Meri Dulhan Tum He Ho

Meri Dulhan Tum He Ho

Meri Dulhan Tum He Ho

رات کے کوئی ایک بجے کا وقت تھا جب اس نے عائشہ کے کمرے کا بلب  چلتا دیکھا تو دبے پاؤں اس طرف

آگیا دروازہ نوک کیا تو دروازہ خود ہی کھل گیا وہ کمرے میں آیا عائشہ سکول کی دہلیز عبور کر کے کالج میں

جانے والی تھی لیکن اب تک بے ترتیبی  اور لاپرواہی اس کی طبیعت میں موجود تھی وہ بچوں کی طرح اڑی

ٹیڑھی سو رہی تھی اس نے مسکراتے ہوئے بلب اف کیا اور پھر اپنے بیڈ روم میں چلا گیا معمول کی طرح

نیند کی گولی کھا کے بیٹھ کے ساتھ ٹیک لگا لی سارے دن کے واقعات آہستہ آہستہ اس کے ذہن کی سکرین

پر چلنے لگے اس نے سر جھٹکا اور سائیڈ ٹیبل سے رسالہ اٹھا کر پڑھنے لگا اچانک ایک شعر پڑھتے ہوئے اس کی

چلتی سانسیں تھم سی گئی۔

 وہی جو درمیاں آباد تھی خواب اور حقیقت کے وہ دنیا ہو گئی زیر و زبر آہستہ آہستہ

 اس کی آنکھیں نم ہو کر ماضی کی کھڑکی کھول چکی تھی عینی میرے تایا کی بیٹی تھی تائی کی گود خدا نے بڑی دیر

بعد بھری تھی اپنی عمر کے چار سال میں نے اپنی ماں کے کم تائی کی گود میں زیادہ گزارے تھے تائی سے

محبت فطری بات تھی اور تایا کا بھی میں لاڈلا تھا مگر میرے باپ کو تو دائے سے خدا واسطے کا وار تھا ابا میرے

کسی نہ کسی بہانے دایا کو بھلی بوری سناتے رہتے تھے پر میری ماں ان کے برعکس تھی اسی لیے میرے باپ

کے سینے میں بھائی کے لیے نفرت کی آگ ماں کی ان لوگوں سے محبت کی وجہ سے ہی ٹھنڈی رہتی تھی۔

 عینی کی پیدائش نے تایا تائی کی ویران زندگی میں جان ڈال دی ان کی مٹھی محبت کم نہ ہوئی لیکن محبت میں

بٹوارا تو ہو چکا تھا میں نے سکول شروع کر دیا تو زیادہ احساس نہ ہوا جب میں چوتھی کلاس میں آیا تم عینی بھی

سکول جانے لگی ہم دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے آگے بڑھتے چلے گئے معلوم نہیں کب محبت کا پودا

پروان چڑھ گیا تھا میں کالج پہنچ گیا پھر یونیورسٹی جبکہ عینی نے صرف انٹر کیا اور گھر بیٹھ گئی میرے بغیر وہ

اپنے اندر ہمت نہ پیدا کر سکی تھی اس عرصے میں میرا اکلوتا پن برقرار رہا جبکہ تائی کے ہاں عینی کے 10

سال بعد عائشہ بھی دنیا میں آگئی تھی اب عینی کی مصروفیات میں اضافہ ہو گیا تھا تائی اور امی کے ساتھ مل کر

ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتی رہتی تھی تایا کے  گھر میں دو بیٹیاں تھی جبکہ میں اپنے اماں ابا کا اکلوتا بیٹا جس کی وجہ

سے میرے باپ کا سینہ ہر وقت تکبر کی وجہ سے پھولا رہتا تھا۔

 میرے ابا جی نے ایک بہت بڑے گھرانے میں میرا رشتہ میری مرضی پوچھے بغیر طے کر دیا جب انہوں

نے مجھے اطلاع دی تو میرا خون کھول گیا زندگی میں پہلی بار میں نے زبان کھول دی ابا جی یہ میری زندگی کا

فیصلہ ہے آپ نے  میری مرضی معلوم کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہ کی یہ زیادتی ہے اوپوتر تا ایوی نہ

نک پھلا غور سے سن میری بات یہ دنیا صرف پیسے کو سلام کرتی ہے میں نے جہاں تیری بات پکی کی ہے وہ

کروڑ پتی لوگ ہیں تیری زندگی بن جائے گی موج کرے گا تو پوری زندگی وہ شان سے کہہ رہے تھے نہیں

ابا میں نے زندگی لالچ کی سیڑھی چڑھ کر شروع نہیں کرنی آپ اگر مجھے خوش دیکھنا چاہتے ہیں تو فورا جو

بات آپ نے طے کی ہے اسے ختم کر دی کیا میں نے تجھے اس دن کے لیے تعلیم دلوائی تھی کہ تو میرا مان

میری پاگ زمین پر اوندھے تجھے باپ کی کوئی پرواہ نہیں ہے باپ کی پرواہ ہے اسی لیے تو کہہ رہا ہوں میں

آپ کو یہ نہ ہو کہ کل قاضی کے سامنے میں نہ کر دوں تو جو تماشہ اس وقت بنے گا بہتر ہے چار دیواری کے

اندر ہی معاملہ رفع دفع ہو جائے ۔

مجھے شدید غصہ آ رہا تھا کہ میرے باپ نے گھر کے اندر اپنے بھائی کی اولاد کی طرف کیوں نہیں دیکھا کیوں

اتنی اونچوڑا نڑنا چاہتی تھی جبکہ اللہ کا دیا سب کچھ ہمارے پاس تھا میرے باپ کے پاس کچھ کمی نہیں تھی

کمی تھی تو اپنے بھائی کے لیے محبت کی اور یہ نفرت ہی تو تھی جس نے اپنے بھائی کی طرف بیٹے کے لیے نظر

کرم نہ کیا تھا اس کی بیٹی نظر نہ آئی تھی اور اسی سوچ نے مجھے باپ کے آگے بات کرنے پر اکسایا تھا۔

 اچھا تو پھر بتا تو تیری کہاں مرضی ہے آپ کو گھر کے اندر کوئی نہیں دکھائی دیتا کیا کیا باہر جا کر بہوڈھونڈنے

کی ضرورت ہے آپ کو جانے کس طرح دل کی بات زبان پر اگئی تھی اچھا تو یہ بات ہے ٹھیک ہے پھر جیسے

تیری مرضی وہ کس انداز میں کہہ گئی میں واقع ان کا لہجہ سمجھ نہیں پایا تھا میری عینی سے نسبت طے پا گئی

تھی ہم دونوں چپکے چپکے خواب بننے لگی خوابوں کی عمر ہی کتنی ہوتی ہے آنکھ کھلی اور ختم عینی اکثر میرے

مستقبل کے منصوبے سن کر کہتی تھی پگلی خواب دیکھتے ہیں تو تعبیر ملتی ہے نا ہمارے خواب انشاءاللہ تعبیر

پائیں گے پتہ نہیں سیف مجھے مستقبل کا سوچ کر ڈر کیوں لگتا ہے۔

چاچا کی تو ابا سے کبھی نہیں بنی پھر میرا رشتہ کس طرح تیرے ساتھ طے کر دیا ارے پگلی تم کیوں سوچ کر

اپنی جان ہلکان کرتی ہو ہمارا مستقبل روشن ہی ہے سیف بھائی آپا بھی تک نہیں آئی باہر وہ سٹور سے

دھاگے کی نلکیاں لینے گئی تھی دفتر سے ا کر شرٹ کے بٹن کھولتے میرے ہاتھ وہیں رک گئے جب میری

سات سالہ تایا کی بیٹی عائشہ نے مجھے یہ خبر سنائی تائی اماں اپ نے مجھے فون کیوں نہیں کیا کتنی دیر ہو گئی ہے

سیف بیٹا دو گھنٹے ہو گئے ہیں میں سمجھی پڑوس اپنی دوست کے گھر ہوگی لیکن جب عائشہ کو بیچ کر پتہ کرآیا تو

وہ وہاں نہیں تھی میں تو پورا محلہ چھان آئی میں کیا کروں میری بچی کو کون لے گیا کہاں چلی گئی میری بچی

تھائی تو دھاڑے مار مار کر رونے لگی میں نے ہر ممکن کوشش کی ہر جگہ تلاش کیا لیکن عینی کہیں نہیں ملی

پولیس نے بھی ہر جگہ ڈھونڈا تھا مگر عینی کو تو گویا زمین کھا گئی تھی اس کا اغوا ہو گیا تھا اور پھر وہ کبھی نہ ملی

میری زندگی میں تو ایسا خلا پیدا ہو گیا تو شاید کبھی نہ بھر سکتا تھا تایا ابو کو جب عینی کے متعلق پتہ چلا کہ وہ اغوا

ہو چکی ہے تو عینی کی جدائی کا صدمہ سہ نہ پائے ہارٹر جیک نے انہیں بہت دور پہنچا دیا تائی اماں کی آنکھ کے

آنسو ان کی روشنی بھی اپنے ساتھ بہا لے گئے عائشہ کو میں نے سنبھالا میری ماں عینی سے بہت محبت کرتی

تھی تین ماہ گزر چکے مجھے میری امی نے کمرے میں بلایا اور کہنے لگی سیف بیٹا میری جان جانتا ہے یہ زیور

میں نے صرف عینی کے لیے بنوایا تھا اس زیور میں اس کا لمس ہے یہ تو سنبھال لے میں اب یہ بوجھ نہیں

سنبھال سکتی خدا کرے میری بچی جہاں ہو اچھی ہو مگر میرے بچے مجھے نہیں لگتا میں تیری دلہن کی شکل

دیکھ پاؤں گی لے سنبھال میری عینی میری بہو کی امانت میرے گلے لگ کر اماں بہت روئی وہ صبح ان کی

زندگی کی ساری روشنیاں پل کر گئی ۔

اماں جی کے دسویں کے بعد میں ابا کے پاس آیا ابا جی کیا اپ کو دکھ نہیں ہوا دن دہاڑے اپ کے ہونے والی

بہو ابوا ہو گئی اپ کا بھائی اپ کی بیوی اپ کو چھوڑ کر چلے گئے اپ کی بھابھی بیٹی کی جدائی میں رو رو کر اندھی

ہو گئی اپنی کسی سے بھی ان کے دکھ میں دو لفظ ہمدردی کے نہیں آخر کس مٹی کے بنی ہیں آپ وہ ارام سے

پلیٹ بھر کر کاجو کھاتے رہے ابا میں اپ سے کچھ کہہ رہا ہوں اور پتر لیٹا جھوکا جو جہاں گیا اس کی جگہ وہاں

تھی کھا پی اور جی ان کی بات سن کر پاگل سا ہو گیا جانے میرے سر میں کیا سمائی ہاتھوں میں قران مجید اُٹھا

لایا ابا جی مجھے شک ہے اپ پر عینی کے اغوا میں کہیں نہ کہیں آپ کا ہاتھ ضرور ہے میرا دل کہتا ہے آپ ہار

ماننے والوں میں سے نہیں ہیں۔

Meri Dulhan Tum He Ho

 ابا جی قران پر ہاتھ رکھیں اور میرے دل سے شک کا بیج نکال دے اوئے بات سن میں تیرا باپ ہوں کوئی

ایرا غیرہ نہیں ہوں رہی بات قران کی تو میں قران پہ ہاتھ کیوں رکھوں آچھی ضد ہے وہ انکھیں لال کیے

مجھے گھورنے لگے میں نے قران کو ابا کے بہت قریب کر دیا اپ اللہ کی کتاب پر ہاتھ رکھنے سے ہچکچا کیوں

رہے ہیں میں نے دوبارہ کہا رکھے ہاتھ انہوں نے بڑھ کر قران پر ہاتھ رکھ دیا میں کسی بھی معاملے سے

پاک ہوں جو تم سوچ رہے ہو وہ غلط ہے شک ہے بس تمہارا ان کی آواز جیسے کسی گھائی سے آتی معلوم ہو

رہی تھی انکھوں میں ویرانی بڑھنے لگی میں قران کو وہاں سے لے کر عینی کی یادوں کو لیے گھر سے باہر نکل

گیا کوئی 12 بجے کے وقت میں گھر کی طرف آیا تو دیکھا کہ لوگ جے منگوئیاں کر رہے تھے میں فکرمند ہو

کر گلی میں کھڑے ایک شخص کے پاس پہنچا کیا بات ہے چاچا آج یہ رش کیوں ہے گلی میں وہ مجھے دیکھ کر

گلے سے لگانے لگے اور بولے صبر کرو بیٹا خدا نے تمہیں امتحانوں کے لیے چن لیا ہے حوصلہ رکھ کر سنو

کوئی سات سوا سات بجے کی بات ہے تمہارے گھر سے تمہارے ابا جی کی دھاڑے مار مار کر رونے کی آواز

ارہی تھی ہم لوگ پریشان ہو گئے ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ معاملے کا پتہ لگائی کہ تمہارے ابا باہر

آگئے اور بالکل بیچ گلی میں گندی گندی گالیاں دینے لگے پھر کبھی روتے کبھی ہنستے پھر چیخ چیخ کر کہنے لگے

میں نے مار دیا سب کو مار دیا میرا بڑا بھائی میرے بیٹے کو داماد بنانا چاہتا تھا میں نے بیچ دیا اپنی بہو کو بیچ دیا پھر

ہنسنے لگے ہم سب انہیں بڑی مشکل سے ہسپتال چھوڑ کر آئے ہیں لوگوں کی باتیں سن کر مجھے ذرا دکھ نہیں

ہوا میں نے بے ساختہ خدا کے حضور ہاتھ اٹھا دیے بے شک میرے مولا تیرا انصاف عظیم ہے۔

میرے باپ نے قران پر جھوٹا ہاتھ رکھ کر بیان دیا تھا قران کی مار پڑ گئی تھی میرے باپ کو گھر بار بیچ کر میں

تائی اور عائشہ کو لے کر ایک نئے علاقے میں موجود گھر خرید کر سیٹل ہو گیا آخری بار اپنے باپ سے ملنے گیا

تھا پاگل خانے کے سارے پاگل سلاخوں کے پیچھے مجھے دیکھ کر ہنسنے لگے میرا باپ سب کو کہانی سنا رہا تھا مار

دیا میں نے سب کو مار دیا یہ لفظ کہتے ہوئے فخر سے ٹھنڈا لگا کر ہنسنے لگا میرا باپ انہیں تو اپنے کیے کی سزا مل

گئی تھی میں شکستہ قدموں واپس آگیا اور پھر کبھی اس طرف کا رخ نہ کیا اچانک مجھے نیند اگئی اور یادوں کے

کواڑ بند ہو گئے آج صبح دیر سے اٹھا تھا بہت دیر تک سوتا رہا تھا بھائی جان ایک گھنٹے سے اٹھا رہی چھ بجے اٹھنے

والے آج اٹھ بجے تک سو رہی ہیں وہ چھوٹی سی گڑیا ماں بن کر کھڑی تھی میرے سر پر اچھا میری ماں تو جا

میں آتا جلدی سے تیار ہو کر ڈائننگ ٹیبل پر پہنچا اور کرسی سنبھال کر ناشتہ کرنے لگا ۔

تائی بھی پاس تھی بھائی جان رات کو میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ہم سب ایک مزار پر حاضری دے

رہے ہیں اس نے خواب سنائی تو اچانک عینی کی بات میرے ذہن میں آگئی خواب کی کیا حقیقت ہے سیف

آنکھ کھلی اور خواب اپنی موت آپ مر گیا میں جلدی سے اٹھنے لگا تو تھا یہ ماں بولی بیٹا بڑے دن ہو گئے ہیں

حضرت عبداللہ شاہ غازی کے مزار گئے کسی دن لے چل مجھے دائی کو عائشہ کا خواب سن کر مزار پر حاضری

یاد اگئی تھی اچھا تھا یہ ماں چلیں گے اس اتوار میں کہہ کر افس کے لیے نکل گیا ائی اماں جب مزار پہنچی تو

نہیں کسی بزرگ خاتون نے جیا شاہ جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کا بتایا کہ پرانی سکھر میں ایک ایسا مزار ہے

وہاں حاضری دینے والے کے دل کی ہر مراد پوری ہوتی ہے اب بازار سے واپسی پر تائی کو سکھر جانے کی

سجھائی تھی میں تائی کی کوئی بات ٹال نہیں سکتا تھا وہی میری سب کچھ تھی سکھر جانے کے لیے کم از کم ایک

ساتھ تین چھٹیاں تو لازمی کی تھی میں نے عائشہ کو بولا کہ تائی اماں کو سمجھاؤ تھوڑا فرصت ملے تو چلیں گے

مگر تائی اماں کہاں سننے والی تھی یوں میں نے سب پریشانیوں کو ایک طرف رکھ کر تین دن کی چھٹی لے لی

۔

جمعرات کی صبح ہم سکھر کے لیے روانہ ہو گئے تائی اماں کی خوشی دیکھنے والی تھی شام ہونے تک ہم سکھر

پہنچ گئے نو بجے تک ہم بڑی مشکل سے بھگ کر چوک سے سفر کر کےجیا شاہ جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار

پر پہنچ گئے پورے چاند کی رات میں وہ مزار جس کے ہر ہر کونے پر چاندی کا کام تھا یوں چمک رہا تھا کہ گویا

زمین پر چاند اتر آیا ہو وضو وغیرہ کر کے نظر نیاز سے فارغ ہو کر ہم نے مزار کے احاطے میں ہی پڑاؤ ڈال دیا

تائی تو مزار کی جالی تھام کر سر تکائےدعا میں مشغول ہو گئی تھیں  عائشہ یسین  پڑھ رہی تھی میں نے بھی تسبیح

نکال کر پڑھنا شروع کر دی اچانک میرے برابر میں ایک بزرگ آ کر بیٹھ گئے سندھی ٹوپی پہنے اور اجرک

کاندھوں پر اوڑھے وہ گھٹنوں میں منہ دیے بیٹھے تھے میں نے ان سے کسی ہوٹل کا پوچھا تو کہنے لگے بابا

سائیں یہاں ہوٹل نہیں ہوتا وہ دیکھو اور اٹھ کر جاؤ اندر جتنا کھانا ہے کھاؤ لنگر ہے شاہ بابا رحمت اللہ علیہ کا جو

مانگو وہ پاؤ وہ کہہ کر مجھے ساتھ ہی لنگر خانے میں لے گئے سیر ہو کر میں نے کھانا کھایا۔

 بابا صاحب میری تائی بڑی مراد لے کر ائی ہے بس اللہ پاک ان کی دعاؤں کی لاج رکھ لے اور ان کی

آنکھیں واپس آ جائیں بابا کے پوچھنے پر میں نے انے کا مقصد بیان کر دیا اور ہم نے تم کو بولا تھا جو مانگو وہ پاؤ

یہاں سے تو 100 سال کا کھویا بھی مل جاتا ہے اللہ سائیں بابا رحمتہ اللہ علیہ پر بہت مہربان ہے تم کو ایک اور

مزار کا پتہ بتاؤں اگر تم سچی لگن کے ساتھ جاؤ تو جو مانگو گے وہ پاؤ گے مجھے اس مزاروں پر رہنے والے

بزرگ سے مانوسیت سی ہو گئی اپ بتا دیں انشاءاللہ ہو سکا تو ضرور جائیں گے سائیں میں نے بھی کل با

گھڑشاہ رحمت اللہ علیہ کے گاؤں جانا ہے تم کو اپنے ساتھ ہی لے چلوں گا کراچی سے آئے سائیں اتنی دور

سے تو خدا کی شان بھی دیکھتے جاؤ جنگل میں منگل بھی دیکھنا کل تو بابا جی اپ ذرا ادھر ٹھہرے میں گھر والوں

کو دیکھا۔

 تائی اور عائشہ سے کھانے وغیرہ کا کچھ نہیں چل دیا عائشہ کچھ کھایا پیا بھی نہیں تائی کو بھوک لگی ہوگی بھائی

جان اتنی ٹیسٹی بریانی میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ یہاں ہو سکتی ہے دو مرتبہ لنگر کھا چکی ہوں اور امی نے

بھی کھانا کھا لیا ہے بچوں کی طرح مزیدار لنگر کی تعریف کر رہی تھی مزار کے نوری احاطے میں کس طرح

رات گزری پتہ بھی نہیں چلا صبح سویرے ہمارا سفر شروع ہو گیا گاڑی دو گھنٹے کے بعد کہیں جا کر باگڑ جی

گاؤں پہنچی تھی ہر طرف جنگل دیکھ کر مجھے بابا صاحب کے ساتھ آنے پر اپنے فیصلے پر افسوس ہو رہا تھا پیدل

چلتے چلتے ہم کافی دور نکل گئے تھے لیکن مزار کا نام و نشان نہ تھا اور پھر اچانک ایک بیل گاڑی نظر آئی تو بابا

صاحب نے اشارہ کر کے سندھی میں اسے بات کی اور ہم سب اس بیل گاڑی پر سوار ہو گئے شکارپور میں

باگڑ جی کوٹ کے اس جنگل میں سفر کرتے کرتے اخر کار ہم قادر شاہ جیلانی بابا رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر

پہنچ گئے ایسا لگا کہ ہم کسی جنگل میں نہیں بلکہ پور رونق شہر میں موجود ہے ہم نے تم کو کہا تھا نا کہ جنگل میں

منگل دکھائیں گے۔

 اب تم لوگ ادھر ہی مجاوروں کے ساتھ بیٹھو سائیں ادھر بھی رات گزارو دیکھنا قدرت تم کو کون کون سا

رنگ دکھاتی ہے ذرا وضو بنا لو پھر اندر چلتے ہیں وضو بنا کر ہم لوگ اس مزار میں داخل ہوئے ایسا سکون کے

جیسے انسان ترسا ہوا اس ماحول کے لیے ہو ہاتھ خود بخود جالیوں کو پکڑنے کے لیے مجبور ہو گئے میں اور بابا

صاحب مردانہ حصے میں تھے جبکہ تائی اور عائشہ زنانہ حصے میں شہر سے ائین لوگوں کا سن کر ایک مجاور

لڑکی گز پر لمبا گھونگڑتا نہیں گاؤں کا روایتی لباس پہنے میری اور بابا کے لیے لنگر سے بھری پلیٹ اور دو کپ

چائے لیے ہمارے سامنے کھڑی تھی میں نے نظریں اٹھانا بھی مناسب نہ سمجھی بابا صاحب ان کا بہت بہت

شکریہ کہ انہوں نے ہمارا اتنا خیال رکھا میری آواز سن کر اچانک وہ لڑکی جیسے چونک کر اچھل پڑی بابا

صاحب نے شکریہ ادا کیا اور وہ اندرزنان خانے میں چلی گئی بابا صاحب کون ہے یہ کیوں اتنا خیال کیا ہمارا

اس نے میں نے حیرت سے پوچھا سائیں یہ دکھیا تو بڑی نیک پرہیزگار اور پردہ دار ہے دن کے وقت تو ادھر

نظر بھی نہیں اتی اپنی گولی میں بڑی عبادت کرتی رہتی ہے رات کو مزار کی جالیوں تھامے بیٹھی رہتی ہے

جب شہر سے کسی کے آنے کا سنتی ہے تو خاص طور پر اپنے ہاتھ سے چائے بنا کر لاتی ہے لنگر لاتی ہے کوئی

نہیں جانتا یہ کون ہے کہاں سے ائی ہے کوئی 10 سال سے ادھر پڑی ہے بابا صاحب کہہ کر خاموش ہو گئے

تھے ۔

Meri Dulhan Tum He Ho

لیکن میرے اندر ایک امید نے سر اٹھانا شروع کیا لیکن میں نے جھٹک دیا اپنا خیال بھلائی اس جنگل

ویرانے میں ایسا کیسے ہو سکتا ہے رات کا جانے کون سا پہر تھا مجھے ایسا لگا کہ شاید کوئی مجھے دیکھ رہا ہے یا

میرے مالک یہ قادر شاہ بابا رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر مجھے کسی بچھڑے کی خوشبو کیوں آ رہی ہے وہی لڑکی

جو لنگر اور چائل آئی تھی وہ بالکل کونے میں کھڑی شاید میری ہی منتظر تھی کوئی ان دیکھی طاقت مجھے اس

طرف جانے پر مجبور کر رہی تھی میں اٹھا اور اس کی سمت چلنے لگا کون ہو تم میں نے اس سے سوال کیا میں

نے کہا تھا نا کہ خواب کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی آنکھ کھلنے پر اپنی موت اپ ہی مر جاتا ہے عینی میں نے اسے

بڑھ کر اپنے گلے سے لگا لیا تم یہاں کیسے سیف میں تو مر ہی گئی تھی ایک امید کی روشن کرن تھی جو خدا نے

میرے من میں روشن کی ہوئی تھی میرے خدا نے میری سن لی ہے سیف وہ یکدم میرے ہاتھوں میں ہی

بے ہوش ہو گئی میں اسے اٹھا کر مزار کے احاطے میں لے ایا قادر شاہ بابا رحمتہ اللہ علیہ اپ کی شان واقع

نرالی ہے خدا نے اپ کی بزرگی کے صدقے بچھڑے ملا دیے ہیں بابا واقعی بڑا غفور الرحیم ہے وہ اللہ جس

نے آج ہمیں اس در پر سبب بنا کر بھیجا تاکہ ہم اپنی امانت لے جائیں۔

میں خدا کے اگے سجدہ ریز ہو گیا اور عینی پر پانی کے چھینٹے مارے تو وہ ہوش میں اگئی تم کہاں چلی گئی تھی

میری زندگی کو تلاش کے حوالے کر کے سیف میں نے اس دن گھر سے قدم نکالا تو نہیں جانتی تھی کہ

کبھی اس دروازے پر لوٹ نہ پاؤں گی پانچ آدمی جانے کب سے تاک لگائے بیٹھے تھے مجھے تو چیخ تک مارنے

کی مہلت نہ ملی تھی پھر ایک کالے شیشوں والی گاڑی میں پورے تین چار گھنٹے تک سفر ہوا تھا جب میں

ہوش میں آئی تو ایک سرکنڈوں کی کٹیا تھی میں نے چیخ ماری تو دو آدمی اندر آئے سائیں ہوش میں آگئی ہے

چوری رات نشیلی بنانے کے لیے وہ یہ کہہ کر باہر نکلا تو تین آدمی اور اگئے میں چیختی چلاتی رہی لیکن ان کی

آنکھوں میں شیطان ناچ رہا تھا ان چاروں میں سے ایک ادمی میرے پاس نہ آیا تھا وہ یہ سب کچھ ہوتا دیکھ

رہا تھا میں نیم برہنہ ہو گئی تھی میری عزت کا جنازہ نکلنے ہی والا تھا کہ میں دوڑ کر چلاتی ہوئی اس الگ کھڑے

شخص کے قدموں کو پکڑ کر چلانے لگے میرے بھائی مجھے بچا لو بھیا میرا قصور تو بتاؤ تمہارے پاؤں پڑتی ہوں

خدا کے واسطے اس کے رسول کے صدقے میرے پاس میری عزت کے علاوہ کوئی دولت نہیں میری

جان بچا لو میری عزت بچا لو ۔

وہ وقت کی جانیں کون سی نیک گھڑی تھی کہ اسے مجھ پر ترس آگیا چھوڑ دے لال محمد اسے وہ گھر جا کیوں

بات تیری بہن ہے یہ کیا وہ خباثت سے ہنسا اس نے اپنی اجرت میرے جسم سے لپیٹ دی ابا اس کے اپنوں

نے اسے لوٹنے کے لیے ہمارے ساتھ راضی خوشی بھیجا ہے

اپنے قول کو پکا  تھا ان سب سے بچا کر مجھے اپنے ساتھ شکارپور لے آیا میں نے گھر جانے کا کہا تو اس نے منع

کر دیا اور کہا کہ تیرے اپنے ہی تیرے دشمن ہو گئی میرا تو دل پھٹ گیا تھا اس وقت جب میرا ذہن سوچ

سوچ کر چاچا جی ہی کی طرف انگلی اٹھاتا تھا وہ میرا منہ بولا بھائی بن گیا چار دن میں اس کے گھر میں رہی پھر

میں نے اسے کہا کہ مجھے کسی ایسی جگہ پہنچا دو جہاں ساری زندگی سکون سے گزر جائے 10 سال سے اس

مزار میں پڑی ہوں یہاں کے کچے حجرے میں رہتی ہوں۔

 ایک انتظار تھا کہ شاید اس جنگل میں کوئی میرا اپنا بھولے سے آ جائے خدا سے مانگی ساری دعائیں آج پوری

ہو گئیں مجھے میرے اپنے مل گئے میں نے اسے بتایا کہ تمہارے صدمے سے تمہارے ابا اور میری امی تو

انتقال کر چکے ہیں اور کہنے لگی کہ تم نے چاچا جی کے بارے میں نہیں بتایا ابا جی کو خدا نے نا اپنے کیے کی سزا

دی تھی وہ اماں جی کے انتقال کے بعد پاگل ہو گئے تھے اور تین چار ماہ پہلے ہی ایسی ہی دیوانی حالت میں ان

کا انتقال ہو گیا 10 سال پاگل پن میں گزارے انہوں نے تو مجھ سے وعدہ کرو عینی کہ تم میرے ابا جی کا نام

اپنے اغوا کے معاملے میں سینے میں قبر کھود کر آج اور ابھی دفن کر دو گی میں نے علاقہ چھوڑ دیا تھا کہ عائشہ

اور تائی کے کانوں میں ابا جی کا زندگی کا یہ بھیانک کارنامہ نہ پڑے یہ قبر تو 10 سال پہلے ہی کی بنی ہوئی ہے

تو بھروسہ رکھو مجھ پر کیا تم نے تائی سے ملاقات نہیں کی عائشہ بھی تو اندر ہے میں نے انہیں پہچان لیا تھا مگر

انجان بنی رہی یہ ڈر تھا کہ کہیں خون نے خون کو پہچاننے سے انکار کر دیا تو کیا ہوگا تو پھر مجھے کیوں بات کی

کیونکہ تم پر خود سے زیادہ بھروسہ تھا اور ہے بھی کیا تم نے شادی کر لی ہے سیف ہاں تم میری دلہن سے

مل کر بہت خوش ہو گی لیکن تائی کے سامنے میری دلہن کا ذکر نہ کرنا یہ بات کہہ کر میں نے اسے زنان

خانے میں بھیج دیا صبح کا سورج میرے لیے میری زندگی کے سارے رنگ ایک ساتھ لے ایا تھا۔

 تائی اماں کو گویا عینی کی شکل میں اپنی انکھوں کی روشنی مل گئی تھی عائشہ نے بہن کو پا لیا تھا اور میں نے اپنی

زندگی کو صبح سویرے کراچی کے لیے سفر کا اغاز ہو گیا تھا مزارات کی زیارت میں ہم نے تین دن سرف

کیے اور جب گھر پہنچے تو کراچی کے جتنے مزارتاہی کو یاد تھے وہ حاضری دینے پہنچی عینی کو آئے تین دن ہو

گئے تھے اس نے اب تک میری دلہن کے بارے میں کسی سے کوئی بات نہ کی تھی شام کو جب میں افس

سے واپس آیا تو اینی میرے کمرے میں چلی ائی میں ڈریسنگ کے سامنے کھڑا بال بنا رہا تھا کہ آتے ہی اس

نے سوال کیا سیف تمہاری دلہن کہاں ہے تین دن ہو گئے ہیں میں نے اب تک امی جان سے بھی کچھ

نہیں پوچھا لے اؤ اسے سسرال سے اب اسے جو سمجھ آ رہی تھی وہ بول رہی تھی ابھی لے آتا ہوں وہ دیکھو

ڈریسنگ کے بڑے سے شیشے کے سامنے وہ کھڑی تھی کہاں ہے یا کوئی تصویر دکھا رہے ہو ہاں وہ دیکھو اپنے

بالکل سامنے وہ ائینے میں اپنا عکس دیکھ کر ہڑبڑا گئی اور کچھ سمجھتے ہوئے دھیرے سے مسکرا دی تم ہو نہ میری

دلہن تمہاری یادوں میں جیتا رہا ہوں کوئی بھی اس دل میں نہیں سمایا تمہارے بغیر تم ہی میرا ہی نام ہو تم ہی

سے تو زندگی میں رنگ بھرنے کے خواب دیکھے تھے خواب کی تعبیر کل بھی تم تھی اور آج بھی تم ہو میں

نے یہ کہتے ہوئے اس کا ماتھا چوم لیا وہ یکدم گلابی سے ہو گئی اسے بھی شاید اب خواب سچے لگنے لگے تھے

کیسی لگی دوستو آج کی کہانی کمنٹ باکس میں ضرور بتائیں ملتے ہیں اگلی کہانی میں تب تک کے لیے اللہ حافظ

کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment