Jalan aur hasad mein kala jadoo karwane wali aurat ka abratanak anjaam
اسلام علیکم اُمید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے ۔
آج کی کہانی میں خوش آمدید
آج کی اس کہانی میں جلن اور حسد میں سفلی عملیات کروانے والی ناک پر تندیش کی کہانی جس کے انجام
نے دیکھنے والوں کو لرزا دیا رحمت علی ایک سبزی فروش تھا جو گدھا گاڑی پر سارا دن گاؤں گاؤں جاگ کر
سبزی فروخت کرتا تھا اس کے اچھے اخلاق شرافت اور ایمانداری نے سب کو متاثر کیا تھا یہی وجہ تھی کہ
اس کی سبزی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو جاتی تھی جو اس کے مختصر سے خاندان کے لیے کافی تھا رحمت علی کی
بیوی صغری بی بی بھی بہت سمجھدار خاتون تھی اس نے اپنے خاوند کی کمائی کو ضائع کرنے کی بجائے پائی پائی
جوڑ کر اپنا چھوٹا سا کچا مکان پکا کر لیا تھا۔
یہ مکان چار کمروں کچن اور ایک چھوٹے سے ڈرائنگ روم پر مشتمل تھا کپڑے برتن دھونے اور نہانے کا
الگ الگ انتظام تھا گھر کی طرف سے اطمینان ہو جانے کے بعد اب وہ اپنی عقلوتی بیٹی ماہر عرف ماہی کو
رخصت کرنے کے لیے جہیز تیار کر رہی تھی صغری بی بی اپنی بیٹی کو ضرورت کی ہر چیز مہیا کرنا چاہتی تھی
تاکہ وہ سسرال میں جا کر کسی چیز کی محتاج نہ رہے ساتھ ہی وہ اپنی بیٹی کے اچھے نصیبوں کے لیے بھی دعا کو
رہتی تھی یہ مختصر سا خاندان نہایت زادہ مگر خوش و خلم زندگی بسر کر رہا تھا۔
وہ نرم گرم سی بہت دلکش زباں تھی رحمت علی سبزی منڈی سے سبزی لینے کے لیے شہر جا چکا تھا صغری
بی بی کسی کام سے دوسرے محلے کی ہوئی تھی ماہر صحن میں جھاڑو لگا رہی تھی جب دروازے پر زوردار
دستک نے اسے ہلا کر رکھ دیا اس نے گھبرا کر جھاڑو پھینک دیا یا اللہ خیر یہ کون آگیا صبح سویرے وہ بُر بڑاتے
ہوئے دروازے کی طرف پڑی جی کون اس نے دل کو تسلی دیتے ہوئے کڑکتے ہوئے لہجے میں پوچھا ارے
بیٹا دروازہ کھولو اجنبی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی اس نے دروازہ کھول کر باہر جھانکا تو ایک دکھی پتلی
سانولی رنگت والی خاتون کو سامنے کھڑا پایا جی فرمائیے آپ کون ماہر نے الجھی نظروں سے اس خاتون کو سر
سے پاؤں تک دیکھا تھا کیا یہ رحمت علی سبزی فروش کا گھر ہے۔
جی ہاں یہی ہے کیا اپ ان سے کوئی کام ہے تم رحمت علی کی بیٹی ہو جواب کی بجائے سوال آگیا ان خاتون کی
انکھوں میں ستائش تھی اس کے لیے جی ہاں میں انہی کی بیٹی ہوں ماہیراُکتا چکی تھی اس بے وجہ لمبی گفتگو
سے میں زبیدہ ہوں رشتے میں تمہاری پھوپھی لگتی ہوں جوراباد سے آئی ہوں ان خاتون نے اس کی
اکتاہٹ کو بھانپ لیا تھا جبکہ ماہیر نے اپنے ذہن پر بہت زور دیا لیکن یہ نام اس کے حافظے میں کہیں محفوظ
نہ تھا اس سے پہلے کہ وہ ان خاتون کو جھوٹا قرار دے کر چلتا کرتی صغری بی بی اتی دکھائی تھی لیجیے میری
والدہ اگئی ہیں ان سے بات کر لیجیے یہ کہہ کر جھٹ سے اندر کی طرف وہ بھاگ گئی۔
جبکہ زبیدہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا صغری بی بی نے انہیں پہچان کر فورا گلے سے لگا لیا ارے بہن تم کب ائی اؤ اؤ
اندر اؤ وہ مسکراتی ہوئی انہیں گھر کے اندر لیے داخل زبیدہ خاتون رحمت علی کے چچا زاد بہن تھی ماہیر بہت
چھوٹی تھی جب وہ لوگ یہاں سے جغراباد شفٹ ہو گئے تھے آب وہ کافی عرصے بعد ملنے ائی تھی ماہیر
انہیں بالکل نہ پہچان سکی تھی جس پر انہوں نے اچھا خاصا اعتراض کیا رحمت علی اور صغری نے معذرت
بھی کی تھی اس کے رویے پر مگر اسے یہ بات ہضم ہو کے ہی نہیں دے رہی تھی اس بات کو چھوڑنے پر وہ
امادہ ہی نہ تھی وہ جب بھی ماہیر کو دیکھتی اسے لیکچر دینا شروع کر دیتی اخلاقیات پر نہ جانے کون کون سے
قصے کہانیاں لے کر بیٹھ جاتی ماہیر بیچاری گھبرائی گھبرائی سی بس ہو ہاں کیے جاتے ہیں۔
وہ جتنا ان سے بچنے کی کوشش کرتی وہ اتنا ہی سر پر سوار ہوتی زبیدہ کو ماہیر پہلی نظر میں ہی اپنے بیٹے کے
لیے بھاگ گئی تھی سرخ و سفید نازک سی درمیانہ قد اور نفاست پسند اسے ماہیر کی کمر پر جھولتی سیاہ بالوں
کی لمبی سی چوٹی بھی بے حد پسند تھی ہاں پسند نہیں آیا تھا تو ماہیر کا قطر ایا قطرایا اور بیزار اللہ اللہ کر کے زبیدہ
بیگم نے جوراباد کی طرف واپسی کا قصد کیا۔
لیکن جاتے جاتے ان تینوں کے ہوش اُراگئی اُس نے ماہیر کو اپنے بیٹے کے ساتھ کرنے کی بات کی منسوب
کرنے کی بات کی رشتہ آنا خوشی کی بات صحیح لیکن رحمت علی اس کے بیٹے کے گونوں سے اچھی طرح
واقف تھا بے شک وہ کافی عرصہ دور رہے تھے لیکن اس کے قصے پوری برادری کی زبان پر تھے وہ سوچنے
کا کہہ رہی تھی اور پھر آنے کا کہہ گئی دونوں میاں بیوی قطی مطمن نہ تھے اس رشتے سے اور خود ماہیر کو
بھی پسند نہ تھا کہ وہ ان کے گھر کی بہو بن کر جائے اماں پہلے مجھ سے تو مشورہ کر لیا ہوتا تجھے کس نے کہا تھا
رحمت مامے کی کڑی کا رشتہ مانگ میرے لیے زبیدہ کا بیٹا غصے سے بول رہا تھا تو جانتی ہے نا میں چاچے
کرموں کی کوڑی پینوں کو پسند کرتا ہوں دیا تمہیں اسی سے کروں گا چاہے جو مرضی ہو جائے دیکھ ارشد
باولا نہ بن پہلے میری بات تو پوری سن لے سمجھ رحمت علی کی کڑی لوٹ رہی ہے تیری لاٹری اتنا سونا مکان
جہیز کی چیزیں ایک سے ایک بڑھ کر انہوں نے بنائی ہے اور پھر رحمت علی اور صغری نے سوچ رکھا ہے کہ
وہ داماد کو موٹر سائیکل بھی دیں گے سلامی میں یا پھر اس کے جتنی رقم دیں گے۔
ویسے بھی جو کچھ ہے سارا ماہر کا ہے نا اور زیور بھی الگ سے بنا رکھا ہے صغری کہہ رہی تھی فریج ٹی وی
کپڑے دھونے والی مشین اور مائیکرو ویو اوون بھی دیں گے لے کر زبیدہ کی مانو رال ہی ٹپک پڑی تھی ان
باتوں کا ذکر کر کے خود ارشد کی انکھوں میں بھی گویا دیے سے جل اُٹھے تھے سوچ ارشد پتر ٹھنڈا ہو کر
سوچ تیرا ہی بھلا ہے اس میں اس پروین میں کیا رکھا ہے نہ رنگ ہے نہ روپ اُدھر سے اٹھ بھائیوں کی
بہن ہاتھ تیرے ککھ نہیں انا سوائے اس کے بھائیوں کی چاکری کے غلام بن کر ساری عمر گزار دے گا تو
ان کے ساتھ جھلیا عقل سے کام لے عقل سے راج کرے گا تو سر اٹھا کر چلے گا سیوا کروا اپنی سیوا مرد بن
کر ۔
زبیدہ اپنے بیٹے ارشد کو سمجھا رہی تھی اور وہ اب دھیرے دھیرے سر ہلا کر ماں کی باتوں کو قبول کرتا جا رہا
تھا پینوں کی محبت تو دور کہیں جا سوئی تھی لالچ کی سیاہ پٹی ماں بیٹی کی انکھوں پر بن چکی تھی بھائی صاحب کیا
حرج ہے کہ گھر کی بات گھر میں رہ جائے ماہیر پتر کون سا پیار کر غیروں میں جائے گی جب جی چاہے ملنے
چلے انا اپنوں سے بڑھ کر کوئی نہیں ہوتا رحمت ویر منڈا بھی تیرا دیکھا بھلا ہے زبیدہ خاتون کے لہجے میں
مٹھاس ہی مٹھاس تھی وہ تیسرے ہفتے ہی پھر سے رحمت علی کے گھر موجود تھی دیکھ زبیدہ بہن یہ فیصلے
اتنی جلدی نہیں تہ پا جاتے تو وہ ائی ہماری سر انکھوں پر میں تیری عزت کرتا ہوں مگر بہتر ہے تو اس رشتے
والی بات کو یہیں پر ختم کر دے میں نہیں چاہتا تیرا دل ٹوٹے رحمت علی نے بڑے ضبط سے نرم لہجے میں
اپنی بات کو مکمل کیا اس رشتے والی بات کو کیوں ختم کروں ویر وجہ تو دس نہ مجھے آخر کیا کمی ہے میرے چند
پتر ارشد میں ہیرا ہے میرا پتر ہیرا اسے مت کہوا بڑھاپے کا سہارا بن جائے گا تیرا خدمت کرے گا تیری
زبیدہ کے لہجے میں لجاجت تھی رحمت علی کی بات تیر کی طرح اس کے دل کو لگی تھی اسے پر وہ برداشت
کر گئی آخر لڑکی کا رشتہ لینا تھا صغری بھر جائے تو بھی تو کچھ بول نا میری طرف داری ہی کرتے آخر تیری
بھی ماسی کی دھی لگتی ہوں نا اس نے صغری کو بھی گفتگو میں شامل کرنا چاہا جو کب سے خاموشی اختیار کی
ہوئی تھی بہن میں کیا بولوں ماہر کا فیصلہ اس کا باپ ہی کرے گا وہ جو بھی کہے مجھے منظور ہے صغری نے
جیسے اپنی جان چھڑائی آخر رحمت ویر تیرا کیا فیصلہ ہے زبیدہ نے پرامید نظروں سے سوچوں میں کم رحمت
علی کو دیکھا وہ چونکا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا میرا فیصلہ یہ ہے کہ تھوڑی دیر وہ رکا مجھے یہ رشتہ قبول نہیں میں
تیرے ہیرے جیسے بیٹے کے لچھنوں سے آچھی طرح واقف ہو بہن میں بے وقوف ہرگز نہیں کہ اپنی تھی
اسی نشئی اور جواری کے پلے باندھ دوں آچھی طرح واقفوں میں ارشد اس اچھی اور اس کے آوارہ
دوستوں سے چپ کر کے چلی جا یہاں سے خبردار جو میری بیٹی کا نام آب اپنی زبان پر بھی لیا تو۔
رحمت علی غصے سے کھولتا ہوا باہر نکل گیا تھا جبکہ زبیدہ پوچکی سی بیٹھی رہ گئی تھی اماں تو تو کہتی تھی ماما رحمت
تجھے انکار کر ہی نہیں سکتا اب سنا وہاں سے بےعزتی کروا کے آ گئی نا چپ چاپ ار شد مسلسل طنز بھری
باتیں کیے جا رہا تھا اب کس کو ناکو چنے چبائے گی کہاں گیا تیرا وہ مکان اور زیور سب کیا نہ ہاتھ سے وہ کہہ
کے لگا کر ماں کا مذاق اڑانے لگا اگلے مہینے ویا کی تیاری کر میرے اور پروین کے بس وہ قطعی انداز میں اپنی
ماں سے کہہ کر اٹھ گیا جبکہ زبیدہ کے دل میں ہاتھ سے جاتی مفت کی دولت کا خیال رہ رہ کر ا رہا تھا۔
اس کا دماغ بہت کچھ سوچ رہا تھا جس پر وہ عمل کرنے کا پورا ارادہ رکھتی تھی رحمت علی نے اس کی انا پر بڑی
کاری ضرب لگائی تھی پر اسے تحمل سے کام لینا تھا وہ جلد بازی میں کام خراب نہیں کرنا چاہتی تھی اس نے
برادری والوں کے گھروں میں جا کر رحمت علی اور اس کے خاندان کے خلاف باتیں کرنا شروع کر دی
خاص طور پر ماہیر کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا برادری کے بڑے بزرگوں پر زور دیا کہ وہ رحمت علی کو مجبور
کریں کہ وہ اپنی بیٹی کا رشتہ میرے بیٹے کے ساتھ طے کر دے برادری والے ارشد کے چال چلن اور
رحمت علی کی شرافت سے خوب واقف تھے انہوں نے زبیدہ کی کسی بات پر کان نہ دھرا بلکہ اسے خوب
باتیں سنائی۔
جب کہیں سے بھی اس کی شنوائی نہ ہوئی تو اپنی بے عزتی کا دکھ اور حسد کی اگ نے اس کو پاگل سا کر دیا اس
کے دل میں نفرت اور انتقام نے جگہ لے لی اس نفرت کا اظہار پوری برادری کے سامنے کیا اور پھر برادری
والوں نے رحمت علی کی بیٹی ماہر کو تین ماہ سے سکتے پہ لگتے دیکھا اماں اماں ماہر ادھی رات کو اُٹھ کر رحمت
علی اور صغری کے کمرے کے سامنے کھڑی تھی اور تھر تھر کانپتی ماں کو بلا رہی تھی ابا ابا وہ زور سے چلائی
صغری اور رحمت علی ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھے وہ جلدی سے اٹھ کر باہر ائی ماہر کو دیکھ کر پریشان ہو گئے وہ دوڑ کر
ماں کے سینے سے جانے لگی نہ اس کے سر پر دوپٹہ تھا اور نہ پیروں میں جھکتا کیا ہوا میری بٹیا کو صغری اسے
باہوں میں لے کر اپنے کمرے میں لے ائی رحمت علی بھی پیچھے پیچھے چلا ایا وہ ماہر کے مسلسل رونے پر بہت
گھبرایا ہوا تھا ۔
اماں اگ اگ لگی ہے میرے چاروں طرف میں چل رہی ہوں اماں مجھے بچا لیں سسکتی بلگتی ماہیر نے کہا تو
وہ اس کو مزید اپنی باہوں میں بھر کر پیار کرنے لگی بس میری دھی نہ رو تو نے کوئی خواب دیکھا ہے ڈر گئی
ہے بھلا کہاں سے اگئی اگ صغری ا بی بی نے اسے تسلی دی رحمت علی نے بھی بیٹی کو شفقت سے اپنے ساتھ
لگا لیا نہ میری جھلی بٹیا نہ رو تیرا بابا ہے نہ تیرے ساتھ تیرے پاس ہے نا تجھے کچھ نہیں ہوگا وہ اس کو چپ
کروا رہے تھے اور آنسو اس کی انکھوں سے پہنچ رہی تھی چل تو میرے ساتھ ادھر ہی سو جا صغری بی بی نے
اسے پیار سے تھپکتے ہوئے اپنے بستر پر لٹا دیا اور خود بھی اس کے برابر میں لیٹ گئی۔
وہ بہت خوفزدہ تھی اس نے ماں کو مضبوطی سے تھام رکھا تھا اگلی صبح صغری نے اسے بیدار نہیں کیا بلکہ
رحمت نے اسے منع کر دیا تھا کہ اس کے خیال میں وہ نیند پوری کر لے تو اچھا ہے اسے سوتا چھوڑ کر صغری
بی بی کچن میں ا کے ناشتہ تیار کرنے لگی جبکہ رحمت علی سبزی منڈی جانے کی غرض سے باہر نکلنے ہی والا تھا
کہ ماہر کی دل دوست چیخوں نے انہیں ہلا کر رکھ دیا وہ بھاگ کر اس کی طرف گئے تو اندر کے منظر نے ان
کے قدموں تلے سے زمین ہی کھینچ لی تھی ماہیر بستر پر اکڑی پڑی تھی اس کے ہاتھ پاؤں الٹ چکے تھے
انکھوں پر غشی سی طاری تھی اور منہ سے جھاگ نکل رہے تھے وہ دوڑ کر اس کے پاس آئے اسے ہلا جولا کر
دیکھ رہے تھے مگر وہ تو ایسی پڑی تھی جیسے کوئی لوہا ہو رحمت علی دوڑ کر کچن سے پانی لے کر ایا صغری اس کی
ہتھیلیوں کو اپنے ہاتھوں سے دبانے لگی رحمت علی اپنی بیٹی کے پیروں کے تلوے مل رہا تھا اس کو کچھ سمجھ
نہیں ارہا تھا کہ وہ ایسا کیا کرے کہ ماہیر اصلی حالت میں لوٹ ائے پانی پھینکا ناک دبائی صغری بی بی قرانی
آیات پڑھ پڑھ کر پھونکنے لگی۔
ٹھیک 15 منٹ کے بعد اس کے وجود کو ایک جھٹکا سا لگا تھا اور پھر وہ بالکل ایسے ہو گئی جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا
ماہر خالی خالی نظروں سے اپنے ماں باپ کے غمزدہ چہروں کو دیکھ رہی تھی جو اس کی تکلیف پر انسو بہا رہے
تھے ماہر کے ساتھ روز ہی کچھ نہ کچھ نیا ہوتا راتوں کو وہ سو نہ سکتی تھی اگر سوتی تو چیخیں مار کر اُٹھ بیٹھتی اس
کے پورے وجود پر سویا سی چکتی جن کی تکلیف سے وہ بلبلا کے رہ جاتی کبھی اس کے پیروں کے تلوے
گرم ہو کر سرخ لہو رنگ ہو جاتے اور چھوٹے چھوٹے سفید ابلے پڑ جاتے جیسے کہ اس کو اگ میں جلایا جا
رہا ہو کچھ دیر بعد جلد ہی ٹھیک ہو کر غائب ہو جاتے اس کی صحت دن بدن گرتی جا رہی تھی اس کے
چہرے کی شگفتگی اور رنائی ختم ہو گئی تھی اس کی انکھیں اور چہرے کے زاویے ایسے تھے جیسے کوئی دہشت
زدہ انسان ہو جسے دیکھ کر دوسروں کو بھی خوف اتا تھا ۔
ایک رات وہ سو کر اٹھی اس نے اپنے لمبے بالوں کو ہاتھوں سے سنوار کر جوڑے کی شکل دینی چاہیے مگر یہ
کیا اس کے بال وہ خوفزدہ سی ائینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی اور اس کے ہونٹوں سےچیخ نکلی صغری بی بی
خود صدمے سے حیران رہ گئے ان کے ماہیر کے بال سر پر نہیں تھے اس کے بال کٹ چکے تھے بالکل
کانوں کی لوں سے بھی اوپر تک وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی تو ساتھ صغری بی بی بھی چیخیں مار مار کر رونے لگی
ماہیر کو اب چپ لگ گئی تھی وہ ہر وقت خلاؤں میں جانے کیا گھورتی رہتی یا اپنے ہاتھوں کے ناخن چبانے
لگتی اجاڑ جھنکار حلیہ اور بالکل پاگلوں کی طرح دکھنے لگی ۔
رحمت علی کے گھر میں کبھی خون کے چھینٹے پڑتے دیواروں پر تو کبھی کسی جانور کی گردن تک کٹی ہوئی
سیری کہیں نہ کہیں سے برامد ہوتی یہی نہیں ماہیر کی انکھوں اور منہ سے بھی خون جاری ہو جاتا اکثر
اوقات اس کی گردن اور بازوں پر کٹ لگے ہوتے جیسے چھری کے ساتھ ان کو کاٹا گیا ہو یہ نشان بہت
گہرے ہونے پر خود ہی معدوم ہو جاتے دن بدن ماہر کی جسمانی اور ذہنی تکلیف میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا
صغری بی بی اور رحمت علی کی راتوں کی نیند حرام ہو چکی تھی جوان بیٹی کی حالت ابتر سے ابتر ہوتی جا رہی
تھی اسے روز ہی کسی نئی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا تھا اب تو پورے جسم پر سفید ابلے ظاہر ہونے لگے تھے جن
کی جلن اور درد سے وہ تڑپ اٹھتی تھی۔
محلے والے رحمت علی اور اس کی بیوی کے ساتھ پوری ہمدردی کرتے لیکن خود وہ اس معاملے میں بالکل
بے بس تھے صغری بی بی کو اس قدر اندازہ تو ہو چکا تھا کہ ان کی بیٹی پر کوئی جادو وغیرہ کر دیا گیا تھا اُس نے
رحمت علی پرزور دیا کہ وہ اس کے روحانی علاج کا بندوبست کریں کہ یہ ڈاکٹروں کے اب بس کا روگ
نہیں وہ اس کا علاج نہیں کر سکتے رحمت علی نے اپنے گاؤں کے امام مسجد سے تمام واقعات و حالات بیان
کیے تو انہوں نے اسے بتایا کہ یہ کالے جادو کے وار ہیں اس کا توڑ تو میرے بس سے باہر ہے تم کسی اور سے
رجوع کرو۔
وہ بہت پریشان ہوا اسی پریشانی کے عالم میں وہ گھر کی جانب آ رہا تھا کہ انہیں اپنا پرانا دوست فتح دین مل گیا وہ
فتح دین سے مل کر بہت خوش ہوا لیکن اس کی انکھیں اور چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ اندر سے بہت تکلیف میں یہ
بات اس کے چہرے دوست نے بھی محسوس کر لی جب وہ رحمت علی کے گھر پہنچے تو اس نے سب سے پہلے
اپنے دوست سے اس کی پریشانی کا سبب دریافت کیا رحمت علی ایک باہمت اور حوصلہ مند انسان تھا لیکن
اپنے ہمدرد دوست کو سامنے پا کر وہ ٹوٹ گیا بہتے انسوؤں کے ساتھ اس نے اپنے اوپر بیتنے والی قیامت کا
ذکر کیا جسے سن کر فتح دین خود بھی پریشان ہو گیا تھا لیکن اس نے اپنے دوست کی ہمت بندھائی اور ایک
ایسے شخص کا پتہ دیا جو کہ ایسے کاموں کے توڑ میں ماہر تھا نہ صرف ماہر تھا بلکہ وہ یہ کام فی سبیل اللہ کرتا تھا۔
رحمت علی اپنے دوست کا بہت شکر گزار ہوا اگلے روز ہی رحمت علی صغری اور ماہیر اس شخص کے پاس جا
پہنچے جس کا پتہ اس کے دوست نے دیا تھا وہ ایک کالے جادو کا ماہر انسان تھا وہ لوگوں کی مدد کرتا اور اس کا
معاوضہ نہیں لیتا تھا اس نے ماہیر پر بیتنے والے واقعات خود ہی بیان کر دیے نہ صرف بیان کیے بلکہ جس
نے وار کروائے تھے اس کا حلیہ اور شکل تک بتا دی تھی جسے سن کر رحمت علی اور صغری بی بی صدمے سے
حیران رہ گئے کیونکہ وہ کوئی اور نہیں زبیدہ خاتون تھی جس نے حسد اور لالچ میں ا کر ایک ہستی بستی لڑکی کو
اجاڑ کر رکھ دیا تھا جس کا قصور کچھ بھی نہ تھا عامل بابا نے ان کو تسلی دی ماہر کا علاج کرنے کا کہا مسلسل تین
ماہ تک وہ عامل بابا ماہر پر کیے گئے وار کا خاتمہ کرتا رہا اخر کار اس کی محنت رنگ لائی اور ماہر دوبارہ زندگی کی
طرف لوٹ ائی آہستہ آہستہ اس کی دلکشی اور رانئی بھی لوٹ آئی بال بھی عامل بابا کے دیے گئے خاص تیل
سے دوبارہ بڑھنا شروع ہو گئے رحمت علی اور صغری بی بی بہت خوش ہوئے انہوں نے عامل کو نظرانہ
وغیرہ دینا چاہا تو اس نے لینے سے انکار کر دیا یہ تم اپنی اور اپنی بیٹی کا صدقہ دے دو اور کوشش کرو اپنے مال
میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کر سکو اور صدقہ دیتے رہنا تاکہ افتوں سے محفوظ رہو عامل بابا کی مسلسل تین
ماہ کی تگ و دو کے بعد اخر کار ماہیر کی جان کالے جادو کے وار سے چھوٹی رحمت علی اور صغری کی انکھوں
میں بھی تشکر کے انسو تھے وہ ہر وقت اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو کر شکر بجا لاتے تھے۔
ادھر برادری والوں نے ماہر کی تکلیف دیکھی تو پھر اسی تکلیف کا شکار زبیدہ خاتون کو دیکھا اس کا کیا ہوا کالا
عمل اسی پر ہی الٹ چکا تھا اس کا ذہنی توازن بگڑ گیا اور ساتھ ہی اسے کوڑ کا مرض لاحق ہو گیا اس کا لاڈلا بیٹا
اسے اٹھا کر گندے نالے کے پاس پھینک ایا جہاں اس نے سسک سسک کر زندگی کے باقی ماندہ دن
گزارے لوگوں کی نفرت تزہیق کا نشانہ بنی اور آخر کار اسی حالت میں دم توڑ کے برادری والوں نے بیٹے
کو بھی برا بھلا کہا اور زبیدہ بیگم کی اخری رسومات کو ادا کر کے گھروں کو لوٹ گئے یہ کہانی تو یہاں پر ختم ہو
گئی پر کیا سچ میں یہ کہانی ختم ہو گئی میرے خیال میں تو نہیں کیونکہ زبیدہ بیگم جیسے حرص و لالچ کے مارے
ہوئے لوگ جب تک زندہ ہیں یہ کہانیاں جنم لیتی رہیں گی کیا خیال ہے آپ کا؟
کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔
اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔
اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔