہیں جنگل ہی

میں گاڑ دیے ایک اور سوداگر بھی کاشغر میں صندل بیچا کرتا تھا اسے فورا خبر ہو گئی کہ ایک اور سوداگر بھی

صندل بیچنے یہاں آیا ہے اور اس کے صندل سے لدے ہوئے اونٹ اس وقت دو میل کے فاصلے پر جنگل

میں ہیں اس نے اپنے دل میں سوچا کہ اگر یہ سوداگر بھی یہاں ا کر صندل بیچنے لگا تو میرے گاہکوں میں کمی

واقع ہو جائے گی ۔

لہذا اُسے کسی طرح یہاں سے بھگا دینا چاہیے چنانچہ یہ ایار سوداگر بھی چند اونٹوں پر صندل کی لکڑیاں لاد

کر اسی جنگل میں جا پہنچا جہاں نوجوان سوداگر نے اپنا خیمہ گارڈ رکھا تھا ایار سوداگر نے ایک جگہ خیمہ نصب

کیا اور جب رات ذرا زیادہ ہو گئی تو صندل کی لکڑی کا ایک بہت بڑا ڈھیر لگا کر اس میں اگ لگا دی تھوڑی ہی

دیر میں اس صندل کی خوشبو سے تمام جنگل مہک اٹھا نوجوان سوداگر کو جب یہ معلوم ہوا کہ میرا ہمسایہ

صندل کی لکڑیاں جلا رہا ہے تو وہ حیران ہو کر اس کے پاس پہنچا اور اس سے کہنے لگا میں نے تو سنا تھا کہ

کاشغر میں صندل کی لکڑی سونے سے بھی زیادہ قیمتی سمجھی جاتی ہے اور میں ہزاروں روپے کی صندل کی

لکڑی یہاں بیچنے کے لیے خرید لایا ہوں۔

 لیکن تم تابنے کے لیے اسے جلا رہے ہو یہ کیا بات ہے ایار سوداگر نے نوجوان سوداگر کی بات سن کر ایک

کہکا لگایا اور کہنے لگا بھئی یہاں تو صندل مٹی کے بھاؤ فروخت ہوتا ہے تم سے کس بے وقوف نے کہہ دیا کہ

صندل یہاں بہت مہنگا ہے صندل کی لکڑی سے تو یہاں کے لوگ روٹی پکاتے ہیں یہ سن کر نوجوان

سوداگر کو اپنی محنت اور روپیہ برباد ہونے کا بہت افسوس ہوا اور دل ہی دل میں وہ ان مسافروں کو کوسنے لگا

جنہوں نے اسے بتایا تھا کہ کاش غر میں صندل سونے کے بھاؤ فروخت ہوتا ہے ایار سودا کر کہنے لگا بھئی

اب پچھتاوے کیا ہو جب چڑیاں چک گئیں کھیت۔

 جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا اب رنج کرنے سے کیا فائدہ مجھے تم سے بہت ہمدردی ہے اور تمہارے غریبی پر بڑا

ترس اتا ہے میں تمہارا سب سندر خریدوں گا میرے ساتھ کاشغر چلے چلو وہاں سونے چاندی اور ہیرو کے

علاوہ جو چیز بھی چاہو گے اس صندل کے وزن کے برابر تول کر دے دوں گا لیکن اس وقت تم مجھے ایک

رسید لکھ دو کہ میں نے اپنا صندل فلاں سوداگر کے پاس فروخت کیا شہر پہنچ کر سونے چاندی اور ہیرے

جواہرات کے سوا جو مانگوں گا سودا کر مجھے دے دے گا نوجوان سوداگر نے ایار سداگر کو رسید لکھ دی اور یہ

دونوں شہر کاشغر کی طرف روانہ ہوئے کاشغر پہنچ کر دونوں ایک سرائے میں ٹھہر گئے ۔

اس سرائے کے مالک کی لڑکی بڑی ہوشیار سمجھدار اور نیک دل تھی اور اجنبیوں کی بڑی خاطر تواضع کرتی

تھی ایار سوداگر کسی کام سے باہر گیا تو نوجوان سوداگر نے باتوں باتوں میں ذرائع والے کی لڑکی سے پوچھا

کہ یہاں صندل کا کیا بھاؤ ہے لڑکی نے بتایا کہ یہاں تو صندل سونے سے بھی زیادہ مہنگا بکتا ہے یہ سن کر

نوجوان سوداگر کے ہاتھوں کے طوتے اڑ گئے اور اس نے جان لیا کہ میرے ساتھی نے مجھ سے دغا کی ہے

جھوٹ بولا ہے ہوشیار لڑکی نے نوجوان سوداگر کو اجنبی اور ناواقف سمجھ کر اس شہر کے متعلق اونچ نیچ

سے اسے اگاہ کر دیا اور اسے کہنے لگی میرے بھائی اس شہر کے ادمی بہت فریبی اور مکار ہوتے ہیں ان سے

ذرا بچ کر رہنا نوجوان سداگر نے اپنے ساتھی سے کچھ نہ کہا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ رسید لکھ کر دے چکا ہے

اور اب اس سے صندل واپس نہیں لیا جا سکتا ۔

Ayyar Sodagar ki Kahani

دوسرے دن نوجوان سوداگر شہر کی سیر کرنے کے لیے باہر نکل گیا راستے میں ایک جگہ چند ادمی شطرنج

کھیل رہے تھے اس نے سوچا کہ چلو شطرنج کھیلتے ہیں تاکہ دل کو جو صدمہ پہنچا ہے وہ تھوڑی دیر کے لیے

بھول جاؤں اور دل بہلاؤں چنانچہ اس نے شطرنج کھیلنے والوں سے کہا کہ بھئی میں بھی کھیلنا چاہتا ہوں کیا

تم مجھے اپنے ساتھ شطرنج کھلاؤ گے وہ لوگ کہنے لگے ہم تو اس شرط پر شطرنج کھیلا کرتے ہیں کہ جیتنے والے

ہارنے والے سے جو کچھ کہیں اسے بلا عذر وہی کچھ کرنا پڑتا ہے نوجوان ان کی شرط مان گیا اور اسی شرط پر

ان کے ساتھ کھیلنے پر راضی ہو گیا اور یہ سب کے سب شطرنج کھیلنے لگے بدقسمتی سے تھوڑی ہی دیر میں

نوجوان سوداگر کی ہار ہو گئی اسے مات ہو گئی جیتنے والے کہنے لگے اب تم اپنی شرف پوری کرو نوجوان

سوداگر نے جواب دیا میں تیار ہوں کہو کیا شرط ہے تمہاری شطرنج جیتنے والا کہنے لگا۔

 اچھا تو سمندر کا سارا پانی پی ڈالو نوجوان کہنے لگا  بھئی تم کیسی باتیں کرتے ہو کیا کوئی انسان کبھی سمندر کا سارا

پانی پی سکتا ہے شطرنج جیتنے والے نے جواب دیا تم عجیب ادمی ہو بھائی تم نے شرط لگائی تھی اور اپنی زبان

سے اب پھر رہے ہو اگر شرط پوری کرنے کی ہمت نہیں رکھتے تو پھر شرط بندی ہی کیوں تھی میرے ساتھ

اب تو تمہیں شرط پوری کرنا پڑے گی اب اس بات پر ان دونوں میں جھگڑا ہونے لگا یہاں تک کہ ان

دونوں کو جھگڑتے لڑتے دیکھ کر لوگوں کا ایک ہجوم وہاں پر جمع ہو گیا ان دنوں کاشغر کا ہر شخص تغاباز اور

مکار مشہور تھا ابھی دونوں جکڑ ہی رہے تھے کہ شرط جیتنے والے کا ایک گانا دوست اگے بڑھا اور کہنے لگا اس

ادمی نے میری انکھ چھڑا لی ہے میری انکھ بالکل ایسی ہی تھی جیسے ہی اس سوداگر کی بائیں انکھ ہے ابھی جھگڑا

طے نہیں ہوا تھا کہ ایک تیسرا بدمعاش ہاتھ میں ایک پتھر لیے نمودار ہوا اور لوگوں سے کہنے لگا میرے

پاس اس قسم کے پتھر کا لباس تھا میرا پتھر کا لباس بھی اسی ادمی نے چرا لیا ہے میں اپنا لباس واپس لے کر

رہوں گا نوجوان سودا کر کہنے لگا عجیب بات ہے کہ کوئی مجھ پر کوئی الزام لگاتا ہے اور کوئی کچھ الزام لگاتا

ہے۔

 حالانکہ میں بالکل بے قصور ہوں جب تمام شہر میں یہ افواہیں پھیل گئیں کہ ایک نوجوان اجنبی سوداگر

کاشغر کے لوگوں کو لوٹتا پھرتا ہے تو لوگوں نے اسے غصے میں ا کر پکڑ لیا اور اسے قاضی کی عدالت کی

طرف لے چلے جب وہ لوگ سوداگر کو پکڑ کر سرائے کے سامنے سے گزرے تو وہی لڑکی جس نے

نوجوان سوداگر کو نصیحت کی تھی اس لڑکی کو سوداگر پر رحم اگیا اور اس نے لوگوں کو ضمانت دے کر اسے

ان کے چنگل سے چھڑا لیا اور کہنے لگی کل میں خود اسے قاضی صاحب کی عدالت میں پیش کروں گی سب

لوگ راضی ہو گئے اور انہوں نے سوداگر کو چھوڑ دیا لڑکی نوجوان سوداگر کو لے کر سرائے میں واپس ائے

اسے کھانا کھلایا اور خود بھی کھایا پھر کہنے لگی کہ یہاں کے بدمعاشوں کا دستور ہے کہ وہ شام کو ایک جگہ

اکٹھے ہو کر اپنی مکاریوں اور دغہ بازیوں کی داستانیں اپنے استاد کو جو نابینا ہے اسے نظر نہیں اتا سب

داستانیں اسے سناتے ہیں اور یہ بوڑھا جو مشورہ دیتا ہے یہ اسی پر عمل کرتے ہیں یہ اسی بوڑھے استاد کی بات

مانتے ہیں تم بھیس بدل کر اس اندھے کے مکان میں چلے جاؤ اور ان لوگوں کی باتیں غور سے سنو شاید

تمہاری مشکل کا کوئی حل نکلا چنانچہ شام کو نوجوان سودا کر بدمعاشوں کا بیز بدل کر اس اندھے کے مکان پر

جا پہنچا یار یہ کم خراب ہے ایک جگہ بیٹھ کر ان لوگوں کی باتیں بڑے توجہ سے سننے لگا۔

Ayyar Sodagar ki Kahani

 سب سے پہلے کاشغری صندل فروش نے اس نابینہ کو اپنی کہانی سنانی شروع کی نابینا استاد نے تحریر

لکھوانے اور صندل کے عوض سونے چاندی اور جواہرات کے سوا ہر چیز دینے کے وعدے کا حال سنا تو وہ

کہنے لگا ارے بھئی دوست ہیں تم اس ادا کر کے جال میں بری طرح پھنس گئے ہو ساڈی فرض کرو کہ وہ

صندل کے وزن کے برابر تم سے مانگے جو بہت ہی ہلکا کیڑا ہے اور جس کا چھٹا حق پر بھی حاصل کرنا ممکن

ہے تو تم کیا کرو گے اور اگر تم کسو نہ دے سکے تو نہ صرف تمہیں اپنا صندل واپس دینا پڑے گا بلکہ وہ تم سے

ہر جانا بھی طلب کرے اس کے بعد شطرنج کھیلنے والے نے اپنی شرط کا حال سنایا جسے سن کر وہ نابینا کہنے لگا

ارے بے وقوف تم بھی نوجوان سوداگر کے دھوکے میں اگئے فرض کرو کہ وہ نوجوان سوداگر تمہاری

شرط پوری کرنے والے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے تمام سمندر کا پانی پینے پر رضامند ہو جائے

لیکن ساتھ ہی یہ کہے کہ پہلے تم تمام دریاؤں اور نالوں کو سمندر میں گر کر اس کے پانی کی مقدار کو بڑھاتے

رہتے ہیں روک دو تو تم کیا کرو گے۔

 نتیجہ یہ ہوگا کہ تم ہار جاؤ گے اور وہ جیت جائے گا اس کے بعد تیسرے بدمعاش نے اپنی کہانی سنائی جسے سن

کر نابینہ نے کہا اگر وہ مسافر کہے کہ میں تمہیں پتھر کا لباس نہیں دیتا ہوں تم مجھے دھاگہ لا دو تو تم پتھر کا

دھاگہ کہاں سے لاؤ تم بھی شرط ہار جاؤ گے سب سے اخر میں گانے نے اپنی مکاری کا حل سنایا نابینا کہنے لگا

تم نے نوجوان سوداگر پر اپ کی چوری کا الزام لگایا ہے اور اس سے اس کی انکھ مانگ رہے ہو فرض کرو کہ

وہ تمہیں انکھ دینے پر راضی ہو جائے اور کہے کہ تم پہلے اپنی انکھ نکال دو تاکہ میں اپنی انکھ نکال کر یہ معلوم

کرنے کے لیے کہ تم جھوٹے ہو یا سچے دونوں انکھوں کو تول کر دیکھو کہ ان کا وزن برابر ہے یا نہیں تو تم

کیا کرو گے تم نے تو سداگر پر انکھ کی چوری کا الزام لگا کر خوامخواہ کی مصیبت اپنے گلے لے لی ہے ۔

صاحب وہ نوجوان سوداگر اتنا ہوشیار معلوم نہیں ہوتا کہ ہماری ہر باتوں کے ایسے معقول جواب دے سکے

اس لیے کل ہم سب قاضی کی عدالت میں اس پر دعوی دائر کریں گے شاہد اس طرح ہمیں اس سے کچھ

روپیہ مل جائے یہ سن کر استاد نے ان کو دعوی دائر کرنے کی اجازت دے دی نوجوان سودا کر بھی چپکے

سے وہاں سے گزٹ لیا سرائے میں ا کر اس نے سرائے والی لڑکی کو تمام حال قہ سنایا وہ بہت خوش ہوئی ۔

کیونکہ رات کافی ہو چکی تھی اس لیے نوجوان سنا کر تمام فکروں سے نجات پانے کے بعد چین کی نیند سو گیا

دوسرے دن بدمعاشوں نے نوجوان سوداگر کے خلاف قاضی کی عدالت میں دعوی دائر کر دیا نوجوان سوداگر نے ان کی ہر بات کا وہی جواب دیا جو وہ بوڑھے نابینا سے سن چکا تھا بدمعاش لاجواب ہو کر مقدمہ

ہار گئے قاضی نے ہر بدمعاش سے نوجوان کو بہت سے ہرجانے کا روپیہ بھی دلوایا اور مکار صندل فروش

سے نوجوان سوداگر کا تمام صندل بھی واپس دلوا دیا نوجوان سوداگر صندل اور بہت سا روپیہ لے کر

سرائے میں ایا سرائے والی لڑکی نے جب اس کی کامیابی کا حال سنا تو بہت خوش ہوئی چونکہ لڑکی بہت نیک

دل اور خوبصورت تھی اور اسی نے نوجوان سوداگر کی مدد کی تھی اسی لیے نوجوان سوداگر نے اسے شادی

۔کر لی اور وہ دونوں امیر کبیر ہو کر ہنسی خوشی زندگی کے دن گزارنے لگے۔

کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment