Kuch dost aise bhi hote hain

Kuch dost aise bhi hote hain

Kuch dost aise bhi hote hain

اسلام علیکم اُمید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے ۔

آج کی کہانی میں خوش آمدید 

انسان معاشرتی حیوان ہے اس دنیا میں بہت سے رشتے اور تعلقات بنا کر رکھتا ہے اور ایک ایسا رشتہ جو

سب سے خاص رکھتا ہے جو پرایا ہو کر بھی اپنوں سے بڑھ کر عزیز ہوتا ہے وہ ہے دوستی کا رشتہ لیکن سچ ہی

کہتے ہیں ہر ہاتھ میں لانے والا دوست نہیں ہوتا کچھ لوگ دوستی کے نام پر استین کے سانپ ہوتے ہیں اور

نقصان پہنچانے کے بعد ان کے اصل چہرے کھلتے ہیں چہروں سے نقاب اترتے ہیں تب سوائے پچھتاوے

کی ہمارے پاس کچھ نہیں آتا کچھ ایسے ہی کہانی میری ہے۔

 میرا نام صوبیہ ہے میں گجرات کی رہنے والی ہوں ہم تین بہن بھائی تھے میرے ابو قاری تھے فالج کے ٹیکنے

ان کے جسم کا دایاں حصہ بالکل مفلوج کر دیا تھا کچھ عرصہ چارپائی پر ہے اور پھر اچانک ایک دن ہارٹ

اٹیک ہو گیا جس سے ان کی موت واقع ہو گئی باپ کا ضائع اولاد کے لیے ایک مضبوط چھت کی مانند ہوتا

ہے جو ہمیں زمانے کے ہر دکھ سے بچاتا ہے کبھی گرم ہوا بھی نہیں لگنے دیتے۔

 جب میں نے باپ کی موت ہوئی تب میری عمر نو سال تھی میرا بھائی مجھ سے چھوٹا تھا اور ایک بڑی بہن

تھی جو دسویں جماعت کی طالبہ تھی ابا کی موت نے ہم سب کی زندگیوں پر گہرا سر مرتب کیا تھا اماں سلائی

کرتی تھی لیکن اب ان کے کام میں تیزی آ گئی تھی وہ دن رات سلائی مشین پر کپڑے سلائی کرتی رہا کرتی

دن رات کی محنت نے انہیں وقت سے پہلے ہی بوڑھا کر دیا تھا بابا کی تنخواہ پر گزارا تھا پہلے اور آب اماں کی

سلائی سے ہی گھر چلتا تھا۔

 ہماری تعلیم کے سلسلے میں اماں بہت فکر مند رہتی تھی وہ ہر وقت پریشان رہتی ہمارا چھوٹا سا تو کملوں کا گھر

تھا جس کی حالت کافی خستہ ہو چکے تھے اب بارش ہوتی چھتوں سے پانی ٹپکنے لگتا ساری رات ہم سوتے

جاگتے ہی گزار دیا کرتے سب بہن بھائی تھے لگا کر پڑھائی میں محنت کر رہے تھے شام کو اماں ہم سب بہن

بھائیوں کو بٹھا کرسمجھایا کرتی بھلائی کا زمانہ ہی نہیں رہا اب خود کو بچا کر چلنا آج پڑھ لکھ لو گے کل کو

تمہارے کام آئے گا ورنہ ہماری طرح دردر کی ٹھوکریں تمہیں بے بس کر دیں گی تم لوگوں کے باپ کا

جائیداد میں جو حصہ تھا اس پر بھی تمہارے چچا اور پھو پھو نےقبضہ کر لیا ہمارے پاس بس یہی چھوٹا سا گھر

ہے اپنی خواہشات کو لگام ڈال کے رکھنا تاکہ کبھی کسی کے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔

 تب ہم نے امی کی سب بات سمجھ میں نہیں آیا کرتی تھی امی ہمیں کہانیاں سناتی جسے ہم سن کر ہنستے لیکن

کبھی ہم نے اپنی ماں کے چہرے پر خوشی نہیں دیکھی تھی کوئی شادی ہوتی تقریب ہوتی امی ہمیشہ سادہ سے

کپڑوں میں نظر آتی ان کے چہرے پر سنجیدگی طاری رہتی ہمارے معاملات میں وہ مزید محتاط ہو چکی تھی

باجی نے آگے کی پڑھائی چھوڑ دی اور اماں نے بھی کہا کہ نہیں پڑھنا تو شادی کرو اور اپنے گھر کی ہو جاؤ باجی

نے بھی پھر اماں کی سخت سرزنش سے پڑھائی شروع کر دی میں اپنے گھر کی ہونہا لڑکی تھی میری ذہانت کی

مثال ہمارے محلے میں بھی دیا کرتے تھے جب میٹرک انتظار اعلی نمبروں سے پاس کیا تو میری ماں کا سر

فخر سے بلند تھا اور اب میں باجی مل کر بچوں کو ٹیوشن بھی دیتے تھے۔

 بھائی کو بھی پڑھاتے اب ماں کا پوچھ کافی کم ہو گیا تھا اماں نے ایک اچھے کالج میں میرا ایڈمیشن کروا دیا تھا

میں بہت خاموش طبیعت کی لڑکی تھی کسی سے جاتے ہی دوستی کر لینا میری فطرت کا حصہ نہیں تھا میں

سائنس کی ساتھ بڑھتی رہتی تھی اپنے کلاس کے ذہین طالبات میں سے تھی یا میری دوستی عینی سے ہوئی

وہ ایک امیر گھرانے کی لڑکی تھی اس کا رہن سہن ہم سب لوگوں سے مختلف تھا اُسے پڑھائی میں مدد

چاہیے ہوتی یا کبھی کوئی کام ہوتا تو میں کرتی جس سے آہستہ آہستہ ہماری دوستی مزید پختہ ہو گئی وہ میرے

لیے ائے دن طائف لے کر اتی جس کو لینے سے انکار کر دیتی اس کو بتاتے کہ میری امی بہت سخت طبیعت

کے مالک ہے میری عمر کا بھی لحاظ نہیں کریں گی مجھے ماریں گی اس نے کہا کہ پاگل اب ہر بات ماں باپ کو

تھوڑی بتائی جاتی ہیں اتنے پیار سے تمہارے لیے ڈریس لے کر آئی ہوں ایسا کرو کہ چھپا کے رکھ لو کبھی

کہہ دینا کہ اپنی پاکٹ منی سے لیا ہے انکار کے باوجود اس سوٹ کو میرے بیگ میں ڈال کر چلے گئی تھی۔

Kuch dost aise bhi hote hain

 میں جب گھر پہنچی تو پتہ نہیں کیوں میرا سر جھکا ہوا تھا مسا نے چارپائی پر بیٹھی بٹن ٹانک رہی تھی مجھے دیکھتے

ہی اگے بڑھیں بیگ تھاما میرا دل دھڑک رہا تھا کہیں امی دیکھ نہ لے را میں نے کمرے میں جا کر بیک رکھ

دیا اور کھانا لے کر ائی اور امی نے آج میری پسند کا کھانا بنایا ہوا تھا اور اپنی ماں کے سامنے پہلی بار کھانا نہیں

کھا رہی تھی میں امی میرے چہرے کو دیکھتی رہی پھر بولی کی زوبیا جانتی ہوں جب تم چھوٹی تھی تو اپنی بہن

بھائی کی چیز چھپا لیتی تھی تب تم مجھ سے نظریں نہیں ملا پا دیتی اور میں جان جاتی تھی تم چور ہو میری امی کا

ہاتھ پکڑ لیا اور ان سے کہا کہ اپ مجھے کچھ کہیں گی تو نہیں امی نے کہا کہ پہلے کبھی بچپن میں کچھ کہاتھا  ۔

جو اب کہوں گی امی کی بات سن کر ان کو یاد دلایا کہ اپ مجھے مارتی بہت تھی  ہمیں اماں ہنسنے لگی آج بڑے

عرصے کے بعد ہنسی تھی اُن سے کہا کہ میری دوست تھی اس نے مجھے تحفہ دیا ہے وہ سوٹ امی کے اگے کر

دیا امی  نے اس کو دیکھا تو کہنے لگی کہ رکھ لو دوستو تحفہ دے تو انکار نہیں کرتے پر کوشش کرنا کہ اگے سے

اس سے کچھ مت لینا یہ کافی مہنگا سوٹ ہے ہم غریب لوگ ہیں ہماری اور ان کی زندگی میں بہت فرق ہے

ویسے بھی میں چاہتی ہوں کہ میری بیٹی یہ سب چھوڑ کے ڈاکٹر بنے غریب لوگوں کا مفتی علاج کریں ان

میں فخر سے سب سے کہوں کہ میری بیٹی ہے۔

امی یہ باتیں مجھے عجیب قسم کی قوت دیا کرتی تھی جس سے میری پڑھائی کی سپیڈ مت سے تیز ہو جایا کرتی

تھی میں ادھی رات تک پڑھتے سب سے پہلے اٹھا کر دی میں اپنا آپ بھول چکے تھے وہ سوٹ میں نے

ویسے ہی رکھ دیا تھا میرا مقصد پڑھنا تھا وہ ویسے ہی پڑا  رہا تھا جب باجی کی شادی ہوئی اس نے پہنا چا ہا تھا ۔

عینی دوستی نہیں ختم کر پائی تھی اس کی زبان میں الگ قسم کی مٹھاس تھی جو انسان کو اپنا گرویدہ بنا لیتی جب

باجی کی شادی ہوئی وہ بھی ائی تھی لیکن جلد ہی چلی گئی اس نے کہا کہ اسے اتنے چھوٹے گھر میں الجھن ہوتی

ہے دم  گھٹ رہا ہے شکر ہے  امی نے بات نہیں سن لی ہمارے گھر کی پہلی شادی تھی اور باجی بیا ہ کر مامو کے

گھر جا رہی تھی جتنی حیثیت کی اتنا جہیز دے دیا تھا پر ممانی نے کہا کہ یہ بھی بہت ہے میری ممانی بہت اچھی

تھی انہوں نے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا تھا۔

 ہماری پھوپھو  شادی بھی نہیں اآی تھی کیونکہ وہ چاہتی تھی کہ ان کی ہم بیٹی کا رشتہ مما نی اپنے بیٹے سے

کریں ان کی بیٹی بیمار رہتی ہے اور وہ کوئی کام کاج بھی نہیں کرتی تھی کیونکہ روز کچھ نہ کچھ میٹھا بنا کر بھیجا

کرتی تھی کبھی مختلف اقسام کی خوشبو ہمیں دیتی تھی وہ جو دیتی امی انہیں پھینک دیتی ہمیں کہتی کہ مجھے اس

عورت پر ذرا یقین نہیں ہے۔

Kuch dost aise bhi hote hain

 ایک دن پھوپھوکی بیٹی نے کہا کہ انہیں میری باجی کی شادی میں جو سوٹ پہنا تھا وہ چاہیے کالج میں فنکشن

ہے پہننا ہے میں نے اٹھا کر دے دیا اور پانچ چھ دن بعد دینے ائی تو اماں نے پکڑ کر وہی غریب لڑکی کو دے

دیا مجھے تو رونا آ رہا تھا کتنا خوبصورت تھا مجھے امی کی سمجھ نہیں آئی تھی وہ ایسا کیوں کرتی ہے کبھی پوچھنے بیٹھ

جاتی توامی  کہتی کہ میں تمہاری ماں ہوں تم میری ماں نہ بنو تمہاری اعلی درجے کے مطلبی جادوگرنی عورت

ہے سر خاندان ان کی کرتوتوں سے واقف ہے میں نہیں چاہتی کہ میرے کسی بھی بچے پر اس عورت کا

سایہ بھی پڑے۔

 ہمارے گھر کے ساتھ ایک گھر تھا جس میں رفیق چچا کی دو بیویاں رہا کرتی تھیں میں چھت پر چڑھ کر ان کا

تماشہ دیکھنے لگی رفی چچا کی پہلی بیوی دوسرے کو برداشت نہیں کرتی تھی اور دوسری بیوی جھگڑالوتی جس

کے پاس پورے محلے میں سنائی دیتی ان کے گھر کی لڑائی آئے دن بڑھ چکی تھی رفی چچا  اب عورتوں کی

طرح سر باندھ کر بیٹھ جاتے تھے مجھے مفت کام مشورہ مجھے مفت کا شو دیکھنے کو مل جاتا تھا ٹی وی میں تو میں

پہلے ہی بھی برائے نام ہی دیکھا کرتی تھی پر جب سے کالج انا شروع کیا تھا طبیعت میں ایک شوخی سی  آ گئی

تھی ہماری چھتوں کے اوپر تھوڑے تھوڑے پردے کیے گئے تھے جن کی حالت ایسی تھی کہ جیسے ابھی گر

جائیں گے اماں نے کچھ پیسے جمع کر کے چھتیں تو پکی کروا لی تھی پھر باقی گھر کا وہی حال تھا۔

 تبھی چھت سے ہوتی گھر کی بیک سائیڈ پر گئی اور ارد گرد دیکھنے لگی شام کا یہ وقت اور ڈوبتے سورج میں نہ

پسندیدہ منظر تھا مجھے فطرت سے محبت تھی تبھی میری اس نظر سامنے والے گھر کی چھت پر پڑی وہاں ایک

لڑکا نہ جانے کب سے کھڑا ہو مجھے گھور رہا تھا جب اسے دیکھا میں بھاگ کر نیچے اتر ائی اور دوبارہ کبھی جانے

کا نام نہیں لیا تھا کچھ دنوں سے کالج آتی روز  کوئی میرا پیچھا کرتا میں بہت پریشان ہو گئی تھی امی کو بتانا چاہتی

تھی وہ بھی پریشان ہو جاتی اور ایک دن کالج سے چھٹی کے وقت ایک لڑکا میرے سامنے کھڑا تھا میرے

ساتھ میری دوست عینی  بھی تھی اس لڑکے نے مجھ سے کہا کہ  وہ بات کرنا چاہتا ہے دو منٹ سے زیادہ کا

وقت نہیں لوں گا میں گھبرا چکی تھی میرے ماتھے سے پسینہ ٹپک رہا تھا عینی  نے کہا کہ ڈرنے والی کیا بات

ہے ہاں بولو تم کون ہو کیا چاہیے اس لڑکے نے کہا میرا نام حمدان ہے میں صوبیہ سے محبت کرتا ہوں اور

رشتہ بھیجنا چاہتا ہوں میرے دوست تالیاں  بچانے لگی مجھے سب بہت عجیب لگ رہا تھا آتے جاتے لوگ

بھی ہمیں دیکھ رہے تھے اس نے اپنا نمبر مجھے تھما دیا اور یہ کہہ کر چلا گیا کہ میں آپ کے فون کا انتظار کروں

گا اور اسی کے سامنے میں نمبر پھاڑ کر پھینک چکی تھی۔

 میری زندگی کا یہ مقصد نہیں تھا میں ایک شریف اور عزت دار گھرانے کی بیٹی تھی اور بیٹیوں کو زیب نہیں

دیتا کہ وہ اپنی عزتوں کو ایسے لوگوں کے لیے پامال کریں جن سے کوئی رشتہ ہی نہیں میں پریشان رہنے لگی

تھی میری پڑھائی ڈسٹرب ہو رہی تھی میں پھر بھی بار بار حمدان کے بارے میں سوچنے لگی اور جب اپنی ماں

کا چہرہ دیکھتی ہیں اور خیال کو اپنے دماغ سے نوچ کر پھینک دیتی کتنے دن سکون سے بیت گئے ایک درہمدان

پھر ایا اس نے کہا کہ وہ بیٹھ کر بات کرنا چاہتا ہے میں نے ساتھ ہی انکار کر دیا اور ایک تھپڑ اس کے منہ پر

رسید کر دیا میری دوست میری طرف داری کرنے کی بجائے اس لڑکی کی سائیڈ لینے لگی مجھے بہت برا لگا

میں اب اس سے بھی دور رہنے لگی تھی میری امی وہی سمجھاتی کہ اپنی سہیلی  سے دور رہا کرو پتہ نہیں کیوں

مجھے اچھی نہیں لگتی۔

 امی سے بحث کرنے لگ جاتی کہ ایک ہی تو سہیلی ہے میری اپ کی کیا چاہتی ہیں کہ میں اکیلے ہو جاؤں عینی

 نے معافی مانگی اور کہا کہ تمہیں اس انسان کی قدر کرنی چاہیے دیکھا نہیں کتنی محبت کرتا ہے تم سے اج کل

عینی  کی زبان پر بس حمدان کا نام ہوتا حمدان نے پتہ نہیں کیسے میرے بھائی سے دوستی کر لی اور ہمارے گھر

انے لگا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہیں امی نے  اس کی تعریفیں کرنے لگی حمدان امیر گھرانے کا لڑکا تھا پر اس نے

کبھی ظاہر نہیں کیا تھا اس کی مالی حیثیت کیا ہے مجھے بھی یہ بات نہیں پاتاچلی تھی ۔

جب میرے چھوٹے بھائی نے ایف ایس سی کیا تھا جاب ڈھونڈ رہا تھا جب اس کی ملاقات حمدان سے ہوئی

اور دونوں دوست بن گئے حمدان کی مدد سے بھائی کو جاب ملی تھی جبکہ صرف ایف ایس سی کرنے والے

کو کوئی جاب نہیں دیتا اماں کہتی کہ یہ بھی حمدان کا احسان ہے اس کی تعریف سن کر میں بھی ناچتے ہوئے

فرید کی بارے میں سوچنے لگی اور آہستہ آہستہ ہماری بات چیت ہونے لگی اور پسند محبت میں بدلتی گئی

ہمارے کالج میں موبائل لے کے جانے کی اجازت نہیں تھی جب سے محبت میں پڑی تھی موبائل چھپا

کے لے جاتی فری پیریڈ میں حمدان سے بات ہی کرتی میں پڑھائی بھول چکی تھی محبت واقعی انسان کو نکما بنا

دیتی ہے اب میں امی سے بھی باتیں چھپانے لگی تھیں

 

اور کہتی کہ ماؤں سے کچھ نہیں چھپتا

 

 ایک دن امی نے کہا کہ یہ عمر ایسی ہوتی ہے انسان خواب دیکھنے لگتا ہے خواب دیکھنا غلط بات نہیں ہے وہ

جب انسان غلط راستوں پر چلتا ہے تو اس کا انجام بہت برا ہوتا ہے جب سے تم نے کالج جانا شروع کیا ہے

میں نے تم سے ہر پابندی ختم کردی ہے مجھے لگا کہ میری بیٹی سمجھدار ہو چکی ہے اپنا اچھا برا سمجھتی ہیں وقت

کی ٹھوکرے انسان کو بہت کچھ سکھا دیتی ہیں۔

Kuch dost aise bhi hote hain

 پر تم جن راستوں پر نکل پڑی ہو کیا انجام جانتی ہو پتہ نہیں کیسے امی کو یہ سب پتہ چل گیا تھا کئی بار آئینہ

دیکھتی کیا میرے چہرے پر لکھا نظر آتا ہے میری ماں کی باتوں نے آنکھوں سے پٹی کھول دی تھی میں نے

موبائل بند کر دیا اور حمدان سے کہہ دیا کہ اپنے گھر والوں کو بھیجے ورنہ بھول جائیں اس نے کہا کہ جیسے ہی

امی عمرے سے آتے ہیں وہ پہلے تمہارے گھر ہی ائیں گی تو بس میرا انتظار کرنا بہت محبت کرتا ہوں تم سے

محبت انسان کی کمزوری بھی ہوتی ہے اور طاقت بھی پر جب یہ کمزوری دوستوں کے ہاتھ لگ جائے تو ہمیں

ایسی سزا دیتی ہے جس کا ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔

 میں آج کل بہت خوش تھی ہواؤں میں اٹھتی پھر رہی تھی دو دن بعد حمدان کے ماں باپ میرے گھر آنے

والے تھے امی بھی میری خوشی میں خوش تھی امی سے وعدہ کیا تھا کہ پہلے ڈاکٹر بنوں گی پھر شادی کروں گی

مجھے اپنی ماں اپنے بھائی بہن کے لیے بہت کچھ کرنا تھا ساتھ ہی ساتھ ایک بینک میں جاب کرنے لگ لگی

تھی بھائی اس نے اپنی ذمہ داری خود ہی اٹھا لی تھی سب امی کی تربیت کی تعریفیں کرتے تھے میری زندگی

میں تباہی ہونے والی تھی جس کا کبھی میں نے سوچا نہیں تھا محبت نے دھوکہ دینا تھا یا دوستی نے یہ وقت

نے میرے سامنے لا کے رکھ دیا تھا ۔

اگلے دن کالج گئی تو عینی نہیں ائی تھی چند دن میں حمدان کے گھر والے ا رہے تھے اس کا نمبر بھی بند تھا میں

شام امی کو بتا کر عینی کے گھر چلی گئی وہ بیڈ پر لیٹی تھی اس کے سر پر چوٹ تھی اور عجیب حالت تھی مجھے

دیکھتے ہی میرے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اس نے کہا کہ زوبیہ میں برباد ہو گئی میں کہیں کی

نہیں رہی میرا دل بیٹھا جا رہا تھا اس نے کہا کہ حمدان نے مجھے زیادتی کا نشانہ بنایا مجھے کہا کہ وہ زوبیہ کو نہیں مجھے پسند کرتا ہے جب اسے کہا کہ زوبیہ میری دوست ہیں یہاں سے چلی جاؤ تو اس نے میرے ساتھ

زبردستی کی اور گھر والوں نے ہمارا نکاح کر دیا یہ خبر سن کر میرا سر چکرانے لگا اپنی دنیا ہلتی محسوس ہو رہی

تھی میں اندھا دھن وہاں سے کسی کی بھی پرواہ کیے بغیر بھاگ نکلی تب گیٹ کے باہر حمدان نے میرا ہاتھ

پکڑ لیا چند دن نے اس کی حالت ایسی ہوئی تھی جیسے کسی لمبی مسافت سے آیا ہوں وہ اپنی صفائی دے رہا تھا

میں اسے دھکا دے کر اگئی مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہوتا میری محبت نے مجھے رون دیا تھا میری ماں بہت

خوشی خوشی تیاری کر رہی تھی میں اب کس کس کو جواب دیتی ہر وقت حمدان حمدان کرنے والی کے ساتھ

حمدان نے کیا کیا اس نے میرے جذبات کے ساتھ میری دوست کو اپنی حوص کا نشانہ بنایا۔

 میں اپنی ماں کے گلے لگ کر اسے رو رہی تھی جسے کوئی اپنا مر گیا ہو محبت انسان کو اندرونی موت مار دیتی ہے

ہم سے ہمارے خواب خوشیاں سب کچھ چھین لیتی ہیں ایک ایسی اذیت  دیتی ہے جس نے ہم ساری عمر اندر

ہی اندر تڑپتے رہتے ہیں مجھے محبت راس نہیں ائی تھی ہر مقام پر جیتی ننے والے اپنے نصیبوں سے ہار گئی

تھی محبت مجھے کھا رہی تھی اور میرے ماں مجھے دیکھ دیکھ کر تڑپ رہی تھی۔

 ایک وقت لگا تو مجھے سنبھلنے میں پر زخموں میں تازے تھے میں بہت بدل چکی تھی اپنی دوستی پھر بھی ختم

نہیں کی تھی عینی  کے ساتھ اس بیچارے کا کیا قصور تھا وہ تو کسی ظلم کا شکار ہو گئی تھی وہ کافی عرصہ ا ہی نہیں

اس کی پڑھائی کا ایک سال ضائع ہو چکا تھا اور کچھ عرصے بعد اس نے دوبارہ پڑھائی شروع کر لی وہ بہت بدل

چکی تھی خوش نظر آتی اور روز اپنے گھر کا بنا ہوا فریش جوس میرے لیے لے کر اتی یہ تھی کہ مجھے تمہاری

صحت کی بڑی فکر ہے وہ خود کولڈ ڈرنک پیا کرتی تھی وقت کے ساتھ ساتھ ہماری دوستی بھی بہت گہری ہو

چکی تھی کبھی وہ ہمارے گھر آ جاتی کبھی میں اس کے گھر چلی جاتی اس کی شادی پر نہیں اسکی تھی وہ بھی ایک

کالج میں تھی اور میں یونیورسٹی پہنچ چکی تھی مگر پھر بھی میں اس کے گھر چلی جاتی تھی اُسے بھی اجازت تھی

وہ بھی کچھ نہیں کہتی تھی میں اپنی ماں کا خواب پورا کرنے کے بہت قریب تھی میرے دوست ایک سال

پیچھے رہ چکے تھے۔

 لیکن ہماری دوستی میں کوئی بھی فرق نہیں پڑا تھا ایک دن اس کے گھر ملنے چلی گئی توق سے وہ اپنے لیے بھی

ویسے ہی جوس لائی تو میں نے شرارت کرتے ہوئے دونوں جوس کے بوتلیں بدل دیں جب وہ کال سن کر

واپس ائی تو جوس اٹھا کر ایک گھونٹ پیا لیکن حیرت کا جھٹکا تب لگا جب وہ تڑپنے لگی مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں

ایا انہیں کمرے سے بھاگی جب سیڑھیوں پر میں نے اس انسان سے ٹکرائیں جس سے اتنی نفرت کرتی تھی

کہ میں اس کا نام ہی نہیں سننا چاہتی تھی وہ میری سہیلی کا شوہر تھا اس نے مجھے وکلایا ہوا دیکھا تو پوچھا کہ

ذوبیہ سب ٹھیک ہے مجھے تو اس وقت اپنی سہیلی کی فکر تھی میں کمرے کی جانب اشارہ کرنے لگی جیسے ہی

کمرے میں واپس ائی وہ تڑپ رہی تھی اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔

Kuch dost aise bhi hote hain

 اس کا شوہر اس کو لے کر ہاسپٹل بھاگ پتہ نہیں کیوں میری سہیلی کے شوہر کے چہرے پر اس کی تکلیف کی

کوئی اثار نہیں تھے ڈاکٹر نے بتایا کہ انہوں نے کوئی دوائی اور ڈوس لی ہے لیکن اب وہ خطرے سے باہر ہے

اس کے ماں باپ سب ا گئے تھے مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں میرا نام نہ لگا دے لیکن اس جوس میں ایسا کیا

ملایا تھا جسے وہ ایسی ہو گئی پولیس نے چھانبین کی اور اس وقت موجود نوکرانی کو پکڑ لیا اور اس نے جوس کا   

بتایا  اسے سن کر سب اپنی جگہ سن ہو چکے تھے کوئی بھی نہیں ہل پا رہا تھا اس نے بتایا کہ جماعت سے دو سال

پہلے ہمدان صوبیہ بی بی کا پیچھا کرنے لگے ہیں ان سے محبت کرتے تھے ان کی بات چیت ہونے لگی وہ جلد

شادی کرنے والے تھے جس حمدان بھائی نے اپنے گھر والوں کو زوبیہ بی بی کے گھر بھیجنا تھا تب چھوٹی

بیوی عینی نے حمدان بھائی کو میرے ہاتھ پیغام بھیجا کہ ذوبیہ ی بی بی ان سے کچھ بات کرنا چاہتی ہیں لیکن وہ

سب کے سامنے نہیں مل سکتی اسی لیے رات کے 11 بجے عینی بی بی کے کمرے میں آ جائے حمدان بھائی کچھ

نہیں جانتے تھے میں ان  کو رات کمرے میں چھوڑ آئی حمدان بھائی نے جوس پیا اس میں نشہ اور ادویات

تھیں جس سے رات وہ عینی  بی بی کے کمرے میں سو گئے اور صبح جب ان کی آنکھ کھلی تو چھوٹی بی بی دیوار کے

ساتھ لگی رو رہی تھی حمدان بھائی کچھ نہیں سمجھ پائے جیسے ہی وہ جانے لگے تو چھوٹی بی بی یعنی عینی بی بی نے

کہا کہ رات وہ ان کی اپنے ہوس  کا نشانہ بنا چکے ہیں اور انہوں نے شور ڈال دیا تب ہی چھوٹی بی بی کے گھر

والوں نے حمدان بھائی پہ کیس کرنے کا کہا اور ان کے گھر والوں کو بھی بنا لیا ان کے سامنے مجھ سے گواہی

لے کر میں نے جھوٹی گواہی دی کہ حمدان بھائی خود کمرے میں گئے اور دروازہ بند کر لیا اور دروازہ پیٹتی

رہی چھوٹی بی بی پر انہوں نے دروازہ نہیں کھولا سچائی کوئی بھی نہیں جانتا تھا انہوں نے یہ سب ذوبیہ بی بی

اور حمدان بھائی کو الگ کرنے کے لیے منصوبہ بنایا تھا چھوٹی بی بی  سے کبھی ذوبیہ بی بی کی کامیابی برداشت

نہیں ہوئی حمدان بھائی کو لے کر اب بھی ان کا یہی حال ہے دن رات وہ حسد  کی اگ میں جلتی۔

 مجھ سے جوس میں دوائی مکس کرواتی رہی لیکن میں نے کبھی وہ دوائی مکس نہیں کی تھی میری بیٹی کا نام بھی

زوبی تھا  میں ڈر گئی تھی کہ کل جب چھوٹی بی بی نے مجھے کل دوائی کے شیشی دی اور کہا کہ اس کو جوس میں

ملا کر لے اؤں وہ میں نے دونوں جوس میں ملا دی کہ وہ ذوبیہ بی بی کے پینے سے پہلے وہ جو چھوٹی بی بی پی گئی

میں ان کے ہر راز کی گواہ ہوں مجھ سے گناہ کرواتے رہیں جب ان کی شادی کو کافی عرصہ ہو گیا تو وہ کسی

سے بات کر رہی تھی وہ بانجھ ہے  اور وہ کبھی ذوبیہ بی بی کو اگے بڑھتا نہیں دیکھ سکتی میں اب ان کا ساتھ

نہیں دے سکتی۔

 اسی لیے میں نے ساری دوائی ڈال دی تھی وہ معافیاں مانگ رہی تھی اور سب اس کو ایسے دیکھ رہے تھے

جیسے اس نے سب کو پتھر کا بنا دیا میں روتے ہوئے وہاں سے بھاگ گئی تھی میرے دوست جس کے ساتھ

میں مخلص رہی اس کے سوا کسی سے دوستی نہیں کی وہیں استین کو سانپ نکلی تو مجھے کہتی تھی کہ اسے حمدان

سے شادی کرنی ہے میں درمیان سے ہٹ جاتی مجھے اپنے پیچھے حمدان کی اوازیں آ رہی تھیں وہ مجھے پکار رہا

تھا میں پاگلوں کی طرح تیز بھاگ رہی تھی اپنی  ماں کی یاد آ رہی تھی کبھی کسی انسان پر اتنا اعتبار نہیں کرنا

چاہیے کہ وہ آپ کو توڑ دے آپ کے ساتھ کھیل جائیں رشتے کوئی بھی ہوں سے اس کے حق میں رکھنا

چاہیے میں ایک بار پھر سے ٹوٹ گئی تھی اتنے سال اپنی محبت کو بے وفا سمجھتی رہی اور دوستی پر مان کرتے

رہے پر میں تو جانتے ہی نہیں تھی کہ لوگ میرے سادگی کا میرے مخلصی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

 حمدان بھاگتے ہی وہ میں نے برابر پہنچا تھا میرا راستہ روک کے کھڑا تھا حمدان نے کہا کہ میرا میری محبت

چھوٹی نہیں تھی پر تم نے اپنے دوست کا یقین کیا مجھے چھوڑ دیا میں آج بھی تم سے محبت کرتا ہوں تمہارا ا

نتظار اخری سانس تک کروں گا میں نے اسے جانے نہیں دیا تھا اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا میں ڈاکٹر بن گئی تھی

اپنے ماں باپ کا خواب پورا کیا تھا میرے حمدان سے شادی ہو گئی دو سال ہو چکے ہیں ہمارا ایک پیارا سا بیٹا

ہے پر دوستی کے نام پر جو کھیل کھیلا گیا مجھے دوستی لفظ سے نفرت ہو گئی تھی پر میری امی کہتی ہیں کہ دوستی ایک  خوبصورت رشتہ ہوتا ہے کسی ایک انسان کی غلط ہونے سے باقی انسان بھی غلط نہیں ہوتے ہمیشہ اگے

بڑھ جانا چاہیے زندگی پھر نئے انے والے رشتوں کو دل سے ویلکم کرنا چاہیے میں اپنے شوہر کے ساتھ

بہت خوش ہوں۔

 میری سہیلی کو جب حمدان نے طلاق دی تھی اسے اپنی توہین برداشت نہیں ہوئی ہماری شادی کا سن کر

بہت غصے میں گھر سے نکلی اس کا کار ایکسیڈنٹ ہو گیا سر پہ چوٹ لگ گئی ہے جیسے وہ اپنے ہوش کھو بیٹھی

پاگل ہو گئی تھی اج بھی وہ شہر کی سڑکوں پر پھرتی نظر آتی ہیں اور شاید در بدر ہی اس کا مقدر تھی ۔

کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment