Pur asrar hotel

Pur asrar hotel

Pur asrar hotel

 

اسلام علیکم اُمید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے ۔

آج کی کہانی میں خوش آمدید 

آج کی کہانی  میں پراسرار ہوٹل کی ایک ناقابل یقین کہانی جو جو موسم گرم کی چھٹیاں قریب آرہی تھیں ان

تین دوستوں کے جوش و خروش میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا کیونکہ اس مرتبہ ان کا مری جانے کا منصوبہ تھا یہ

تینوں دوست احتشام ، قدیر اور اسحاق ہر مرتبہ گرمیوں کی چھٹیوں میں سرد علاقوں میں گھومنے پھرنے

جاتے تھے تینوں بہت گہرے دوست تھے ایک ہی محلے میں رہائش پذیر تھے ان کے والدین کی بھی آپس

میں خوب بنتی تھی اور تینوں ہی ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے اس لیے تو انہیں ہر مرتبہ سرد علاقوں میں

گھومنے پھرنے کی اجازت مل جاتی تھی۔

 تینوں دوست سفر کی تیاریوں میں مگن تھے آخر وہ دن بھی آگیا جس دن کا ان تینوں کو بے صبری سے

انتظار تھا ماں باپ کی دعائیں لیتے ہوئے اپنے سفر کی طرف روانہ ہو گئے وہ تینوں ایک پرائیویٹ گاڑی میں

مہو سفر تھے اور اپنی منزلیں مقصود پہنچنے کے لیے بے تاب تھے پانچ گھنٹے کے لمبے سفر کے بعد وہ مری

جیسی اور فضا مقام پر پہنچ گئی ان تینوں کی خوشی کے انتہا نہ تھی جب گاڑی نے انہیں دوپہر کے وقت ان کی

منزل مقصود تک پہنچا دیا۔

 وہ تینوں رات گئے تک گھومتے رہے انہیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا اور چل چل کر پتہ نہیں کہاں

سے کہاں نکل گئے آب ہر طرف رات کی سیاہی گہری ہوتی چلی گئی انہیں احساس ہوا کہ وہ تو گھومتے

گھومتے بہت دور تک چلے گئے ہیں اس غلطی کا احساس انہیں اُس وقت بھی ہوا جب انہیں دور دور تک کسی

ہوٹل وغیرہ کا اثار نہ نظر ایا وہ تینوں بہت پریشان ہو گئے کیونکہ رات گزرنے کے لیے انہیں کسی محفوظ

مقام کی ضرورت تھی وہ تو اس جگہ کو بھی زیادہ نہ جانتے تھے۔

 وہ تینوں اسی پریشانی میں چل رہے تھے اور ساتھ ساتھ نظر دوڑا رہے تھے کہ اچانک انہیں دور بر کی

کمکموں کی جھلک نظر آئی وہ تینوں بہت خوش ہوئے اور اپنے مایوس اور لڑکھڑاتے قدموں کی رفتار کو تیز کر

دیا وہ وہاں جلد سے جلد پہنچنا چاہتے تھے اُنہیں ایک ہوٹل کا سائن بورڈ نظر آیا چلتے چلتے اس ہوٹل کے وہ

مین دروازے تک پہنچ چکے تھے ہوٹل کے قریب پہنچنے پر ان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی کیونکہ جو

ہوٹل بظاہر دیکھنے میں پر رونق نظر آ رہا تھا وہ پررونق نہ تھا بلکہ ہر سو خاموشی چھائی ہوئی تھی ایک عجیب سی

وحشت برس رہی تھی بالاخر وہ تینوں میں دروازے سے اندر داخل ہو گئے ہوٹل کے اندر بھی اچھی خاصی

وحشت تھی وہ تو اندر جا کر گھبرا گئے ہوٹل ویران سنسان تھا بالاخر ان تینوں نے اپنے خوف کو ملائکہ رکھ

کر اپنے قدم استقبالیہ کاؤنٹر کی جانب اڑا دیے۔

 استقبالیہ پر کسی زیر رک کر نام و نشان تک نہ تھا احتشام نے چند منٹ ویٹ کرنے کے بعد استقبالیہ کاؤنٹر کی

بیل کو اپنے ہاتھ سے بجانا شروع کر دیا چند منٹ بعد ایک شخص برآمد ہوا تھوڑی سی گفتگو کے بعد سیکنڈ

فلور پر انہیں ایک کمرہ دے دیا ایک ملازم کے خلاف وہ سیکنڈ فلور پر کمرہ نمبر پانچ میں پہنچ گئی کمرے میں

اٹیچ باتھ روم غرض یہ کہ ضروریات زندگی کا تمام سامان موجود تھا وہ تینوں باری باری گرما گرم پانی سے

نہائے اس کے بعد مکمل طور پر فریش ہو گئے۔

 پھر انہوں نے کھانا تناول فرمایا اور اس کے بعد تینوں آپس میں محو گفتگو ہو گئی یار مجھے تو یہ ہوٹل کم بھوت

بنگلہ زیادہ لگتا ہے احتشام نے بولا تم تو ہر چیز کو ہی اثار قدیمہ سے ملانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اس حاق

نے چل بھون کر کہا احتشام نے قدیر کو گہری سوچ میں گم دیکھا تو اسے مذاق کی سوچی اتنا مت سوچا کر ورنہ

تیرے سر کے بالنا غذا رسیدہ پتوں کی مانی چڑھ جائیں گے یار اس کو سوچنے دو قائدا اعظم کی طرح نیا ملک

بنانے کے بارے میں منصوبہ بندی کر رہا ہے اسحاق نے بھی تنز کیا پھر وہ تینوں قہقہ لگا کر ہنسنے لگے ہمیشہ

سوچ کر کام کرنے والا ہی کامیاب ہوتا ہے نہ کہ تم جیسےجاہل ۔

Pur asrar hotel

وہ سیانے کہتے ہیں نا کہ عالم کا ایک دن جاہل کے ساتھ ساری زندگی گزارنے سے بہتر ہے قدیر جو آب

تک ان کی بکواس  سن رہا تھا تنزن بولا ان کی سنیے جن کی کوئی نہیں سنتا وہ کہتے ہیں نا دھوبی کا کتا گھر کا نہ

گھاٹ کا ان صاحب کے مسائل بھی ایسی ہی ہے اسحاق نے پھر فطرتا قدیر کی بات میں کہا خیر اسی طرح وہ

تینوں آپس میں بات کرتے رہے۔

 مجھے تو نیند ارہی ہے بھائی احتشام نے جمائی لیتے ہوئے کہا تم تو ہو ہی فراڈی جب دیکھتی ہو نا کہ بازی پلٹ

رہی ہے تو تمہیں نیند انا شروع ہو جاتی ہے قدیر نے اب احتشام پر فقرہ کسا یار نیند تو مجھے بھی آ رہی ہے

اسحاق میں بھی جمائی لیتے ہوئے بولا بالاخر وہ تینوں سونے کے لیےچل دیے اور اپنے اپنے بستروں میں لحا

فوڑ کر سوتے بنے۔

 چند منٹ بعد کمرے میں ان تینوں کے خراٹے گونج رہے تھے اور وہ تینوں دنیا و مافیہ سے بے خبر نیند کی

وادیوں میں گم ہو گئی جس ٹیبل کے ارد گرد بیٹھ کر وہ تینوں خوشخبریوں میں مصروف تھے اب وہاں ایک

نہایت ہی خوبصورت لڑکی بیٹھی ان تینوں کی جانب کنکیوں سے انہیں دیکھ رہی تھی اُس کی انکھوں میں

ایک انجانی  سی چمک تھی اور وہ چمک لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی۔

 ان تینوں کو ابھی سوئے زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ اچانک اسحاق کی آنکھ کھل گئی اسحاق کو ایسا محسوس ہوا

جیسے کوئی سایہ ان تینوں کے گرد مٹر گشت کر رہا ہو لیکن غور سے دیکھنے پر بھی اُسے کچھ نظر نہ آیا اس نے

اسے اپنا وہم سمجھا اور پھر وہاں سے اٹھ کر رفع حاجت کے لیے باتھ روم کی طرف بڑھا باتھ روم سے

فراغت کے بعد وہ دوبارہ سونے کی غرض سے اپنے بستر کی جانب پڑا بستر کے قریب پہنچ کر وہ سونے ہی

والا تھا کہ یکا یک دروازے پر دستک ہوئی ٹھک ٹھک ٹھک رات کے اس پہر کون ہو سکتا ہے اسحاق

گڑگڑانے لگا دروازے کے قریب پہنچ کر اس نے دروازہ کھولا اور باہر جھانکنے لگا مگر باہر دور دور تک

اندھیرے کا راج تھا ہوٹل تو اب گھوپ دھیرے میں ڈوبا ہوا تھا جیسے کسی نے پورے ہوٹل کی لائٹس بند

کر دی۔

 اسحاق نے اپنے قرب و جوار کا جائزہ لیا لیکن ایسا کوئی شخص نظر نہ آیا جس نے دروازے پر دستک دی ہو وہ

دوبارہ دروازہ بند کرنے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اُسے ایسے لگا جیسے کوئی دھمی  چال چلتا ان کے

کمروں کے قریب سے گزرا ہو اس نے اپنا ارادہ ترک کر دیا اب ذہن میں مختلف اقسام کے وسوسے جنم

لینے لگے دل کی دھڑکن پہ اختیار تیز ہو گئی پھر اچانک اسے دبی دبی چیخ کی آواز سنائی تھی آواز قریب کے

کمرے سے آرہی تھی اس کے دل میں تجسس نے گھیرا کرنا شروع کر دیا وہ بچپن سے ہی ہر چیز کا بغور جائزہ

لیتا تھا اُس نے اپنے پلٹتے قدم واپس لیے اور کمرے سے باہر نکل آیا کمرے کو اچھی طرح بند کرنے کے بعد

اس نے اپنے قدم اس کمرے کی جانب بڑھا دیے اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس کمرے تک ا پہنچا جہاں سے

چیخ کی اواز سنائی دی تھی اس نے کان لگا دیے اواز کسی عورت کی تھی جو دبی دبی آواز میں سسکیاں لیتی ہوئی

رو رہی تھی اسحاق نے اپنے خوف کو بالائے طاق رکھ کر جھٹ سے اس کمرے کا دروازہ کھول دیا دروازہ

چرچراہٹ کی آواز پیدا کرتا ہوا کھلتا چلا گیا۔

 جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا رونے اور سسکنے کی آوازیں آچانک بند ہو گئی اسحاق کے دل میں ایک بار پھر

خوف چمنے لگا اس نے ڈرتے ڈرتے کمرے کے اندر جھانک کر دیکھا لیکن کمرے میں اس کے علاوہ کوئی

بھی نہ تھا تجسس کی بنا پر اس نے اپنی جیب سے موبائل نکال کر روشن کر لیا موبائل کی ٹارچ کی روشنی

بمشکل ہی کمرے کو روشن کر رہی تھی لیکن وہ اس کم روشنی میں ہی کمرے کا جائزہ لینے لگا آچانک اس کے

ہاتھ سے اس کا سیل فون چھوٹ کر کمرے کے فرش سے ٹکرا کر اُف ہو گیا اور ایک سایہ اس کی سم بھرنا

شروع ہو گیا وہ چیخ کر گرا اور پھر اس چیز نے اسے بھنگوڑ کر رکھ دیا اور وہ دنیائے فانی سے کوچ کر گیا۔

ٹھک ٹھک ٹھک کمرے کے دروازے پر پھر دستک ہوئی آب احتشام کی آنکھ دروازے پر ہونے والی

دستک سے کھل گئی اسے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے کوئی زور زور سے دروازے پر دستک دے رہا ہو وہ

دروازہ کھولنے کی غرض سے اُٹھا اور منہ ہی منہ میں نہ جانے کیا بڑبڑاتا ہوا دروازے کے قریب پہنچا ایک

جھٹکے سے دروازہ کھول کر باہر جھانکنے لگا مگر دروازے کے باہر کوئی نہ تھا وہ کمرے سے باہر نکل آیا تاکہ

دروازہ کھٹکھٹانے والے کا سراغ لگا سکے مگر دور دور تک کوئی نہ تھا ہوٹل مکمل طور پر تاریک اور سناٹے میں

ڈوبا ہوا تھا وہ اپنے کمرے میں جانے کے لیے واپس پلٹا لیکن چند قدم ہی پیدا ہوگا اُسے ایسے محسوس ہوا

جیسے کسی نے اس کا نام پکارا ہو اس نے رک کر پیچھے مڑ کر دیکھا مگر اسے دور تک کوئی نظر نہ آیا اس نے اس

کو اپنا وہم سمجھا پھر کمرے کی طرف قدم بڑھاتی ہے اُس نے ابھی اس نے چند قدم کا فاصلہ ہی طے کیا ہوگا

اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی بہت تیزی سے اس کے قریب سے گزرا ہو اُس نے فورا پیچھے مڑ کر دیکھا

لیکن پیچھے کوئی نہ تھا۔

 وہ اس بات پر ابھی غور ہی کر رہا تھا کہ اسے پائل کی جھنکار سنائی دی جیسے کوئی عورت پاؤں میں پائل پہنے

دھیمے دھیمے چل رہی ہو اور آواز قریب کے کمرے سے ا رہی تھی وہ چند لمحے پھیل کی جھنکار پر غور کرتا رہا

پھر اپنے قدم اس کے کمرے کی طرف بڑھا دیے کمرے کے دروازے پر پہنچ کر اس نے دروازے کو اندر

کی طرف دھکیلا تو دروازہ کھل گیا اندر تو مکمل طور پر اندھیرا تھا احتشام نے اپنی پتلون کی جیب سے موبائل

نکال کر اس کی لائٹ ان کر دی اور ارد کے جھانکنے لگا مگر کمرے میں اس کے سوا کوئی نہ تھا ابھی وہ واپس

جانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اُسے سناٹے میں ایک آواز سنائی تھی آواز ایسی تھی جیسے کوئی چیز اپنی جگہ سے

کھسکی ہو اس نے ایک مرتبہ پھر گھوم کر پیچھے دیکھا تو اس کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا وہ منظر ہی

کچھ ایسا تھا احتشام اپنی جگہ پر ساکت ہو گیا اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جو کوئی بھی کمرے میں تھا

دھیرے دھیرے چلتا ہوا اُس کے قریب آیا اور اپنے لمبے اور نوکیلے دانت اس کی شہ رگ میں پیوست

کرتی ہے اور اس کے گرما گرم خون سے اپنی پیاس بجھانے لگا اس بلا نے اس کے جسم سے خون کا ایک ایک

قطرہ چوس لیا پھر وہ بلا بھوکی شیرنی کی طرح اس پر ٹوٹ پڑی لیکن پھر بھی اپنی وحشیانہ بھوک اور پیاس

ابھی تک نہ بجھا پائی اور وہ ایک نئے شکار کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئی۔

 قدیر کمرے میں مزے سے سو رہا تھا یکا یک اس کی آنکھ کھل گئی لیکن اس کی آنکھ کیوں کھلی اس کی وجہ

قدیر کی سمجھ سے باہر تھی وہ اپنے بستر پر اٹھ بیٹھا ہر طرف سناٹے کا راج تھا تاریکی بھی کمرے میں تھی اُس

نے سائیڈ ٹیبل سے پانی اٹھا کر پیا پانی پینے کے بعد دوبارہ سونے کی کوشش کرنے لگا وہ بستر پر آنکھیں

موتیں لیٹا تھا کہ اچانک اسے ایک چیخ کی اواز سنائی تھی چیخ کی اواز درد میں ڈوبی ہوئی اور کسی عورت کی تھی

وہ پریشان ہو گیا کہ رات کے اس پہر کس بدنصیب کی چیخ تھی وہ ہمدردی کے جذبے سے اُٹھا اور دروازے

کے قریب پہنچ کر آہستہ سے دروازہ کھولا اور باہر نکل گیا اس کے باہر نکلنے کے بعد ایک عورت کمرے میں

بیٹھی اس کو باہر نکلتا دیکھ کر مسکرانے لگی اس بدصورت عورت کی ہنسی بہت پر اثرات تھی اور وہ آنے

والے لمحات کا تصور کر کے خوشی سے جھوم اُٹھی قدیر کمرے سے نکل کر باہر راہداری میں اگیا پھر ادھر

ادھر جھانکنے لگا آواز کی سمت کا تعین کرنے کی کوشش کرنے لگا اس کے کمرے سے باہر اتے ہی آواز بھی

بند ہو گئی اب ایسی خاموشی تھی کہ کہیں دور سے چھینگروں کی آواز اس خاموشی کو کم کرنے میں اپنی ناکام

کوششوں میں لگی ہوئی تھی جیسے ہی وہ پیچھے گھوما اپنے سامنے اس قدر خوفناک وجود کو دیکھ کر اُسے خوف

محسوس ہونے لگا اور وہ اہستہ اہستہ پیچھے کی جانب گھسیٹتا چلا گیا اسی طرح گھسیٹتے گھسیٹتے وہ دیوار سے جا لگا

اور وہ خوفناک وجود اس کی جانب بڑھنے لگا چند لمحوں بعد وہ بلا اس کے بالکل قریب پہنچ گئی کہ قدیر اُس کی

سانسوں کی گرمائش کو اپنے چہرے پر محسوس کر سکتا تھا اس انتہائی خوفناک اور بدصورت بلا کو اپنے قریب

دیکھ کر قدیر پہلے بہت خوفزدہ ہوا اور پھر اس نے اس بلا سے نمٹنے کے لیے خود کو مکمل طور پر تیار کر لیا

قدیر نے بجلی کسی تیزی سے اپنے داہنے ہاتھ کا موقا بنا کر نہایت برق رفتاری سے اس بلا کے پیٹ میں چڑھ

دیا وہ بلا اس غیر متوقع حملے سے خود کو نہ بچا پائی اپنی بکھری سانسوں کو وہ بحال کرنے لگی چند لمحوں بعد وہ

ایک بار پھر قدیر کی جانب بڑھنے لگی اور اب وہ اس کی جانب سے مکمل طور پر ہوشیار بھی تھی پھر اس نے

برق رفتاری سے قدیر کو دبوچ لیا اور اس کی گردن میں اپنے لمبے لمبے دانت گاڑنے ہی والی تھی کہ اس کا

منہ قدیر کی گردن میں پڑے ہوئے تعویز سے ٹکرا گیا ۔

تعویز کے ساتھ ٹکراتے ہی وہ اُچھل کر کافی دور جا گری اس بلا کے زمین سے ٹکراتے ہی زمین زلزلے کی

مانند ہلنے لگی پھر جیسے ہی زمین ہلنا رُکی وہ بلا نہایت خوفناک انداز میں اُٹھی اور قدیر کے جانب ایک بار پھر

دوڑ لگاتی قدیر کے قریب پہنچ کر اُس بلا نے ایک لمبی جست لگائی اور قدیر کو دبوشتے ہوئے کافی دور

گھسیٹ کر دور لے گئی قدیر اس کے آچانک حملے سے گھبرا گیا اور اس کا سانس دھوپنے کی مانیں چلنے لگا چند

سیکنڈ تک وہ خود کو ایک بار پھر مقابلے کے لیے تیار کر چکا تھا وہ بلا اور قدیر آپس میں گتھم گتھا تھے قدیر نے

اپنی دونوں ٹانگیں مضبوطی سے اس بلا کے پیٹ سے جما کر پورے زور سے اس بلا کو خود سے پرے دھکیل

دیا اور خود کمرے سے باہر دوڑ لگا دی کمرے سے باہر نکل کر وہ ایک جانب دوڑنے لگا کہ اچانک کسی چیز

سے ٹھوکر لگنے سے دھڑام کی آواز پیدا کرتا ہوا نیچے گرا اور کل بازیاں کھاتا ہوا دور تک چلا گیا۔

Pur asrar hotel

 جیسے ہی دوبارہ اٹھ کر کھڑا ہوا اور بھاگنے لگا تو خود کے سامنے اس بلا کو دیکھ کر ٹھٹک گیا بلا نے قدیر کو دیکھتے

ہی کہہ کہنے لگانے شروع کر دیے تم مجھے جلد دیکھ کر کہا بھاگو گے قدیر ایک بار پھر اس بلا کو اپنے سامنے

دیکھ کر دوسری طرف کو دوڑنے لگا وہ اس بلا کے کہہ کہے سن کر گھبرا گیا اور ایک بار پھر اوندھے منہ گرا

اس بار وہ گرتے ہی اُٹھ کھڑا ہوا اور دل میں اللہ کو یاد کرنے لگا۔

دفعتا اس کے کانوں میں ایک بھاری اور روم دار آواز گونجی  اے بالغ اس طرح مصیبتوں سے گھبرا کر

بھاگنے سے مشکلات ٹل نہیں جاتیں ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے ہی ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں تمہارے گلے

میں جو برگزیتا بزرگ کا بخشا ہوا تعویز پڑا ہے اسے اُتار کر اس بلا کی گردن میں ڈال دے تیری مشکل حل

ہو جائے گی۔

 پھر وہ آواز آچانک بند ہو گئی قدیر نے جلدی سے اپنی گردن میں پڑا ہوا اس برگزیدہ بزرگ کا بخشا ہوا

تعویز گردن سے نکال کر اس بلا کی جانب دوڑ لگا دی بلا اس کو اپنی جانب آتا دیکھ کر خوش ہو گئی قدیر بھاگتا

ہوا اس بلا سے گتھم گٹھا ہو گیا اور جیسے ہی اس بلا نے قدیر کی گردن پر اپنے دانت گاڑنے کے لیے منہ کھولا

قدیر نے لپک کر اس کی گردن میں اپنا تعویز ڈال دیا جیسے ہی تعویذ گردن میں ڈلا وہ بلا ایسے اُچھلی جیسے بے

خبری میں ننگے تار کو چھو لیا چونکہ اس تعویز میں اللہ پاک کا کلام لکھا ہوا تھا اس لیے تعویز اس کی گردن

میں جا کر اس کے جسم سے چمٹ گیا اور اس کی چیخ و پکار سے تر و دیوار تک ہلتے محسوس ہوئے وہ بلا چند سیکنڈ

میں راگ کا ڈھیر بن کر رہ گئی۔

 اس بلا کے راکھ ہوتے ہی ہوٹل کے در و دیوار بھی ہلنے لگے دفن ایک بار پھر قدیر کے کانوں میں وہی آواز

پہنچی اے بالغ بھاگ چونکہ یہ ہوٹل بھی ان بلاؤں کا مسکن ہے اس لیے یہ ابھی زمیں بوس ہو جائے گا قدیر

نے وہ آواز سنتے ہی باہر کی جانب دوڑ لگا دی چند سیکنڈ کے عرصے میں وہ ہوٹل کی چار دیواری سے باہر تھا

اس کے باہر نکلتے ہی ہوٹل زمین بوس ہو گیا اور چند لمحات میں اس کا سارا ملبہ بھی غائب ہو گیا جب صبح کا

اُجالا پھیل رہا تھا ہر طرف کا عالم تھا اچانک قدیر کو اپنے ساتھیوں کا خیال ایا تو وہ تڑپ اٹھا وہ یہ بات سوچ ہی

رہا تھا کہ اچانک ایک بار پھر وہ آواز پہنچی بالغ تیرے دوست اس کی بھین چڑھ چکے ہیں ان کے غم میں

اُفسردہ نہ ہو اور جلد از جلد اپنے گھر جا تیری ماں تیری رات تک رہی ہوگی جا گھر جا اپنے دوستوں کو بھول

جائے وہ اب کبھی واپس نہ ائیں گے۔

 پھر وہ اواز انا بند ہو گئی اواز کے بند ہوتے ہی قدیر دھاڑے مار مار کر رونے لگا اور اس وقت کو کہ اس نے لگا

جب جب وہ مری کی سیر کے لیے نکلے تھے چند لمحوں بعد جب اس کا غم ہلکا ہو گیا تو اس نے اس جگہ سے

نکلنے میں ہی عافیت جانی اور اپنے قدموں کو ایک جانب ڈال دیا تاکہ وہ جلد سے جلد کسی اباد علاقے تک پہنچ

جائے اور پھر وہاں سے اپنے گھر کی طرف روانہ ہو۔

کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment