Watty Satty Ki Shadi Ka Anjam
دوستو آج کہانی واٹے سٹے یعنی بدلے کی شادی کی کسی کی زندگی پر بیتی ایک ایسی رلا دینے والی سچی داستان
ہے جسے سن کر آپ بھی رو پڑھیں گے اس کہانی میں بہت بڑا سبق ہے خدارا اس بار عمل کریں اور اس
کہانی کو آخر تک دیکھیں اور اپنی رائے کمنٹ باکس میں ضرور دیں۔
آج کی یہ درد بھری کہانی جی خدا کے لیے جی مجھے تم اپنے قدموں سے جدا نہ کرنا ورنہ تو میں مر جاؤں گی جی
ریشمہ مراد کے قدموں میں جھکی اس کے پیروں کو آنسوؤں سے دھوتے ہوئے گڑگڑا رہی تھی اور مراد
حیران و پریشان سا کھڑا تھا اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس طرح وہ روتی بلکتی ریشمہ کو چپ کر ائے خدا
کے لیے کچھ تو بولو جی اگر تم نے مجھے خود سے علیحدہ کیا تو میں کنویں میں چھلانگ لگا دوں گی ۔
میں تم بھی نہ نہیں رہ سکتی مراد کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا اور ریشمہ کی چیخیں اس کا دل ادھیڑ رہی تھیں
مگر وہ بہت مجبور تھا بلکہ اسے مجبور کر دیا گیا تھا کہ وہ اپنی پیاری بیوی ریشمہ کو چھوڑ دے اس کو طلاق دے کر
اٹوٹ رشتے کو ایک جھٹکے میں توڑ ڈالے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خود سے علیحدہ کر دے اس کی خدمتوں اور
محبتوں کو پامال کر دے اس کے ساتھ گزرے ہوئے خوبصورت لمحات بھول جائے کچھ تو بولو جی رشما کا
چہرہ آنسوؤں سے در تھا اچانک ہی مراد کو پنچایت کا فیصلہ یاد آگیا تم ریشمہ کو طلاق دے دو جس طرح اس
کے بھائی فضل نے تمہاری بہن شادو کو طلاق کے ٹیکے سے نوازا ہے تم بھی فضل کی بہن کی پیشانی پر وہی
داغ لگا دو کیونکہ وٹے سٹے میں یہی ہوتا ہے اگر تم یہ نہیں کرو گے تو پنچایت کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ تم دونوں
کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے علیحدہ کر دے تم میری زندگی اور موت کا فیصلہ سنا دو جی میں لمحے لمحے کی موت مر
رہی ہوں ایک ہی مرتبہ میرا گلا گھونٹ دو رشماں نے مراد کے گھٹنے سے سر رگڑتے ہوئے کہا ۔
سنو ریشما جی تم یہ دیکھو تمہارے بھائی فضل نے کیا کیا ہے ہمارے خاندان میں کبھی ایسا نہیں ہوا برسوں
سے وٹے سٹے کی رسم چلی ا رہی ہے مگر آج تک طلاق نہیں ہوئی اور تمہارے بھائی نے میری بہن شادو کو
طلاق دے دی ہے آخر کیوں اور اس کے جرم کی سزا مجھے کیوں دے رہے ہو اور تمہارے بھائی نے کون
سے جرم کی سزا دی ہے میری بہن شادو کو تم خود ہی پوچھ لو اس سے مجھے کیا خبر پنچایت نے پوچھا تھا اس
سے مگر وہ کچھ نہیں بولا تو جی اس میں میرا کیا قصور تمہارا قصور نہیں ہے لیکن تمہیں بھگتنا پڑے گا جو تم
پڑھے لکھے ہو تعلیم تو آگاہی دیتی ہے شعور دیتی ہے تم ایسی رسموں کو مانتے ہو کیا تعلیم حاصل کر کے انسان
اپنی رسم و رواجوں سے چشم پوشی نہیں کر سکتا میں نے یہیں رہنا ہے اپنے رواجوں کو میں کیسے بھول
جاؤں۔
تو پھر کہیں ہم اور چلے جاتے ہیں جی نہیں میں تمہیں کہیں اور نہیں لے کے جا سکتا پر میں تمہاری بیوی
ہوں جی وہی تم مجھے بھگا کر تو نہیں لے جا رہے نہ کچھ بھی ہو تو پھر ریشم کا کلام اپنے ہاتھوں سے گھونٹ دو
میرے جسم کو تم نے چھوا ہے اس کے بعد کوئی مرد نہیں چھو سکے گا اس دل پہ تمہارا نام لکھا ہے اسے میں
نہیں کھرچ سکتی گھونٹ دو میرا گلا مگر طلاق کا شعلہ میری طرف نہ پھینکنا طلاق سے تو بہتر ہے تم خود ہی
مجھے قبر میں اتار دو ریشم اپنے سینے پر مکے مارتے ہوئے بول رہی تھی بہت رو رہی تھی اور پھر بے ہوش ہو
کر مراد کے بازوں میں جھول گئی۔
مراد بالکل بھی نہ گھبرایا اسے پتہ تھا کہ جو عورت اپنے مرد کو دیوانگی کی حد تک چاہتی ہو وہ کبھی شوہر سے
جدائی کا تصور بھی نہیں کر سکتی جدائی سے زیادہ وہ موت کو ترجیح دے دی ہے مراد نے اسے پلنگ پر لٹایا اور
پھر اس کے قدموں پر جھک گیا ریشم میری جان میری روح میں تجھے چھوڑنے کا تصور نہیں کر سکتا کہ میں
کبھی نہیں کر سکتا تجھ سے جدائی مجھے کبھی بھی گوارا نہیں عمر بھر کی جدائی کبھی نہیں ہاں کچھ عرصہ تجھ سے
دور رہوں گا پر یہ عبد جدائی نہیں ہوگی اس جدائی کا عرصہ صرف چند برس ہوگا تب تک تیرے بھائی فضل
کی لگائی ہوئی آگ ٹھنڈی ہو چکی ہوگی پھر میں سب کے سامنے تمہیں لے جاؤں گا بس جان صرف چند
سال کے لیے یہ کہتے ہوئے وہ اٹھا اٹیچی میں چن جوڑے ڈالے پھر پلنگ کے پاس آیا جس پر اس کی بیوی
اس کی شریک سفر لیٹی تھی چند لمحے اسے دیکھتا رہا چھپ کر اس کی پیشانی پر بوسہ دیا پھر تیزی سے کمرے
سے نکل گیا۔
باہر گھوپ اندھیرا تھا اس اندھیرے میں وہ غائب ہو گیا وہ صبح ہونے سے پہلے یہاں سے نکل جانا چاہتا تھا وہ
صبح جب پنچایت کے سامنے اسے فیصلہ سنانا تھا اور فیصلہ ہر حال میں یہی ہونا تھا کہ ریشمہ کو طلاق ریشم سے
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدائی اور یہ کسی صورت اسے گوارا نہ تھی مراد کا تعلق مظفرگڑھ سے تھا ان کے
خاندان میں برسوں سے رواج چلا آرہا تھا کہ بچپن ہی میں منگنیاں کر دی جاتی اور عدل بدلے میں شادیاں
ہوتی جو کہ عموما کامیاب رہتی مراد سات سال کا تھا جب ریشمہ اس کے مامو کے ہاں پیدا ہوئی تو اس کی ماں
نے اپنے بھائی سے ریشمہ کو مانگ لیا اور ساتھ ہی پانچ سالہ فضل کے ساتھ مراد کی بہن شادو کو منسوب کر
دیا مراد کو بھی ریشما بہت پسند آئی وہ سکون سے آتے ہی اپنے ماموں کے گھر چلا جاتا اور گھنٹوں ریشما کے
ساتھ کھیلتا رہتا وقت گزرتا رہا گزرتے وقت نے محبت کے ننھے سے پودے کو تناور درخت میں تبدیل کر
دیا مراد لاہور میں پڑھتا رہا جب وہ مظفرگڑھ آتا تو ریشماسے منتظر ملتی ریشما مراد سے کہتی کہ تم ڈھیر سارا
جب بڑھ کر آؤ گے نا تو میں تمہیں واپس نہ جانے دوں گی اور یہ تو مجھے جی کیوں کہتے ہو تو پھر کیا کہوں میں
سیدھا میرا نام مراد ہے پر مجھے شرم آتی ہے نا یہ باتیں سن کر مراد اسے دیکھتا رہ جاتا کیونکہ اتنی معصوم اور
سیدھی سادی لڑکی تو اس نے کہیں بھی نہ دیکھی تھی۔
وہ اللہ کا شکر ادا کرتا جس نے اس کے مستقبل کا ساتھی اتنا پیارا چنا تھا مراد نے ایم بی بی ایس کیا تو فورا دونوں
طرف کی شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں مراد اور ریشمہ کی شادی سے دو سال پہلے ہی شادو کی شادی فضل
سے ہو چکی تھی مراد اور ریشما کی بھی شادی ہو گئی دونوں بہت خوش تھے ریشما کو تو اپنا اپ ہواؤں میں اڑتا
محسوس ہوتا تھا مراد ہنی مون کے لیے اپنی بیوی کو مری سوات وغیرہ لے کر گیا اور یہ پہلا حسد کا بیج تھا جو
کہ شادو کے دل میں بویا گیا کیونکہ فضل تو بالکل جاہل اور گوار تھا جو کہ اپنی سرمے سے بھری آنکھوں سے
نت نئے محبت کے بغض اس کی طرف پھینکتا رہتا اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتا تھا یا پھر والدین کی نظر
بچا کر اس کو آنکھ مار دیتا شروع شروع میں یہ سب اسے اچھا لگتا لیکن ایک ہی قسم کا کھانا کھاتے کھاتے بھی
تو دل اچاٹ ہو جاتا ہے اسی طرح شادو کا دل بھی ایک ہی طرح کی محبت کا انداز پا کر مردہ ہو کر رہ گیا تھا۔
آہستہ آہستہ وہ فضل سے دور ہونے لگی اس کی محبت کا جواب بڑی سرد مہری سے دیتی اور اس کی وجہ بھی
اور تھی کیونکہ گاؤں میں بینک کی ایک نئی شاخ کھولی تھی جس کا مینجر بہت خوبصورت تھا وہ اپنا بہت خیال
رکھتا تھا نفاست سے بال سنوارتا ٹپ ٹاپ میں رہتا صبح جب وہ اپنی موٹرسائیکل پر بینک آتا تو سر سبز کھیتوں
میں کام کرتی ہوئی کتنی ہی عورتیں کام چھوڑ کر اسے دیکھنے لگتی مگر اس کا دل اٹکا بھی تو شادو پر
اس روز شادو بینک ائی کچھ رقم جمع کروانی تھی فضل شہر گیا ہوا تھا اس کے سسر نے اسے پیسے دیے کیونکہ
ان کی طبیعت خراب تھی بس ایک بار کا بینک آنا ہی غضب ہو گیا پھر تو چوری چھپے ملاقاتیں پڑھنے لگی کسی
کو پتہ بھی نہ چلا بینک والے نے شادیوں کی آنکھوں میں کتنے ہی سنہری خواب بن دیے ان خوابوں کی
تعبیر کے لیے شادو بے قرار تھی وہ اسے تحفے تحائف بھی دیا کرتا تھا فضل مرد تھا وہ شادوں کا بدلہ بدلہ رویہ
دیکھ رہا تھا وہ سمجھ گیا کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے اور پھر بہت جلد اسے شادو کے اکھڑے اکھڑے رہنے
کی وجہ سمجھ اگئی مگر اس نے شادو سے کچھ نہ کہا اسے علم تھا کہ عشق بہت منہ زور گھوڑا ہوتا ہے جتنا اسے
روکا جائے یہ اتنی ہی تیز دوڑ لگاتا ہے۔
یوں ہی پورا ڈیڑھ برس بیت گیا اور پھر ایک روز جادو پھٹ پڑی فضل مجھے طلاق دے دو پر وہ کیوں کیونکہ
میں تمہارے ساتھ خوش نہیں رہ سکتی یہ بات تمہیں ڈیڑھ سال بعد معلوم ہوئی ہے ہاں وجہ پوچھ سکتا
ہوں بس میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی فضل میں گھٹ کر رہ گئی یہاں میرا بچپن بھی اس گاؤں میں گزرا
اور جوانی بھی مگر میں تبدیلی چاہتی ہوں میں یہاں سے جانا چاہتی ہوں شہر وہاں رہنا چاہتی ہوں بچپن اور
جوانی ایک جگہ نہیں گزارے جا سکتے چلو یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ تم جگہ تبدیل کرنا چاہتی ہو کیا تم
ساتھی بھی تبدیل کرنا چاہتی ہو ہاں ساتھی بھی تبدیل کرنا چاہتی ہوں تمہیں تو پتہ ہے نا کہ ہماری شادی
وٹے سٹے میں ہوئی ہے ہاں تو ہوئی ہے نا تو تمہارے بھائی کا گھر بھی اُجڑ جائے گا پھر مجھے اس کی پرواہ نہیں
اس دنیا میں ہر کوئی اپنے لیے زندہ رہتا ہے اور میں بھی اپنے لیے زندہ رہنا چاہتی تم اپنی بہن کی وجہ سے ایسا
کر رہے ہو میں بہن کی وجہ سے ایسا نہیں کہہ رہا ۔
تم بابا اور پھوپھی کی دشمنی کی پہلی اینٹ رکھ رہی ہو تم نہیں جانتی کہ تمہارے اس قدم سے دو بھائی بہن
ایک دوسرے کی صورتوں سے نفرت کرنے لگیں گے ہاں تو کرتے رہیں نا میں بھی بس شہر میں رہوں گی
ٹھیک ہے پھر جیسے تمہاری مرضی کیونکہ جب عورت مرد کے پاس نہ رہنا چاہے تو مرد کو اسے مجبور نہیں
کرنا چاہیے تم بعد میں ضرور پچھتاؤ گی پچھتاوے کے دکھ بہت بڑے ہوتے ہیں کیا وقت پھر کبھی لوٹ کر
نہیں آتا تم کتنی ہی آوازیں دو میں تمہیں کبھی گزرے وقت کو آواز نہ دوں گی اس وقت نے مجھے دیا ہی کیا
ہے جو میں اسے یاد رکھوں کہ تم نہیں تمہارا عاشق بول رہا ہے چلی جاؤ میں نے تمہیں طلاق دی طلاق دی
طلاق دی شادو تو طلاق سن کر حیران رہ گئی اُسے امید نہیں تھی کہ فضل اتنی جلدی تین بول بول دے گا
جب شادواس پہر کو میکے پہنچی تو اس کی ماں نے اسے حیرت سے دیکھا پھر شادو نے اپنی ماں کے سامنے
دھماکہ کیا اماں فضل نے مجھے طلاق دے دی سارا الزام فضل پر آیا مراد بھی گھر ایا ہوا تھا وہ سروس تو لاہور
میں کرتا تھا۔
مگر ہر 15 روز کے بعد دو روز کے لیے آجایاکرتا تھا ریشما کے بغیر وہ رہ نہ سکتا تھا مگر وہ اپنی ماں کو اکیلا نہ
چھوڑ سکتا تھا جب ریشمانے یہ سنا تو اس کا دل خزاں کے پتے کی طرح کانپ کر رہ گیا اس کی چھٹی حس اسے
باخبر کر رہی تھی انے والے وقت سے جو کہ اس کے ازدواجی زندگی میں انگارے بھرنے کے لیے آنے
والا تھا اسے پتہ تھا کہ اب کیا ہونے والا ہے شام کو پنچائت بیٹھی اور فیصلہ یہ سنایا کہ مراد بھی فضل کی بہن کو
طلاق دے کر حساب برابر کر دے اور جب لوٹا لوٹا سا مراد عشاء کے بعد گھر ایا تو ریشما تو پہلے ہی رو رہی
تھی اس نے مراد کے قدموں میں سر رکھ دیا کہ وہ اسے خود سے جدا نہ کرے اور مراد ایسا نکلا کہ اسے بے
ہوش چھوڑ کر گھر سے چلا گیا صبح جب پھوپھی کمرے میں آئی تو ریشم کو گھٹنوں میں سر دیے پایا رو رو کر اس
کی آنکھوں کے آنسو بھی خشک ہو گئے تھے پھوپھی کتنی ہی دیر تک دروازے کے بیچ کھڑی اپنی بیٹیوں
جیسی بہو کو دیکھنے لگی وہ بھلا کیسے اس پیاری سی لڑکی کو بھیج دیتی واپس کتنی چاہ سے بیا کر لائی تھی اسے اور
اب وہ اپنی بیٹی کی کوتاہی کی سزا اسے دیتی بھلا یہ کیسے ممکن تھا فضل تو رات ہی اپنی پھوپھی کے گھر گیا اور
شادو کے سامنے گڑگڑا گڑگڑا کر بولا پھوپھی جی میری بہن کا گھر نہ اجاڑنا تمہاری بیٹی نے خود اپنے گھر کو
آگ لگائی پھوپھی بہت غصے میں تھی جب انہوں نے اپنی بیٹی شادو کی طرف دیکھا تو اس نے سر جھکا لیا جس
کا مطلب یہ تھا کہ فضل جو کچھ کہہ رہا ہے سچ کہہ رہا ہے۔
تب انہوں نے ایک طویل سانس کھینچا نہیں فضل بیٹا تمہاری بہن یہیں رہے گی میری بیٹی کی کمینگی کی سزا
بہو کو نہیں ملے گی یہ میرا فیصلہ ہے پنچایت کچھ نہیں کرے گی پھر وہ کتنی ہی دیر تک فضل کو یقین دلاتی
رہیں کہ اس کی بہن کو کوئی دکھ نہیں ہوگا یہاں جیسے وہ پہلے رہا کرتی تھی پیسے ہی رہے گی فضل کے جانے
کے بعد جب وہ بہو کے کمرے کی طرف ائیں تو پہلے تو وہ جھکی پھر اندر اگئی وہ سمجھی کہ ریشما سوئی ہوئی ہے
مراد شاید یہیں کہیں ہو اور وہ پرسکون سی ہو کر اپنے کمرے میں جا لیتی پھر وہ سوچتی رہی کہ بیٹے خود کو اجاڑ
کر کیوں آگئی وہ سوچ رہی تھی کہ اب اس کو کون قبول کرے گا اگر انہیں نہیں معلوم تھا کہ بیٹی نے اپنا
سائبان تو ڈھونڈ رکھا ہے فضل نے اپنی پھوپھی کو بینک والے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا صرف اتنا کہا
کہ یہ میرے ساتھ خوش نہیں ہے اپ کی بیٹی اب اور میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی وہ یہ نہ کہہ سکا کہ آپ
کی بیٹی شہر کے خواب دیکھ رہی ہے وہ بھی بینک والے آدمی کے ساتھ مگر نہ جانے فضل نے یہ سب کیوں
نہ بتایا شاید وہ پنچایت کے سامنے اپنے خاندان کی بدنامی نہیں چاہتا تھا سب ہی ہنستے کوئی یہ نہ دیکھتا کہ ان کی
ہنسی حساس دلوں میں کتنے زخم کا ڈالے گی لوگوں کو تو بس ہنسنے سے کام ہوتا ہے کسی کے دل کی حالت کیا
جانے پھوپھی دروازے کے بیچوں بیچ کھڑی اپنی بہو کو دیکھے جا رہی تھی کہ ریشما اٹھی اور ایک دم پھوپھی
کے قدموں سے لپٹ گئی ۔
وہ بھی اماں مجھے اس گھر سے نہیں جانے دو خدا کے لیے مجھے مراد سے جدا نہ کرو ورنہ میں مر جاؤں گی تم
یہیں رہو گی میرے پاس تم کہیں نہیں جاؤ گی ریشما نے ایک سکون کا سانس لیا اب اسے کوئی ڈرنا تھا پھر
اسے مراد کا خیال آیا پھوپھی اماں وہ کہاں ہے یہیں کہیں ہوگا صبح سے دوپہر ہوئی اور شام کے کندھوں پر
بھی رات چھپنے لگی مگر مراد نہ آیا ریشمانے اس کے اٹیچی دیکھی تو وہ غائب تھی اور گزرتا ہوا ایک ایک پل
اسے بتا گیا کہ اس کا شوہر چلا گیا ہے اُسے چھوڑ کر وہ منتظر ہی رہی اور وہ ایسا گیا کہ لوٹ کر نہ آیا وقت گزرتا
رہا اپنے سامنے آتی ہر چیز کو رونتا ہوا بالکل سیلاب کے پانی کی طرح جو کہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور یہ نہیں دیکھتا
کہ اس کی زد میں کتنی لہلہاتی فصلیں آتی ہیں کتنے مکانوں کو وہ ڈھا جاتا ہے بس اسے تو آگے بڑھنے سے
مطلب ہوتا ہے شادو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بینک والے کے ساتھ شہر چلی گئی پھوپی نے کہہ دیا تھا کہ اب وہ
یہاں لوٹ کر نہ آئے آج سے ان کی بیٹی ان کے لیے مر چکی ہے اور پھر وہ واقعی لوٹ کر لائی پورے 11
برس بیت گئے ریشما کبھی اپنے گھر کی دہلیز پار نہ کی کیا خبر کبھی مراد لوٹ ائے اس عرصے میں فضل نے
کہاں کہاں نہ اپنی بہن کے سہاگ کو تلاش کیا مگر وہ نہ ملا فضل بھی تھک ہار کر بیٹھ گیا وہ سوچتا ریشما عورت
ہے شادو بھی تو عورت ہے ریشما بھی زمین کی ہے شادو بھی یہی کی تھی پھر دونوں میں اس قدر فرق کیوں
ہے وہ سوچ کر رہ جاتا کہ شادو تم نے کتنے لوگوں کو دکھی کیا۔
اللہ کرے تم بھی کبھی سکھی نہ رہو ہمیشہ تڑپتی رہو ریشمااپنے مراد کا انتظار کرتی رہی پھوپی نے کئی مزاروں
پر جا جا کر ملت مانی کہ ان کا بیٹا ا جائے مگر بیٹا نہ لوٹا ریشما اپنےشوہر کی جدائی میں ہر وقت تڑپتی رہتی تھی وہ تو
دیوانی سی ہو گئی تھی پھوپھی کو اُس پر ترس آیا کسی ایک بزرگ کے پاس گئی انہیں بولا کہ استخارہ کرو کہ میرا
بیٹا کہاں ہے زندہ بھی ہے کہ نہیں بزرگ نے استخارہ کیا اور پھوپھی کے سامنے ریشماسے کہنے لگا دیکھو بیٹی
ہمارا شوہر سات سمندر پار گیا ہوا ہے وہ بھی تمہاری صورت دیکھنے کے لیے بے قرار ہے۔
مگر وہ نہیں آرہا ہے حالانکہ اس کا جی بہت چاہتا ہے تو وہ کیوں نہیں آتا یہ تو مجھے نہیں معلوم بیٹا 11 برس ہو
گئے ہیں بغیر اطلاع دیے تمہارا شوہر تم سے دور ہوا وہ قانونی طور پر تم اس بات کی مجاز ہو کہ شوہر کے چار
سال تک اگر کوئی خبر نہ آئے تو تم شادی کر سکتی ہو بزروں کی یہ بات سن کر ریشمہ حسی اس کی ہنسی میں بھی
بہت اذیت تھی 11 سال تو کیا میں اپنے شوہر کا ساری زندگی انتظار کر سکتی ہوں مجھے اپنے اللہ پر کامل یقین
ہے اسی یقین کے ساتھ وہ دعائیں کرتی عبادت کرتی تہجد پڑھتی اور اللہ کے حضور رو رو کر اپنے شوہر کی
واپسی کے لیے فریاد کرتی ۔
آخر کار اس کی ریاضت کام آگئی اس کی نظریں دھوکہ نہیں کھا رہی تھی بے شک انگن میں داخل ہونے
والا مراد ہی تھا پہلے سے کتنا بدل گیا تھا گزرتے وقت نے اس پر بھی اپنے نشان چھوڑے تھے اس کی
آنکھوں میں ویرانیوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے چہرے پر سنجیدگی کی چھاپ تھی ریشم کی آنکھوں کی
قندیلیں ایک دم روشن ہو گئی اگر یہ کندیلیں ایک دم بجھ بھی گئی تمام خوشیاں خاک ستر ہو گئی آرزوؤں
کے پھول مر جانے لگے دل میں الاؤ سلگنے لگا اور رشما کی انکھوں سے چنگاریاں نکلنے لگی ۔
وہ تیزی سے اوقات کی مانند اگے بڑھی اور وہ رات کو گریبان سے پکڑ 13 سال بعد انے والے شوہر کا اس
نے ایسے سواگت کیا مراد میں نے تمہاری یاد میں ایک ایک لمحہ گزارا ہے تمہارے لیے اتنی آنسو بہائے
ہیں کہ آنکھیں خشک ہو گئی ان ہنسوں کا صلہ تم نے اس طرح دیا کہ تم نے شادی کر لی بیٹے کے ساتھ مزید
زخم لگانے آگئے میرا سینہ تو پہلے ہی زخموں سے بھرا پڑا ہے اب اس میں اور زخموں کی گنجائش نہیں ہے
ریشما تو مچھلی جا رہی تھی تم میری بات تو سنو وہ رات نے اپنا گریبان چھڑانا چاہا میں کچھ نہیں سنوں گی تم
چلے جاؤ یہاں سے تم واپس چلے جاؤ تم نے میرا مان توڑا میرے ساتھ تم نے دھوکہ کیا ہے میں تمہیں کبھی
معاف نہیں کر سکتی تم اب یہاں سے چلے جاؤ ریشما نے مراد کا گریبان چھوڑا بے بھاگی یہ برے برا مگر تب
تک اس نے اندر سےدروازہ بند کر لیا تھا شور سن کر پھوپھی اور محلے کے دوسرے لوگ بھی آگئے پھوپھی
تو اپنے بیٹے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی وہیں اس کے ساتھ دس گیارہ سال کے بچے کو دیکھ کر انہیں دکھ ہوا
اور وہ سوچنے لگی کہ یہ عورت ہی ہے جو ایک مرد کے نام اپنی پوری زندگی تمام کر دیتی ہے اور مرد مرد تو ہر
قدم پر نیا ساتھی تلاش کرنا چاہتا ہے اماں اماں اپ ہی ریشمہ کو سمجھائیں یہ میرا بیٹا نہیں ہے یہ تو میرے
دوست کا بیٹا ہے وہ دونوں میاں بیوی بزی تھی اور یہ بچہ اپنی نانی سے ملنا چاہتا تھا کیونکہ میں پاکستان آ رہا تھا
تو میرے دوست نے کہا کہ تم اس کو اپنے ساتھ لے جاؤ میں نے سوچا بھی کہ پہلے اسے راولپنڈی چھوڑا
ہوں مگر میرا دل اتنا بے قرار تھا ریشما سے ملنے کے لیے جی چاہا فورا اس کے پاس پہنچ جاؤ اگر وہ بے قرار
رہی ہے تو میں بھی کم نہیں تڑپا اماں اسے سمجھاؤ مراد کی انکھوں میں بھی انسو اگئے ۔
اپنی ماں سے لپٹا روئے جا رہا تھا مجھے امید تھی کہ میرا خون اتنا بے وفا نہیں ہو سکتاپھوپھی نے اپنے بیٹے کی
پیشانی چوم لی لی پھر انہوں نے کتنا ہی دروازہ کھٹکھٹایا مگر ریشما نے کنڈی نہ کھولی اندر سے کوئی بھی آواز
نہیں ارہی تھی اخر مراد نے دروازہ توڑا اور وہ تڑپ کر اندر داخل ہوا مگر اب تو وہاں کچھ بھی نہ تھا ریشم پلنگ
پراڑی ترچھی پڑی تھی بے حس و حرکت زندگی کی کوئی بھی رمک اس میں نہ تھی اس کی آنکھیں کھلی ہوئی
تھی جنہیں مراد نے ارستے ہاتھوں سے بند کر دیا آج ہی انکھوں کا انتظار ختم ہو گیا تھا اسے جب تک یہ امید
تھی کہ مراد اس کا ہے وہ منتظر رہی تھی جی میری یہ آرزو ہے کہ تم ہی مجھے قبر میں اتار وہ رات کے ذہن
میں اس رات کا کہا ہوا جملہ گونج گیا جب وہ گڑگڑا گڑگڑا کر اسے التجائیں کر رہی تھی تڑپ رہی تھی تمہاری
یہ آرزو پوری ہو گئی ہے ریشما کاش تم دل میں میری طرف سے شک لے کر اس دنیا سے نہ جاتی میری
جان تو مجھے مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی مجرم کر گئی ہو میں نے تمہارے بعد کسی عورت کو خود بے حرام جانا
تھا میں نے بہت چاہا لوٹاؤں مگر میں اپنے ہاں کے رسم و رواج سے واقف تھا مجھے شک تھا کہ انہوں نے
زبردستی تمہاری شادی کر دی ہوگی مگر مجھے کیا معلوم کہ تم ہر روز امیدوں کے دیپ جلاتی رہی ہو اور وہ نا
امیدی کے جھونکوں سے بچتے رہے مراد اس کے چہرے پر جھکا وہ لے جا رہا تھا اور آنسو لڑیوں کی مانند ریشما
کے مردہ چہرے پر گر رہے تھے آج تو ریشما کو مرے کافی بس گزر چکے ہیں مراد بوڑھا ہو چکا ہے اس نے
مظفرگڑھ میں ہی اپنا کلینک کھولا ہوا ہے۔
روز صبح و شام ریشما کی قبر پر جاتا ہے شام کو دیا جلاتا ہے بس اب اسے اس وقت کا انتظار ہے جب وہ اگلے
جہاں اپنی ریشما سے ملے گا یہ جدائی وہ عارضی سمجھتا ہےابدی ملن کا وہ منتظر ہے نہ جانے کب اس ملن کا
وقت آئے گا بعض مرتبہ مراد کا جی چاہتا ہے کہ وہ چیخ چیخ کر کہے خدارا ان وٹے سٹے کی شادیوں کو ختم کر
دوں کہ کئی گھر اجاڑتی ہے کتنے دلوں کو زخمی کر کے ناصور میں تبدیل کر دیتی ہے کتنی وفا شوہر بیویاں
انتظار کی سولی پر لٹکتی رہتی ہیں نہ مر سکتی ہیں نہ جی سکتی خدارا سودے بازی کو ختم کر دو مگر یہ چیخیں اس کے
اندر ہی گھٹ جاتی کبھی بھی ان الفاظ کو زبان نہیں ملتی منتظر کہ کوئی اور پہل کرے مگر کون کرے ان
کھوکھلی روایات کو کون توڑے گا کون ہے جو آگے بڑھے منتظر ہے اور منتظر ہی رہے گا کیسی لگی آج کی درد
بھری کہانی میں سچ میں رو پڑا ہوں دوستو بس یہی کہوں گا خدارا ایسی رسموں کو ختم کرے ملتے ہیں اگلی کہانی
میں تب تک کے لیے اللہ حافظ
کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔
اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔
اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔