Aurat hi aurat ki dushman
آج کی یہ کہانی ایسی خواتین جن کے ساتھ جب تک خود نہ پیتے دوسروں کو ہی غلط ٹھہراتی رہتی ہیں اُن کے
لیے ایک عبرت اثر کہانی شکر ہے زیبہ بھابھی بلانے پر ہی صحیح آپ گھر سے تو نکلی علینا اصل میں اب تک
اسمبلی نہیں نا گھر سے نکلنے ہی نہیں دیتی ذرا جو ایک پل اکیلی رہتی ہو یہ بچے ہاں بچی ہے نا اس لیے بات دل
پر لی گئی ہے میں تو کہتی ہوں بھائی صاحب کو بتا کر نفسیات کے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ نہیں وہ اپنے پاپا کو بھی
نہیں بتانے دیتی کہتی ہے میں خود ہی ٹھیک ہو جاؤں گی شرم محسوس کرتی ہوگی نا اس لیے بتانا نہیں چاہتی
ورنہ بھائی صاحب سے شیئر کرنے پر وہ سمجھاتے تو اب تک تو نارمل ہو جاتی۔
ہاں بھئی جب شرم کرنے کا وقت تھا تب تو کی نہیں آب باپ سے بات کرتے ہوئے شرم آتی ہے شازیہ
واضح بُربُڑائی تاکہ سب سن لیں ہفتہ ہو گیا تھا اُسے باقی خواتین سے علینا علینا زیبہ زیبہ سنتے آخر کب تک
برداشت کرتی آج صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو زیبہ کے سامنے ہی دماغ میں چکراتی بات کہہ ڈالی زیبہ نے
حیرت سے اور باقی دونوں عورتوں نے آچھے خاصے صدمے سے شازیہ کو دیکھا یہ کیا بات کی ہے شازیہ
بھابھی میں آپ کی بات کا مطلب نہیں سمجھی زیبہ نے پوری کوشش کر کے لہجہ ہموار رکھنے کی کوشش کی
لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکی۔
مطلب تو صاف ہے زیبہ بُرا مت ماننا پر تم نے اپنی لڑکی کو آزادی بھی تو کتنی دے رکھی ہے مہینہ ہو گیا مجھے
شفٹ ہوئے تب سے آج تک اُسے اونچے تلنگے تو کبھی پنڈلیاں ننگی والے کپڑے ہی پہنے دیکھا ہے جب
دیکھو چادر بُرقے کے بغیر کھلے بالوں کو لہراتے جھٹکتے ذرا سی پٹی گلے میں پہنے سکول جا رہی ہوتی ہے اس
حلیے پر مرد چھیڑیں گے نہیں تو کیا چادر اُڑائیں گے اب وہ تینوں تعصب سے شازیہ کو دیکھ رہی تھی جس
کے بے رحم لفظوں کے ساتھ لہجہ بھی اُچھل اُچھل کر کہہ رہا تھا کہ علینا کے ساتھ ایسا ہی ہونا تھا اور بہت
آچھا ہوا جو ایسا ہوا۔
دوسری دونوں تو ہفتہ بھر سے زیبہ کی غیر موجودگی میں شازیہ کے خیالات جان اور سمجھ چکی تھی پرزیبہ
کے لیے پہلا موقع تھا صدمے سے گنگ ہونا اسے آب سمجھ میں ارہا تھا شازیہ بھابھی پلیز نسرین نے التجائیہ
انداز میں اس کی چلتی زبان کے اگے بریکر بنانا چاہا کیا پلیز نسرین میری اساتذہ کہتی ہیں عورتیں چلتی پھرتی
دعوت بن کر مرد کو نہ بھڑکائیں تو کبھی مرد کی جرات نہیں ہو سکتی چھیڑنے کی آپ کا مطلب ہے میری
ساتھویں میں پڑتی معصوم بچے نے اس خبیث کو بھڑکایا تھا کہ اسے ہراس کرے اور تپے ہوئے لہجے میں
شازیہ سے پوچھ رہی تھی جیسا اس کا لباس اور انداز ہوتا ہے کوئی بھی بھڑک سکتا ہے بھائی بچی تو ہمارے
لیے ہے نا مرد کے لیے تو عورت ہی ہے آپ کی بیٹی نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اپ دوسروں کی
بیٹیوں کے لباس و انداز کو بھڑکیلہ کہہ دے مردوں کو اتنی فیور نہ کریں شازیہ بھابھی۔
آب تو لڑکے تک ان کے شر سے محفوظ نہیں ہے نسرین نے ایک بار پھر شازیہ اور زیبہ کے بیچ آنے کی
کوشش کی تاکہ حالات نارمل ہو سکیں مجھے تو اتنا پتہ ہے نسرین عورت کے انداز مردوں کو متوجہ کرتے
ہیں ورنہ کسی مرد کی جُرات نہیں وہ دوسری بار عورت کی طرف دیکھ بھی جائے کچےاندازوں والی جھیل
چھبیلی نزاکت سے چلتی عورت تو ہر مرد کو دعوت گناہ ہی دیتی ہے مجھے تو آج تک کسی نے ہراس نہیں کیا
بچپن سے اماں نے بُرقہ پہنا دیا تھا آبا نے کہا تھا مردانہ وار لوگوں میں سے گزرو گی تو کبھی تنگ نہیں کیا
جائے گا چھوئی موئی بنو گی تو سارے چھوئیں گے تمہیں ذرا سے کیڑے کو لے کر چیخیں مارتی نزاکت دکھاتی
لڑکیوں کو مرد تنگ ہی کرتے ہیں نا عورت نہ چاہے تو مر چھیڑ ہی نہیں سکتا۔
ارے مجھے تو اُفسوس ہو رہا ہے نسرین میں نے علینا کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ شیئر ہی کیوں کیا آب
سمجھ میں آیا عورتیں ایک دوسرے سے بھی ایسی باتیں کیوں چھپاتی ہیں کیونکہ عورتیں بھی عورت ہی کو
الزام دینے لگتی ہیں زیبہ اس سے زیادہ اپنی بیٹی کے بارے میں باتیں برداشت نہ کر سکی اس لیے سرخ
چہرے اور گیلی آنکھوں کے ساتھ بینچ سے اُٹھ کر پاک کی گھاس پر اُتاری اپنی چپل ڈھونڈنے لگی شازیہ
بھابھی آپ بہت زیادتی کر رہی ہیں بجائے اُس کے کہ علینا سے شفقت اور ہمدردی جتائیں آپ نے تو ہم
سب کا ہی دل دکھا دیا ہے زیبہ سے اظہار یکجہتی کے لیے وہ دونوں بھی اُٹھ گئی۔
زیبہ تم پریشان مت ہو ان کی اپنی بیٹی ہوتی نا تو کبھی اتنے سا خیالات کا اظہار نہ کرتی ہوتے ہیں کچھ لوگ
جن کے ساتھ جب تک خود نہ بیتے دوسروں کو ہی غلط ٹھہراتے رہتے ہیں پارک کے بینچ پر اکیلی رہ جانے
والی شازیہ نے زیبہ کو تسلی دیتی خواتین کے خیالات سن کر سر جھٹکا ذرا اس زمین ختم کر کے جگہ جگہ بنائی
جانے والی نئی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں سے ایک نور ہاؤسنگ سوسائٹی بھی تھی جو شہر سے خاصے فاصلے پر جا
پڑتی تھی اس سوسائٹی کے لوگوں کو متوجہ کرنے والا اہم ترین نعرہ میٹھا پانی تھا خراب پانی شہر بھر کا مسئلہ
تھا لیکن نور کالونی زرعی زمین میں بنائی گئی تھی تو نیچے کا پانی خوش قسمتی سے ابھی تک میٹھا ہی تھا اس لیے
کافی لوگ شہر سے فاصلہ ہونے کے باوجود اس کالونی میں گھر بنا کر شفٹ ہو چکے تھےکیونکہ ہر گھر کے
ساتھ دو دو پلاٹس خالی پڑے تھے پھر بھی کافی آبادی ہو چکی تھی۔
جیسے ہر کالونی کے سینٹر میں پارک دیا جاتا ہے نور کالونی میں بھی پارک تھا گول دائرے میں بنے پارک کے
سامنے والے گھر تقریبا آباد تھے اس لیے ان گھروں سے خواتین روزانہ شام کی چائے کے بعد اپنے اپنے
گیٹ سے نکل کر سامنے پارک کی گھاس یا بینچوں پر آ بیٹھتی تھی روزمرہ کی گفتگو کرتے کرتے اُن میں بہناپا
گھر چکا تھا زیبہ کی ایک ہی بیٹی تھی علینا اس لیے زیبہ اور اس کے میاں اکلوتی اولاد کے خوب ناز و نخرے
اٹھاتے تھے جو آنے جانے والوں اور ساتھ رہنے والوں کو فورا ہی محسوس بھی ہو جاتے تھے۔
لا اوبالیسی علیناشکل و صورت کی بھی حسین تھی آب تو بچپن رخصت ہی ہو رہا تھا اس لیے چہرے کا بھول
پن بھی دور سے نظر آتا تھا باقی سب تو علینا سے پیار ہی کرتی تھی لیکن مہینہ بھر پہلے ذاتی گھر بنا کر شفٹ
ہونے والی شازیہ کو رفتہ رفتہ علینا اور اس کی فیملی بُری لگنے لگی تھی جس طرح زیبہ اور اس کا میاں اپنی بیٹی
کے ناز اُٹھاتے تھے شازیہ کوخوام خواہ ہی غصہ آ جاتا تھا اس نے کبھی خاص طور پر غور نہیں کیا تھا کہ کیوں اُسے اپنے یہ ہمسائے اور اُن کی اکلوتی اولاد بُری لگتی تھی لیکن اس نے اپنے ان خیالات کا اظہار کبھی نہ کیا
تھا پچھلے ہفتے علینا کے ساتھ پیش آنے والے واقعے نے اُسے یہ موقع دیا تو وہ اظہار سے بالکل نہ چکی تھی۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ علینا کو سکول پک اینڈ ڈراپ سروس دینے والے انکل کی ویل چھٹی کے وقت آدھے
راستے میں خراب ہو گئی اس نے سب بچیوں کے گھر کال کر کے صورتحال بتائی تو والدین نے اُسے
اجازت دے دی کہ آٹو میں بٹھا دی علینا کی کالونی سے اور کوئی بچے نہیں جاتے تھے اس لیے اُسے چاند
گاڑی میں بٹھانا پڑا کیونکہ اتنی دور کالونی میں کوئی آٹو والا جانے کو تیار نہ ہوا آٹو رکشے والے یہی کہتے رہے
کہ واپسی پر ہمیں اُدھر سے سواری نہیں ملتی ایک آٹو رکشے والے نے کہا دونوں اطراف کا کرایہ دو تو چلا جاتا
ہو راستے میں چنگچی والے نے ایک مرد کو بھی چنگچی میں بٹھا لیا وہ آدمی بجائے اگلی سائیڈ کے پیچھے علینا کے
برابر میں بیٹھا تو بچی نے اعتراض کیا۔
انکل اگلی سیٹ خالی ہے آپ اُس پر بیٹھ جائیں نا خدا جانے اس شخص کی نیت میں فتور تھا فطرت ایسی تھی یا
علینا کے اعتراض کو انا کا مسئلہ بنا لیا کہ چنگچی چلتے ہی اس نے بچی کو ہراسہ کرنا شروع کر دیا وہ چنگچی روکنے کا
کہتی رہی پرچنگچی والا بھی ساتھ مل گیا علینا کم عمر تھی نہ شور مچا سکی نہ چلتی چنگچی سے چھلانگ لگا سکی اپنی
قانونی میں پہنچنے پر وہ آدمی بھی اس کے ساتھ ہی اُتر آیا ویران سے کالونی کی ویران سڑکیں اور علینا کا پیچھا
کرتا حواست بھرے جملے اور فحش حرکات کرتا آدمی بھی پیچھے پیچھے رہا یہاں تک وہ ہا مپتی کانپتی ڈری سہمی
بھاری بیک کے ساتھ بھاگتی ہوئی گیٹ کے سامنے پہنچ گئی۔
وہ آندھا دھند بیل بجاتی پلٹ کر دیکھتی رہی اور فاصلے پر کھڑا دانت نکوس کر اشارے کرتا رہا وہ خبیث
آدمی اس صورتحال سے گزرنے کے بعد علینا کو خوف سے شدید بخار ہو گیا زیبہ نے لاکھ چاہا وہ یہ بات
اپنے میاں سے ڈسکس کرے پر بیٹی پر جو حقائق کھلے تھے وہ اس کی ہستی و برداشت سے کہیں زیادہ تھے اس
لیے اس نے ماں کو شیئر کرنے سے روکے رکھا اکیلے کہیں بھی جانے سے اسے خوف آنے لگا تھا ڈراما ایسا
شدید تھا کہ وہ اکیلی اپنے ہی گھر میں بھی خوفزدہ ہو جاتی اسی وجہ سے زیبہ پارک میں نہیں آرہی تھی علینا
کی تمادداری کے لیے جانے پر نظرین وغیرہ کو زیبا نے یہ واقعہ سنایا تھا انہی سے شازیہ کو بھی پتہ چلا تھا تب
سے ہی اس نے علینا کو اس کا ذمہ دار سمجھ لیا تھا شازیہ کے حساب سے علینا کے ساتھ بہت آچھا ہوا تھا ڈراما
سارے ماڈرن کہلانے کے ڈرامے ہیں۔
سیدھا سیدھا نہیں کہتی کہ نصیحت آئی ہے اپ لیکن دیکھو نصیحت پکڑنے سے آب بھی انکاری ہیں شازیہ
برتن دھوتے ہوئے مسلسل انہی لوگوں کو اور ان کے رویے کو سوچ رہی تھی اس لیے برتن پٹخ پٹا کر ان کا
غصہ برتنوں پر نکال رہی تھی چلو نہیں بات کریں گے تو نہ کریں میں کون سا مری جا رہی ہوں ان کے
لیے آج اتنی بے عزتی کر کے مجھے اکیلا چھوڑ کر زیبہ کے ساتھ گئی ہیں نا اس کے بعد تو التفات سے پیش بھی
آئیں تو مجھے ٹھکرا دینا چاہیے۔
ان کو ایسا ہی کروں گی انہیں پتہ تو چلنا چاہیے کہ میں اپنی عزت نفس کے بارے میں کتنی حساس ہوں دو
ہفتے گزر چکے تھے نہ انہوں نے شازیہ سے التفات بڑھتا نہ شازیہ نے اپنے اس دن کے رویے پر معذرت
کی حسب سابق وہ تینوں مل کر وہیں واک کرتی پھر کافی دیر بیٹھ کر گپ شپ کرتی علینا بھی کبھی ان کے
ساتھ اسے نظر آ جاتی تو کبھی باپ کے ساتھ پہلے کی طرح بیڈمنٹن کھیلتی دکھ جاتی شازیہ کو اور غصہ آتا کہ
ڈرامہ ہی تھا اس کا ورنہ سب تو پہلے جیسا ہی ہے مزید بددل ہو کر اس نے اس چھوٹے سے پارک میں واک
کرنا ہی ترک کر دیا تاکہ سامنا ہی نہ ہو وہ برقہ اور گھڑی پہن کر کالونی کا راؤنڈ لگاتی ٹھیک 40 منٹ گھڑی
دیکھ کر واک کرنا اس نے جیسے روٹین ہی بنا لی۔
اس روز اس کے میاں جلتی ہی لوٹ ائے تو انہوں نے اپنی بیوی اور زیبہ لوگوں کی بدلی ہوئی روٹین ملاحظہ
کی تھی بیگم آج کل اپ اپنی سہیلیوں سے نہیں مل رہی آرے چھوڑیں جی بڑی ہی ہٹ دھرم عورتیں
ہیں ایک غلطی کی نشاندہی کیا کر دی انہوں نے تو ایکا کر کے میری بے عزتی کی ارے یہ کب ہوا شازیہ کے
میاں حیران اور پریشان ہو گئی جوابا شازیہ نے علینا والا سارا واقعہ سنا کر اپنی گفتگو بھی سنا دی آپ کو ایسا نہیں
کرنا چاہیے ارے آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا بیگم میں نے کیا غلط کہہ دیا ویسے ہی چونچلے بازی کی عادت
ہے زیبہ اور اس کے میاں کی خود سوچیں اتنا تو ہم بیٹوں کو لاڈ نہیں کرتے جتنا اس جوڑی نے لڑکی ذات کو
سر پر بٹھا رکھا ہے۔
چلے چھوڑیں اپ تو ان سے غار ہی کھائے بیٹھی ہیں خار کھاتی ہے میری جوتی شازیہ پیر بٹر کر چائے کے
کب باورچی خانے میں رکھنے چل دی میں واک کرنے جا رہی ہوں آذان کے وقت لڑکوں کو ٹی وی بند
کروا دینا خود ساتھ مل کر دیکھتے نہ رہیے گا ارے ٹھیک ہے ٹھیک ہے کروا دوں گا باجماعت نماز بھی کبھی
پڑھ لیا کریں ان تینوں کو لازمی مسجد بھیج دینا اس نے بیٹوں کی طرف اشارہ کیا ارے کون سا کلکتہ واک
کرنے جا رہی ہو سامنے تو ہو مغرب کے وقت آجانا برقہ بھی یوں پہنا ہے جیسے بازار جانا ہو سامنے نہیں
جاتی میں کالونی کا راؤنڈ لگاتی ہوں اس لیے برقہ پہنا ہے وہ جواب دیکھ کر گھر سے نکل آئی وہ تینوں بھی
واک میں مصروف تھیں شازیہ نے رخ موڑ کر یوں تاثر دیا جیسے نظر ہی نہ پڑی ہو ان تینوں نے بھی
تعلقات بحال کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
وہ شاید شازیہ کی طرف سے معذرت کی منتظر تھی معذرت تو تب کرو جب غلط کہا ہو میں نے وہ کالونی کی
اختتامی حدود سے پلٹ رہی تھی مغرب کی اذان انہیں چند ہی منٹ گزرے تھے یہ بھی نا کمال کرتے ہیں
باتوں میں لگا کر آج دیر ہی کرا دی مجھے شازیہ نے جوگرز میں قید پیر مزید تیزی سے اُٹھائے تاکہ جلد از جلد
گھر والی شاہرا پکڑ سکے نماز اُسے پہلے وقت میں پڑھنے کی عادت تھی جوگر میں گھسے کنکر کو نکالنے کے لیے
وہ ذرا سا رکی اور پھر جیسے اس پر قیامت گزر گئی تقریبا ویران نیند پر اُسے پیچھے سے سختی سے جکڑ لیا گیا خوف
نے شازیہ کی آواز ہی چھین لی یوں کہ اس کے سنبھل کر چیخنے تک سگریٹ کی بو سے بھرا ہاتھ اس کے
ہونٹوں پر سختی سے جما کر وہ شخص آب اسے پھر سے گلے لگانے کی کوشش کر رہا تھا یہاں تک کہ وہ اسے
گلے لگانے میں کامیاب ہو ہی گیا لیکن شازیہ کے اندھا دھند لگائے جانے والے زور اور مزاحمت نے اس
وقت کو زیادہ طویل نہ ہونے دیا ہونٹوں سے ہاتھ ہٹنے کی بدولت وہ چیخنے میں کامیاب ہو گئی کچھ دور بنے
اکلوتے گھر کے گیٹ کھولنے کی آواز اور شازیہ کی چیخ نے مجرم کو بھاگنے پر مجبور کر دیا وہ بھاگ گیا اور شازیہ
ٹوٹی شاخ کی طرح سڑک پر گر گئی۔
اس کے خطا ہوئے حواس اور دھندلائی ہوئی نظر میں سامنے نظر آتے سرخ و نارنجی سورج کو تیزی سے
ڈوبتے دیکھا اعصاب اور بہادری کو یکجا کر کے ڈولتے قدموں اور دھونکنے کی طرح چلتی دھڑکن کے ساتھ
وہ گھر میں داخل ہوئی تو سامنے ہی اس کا میاں جائے نماز تہ کر رہا تھا صوفے پر گرتے ہی اسے خود پر اختیار
نہ رہا اس نے بلند آواز سے رونا شروع کر دیا تینوں بیٹے اور میاں اس کے ارد گرد کھڑے تھے اور وہ بیٹوں
کے سامنے خود پر گزرنے والی قیامت بتانے کی خود میں ہمت نہ کر پا رہی تھی بالاخر اس کے میاں کے کہنے
پر تینوں بیٹے اپنے کمرے میں چلے گئے شازیہ نے ایک بار پھر پاس بیٹھے شوہر کے کندھے پر سر رکھا اور
دھواں دھا رونا شروع کر دیا ارے ہوا کیا ہے نیک بخت شوہر اس کے سنبھلنے پر اب سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا
مجھے علینا کو برا بھلا کہنے کی سزا ملی ہے میں نے اس معصوم کم عمر بچی سے زیادتی کی تھی اسی لیے مجھے خود
حراسمنٹ سے گزرنا پڑا ارے شازی پلیز پہیلیاں نہ بجھواؤ میں پریشان ہو رہا ہوں ہوا کیا ہے پھر شازیہ نے
کالونی کی آخری زیلی سڑک پر خود پر گزرنے والا سانحہ الف تھا یہ شوہر کو سنا دیا شازیہ نے شوہر کے چہرے
میں نظر آتی پریشانی غصے میں ڈھلتی دیکھی جلدی اؤ اسے ڈھونڈنے چلتے ہیں اسم جانے کا کوئی فائدہ نہیں
ہوگا میرے دیکھتے دیکھتے وہ کالونی کی چار دیواری پھلانگ گیا تھا۔
ایک بار پھر سے وہ میاں بیوی صوفے پر ساتھ بیٹھ گئے شازیہ کے بے اواز آنسو قطار در قطار ایک بار پھر
سے بہنے لگے حوصلہ کرو اس میں تمہاری کوئی غلطی نہیں کوئی نشئی ہوگا جو سونے کی جولری چرانے کی
نیت سے قریب ہوا ہوگا نشہ ٹوٹ رہا ہوگا نا اس کا نہیں نشئی نہیں تھا آچھا خاصا مغذ بلیا تھا اس کا انداز چوری
والا نہیں حافظ زدہ تھا اسی لیے میں بیٹوں کے سامنے خود سے ہونے والی اس شرمناک حرکت کا تذکرہ
نہیں کر سکی قاسم مجھے علینا کی کیفیت سمجھ میں ارہی ہے اس بچی پر کیا قیامت گزری ہوگی میں 42 سالہ
زمانہ شناس عورت ہو کر ابھی تک کانپ رہی ہوں مجھے یقین ہے صبح تک بخار بھی ہو جائے گا میں آب تک
کتنا غلط سمجھتی ا رہی تھی کہ عورت چاہتی ہے تو اسے ہرایس کیا جاتا ہے وہ خود موقع دیتی ہے مرد کو خدا کی
قسم میں تو ایسا بالکل نہیں چاہتی تھی اور نہ ہی میں نے اسے موقع دیا میں تو برقہ پہنے ہوئے تھی عاصم نے
شریک حیات کی پشت پر ہاتھ پھیر کر اسے حوصلہ دیا۔
اچھا ایسا کرو تم معذرت کر لو اس بچی سے جا کر نہیں یار بچے کو پیار بھی کرنا ہے اس کی ماں اور باقی سہیلیوں
سے سوری بھی کرنی ہے یہ زہر میں نے علینا کے بجائے اس کی ماں اور نسرین لوگوں کے سامنے کتنی
زہریلی اور منفی اتنا میں شازیہ کے چہرے پر حقیقی غم تھا نہیں تم بہت آچھی ہو ورنہ اج کل صرف
دوسرے ہی پرفیوز نہیں لگتے ہیں عاصم نے اس کی طرف پانی کا گلاس پڑھایا میں نے بتایا تھا پہلے ذرا سی اور
علینا سے معذرت کرا آپ بچوں کے ساتھ کھانا ک کھانے کو بتایا تھا کہ اس طرح کھا کر لیٹ جاؤ صبح
معذرت کر لینااب ہی کرنی ضروری ہے نیک کام میں دیر کیا کرنی ہو سکتا ہے اس نیک کام کے بعد مجھے فورا
ہی ذہنی سکون مل جائے اس کے شوہر نے سر ہلا کر تائید کی تھی اور وہ اپنی منفی سوچ اور خیالات کی معافی
کے لیے زیبہ کے گھر کی طرف روانہ ہو گئی۔
کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔
اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔
اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔