Qissa ek bewaqoof biwi ka

Qissa ek bewaqoof biwi ka

Qissa ek bewaqoof biwi ka

 

اسلام علیکم اُمید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے ۔

آج کی کہانی میں خوش آمدید 

بہت پرانے زمانے کی بات ہے یورپ کے کسی گاؤں میں میاں بیوی رہتے تھے میاں کھیتوں میں کام کرتا

اور بیوی گھرداری کرتی مگر بیچاری ایسی بے وقوف واقع ہوئی کہ ہر کام کو چوپٹ کر دیتی اور مزہ یہ کہ سارا

الزام اپنے میاں پر لگا دیتی اور کہتی تم نے مجھ سے پہلے ہی کیوں نہ کہا میں اس غلطی کی ذمہ دار تھوڑی ہوں

تم ہو۔

ایک دن خدا کا کرنا کیا ہوا کہ ہمسائی نے اس کو ایک بکرے کی ران بھیجی میاں نے کہا بیوی ران کے کباب

تو بناؤ مدتوں کے بعد آج گوشت نصیب ہوا ہے جنگل میں جائیں گے اور مزے سے ران کے کباب کھائیں

گے بیوی نے کہا کباب تو میں ایسے بناتی ہوں کہ کوئی کیا بنائے گا اتنے مزیدار کہ انگلیاں چاٹتے رہ جاؤ گے

تم کھیتوں کو جاؤ میں کباب تیار کر کے لاتی ہوں میاں نے کہا یہ بات ہے تو دیکھنا آتے آتے ساتھ ایک جگ

یا صراہی میں شراب بھی لیتی آ نا نیچے تہ خانے میں شراب کا پیپا بھرا ہوا پڑا ہے مگر ڈکن  کھولنے میں ذرا

ہوشیاری کرنا کہیں ایسا نہ ہو کہ شراب بہ جائے بیوی نے کہا واہ میاں واہ کیا تم نے مجھے بے وقوف سمجھ لیا

ہے گویا میں اتنا بھی نہیں جانتی کہ اگر ڈکن کھلا رہا تو شراب بہ جائے گی آچھا آب تم جاؤ مجھے کھانا پکانے

میں دیر ہو رہی ہے یہ سن کر میاں تو کھیت کو چلا گیا اور بیوی نے کھانا پکانے کی تیاری شروع کر دی۔

 کوئلے سلگائیں اور ران کو خوب گودا دہی نمک مرچ لگایا اور دہکتے ہوئے کوئلوں پر ران کو رکھ دیا جب

ایک طرف سے ران سرخ ہو گئی تو اسے دوسری طرف کو پلٹ دیا اور بیگم صاحبہ پیڑھی پر بیٹھی ہوئی یہ

سوچتی ہوئی کہ آج بڑے مزے کا کھانا ہوگا اس کے بعد خیال آیا کہ رام تو ابھی پک ہی رہی ہے لاؤ ذرا اتنی

دیر میں میں پیپے سے شراب نکالنا ہوں یہ سوچ کر جگ ہاتھ میں لیا اور ران کو یوں ہی کوئلوں پر چھوڑ کر تہ

خانے میں چلی گئی پیپے کے نیچے جگ رکھ کر پیپے کا ڈکن  کھولا اسی وقت خیال آیا کہ ارے جب میں آ رہی

تھی تو باہر دروازہ کھلا تھا اور سامنے ایک کتا کھڑا للچائی نظروں سے پکتی ہوئی ران کو بری طرح گھور رہا تھا

کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ران کو اٹھا کر لے اڑے فورا اُٹھی اور پیپے کے ڈکن کو کھلا چھوڑ کر بھاگتی ہوئی اوپر گئی ۔

وہاں کیا دیکھتی ہے کہ واقعی وہ کتا اس پکتی  ہوئی ران کو اُٹھا کر بھاگا جا رہا ہے یہ لکڑی لے کر کتے کے پیچھے

بھاگی آپ آگے آگے کتا ہے اور پیچھے پیچھے وہ مگر یہ وہی بیگم کتے کے ساتھ کیا بھاگ سکتی تھی تھوڑی ہی دیر

میں اس کا سانس پھول گیا اور یہ بیٹھ کر اپنا سانس درست کرنے لگی ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئی جب

تھوڑی دیر میں حواس بحال ہوئے تو اس وقت پیپے کا خیال آیا گھبرا کر واپس دوڑی اور تہخانے میں اُتری

وہاں کیا دیکھتی ہے کہ پیپا تو خالی ہے اور شراب کا فرش پر ایک دریا بہہ رہا ہے یہ دیکھ کر سوچا خیر کیا ہے

جگ میں تو شراب موجود ہے آج کا دن تو مزے میں گزرے گا اس کے خیال کے بعد اس نے نیچے تہانے

کی یہ حالت دیکھی تو دل میں سوچنے لگی کہ اگر میاں نے آ کر تہانے کی یہ حالت دیکھی تو کہیں گے کہ

میری بیوی بھی کتنی پھوکڑ ہے شراب گری تھی تو گری تھی اس سے اتنا بھی نہ ہوا کہ فرش کو صاف کر کے

سکھا دے اور جھاڑو دے دے۔

Qissa ek bewaqoof biwi ka

 آب فکر یہ ہوا کہ شراب کو فرش پر سے خوش کیسے کرے سامنے ہی آ ٹے کے دو تھیلے رکھے ہوئے تھے اللہ

دے اور بندہ لے یہ دونوں تھیلے اس نے فرش پر الٹ دیے اور جھاڑو دینے لگی تو شراب کے جگ کو ٹھوکر

لگی اور جو رہی صحیح شراب جگ میں موجود تھی وہ بھی بہہ گئی تو اس نے غصے میں جگ کو اٹھا کر دور پھینکا اور

ذرا سی دیر میں جھاڑو دے کر سارا بھیگا ہوا آٹا اٹھا کر باہر پھینک ائی اور فرش کو جھاڑ چھوڑ کر چندن کر دیا

جب دوپہر کو کھانا نہ پہنچا تو میاں بھوکا پیاسا گھر آیا اور بیوی سے پوچھا کہ آج میں نے تمہیں ران پکانے کو

کہا تھا مگر تم پکا کر نہیں لائی نہ ہی کباب بنائے وہ کہنے لگی میاں کیا بتاؤں وہ رام تو کتا کھا گیا میں اس کو مارنے

کو بھاگی تو اتنی دیر میں شراب بہ گئی فرش کو دو بوریوں کا آٹا ڈال کر بڑی مشکل سے سکھایا ہے ہاں اس گڑبڑ

پہ وہ جگ میری ٹھوکر لگنے سے ٹوٹ گیا مگر ذرا تہخانے میں جا کر دیکھو میں نے فرش کو جھاڑو دے کر کیسا

صاف ستھرا کر دیا ہے۔

 میاں نے کہا واہ بیوی تمہارے کیا کہنے آخر شراب کہاں بھاگے جا رہی تھی جو تم رام کو چھوڑ کر بھاگ گئی

اور گئی بھی تھی تو پیپے کا ڈکن کیوں نہ بند کر کے گئی شراب بہ گئی اور ران بھی جاتی رہی تو آٹے کا بھی تم نے

ستیاناس کر دیا تم اُسے راک ڈال کر فرش پر بھی سکھا سکتی تھی بیوی نے کہا یہ سب کچھ تم نے مجھ سے پہلے

کہا ہوتا تو یہ مصیبت کیوں پڑھتی تم اعتراض تو کرتے ہو مگر بعد میں کرتے ہو اس وقت جب نقصان ہو جاتا

ہے جو نقصان ہوا وہ میری وجہ سے تھوڑی ہوا یہ تو سب تمہاری وجہ سے ہوا قصور میرا تھوڑی ہے یہ تمہارا

ہے یہ بھی خوب ہوئی کہ غلطی کرو تو آپ اور الزام دھرو تو مجھ پر۔

 اُس کے بعد میاں نے سوچا کہ بھئی یہ عورت تو بہت بے وقوف ہے کہیں گھر کی جمع پونجی دولت کسی کو اُٹھا

کر نہ دے دے بہتر ہے کہ روپیہ پیسہ کہیں دفن کر دو اور روپیہ پیسہ جس گڑے میں دفن کیا جائے اسے

منع کر دیا جائے کہ اس گھڑے کے پاس گئی تو آچھا نہ ہوگا یہ سوچ کر اس نے اپنے باغیچے میں ایک گہرا گڑھا

کھودا سب روپیہ پیسہ اس میں دفن کیا اور بیوی کو بلا کر کہا کہ دیکھو اگر تم یہاں گئی اور اس روپے پیسے کو

ہاتھ لگایا تو مجھ سے بُرا کوئی نہ ہوگا۔

 بیوی نے جواب دیا میاں بھلا تم کہو اور میں اس کے خلاف کوئی کام کروں آخر مجھے خدا کو بھی تو جواب دینا

ہے تم حوصلہ رکھو میں نہ اس گڑے کے پاس جاؤں گی اور نہ اس مال کو ہاتھ لگاؤں گی چلو گئی گزری بات

ہوئی ایک دن کیا ہوا کہ چند بدمعاش چینی کے برتن بیچتے ہوئے اس کسان کے گھر پر آئے میاں کھیت پر

کام کرنے گیا ہوا تھا بیوی گھر پر تھی اس نے جو رنگ برنگے برتن دیکھے تو لڈو ہو گئی بہت سارے برتن

چھانٹ لیے ان پھیری والوں نے کہا لو بیگم صاحبہ اس کے دام ہمیں دو تو اس نے کہا بھائی میرے پاس تو

ایک پیسہ نہیں۔

 میرے میاں نے اپنی ساری جمع پونجی وہ سامنے درخت کے نیچے دفن کی ہے تم خود کھود کر نکال لو میں نے

تو وہاں جانے اور اس مال کو ہاتھ نہ لگانے کی قسم اُٹھا رکھی ہے آخر خدا کو بھی تو جواب دینا ہے اس لیے میں

تمہارے ساتھ اس گڑے تک نہیں جا سکتی ہاں دور سے تمہیں جگہ بتائے دیتی ہوں ان پھیری والوں نے

کہا آچھا یوں ہی صحیح ہم کو تو اپنے پیسوں سے غرض ہے آؤ تم ہمیں جگہ بتاؤ تو اس عورت نے دور سے

کھڑے ہو کر انہیں وہ جگہ بتا دی جہاں اس کے میاں نے روپیہ پیسہ مال دفن کیا تھا۔

Qissa ek bewaqoof biwi ka

ان پھیری والوں نے کھود کر سب مال نکال لیا اور بہت سے برتن بیوی کو دیکھ کر وہاں سے چلتے بنے شام کو

میاں گھر پر آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ بیوی برتنوں کا ایک ڈھیر لیے ہوئے بیٹھی ہے میاں نے کہا ارے نیک

بخت اتنے ڈھیر سارے برتن تیرے پاس کہاں سے آئے کیا کہیں سے چوری کر کے لائی ہے تیرے پاس

تو روپیہ پیسہ نہیں بیوی نے کہا میاں یہ مجھے تمہاری باتیں آچھی معلوم نہیں ہوتی میں خدانخواستہ چوری

کیوں کرنے لگی یہ برتن تو میں نے خریدے ہیں میاں نے کہا تیرے پاس روپیہ پیسہ نہیں ہوتا برتن

خریدنے کے لیے روپے کہاں سے آئے بیوی نے کہا تم نے گڑے میں جو روپے دفن کیے تھے اُسی سے

خریدے ہیں میاں نے کہا میں نے تو منع کیا تھا کہ اس گڑے کے پاس نہ جانا اور میرے مال کو ہاتھ مت

لگانا۔

 بیوی نے کہا میاں قسم لے لو جو میں وہاں گئی ہوں یا کسی چیز کو ہاتھ لگایا ہو میں نے تو دور سے کھڑے رہ کر

ان پھیری والوں کو وہ جگہ بتاتی تھی تو ان بیچاروں نے خود ہی کھود کر روپے نکال لیے کتنی محنت کرنا پڑی

بیچاروں کو میاں نے کہا ستیا ناس ہو جائے بیوی تیرا تو نے مجھے تباہ کر دیا آخر تو نے ان بدمعاش پھیری

والوں کو وہ جگہ کیوں بتائی بیوی نے کہا تم نے پہلے ہی کہہ دیا ہوتا نا کہ کسی کو وہ جگہ نہ بتانا اس میں میرا کیا

قصور ہے قصور تو تمہارا ہے یہ بھی خوب ہوا کہ غلطی کرو تو تم اور الزام لگاؤ تو مجھ پر ۔

میاں نے کہا کہ آخر آب کیا کرنا بیوی نے کہا کرنا کیا ہے ابھی تھوڑی دیر ہوئی ہے وہ پھیری والے یہاں

سے گئے ہیں چلو میں اور تم ان کے پیچھے پیچھے چلیں کہیں نہ کہیں تو وہ پھیری والوں کو ہم پکڑ ہی لیں گے

 میاں نے کہا بیوی تو نے یہ بات بڑی سمجھ کے کی ہے چلو ان کا پیچھا کریں مگر معلوم نہیں کہ ان کے ملنے

میں کتنی دیر لگے گی کہاں تک بھاگتے ہوئے اُن کا پیچھا کریں گے اس لیے کھانے کے لیے روٹی پنیر اور

مکھن ساتھ رکھ لو بیوی نے بہت سا مکھن پنیر کے چھوٹے چھوٹے گول ٹکڑے اور روٹیاں ایک پوٹلی میں

باندی اور یہ دونوں کےدونوں ان بدمعاش پھیری والوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔

 تھوڑی دور گئے ہوں گے کہ بیوی تھک کر چور ہو گئی میاں نے کہا بیوی میں آگے چلتا ہوں تم ذرا آرام کر لو

اس کے بعد اسی راستے سے آنا کہیں نہ کہیں میں تمہیں مل ہی جاؤں گا بیوی نے کہا ہاں میاں یہ بات تم نے

میرے دل کی کہی تم چلو میں بھی تمہارے پیچھے پیچھے آتی ہوں یہ سن کر میاں تو اگے بڑھ گیا اور بیوی ایک

درخت کے نیچے بیٹھ گئی تھوڑی دیر کے لیے جب تھکن کم ہوئی تو وہاں سے اُٹھی اور ادھر چلتی جدھر میاں

گیا تھا راستہ ایک پہاڑ کے اوپر سے جاتا تھا اور بہت تنگ تھا اتنا تنگ کہ اس کے دونوں طرف درخت لگے

ہوئے تھے ان کے تنوں کی چھال جھکڑوں کے رگڑوں سے اُدھر گئی تھی انہوں نے جو یہ درختوں کا حال

دیکھا تو ان کے حال پر بہت رحم آیا کہ بیچاروں کے زخم بھر گئے ہیں اور ان کا کوئی پُرسانے حال نہیں۔

فورا ٹھہر گئی پوٹلی کھولی اور اس میں سے مکھن نکال کر درختوں کے تنوں پر ملنا شروع کر دیا اس کے بعد

خیال آیا کہ گرمی کی وجہ سے مکھن پگل کر اُن پر سے بہنا جائے اس لیے پہلے تو پوٹلی کے ٹکڑے کر کے

تنوں پر لپیٹے اور جب وہ کپڑا کافی نہ ہوا تو آپنےجسم کے کپڑوں کو پھاڑ پھاڑ کر یہ کام کیا اس نیک کام کی انجام

دہی میں ٹھوکر جو لگی تو پنیر کی ایک گول ٹکڑا لڑک کر پہاڑ کے نیچے گرپڑا تو اس نے جھک کر دیکھا کہ یہ گیا تو

کہاں گیا مگر کچھ نظر نہ آیا اب ان کے لیے ضروری تھا کہ اس کا پتہ لگائیں اس لیے اس نے اسی جگہ جہاں

پہلے ٹکڑا گرا تھا دوسرا ٹکڑا بھی گرا دیا اور دیکھتی رہی کہ یہ آخر چاہتا کہاں ہے بھلا گھٹ میں کہاں پتہ چلتا

دوسرا ٹکڑا بھی ذرا سی دیر میں غائب ہو گیا۔

 غرض صبر شوکر کر کے وہاں سے آگے بڑھی تھوڑی دور گئی تھی کہ میاں مل گئی وہ بیچارے بھوک سے

نڈھال ہو رہے تھے اور پریشان تھے کھانا مانگا تو اس نے سوکھی روٹیاں نکال کر ان کے سامنے رکھ دی

انہوں نے کہا ارے نیک بخت یہ روٹیاں آخر کس چیز سے کھاؤں آتے وقت ہم مکھن اور پنیر بھی تو ساتھ

لائے تھے وہ نکال تو اس نے کہا میاں وہ مکھن تو میں درختوں پر ملائی ہوں جو زخمی تھے آب رہا پنیر تو اس

میں ایک ٹکڑا پہاڑ کے نیچے لڑک گیا میں نے یہ دیکھنے کو کہ یہ پہلا ٹکڑا آخر گیا کہا دوسرا ٹکڑا بھی گرا دیا اس

بار نہ پہلے ٹکڑے کا پتہ چلا اور نہ ہی دوسرے کا میاں نے کہا کمبخت کہیں کی بھلا درختوں کو بھی کوئی مکھن

ملا کرتا ہے تو جو کام کرتی ہے اُلٹا ہی کرتی ہے بیوی نے کہا میاں مجھے کیا معلوم تھا کہ درختوں کی مرہم پٹی

نہیں کی جاتی تم نے مجھ سے پہلے کہہ دیا ہوتا اس میں میرا کیا قصور ہے یہ بھی آچھی بات ہے کہ غلطی تم کرو

اور الزام سارا مجھ پر دھر دو۔

 آخر دونوں نے روکی سوکھی روٹی کھا کر پیٹ بھرا اور دونوں ایک درخت کے نیچے لیٹ گئے لیٹے لیٹے

میاں کو خیال آیا کہ آتے وقت مکان میں تالا بھی لگا کر آئے ہیں یا نہیں تو اس نے بیوی سے پوچھا بیوی نے

کہا تالا تو نہیں لگا کر آئی میاں نے کہا جا ابھی جا اور تالا لگا کر آ تجھ کو تو دروازے کا بھی خیال نہیں رہتا اگر تو

ہی حفاظت نہ کرے گی تو اور کون کرے گا بیوی نے کہا خفا کیوں ہوتے ہو ابھی جاتی ہوں یہاں سے گھر

دور ہی کتنا ہے تم یہاں آرام کرو میں ابھی گئی اور ابھی واپس آئی۔

 یہ کہہ کر بیوی جلدی جلدی گھر پہنچے وہاں جا کر خیال آیا کہ چلتے چلتے کھانے پینے کے لیے بھی کچھ لے چلو

گھر میں ادھر ادھر دیکھا سوائے سرکہ اور اخروٹوں کے اور کچھ نہ ملا انہوں نے صُراحی میں تو سرکہ بھرا اور

اخروٹوں کی پوٹلی باندھی باہر نکل کر دروازے میں تالا ڈالا اس کے بعد انہوں نے سوچا کہ میاں کی ایک

بات تو پوری کر دی کہ مکان میں تالا ڈال دیا مگر میاں نے تو یہ بھی کہا تھا کہ دروازے کا خیال بھی تو نہ

رکھے گی تو اور کون رکھے گا اگر میں یہاں سے جاتی ہوں تو دروازے کا خیال کیسے رکھوں گی بہتر یہی ہے کہ

دروازہ بھی ساتھ لے چلوں تاکہ میاں کے حکم کی پوری طرح سے تعمیل ہو جائے ادھر ادھر دیکھا ایک

طرف ایک قدال پڑی تھی قدال اُٹھائی اور دروازے کو چوکٹ سمیت اکھاڑ کر الگ کر لیا دروازہ سر پر رکھا

ایک ہاتھ میں اخروٹوں کی پوٹلی تھامی دوسرے میں سرکے کی صراہی پکڑی اور چل پڑی اس کے بعد سوچا

کہ اس پوٹلی اور صراہی کا بوجھ کیوں اٹھاؤ دروازے کے اوپر کیوں نہ رکھ لوں اس طرح سے بوجھ بھی کم ہو

جائے گا اور چلنے میں بھی آسانی ہوگی دروازے کو سر پر سے اُتارا اس پر وہ کوٹلی اور صراہی رکھی اور پھر

دروازہ سر پر رکھ کر چلنا شروع کر دیا۔

 رات کے کوئی ساڑھے سات بجے ہوں گے جب وہ میاں کے پاس پہنچے گی تو وہ اس کی حالت دیکھ کر

پریشان ہو گیا کہ نیک بخت یہ دروازہ کیوں اٹھا کر لا رہی ہے پوچھا تو اس نے کہا آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ

دروازے کا خیال رکھنا بھلا میں یہاں آتی تو دروازے کا خیال کون رکھتا اس لیے اپنے ساتھی اُٹھا لائی میاں

نے کہا بے وقوف کسی چیز کا خیال رکھنے کے یہ معنی تھوڑی ہے کہ اس کو سر پر اُٹھا کر چلتے پھریں میرا

مطلب تو یہ تھا کہ دروازے پر باہر جاتے وقت اگر تو تالا نہ لگائے گی تو اور کون لگائے گا بیوی نے کہا میاں

مجھ سے پہلے کہہ دیا ہوتا نا اس میں میرا کیا قصور ہے قصور تو تمہارا ہے غلطی تو خود کرو اور الزام مجھ پر لگاؤ۔

 یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ سامنے سے کچھ آدمی آتے ہوئے دکھائی دیے بیوی نے کہا میاں یہ وہی پھیری

والے ہیں پکڑ لو ان کو میاں نے کہا ارے دیوانی ہوئی جاتی ہے میں اکیلا ہوں وہ چار لوگ ہیں  بہتر یہ ہے کہ

ہم دونوں درخت پر چڑھ جائیں ان کے جانے کے بعد دیکھا جائے گا غرض وہ دونوں درخت پر چڑھ گئے

مگر بیوی نے نہ سر پر سے دروازہ اتارا اور نہ دروازے پر سے اخروٹوں کی پوٹلی اور سرکے کی صراحی اُتاری

اب خدا کی قدرت دیکھیے کہ وہ بدمعاش پھیری والے بھی اُسی درخت کے نیچے ا کر ٹھہر گئے۔

 اتنے میں رات ہو گئی اندھیری رات تھی اس لیے وہ لوگ یہ نہ دیکھ سکے کہ درخت کے اوپر کون چڑھا ہوا

ہے پہلے تو کچھ کھانا وغیرہ کھایا اور پھر چادریں تان کر لیٹ گئے اتنی دیر میں دروازہ اٹھائے اٹھائے بیچاری

بیوی کا تیا پانچا ہو چکا تھا جب بوجھ ناقابل برداشت ہو گیا تو اس نے میاں سے کہا میاں میں تو بوجھ سے مری

جاتی ہوں اور ان میں سے ایک چیز پھینکے دیتی ہوں کچھ تو بوجھ کم ہوگا میاں نے کہا خدا کے لیے رحم کر اگر

کسی چیز کے گرنے سے یہ لوگ جاگ اُٹھے تو میرا اور تیرا کیا حشر کریں گے بیوی نے کہا ہونے دو اب مجھ

سے یہ سارے کا سارا بوجھ نہیں اٹھایا جاتا یہ کہہ کر سر کی صراہی دروازے پر سے اُتاری اور ان پھیری

والوں پر الٹ دی سرکے کا گرنا تھا کہ ان چاروں کے چاروں پھیری والے اُٹھ بیٹھے ایک نے کہا کہ بارش

ہو رہی ہے یار دوسرے نے کہا اور یہ بھی دیکھا کہ کتنی بدبودار بارش ہو رہی ہے تیسرے نے کہا یار اپ

لیٹ بھی جاؤ بارش تو رک گئی۔

Qissa ek bewaqoof biwi ka

 معلوم ہوتا ہے کچھ یوں ہی چھینٹے پڑے ہیں بارش کے غرض پھر سب بڑھ کر سو گئے اس کو تھوڑی دیر

نہیں گزری تھی کہ بیوی نے کہا میاں اب مجھ سے یہ بوجھ نہیں اٹھایا جا سکتا میں تو اس کو کم کرتی ہوں

میاں نے کہا اللہ رحم کر ایک دفعہ تو ان لوگوں سے خدا جانے کیوں کر بچ گئے اب معلوم ہوتا ہے کہ میری

اور تیری موت ان لوگوں کے ہاتھوں اور لکھی جا چکی ہے بیوی نے کہا میاں کچھ بھی ہو میں تو اخروٹوں کی

پوٹلی پھینکتی ہوں یہ کہاں اور پوٹلی کھول کر سارے اخروٹ نیچے پھینک دیے اخروٹوں کا گرنا تھا کہ وہ

پھیری والے چیخ مار کر اٹھ بیٹھے ایک نے کہا یار اولے پڑ رہے ہیں دوسرے نے کہا یہ کچھ عجیب بات ہے کہ

باہر تو ایک اللہ نہ پڑے اور درخت کے نیچے ان کا جھال ا جائے تیسرے نے ایک کولہ اٹھا کر کہا یہ تو دیکھو

کہ اولے کالے اور پتھر کی طرح سخت ہے چوتھےنے کہا دوستو مجھے تو اس درخت کے اوپر کچھ اصرار

معلوم ہوتا ہے چلو یہاں سے اُٹھو تو اچھا ہے پہلے نے کہا ہاں بھائی ہے تو کچھ ایسی ہی بات تھوڑی دیر اور

لیٹ کر دیکھو اس کے بعد بھی کچھ گڑبڑ ہوئی تو یہاں سے اُٹھ چلیں گے دوسرے نے کہا صحیح ہے بھائی بھلا

اتنی رات گئے سامان سمیٹ کر چلنا بھی تو مشکل ہے۔

 بہرحال یہ باتیں کر کے پھر سب نے لمبی تان لی اب اس بات کو تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ بیوی نے کہا

میاں یہ دروازے کا بوجھ اب مجھ سے اٹھایا نہیں جاتا میں تو اسے نیچے پھینکنے لگی ہوں میاں روکتا رہ گیا مگر وہ

اللہ کی بندی کہاں ماننے والی تھی دھڑ سے دروازہ پھینکی تو دیا دروازے کا گرنا تھا کہ چاروں پھیری والے

شور مچاتے ہوئے بھاگے کہ بھوت آ گیا بھوت ان کے جانے کے بعد یہ دونوں میاں بیوی درخت سے

اترے اور ان پھیری والوں کا سارا سامان سمیٹا اور وہاں سے ذرا دور جا کر ایک درخت پر چڑھ گئے جب ذرا

ہوش درست ہوئے تو وہ پھیری والے پھر اس درخت کے نیچے آئے چراغ جلایا کیا دیکھتے ہیں کہ درخت

کے نیچے سرکے کا چھڑکاؤ ہے ادھر ادھر کئی زیر اخروٹ پھیلے ہوئے ہیں اور ٹوٹا ہوا ایک دروازہ پڑا ہے اور

ان کا رہا مال تو ان کا روپیہ اور مال تو وہاں سے غائب تھا سمجھ گئے کہ اس درخت پر کوئی بھوتیا دیو رہتا ہے۔

 یہ سارا کام اسی کا ہے اب یہاں سے بھاگ چلنا چاہیے اسی میں بہتری ہے اور یہ بھوتک اگر ہمارے پیچھے پڑ

گیا تو مال تو مال جان کے لالے نہ کہیں پڑ جائیں یہ سوچ کر چاروں کے چاروں سر پر پاؤں رکھ کر ایسے

بھاگے کہ پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا کافی دیر تک دونوں میاں بیوی درخت پر بیٹھے رہے اس کے بعد اتر کر نیچے

آئے اور گھر کا راستہ لیا صبح ہو رہی تھی کہ وہ بیچارے گرتے پڑتے اپنے گھر پہنچ گئے گھر پہنچ کر میں یہ نے

کہا بیوی ہے تو تو بے وقوف مگر کیا کیا جائے اس بات کا کہ بعض اوقات بے وقوف اس دنیا میں ایسا کام کر

جاتے ہیں جو بڑے بڑے عقلمندوں سے نہیں ہو سکتا میں تو سمجھتا تھا گھر کی ساری جمع پونجی  جانے کی وجہ

سے ہم غریب ہو گئے مگر تیری بے وقوفی نے ہماری دنیا ہی بنا دی بیوی نے کہا تو اس سے پہلے ہی تم نے مجھ

سے کیوں نہ کہا میں اس سے زیادہ بے وقوفی کے کام کرتی اور اس سے زیادہ مال و دولت بناتی اس میں میرا

کیا قصور ہے قصور تو تمہارا ہے غلطی تم کرو اور الزام مجھ پر دھرو۔

کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment