Hamdard Jinn Zaadi

Hamdard Jinn Zaadi

Hamdard Jinn Zaadi

 

اسلام علیکم اُمید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے ۔

آج کی کہانی  ایسی لڑکی کی کہانی جس کی ساس کو راہ راست پر لانے کے لیے ایک جن زادی نے

اس کی مدد کی شادی کچھ لوگوں کے لیے خوشیوں کا پیغام لاتی ہے تو کچھ لوگوں کے لیے سراپہ غم بن جاتی

ہے میرا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جو شادی کے بڑے خوبصورت خواب آنکھوں میں سجا لیتے ہیں

مگر وقت کی دھوپ سارے خوش رنگ ارمان جوزا دیتی ہے جیسے گرمی کی دھوپ کپڑوں کے رنگ پھیکے

کر دیتی ہے۔

 ابھی میری شادی کا تیسرا دن تھا جب میری ساس اماں کمرے میں تشریف لائیں میں احترام ادب سے

کھڑی ہو گئی انہوں نے ناک کا دانہ نظروں سے کمرے کا جائزہ لیا اور صفائی پر آچھا خاصا لیکچر سنا دیا میں سر

جھکائے سنتی رہی پھر وہ جانے لگی تو مخاطب ہوئی بہو یاد آیا میں تو کچھ اور کہنے آئی تھی صبح ریحان افس اور

سویٹی کالج چلی جاتی ہے اور گھٹنوں میں درد کی وجہ سے مجھ سے کچھ ہوتا نہیں پہلے تو کام والی تھی مگر اب تم

آگئی ہو نا اس لیے صبح یاد سے سات بجے ناشتہ بن جائیں ہر صورت۔

 اب تم گھر بار کی مالکہ ہو یہ سبب تمہاری ذمہ داری ہے یہ کہہ کر ساس کمرے سے چلی گئی اور میں ہکا پکا سر

پکڑ کر بیٹھ گئی لو ماہا بی بی تمہاری والدہ نے تو ناہید بھابھی کو 15 دن بعد کام پر لگایا تھا اور یہاں تمہاری ساس

نے تو آتے ہی تمہیں کام سونپ دیا خیر میں نے جلدی سے کپڑے تبدیل کیے ریحان کمرے میں آئے تو

انہیں شوق لگا مجھے دیکھ کر حیرت سے بولے ماہا تم نے اتنی جلدی اپنا ڈریس چینج کر لیا مہمانوں کی وجہ سے

تو میں نے تمہیں جی بھر کر دیکھا بھی نہیں تھا۔

 میں نے ایک شکوہ گناہ نظر ان پر ڈالی اور بیڈ کی طرف آگئی موبائل پر پانچ بجے کا آلارم سیٹ کیا ساتھ ہی

آنکھیں آنسوں سے بھر آئی اپنے گھر میں تمہیں اپنی مرضی سے آٹھنے کی اتی تھی خیر آلارم لگایا سر سے

لے کر پاؤں تک چادر تان لی تاکہ ریحان کو اندازہ ہو جائے کہ میں ناراض ہوں اور مجھے ان سے کوئی بات

نہیں کرنی بڑی مشکل سے سو پائی تو آلارم کی آواز نے جگا دیا دل چاہت پھر سو جاؤں آبھی تو سوئی تھی مگر

ساس کے خوف نے اُٹھنے پر مجبور کر دیا آلارم بند کر کے ریحان کو دیکھا جو خواب خرگوش کے مزے لے

رہے تھے دل چاہا کہ انہیں اُٹھا دوں کہ مجھے کچھ بتا تو دیں کچن کہاں ہے چیزیں کہاں رکھی ہوں گی مگر پھر

خود ہی اُٹھ کر کمرے سے باہر نکل آئی۔

 سارا گھر سائیں سائیں کر رہا تھا اور سوائے میرے سب مزے سے سو رہے تھے کہ کچن ڈھونڈ کر فرج کا

جائزہ لیا آٹا نکال کر باہر رکھا کل کا کافی سالن پڑا تھا پھر کمرے میں ا کر وضو کیا نماز سے فارغ ہو کر کچن کی راہ

لی پراٹھے بنا رہی تھی کہ ریحان کچن میں ا گئے میرا خیال تھا وہ اتنی جلدی کچن کا کام کرتے دیکھ کر حیران

ضرور ہوں گے اور پوچھیں گے کہ تم یہاں کیا کر رہی ہو مگر وہ تو آرام سے مجھے سب گھر والوں کی پسند

ناپسند کے بارے میں بتانے لگے۔

میری بہن سویٹی ناشتے میں پراٹھے کے ساتھ مکھن لیتی ہے امی کو سالن پسند ہے اور مجھے پراٹھا املیٹ کے

ساتھ اچھا لگتا ہے ان سب باتوں میں بس ایک بات نہیں تھی کہ ماہا تمہیں کیا پسند ہے ناشتے میں اہم تھا تو

بس اپنی پسند اور ناپسند کا تذکرہ پونے سات تک میں نے ناشتہ ریڈی کر کے ٹیبل پر سیٹ کر دیا اسی وقت

میری ساس اور میری نن سویٹی پہنچ گئی اور سب نے یوں ناشتہ کیا جیسے یہ تو معمول کی روٹین ہو نہ مجھے کسی

نے سراہا نہ ہی تعریفیں کلمات سے نوازا دو دن بعد میری امی مجھ سے ملنے ائی اور مجھے کچن میں کام کرتا دیکھ

کر کافی افسردہ ہوئی کہ ابھی شادی کو دن ہی کتنے ہوئے ہیں ہاتھوں میں مہندی کا رنگ پھیکا نہیں ہوا اور مجھے

لگا دیا کام میں۔

 امی نے مجھے ساتھ لے جانے کی بات کی تو میری سانس نے صاف جواب دے دیا نہ بھائی ہمارے ہاں

رواج نہیں کہ بہو ایسے میکے چلی جائیں اتنی جلدی میک کے چلی گئی تو پھر سسرال میں دل کیسے لگے گا میری

امی ساس کے اس انداز سے غمزدہ واپس چلی گئی یہ اس کے دو دن بعد کا واقعہ ہے میں نے اٹا گھومنے کے

لیے کنستر کا ڈکن  اُٹھایا تو میری چیخ نکل گئی اس میں ایک مردہ چڑیا خون میں لت پت پڑی تھی میری چیخ سن

کر سب اگئی میری ساس نے غصے سے کہا کیا موت پڑ گئی ہے۔

آٹا گوندنے کو کہا تھا تم نے چیخنا شروع کر دیا میں نے آٹے کے کنستر کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اس میں

مردہ چڑیا پڑی ہے میری ساس اور ریحان دونوں نے کنسر کو دیکھا پھر ایک دم ساس سیدھی ہوئی اور بولی

بہو آندھی ہو گئی ہو کیا یہاں کچھ بھی نہیں ہے میں نے گھبراک کر دیکھا آب کے اس میں واقعی کچھ نہیں

تھا ابھی میں سنبھلنے نہیں پائی تھی کہ میری ساس نے اتنی زور سے میرے منہ پر تھپڑ مارا کہ آنکھوں کے

اگے تارے ناچنے لگے آٹا نہ گھومنے کے بہانے مجھے ڈراتی ہے تو اس دن مجھے معلوم ہوا کہ ساس کیسی ہوتی

ہے ساس کے جانے کے بعد ریحان نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دیتے ہوئے کہا فکر نہ کرو امی

شاید تو غصے میں آ گئی تھی کام سے فارغ ہو جاؤ پھر آج ہم دونوں مل کر ڈھیر ساری باتیں کریں گے اور مجھے

پتہ تھا کہ ان باتوں کا نہ میرے پاس وقت ہوگا اور نہ ہی ریحان کے پاس۔

Hamdard Jinn Zaadi

 پھر ان دنوں عجیب عجیب باتیں ہونے لگی میں اگر کمرے میں ہوتی تو مجھے آواز آتی بہو اے بہو مجھے لگتا

سانس نے پکارا ہے بھاگ کر سانس کے کمرے میں جاتی تو وہ سو رہی ہوتی میں سونے لگتی تو پھر لگتا جیسے

کوئی پاؤں میں مجھے گدگدی کر رہا ہے جو چیز جہاں رکھتی ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک جاتی مگر نہ ملتی ۔

ساس سے ڈانٹ الگ کھاتی ایک دن میرے بھیا مجھے کچھ دنوں کے لیے لینے آ گئے میرے لیے تو جیسے عید

ہو گئی اتنی منت سماجت کے بعد میری ساس نے مجھے جانے کی اجازت دی کہ میں ہی جانتی ہوں میکےا کر

مجھے وہ بات نظر ائی جو پہلے کبھی نظر نہیں ائی تھی جو میرے ساتھ میری ساس وہاں سلوک کر رہی تھی وہ

میرے اپنے گھر میں میری بھابھی کے ساتھ میری امی کر رہی تھی میں نے سوچ لیا کہ میرے ساتھ میری

ساس کا سلوک چاہے جتنا بھی خراب رہے مگر اپنی امی کا برین واش کر کے ہی جاؤں گی میں نے آہستہ

آہستہ امی کے دماغ میں بٹھانا شروع کر دیا کہ امی جیسا سلوک اپ یہاں بھابھی کے ساتھ کرتی ہیں اس سے

زیادہ برا سلوک وہاں میری ساس میرے ساتھ کرتی ہے ۔

امی کے دل میں شاید خدا کا خوف آیا بھابھی سے اپنے رویے کی معذرت کی اس پر بھابھی نے بھی ابدیدہ ہو

کر کہا کہ آئندہ میں بھی ماہ ہی کی طرح آپ کا خیال رکھوں گی ہمارا گھر تو ایک مثالی گھر نظر آنے لگا تھا کہ

اتنے میں ریحان مجھے واپس لینے آگئے میں اس سکون سے واپس آگئی کہ اب میرا گھر بھی سکون کا گہوارہ بن

جائے گا مگر میرے لیے تو وہ گھر پہلے سے بھی زیادہ جہنم گدھا بن گیا میری ساس نے اپنی بیٹی کے لیے کچھ

زیور رکھا تھا اس میں سے جھمکے غائب ہو گئے ریحان کے ادھے ہی گھر میں طوفان آگیا میرے کمرے کی

تلاشی لی گئی تو وہ جھمکے نہ جانے کہاں اور کیسے پر میری ڈریسنگ ٹیبل کے دراز میں آگئے۔

 جھمکوں کا ملنا تھا کہ میری ساس نے میری پٹائی شروع کر دی اور نہ جانے مجھے اور میرے خاندان کو کیا کیا

کچھ سنا ڈالا ریحان کی انکھوں میں بھی اپنے لیے شک دیکھ کر میں تو بالکل ٹوٹ گئی میں نے انہیں بہت دفعہ

یقین دہانی کرانی چاہیے کہ یہ جھمکے میں نے نہیں اٹھائے اور نہ ہی میں نے اپنی دراز میں رکھے ہیں مجھے نہیں

معلوم یہ خود بخود میرے دراز میں کیسے آگئے ہو سکتا ہے اسے کسی اور نے رکھا ہو پر میری بات کسی نے

نہیں مانی ریحان کہنے لگے تم کیا سمجھتی ہو کیا یہ جھمکے میری امی نے یا میری بہن نے تمہاری دراز میں رکھے

ہیں وہ ایسا کیوں کریں گے۔

 میں بہت روئی بیٹی اور یوہی روتے روتے میری انکھ لگ گئی آچانک میری انکھ کھلی تو میرے پاس ایک کارڈ

پڑا تھا ساتھ ہی کمرے میں ایک عجیب سی خوشبو پھیلی ہوئی تھی میں نے وہ کارڈ اٹھایا تو میں پڑھ کر خوش ہو

گئی کہ ریحان کو مجھ پر اعتبار آگیا ہے کیونکہ اس کارڈ پر لکھا تھا معذرت میرے کمرے میں اِدھر اُدھر دیکھا

مگر وہاں پر وہ موجود نہیں تھے میں انہیں دیکھنے کے لیے باہر ائی تو میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی

کہ وہ میری ساس کے پاس بیٹھے ہیں اور میری ساس ان کے کان بھر رہی ہے کہ یہ لڑکی چور ہے۔

 تم اس سے جلد سے جلد اپنی جان چھڑاؤ دکھ کی بات تو یہ تھی کہ ریحان نے میرے حق میں اپنی ماں سے

کچھ بھی نہ کہا میں ابدیدہ نم پلکوں کے ساتھ واپس پلٹ آئی اب یہ دیکھا کہ بیڈ پر ایک اور کارڈ پڑا تھا جس پر

لکھا تھا میرا نام شالتا ہے میرا تعلق قوم جنات سے ہے اپ کے گھر کے لان میں جو آم کا درخت ہے ہمارا

اس پر بسیرا ہے جب اپ کی شادی ہوئی تو اپ مجھے بہت پسند آئی میں نے اتنی پیاری دلہن کبھی نہیں دیکھی

تھی۔

Hamdard Jinn Zaadi

 میرا دل کیا کہ میں زیادہ وقت اپ کے ہاں گزاروں میرا کوئی بھائی بہن نہیں ہے اس لیے مجھے اپ کے ارد

گرد رہنا آچھا لگتا تھا میں نے آپ کو اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی بہت کوشش کی لیکن آپ نہیں

سمجھی اُلٹا میری وجہ سے اپ کی ساس اور آپ کے شوہر اپ کے دشمن ہو گئے ہیں اپ کو آج تک جو ڈانٹ

پڑی مار کھانا پڑی اور باتیں سننا پڑی وہ یقینا میری غلطی کی وجہ سے ہی ہے آپ فکر نہ کریں میں اپنی غلطی

ضرور سدھاروں گی اپ کی ساس کو ایسا مزہ چکھاؤں گی کہ یہ بڑھیا تاحیات ذہنی اذیت کو بھلا نہ پائے گی

مجھے تو شروع دن سے ہی اپ کے ساتھ ہونے والی زیادتی ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔

 اور اب تو اپ کے ساتھ ہونے والی ہر زیادتی میرے بس سے باہر ہو گئی ہے بس تھوڑے وقت کا انتظار

کریں آپ نے بہت اچھا کیا کہ اپنے والدہ کو آپ راہ راست پر لے کے ائی ہیں اب دیکھنا اپ کی ساس کو

میں کیسے سیدھا کروں گی میں حیران رہ گئی کہ کیا یہ کوئی مذاق ہے کون ہے یہ شانتا کیسے جانتی ہے سب کچھ

ابھی کیا کر سکتی ہے جب میرا شوہر ہی میرے خلاف ہو گیا ہے اور یہ کیسی دھمکی ہے ساس کے خلاف کیا

کرے گی وہ میں یہ سب سوچ ہی رہی تھی کہ اچانک پہلا کارڈ غائب ہو گیا ۔

اب اس کی جگہ ایک اور کاٹ پڑا تھا اور اس پر لکھا ہوا تھا آپ نے کھانا نہیں کھایا نا میں اپ کے لیے کھانا

لائی ہوں گرما گرم جب میری نظر سامنے میز پر پڑی تو وہاں واقعی گرم پلاؤ اور رائطہ پڑا تھا میں تو خوف اور

ڈر کے مارے کھانا نہیں چاہتی تھی پر جیسے کوئی طاقت مجھے زبردستی کھانا کھانے پر مجبور کر رہی تھی اور پھر

میں کھانا کھانے لگی جب کھا کر فارغ ہوئی تو سب برتن اور کھانا پہلے کی طرح غائب ہو گیا کھانا کھا کر مجھ پر

غنودگی طاری ہونے لگی اور میں سو گئی صبح حسب عادت پانچ بجے اٹھی نماز پڑھنے کے بعد سب کی پسند کا

ناشتہ بنایا ٹیبل پر لگا کر کمرے میں واپس اگئی۔

 کس نے کھایا کس نے نہیں مجھے نہیں معلوم نہ کسی نے مجھ سے کچھ کہا کہ تم بھی کچھ کھا لو پھر اسی دن

ریحان ناراضگی کے سبب مجھے میری امی کے گھر چھوڑ ائے میرے پیچھے میری ساس نے میری نند کی منگنی

کر دی میری نند کے سسرال والوں نے اسے منگنی پر سونے کا سیٹ دیا مگر اگلے ہی دن وہ سیٹ نہ جانے

کہاں غائب ہو گیا سویٹی کے سسرال والوں کو نہ جانے کیسے کسی نے خبر کر دی کہ وہ سیٹ سونے کا غائب

ہو گیا ہے وہ لوگ میری ساس کے پاس ائے اور عجیب و غریب باتیں بنانے لگے پھر ایک دن اچانک سویٹی

نے کسی کام سے اپنی امی کی الماری کھولی تو اس میں کپڑوں کے درمیان وہ سونے کا سیٹ پڑا دیکھ کر حیران رہ

گئی۔

 اس نے زور زور سے اپنی ماں کو آواز دی ریحان اور اس کی ماں دونوں کمرے میں اگئے ماں اپنی الماری میں

بڑا سونے کا سیٹ دیکھ کر حیران رہ گئی سویٹی اپنی ماں پر چلانے لگی کہ آپ کو سیٹ اتنا پسند تھا تو مجھ سے کہہ

دیتی اپ نے میرے سسرال والوں کی طرف سے دیا ہوا سونے کا سر چُرانے کی جرات کیسے کی مجھ سے

کہتی تو میں خود اپ کو دے دیتی ساس قسمیں کھانے لگی کہ مجھے تو سیٹ کا کچھ پتہ ہی نہیں میں کیوں چوری

کروں گی اپنی بیٹی کے سونے کا سیٹ ریحان یہ سارا واقعہ دیکھ کر گہری سوچ میں ڈوب گئے انہیں اب وہ

دن یاد ایا جب میں رو رو کر انہیں اپنے بے گناہ ہونے کا یقین دلا رہی تھی اور وہ میری بات پر بالکل یقین

نہیں کر رہے تھے۔

اُنہیں اب اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا اور ان زیادتیوں کا بھی جو ان کے گھر والوں نے میرے ساتھ کی اور

میں خون کے آنسو روتے ہوئے ہر ظلم کو چپ چاپ سہتی رہی اور کسی بات کا شکوہ نہیں کیا میں سویٹی کے

سسرال والوں نے رشتہ ختم کر دیا چوری کی بات کو بنیاد بنا کر سب سے حیران کرنے والی یہ بات تھی کہ

ان لوگوں کو سیٹ کے غائب ہونے کا اور پھر ماں نے سیٹ کو چوری کیا ہے ان باتوں کا کون بتاتا تھا۔

 اب میری ساس کو اپنا ہر ظلم یاد انے لگا تھا جو انہوں نے مجھ پر کیا تھا دو دن کے بعد میری ساس اور میرے

شوہر گھر آگئے دونوں کافی نادم دکھائی دے رہے تھے میری ساس مجھ سے اپنے رویے کی معذرت کرنے

لگی اور میرے شوہر سر جھکائے بیٹھے رہے میں نے بھی کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُن کے ناروا اور

ناقابل برداشت سلوک کو معاف کر دیا کہ اللہ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے میں سسرال آ گئی

ریحان کسی کام سے باہر گئے تو سانس میری کمرے میں آئی اور میرے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرتے

ہوئے گویا بہو میں اپنی ساری غلطیوں اور زیادتیوں کی معافی مانگتی ہوں میں نے کافی غور کیا اور یہ بات

میرے دل میں بیٹھ گئی ہے کہ واقعی میں نے تمہارے ساتھ بہت زیادتی کی تھی بہو مجھے معاف کر دو یہ

سن کر میں ان کا ہاتھ پکڑ کر بولی آپ بڑی ہیں میری ماں کی جگہ ہے اپ مجھ سے معافی نہ مانگیں اور میں دلی

طور پر ساری باتیں بھول گئی ہوں جو ہونا تھا وہ وہ ہو گیا۔

 یہ سن کر ساس نے میرے ماتھے کا بوسہ لیا اور بولی بہو کل صبح سے میں اور سویٹی اٹھ کر ناشتہ بنائیں گے

تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اگر تم سے ریحان کو روکی سوکھی بات کرے تو مجھے بتانا میں اس کی

بھی کان کھینچوں گی بیٹا یہ گھر تمہارا ہے سویٹی تو مہمان ہے آج نہیں تو کل وہ اپنے گھر چلی جائے گی اور پھر

میری زندگی کا کیا بھروسہ یہ سن کر میں بولی اللہ آپ کو صحت دے اپ فکر نہ کریں گھر کے تمام کام ہم

سب مل کر کیا کریں گے یہ گھر ہم سب کا ہے جب سب ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں تو اللہ بھی

خوش ہوتا ہے۔

 ساس نے پھر میرے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور ڈھیر ساری دعائیں دیتی ہوئی کمرے سے چلی گئی

ساس کے جانے کے بعد میں حیران پریشان سوچ رہی تھی کہ اچانک اتنی خوشنما تبدیلیاں میرے ساس

اور شوہر میں کیسے آ گئی کہ اچانک ہی میرے سامنے میز پر ایک کارڈ نمودار ہوا اس پر لکھا تھا میری بات غور

سے سنیں میں نے جو کچھ بھی کیا وہ اپ کی ساس کو سبق سکھانے کے لیے کیا تھا میں نے اپ کی ساس اور

شوہر کے دل اور دماغ سے آپ کے لیے برائی اور بد سلوکی کو کھرچ کر نکال دیا ہے اس کے ساتھ ہی ساتھ

ایسا سبق دیا ہے کہ اپ کی ساس تاحیات اپ کی طرف انگلی بھی نہیں اُٹھا سکتی ان کی بیٹی سویٹی کے

سسرالیوں کے دماغ میں ساری باتیں میں نے ڈالی تھی۔

 تاکہ اپ کی ساس زیادہ سے زیادہ ذلیل ہو میں نے آپ کو بہن کہا ہے تو اپ میری بہن ہی رہیں گی میں ہر

طرح آپ کی حفاظت کرتی رہوں گی ہمارا بسیرا آم کے درخت پر قائم رہے گا اگر کبھی کسی بات کی

ضرورت پیش ائے تو میرا نام شالتا شالتا لے کر تین مرتبہ پکارنا میں فورا حاضر ہو جاؤں گی اچھا اب میں

چلتی ہوں آپ ارام کریں اور اس کے ساتھ ہی وہ کارڈ میری انکھوں کے سامنے سے اوجھل ہو گیا۔

کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment