Kali Dulhan Ki Dard Bhari Kahani
یہ کہانی ہے ناصرہ کی جس کا رنگ سانولا قد چھوٹا اور نین نقش بھی پیارے نہیں تھے لیکن وہ ایک لڑکے
کے جال میں پھنس گئی اور پھر کیسے اس کے زندگی تباہ ہوئی کیسے اس سانولی دلہن پر ظلم ہوا بتائیں گے آج
کی کہانی میں تو چلیے شروع کرتے ہیں آج کے کہانی میرا ایک ہی بھائی تھا والدین نے وارث نام رکھا
والدین اپنے بچوں کے آچھے آچھے نام رکھ دیتے ہیں مگر کوئی نہیں جانتا کہ مستقبل میں اولاد کیسی نکلے گی
کیونکہ آچھے آچھے ناموں والے بھی ماں کے سر کی چادر اور باپ کی پگڑی کو خاک میں ملا دیتے میرے ماں
باپ دوسرے عزت دار لوگوں کی طرح اس معاملے میں بہت حساس واقع ہوئے تھے تبھی انہوں نے
میری شادی کم سنی میں کر دی جبکہ سب نے سمجھایا کہ ابھی ماروی عمر ہی کیا ہے کیوں اتنی جلدی اسے گھر
سے رخصت کر رہے ہو کچھ دنوں اور اپنے انگن میں کھیلنے دو لیکن امی ابو نے ہر ایک کی بات سنی ان سنی کر
دی۔
کہا کہ زیادہ سوچ بچار میں تاخیر ہو جاتی ہے اور نیک کام میں تاخیر آچھی نہیں ہوتی ادھر میں بیاہی گئی ادھر
امی بیمار پڑ گئی اب ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ رہا گھر کے کام کاج کے لیے بھی پریشانی ہو گئی والد
صاحب صبح دفتر جاتے اور شام کو لوٹتے وارث بھائی کالج میں پڑھتے تھے ان کی عمر 19 سال تھی وہ بھی امی
کو نہیں سنبھال سکتے تھے گھر کا کام کیا کرتے غرض گھر کا شیرازہ بکھر گیا تھا ان دنوں میرے یہاں بیٹے کی
پیدائش ہوئی تھی میکے جا کر والدہ کی خدمت کرنے سے قاصر تھی والد صاحب نے اپنی پریشانی کا ایک
دوست سے ذکر کیا تو انکل رزاق نے کہا کہ میری بیٹی گھر میں فارغ رہتی ہے وہ اپ کی بھی بیٹی ہے وہ
روزصبح اپ کے گھر آ جائے گی اور شام تک آپ کی بیوی کے پاس رہے گی یوں ناصرہ ہمارے گھر آنے لگی
چونکہ انکل کا گھر والد صاحب کے گھر سے دو فرلانگ کے فاصلے پر تھا لہذا ناصرہ کو آنے جانے میں کوئی
پریشانی نہیں تھی ناصرہ بہت سمجھدار اور سکھڑ لڑکی تھی گھر کے کام کاج میں بہت آچھی تھی اسے اپنے گھر
میں کام کاج کرنے کی بچپن سے عادت پڑی ہوئی تھی۔
لہذا وہ ہمارے گھر کا تمام کام کوشش بھی سے کرنے لگی گھر کی صفائی برتن دھونا کھانا پکانا اور میری والدہ
کی دیکھ بھال سارا بوجھ اٹھا لیا تھا والد اور بھائی کو قدر سکون مل گیا کہ یہ بچے ہمارے لیے فرشتہ رحمت ثابت
ہوئی ہے وہ امی کے ساتھ میرے بھائی اور ابا جان کے کھانے پینے کا بھی بہت خیال رکھتی تھی حتی کہ ان
کے کپڑے بھی استری کر دیا کرتی ناصرہ نے میٹرک پاس کیا تھا اس کے بعد کالج میں داخلے کی حسرت دل
میں رہ گئی کیونکہ انکل غریب آدمی تھے بڑی مشکل سے ان کے گھر کا گزارا چلتا تھا انکل رزاق میرے آبا
کے بچپن کے دوست تھے دونوں کی کوئی بات ایک دوسرے سے چھپی نہ تھی جب کبھی انکل کو پیسوں کی
شدید ضرورت ہوتی وہ اپنی ضرورت کا اظہار والد صاحب سے کرتے اور ابا ہر ممکن ان کی مدد کر دیتے
تھے ۔
قصہ مختصر ان میں سگے بھائیوں جیسی محبت ناصرہ میں بہت خوبیاں سہی لیکن صورت اس کی دبتی ہوئی تھی
رنگت گہری سانولی اور چھوٹا قد دبلی اتنی کہ ایک نظر دیکھنے سے معلوم نہیں ہوتا تھا کہ لڑکا ہے یا لڑکی کہتے
ہیں انسان میں گن ہوں تو صورت شکل پھر کوئی مانی نہیں رکھتی چند دنوں میں ناصرہ نے امی ابو اور بھائی کو
اپنا گرویدہ کر لیا خاص طور پر وارث اس کی طرف زیادہ متوجہ رہنے لگا ظاہر ہے کوئی اگر اپ کی بے لوس
خدمت کرے تو اپ اس کی نیک ادواری کے معترف تو ہوں گے ہی ۔
لیکن یہاں بات اس سے کچھ اگے چلی گئی میرا بھائی ناصرہ کے گن گانے لگا مناصرہ کی بات بات پر تعریف
کرتا تو امی جان بھی مسکرا دیتی اور جب میں امی سے ملنے جاتی وہ مجھے بتاتی کہ تمہارا بھائی ناصرہ کو پسند کرنے
لگا ہے اب مجھے اس کی دلہن ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں یہ تو اچھی بات ہے امی لڑکی کے گن اپ نے دیکھ
پر اکھی لیے ہیں اور اس کے گھر والے تو ویسے بھی اپ کے دیکھے بھالے لوگ ہیں بہو اچھی مل جائے تو
بڑھاپہ سکون سے گزرتا ہے۔
گھر تو بہو سے بنتا اور سلامت رہتا ہے نا امی کو اس بات پر کوئی اعتراض نہ تھا کہ ناصرہ اور وارث کی مستقبل
میں جوڑی بن جائے میرے بھائی نے ناصرہ کو گھر میں اس قدر توجہ اور اہمیت دی کہ اسے یقین ہو گیا وہ
اسے کبھی دھوکا نہ دے گا پھر یہ ہوا کہ بھائی نے واقعتا اسے یقین دلا دیا کہ وہ اس سے شادی کرے گا اس
یقین سے ناصرہ کو بے حد سکون ملا اور وہ ہمارے گھر کو اپنا گھر سمجھنے لگی تب ہی دل و جان سے میرے ماں
باپ کی خدمت کرنے لگی بظاہر تو ہم بھی یہی سمجھ رہے تھے کہ والدین کی خدمت کرتے دیکھ کر وارث
نے ناصرہ سے شادی کا فیصلہ کر لیا ہے
اس کی بدصورتی کو نظر انداز کر دیا ہے مگر یہ بات نہ تھی وارث خود بہت خوبصورت تھا لمبا چوڑا گورا چٹا اور
شاندار نوجوان جس کے بھی نظر اس پر پڑتی بھائی کے حسن سے متاثر ہو کر ٹھک جاتا تھا قدرت کبھی کبھی
حسن اور بد صورتی کو دن رات کی طرح ملا دیتی ہےاس دنیا میں ہونی اور ان ہونی سب اللہ کی قدرت سے
ہے جس لڑکی میں کسی لڑکے کے لیے ذرا بھر کشش نہ تھی بھائی اس کا دیوانہ تھا امی سے کہتا تھا کہ شادی
کروں گا تو ناصرہ سے ورنہ نہیں اکثر وہ یہ بات بلند آواز سے کرتا تاکہ ناصرہ سن لیں جس پر وہ پھولی نہ سماتی
اور مزید تندہی سے امی جان کی خدمت میں لگ جاتی۔
یہ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وارث دلی طور پر بالکل اس کے ساتھ شادی کرنے کو امادہ نہ تھا وہ اسے
جھوٹے اسرے دے کر بے وقوف بناتا تھا تاکہ وہ امی جان کی خدمت کرتی رہے اس گھر کو اپنا گھر سمجھ کر
اس مشکل گھڑی میں ہمارا ساتھ دے وہ مسلسل آتی رہے اس وجہ سے وارث نے اسے جھوٹا پیار جتلایا تھا
ناصرہ ایک معصوم لڑکی تھی اس نے وارث کو اپنا مالک اپنا سب ہی کچھ سمجھ لیا تصور بھی نہ کر سکتی تھی کہ
کوئی انسان اتنا شاطر اور مطلبی ہو سکتا ہے کہ اپنی غرض کی خاطر کسی دوسرے سچے اور مخلص انسان کو کھلونا
سمجھ لیں یہ سچ ہے کہ وارث کی نظر میں اس لڑکے کی وقت مٹی کے کسی کھلونے سے زیادہ نہ تھی سال بھر
میری والدہ شدید بیمار رہی میں اپنے سسرال والوں کی وجہ سے مجبور تھی مستقل امی جان کے پاس نہیں
رہ سکتی تھی وقتا فوقتا ان کے ہاں آتی جاتی رہتی تھی میرا گھر گاؤں میں تھا اور میں کا شہر میں لہذا 15 دنوں
بعد ہی ایک دو دن کے لیے آنا جانا ہو پاتا تھا امی کو جگر کا کینسر تھا علاج حسب مقتول کرایا مگر شفانہ بالاخر وہ
اپنے خالق حقیقی سے جا ملی امی نے اپنی وفات سے قبل ناصرہ کی ماں سے وعدہ لیا تھا اپنی بیٹی کی شادی وارث
سے کریں گی۔
کیونکہ ان کے خیال میں ان کا بیٹا ناصرہ کو چاہتا تھا گویا زبانی وہ یہ رشتہ پکا کر کے گئی تھی کون جانتا تھا کہ
وارث کے دل میں کیا ہے اس کے دل میں ناصرہ کے لیے چاہت نام کو نہ تھی جیسا ہم لوگ سمجھا کرتے
تھے امی کے انتقال کے ڈیڑھ ماہ بعد وہ ایک دوست کے توسل سے دبئی چلا گیا ناصرہ کا بھی اب ہمارے گھر
کوئی کام نہ رہا تھا وہ ہمارے گھر نہیں اتی تھی والد صاحب کھانا ہوٹل سے یا پھر اپنے دفتر کی کینٹین سے کھا
لیا کرتے تھے۔
ایک سال بعد وارث دبئی سے لوٹا تو کافی رقم کمال آیا اب وہ خوشحال تھا والد صاحب نے شادی کی بات
چھیڑی تو اس نے کہا کہ آپا ماروی سے کہیے کوئی اچھا رشتہ میرے لیے تلاش کریں سال بعد میرا معاہدہ ختم
ہو جائے گا تو دبئی سے ا کر شادی کر لوں گا والد صاحب اس کی بات سن کر پریشان ہو گئے کیونکہ سب نے
طے کیا ہوا تھا کہ وارث کی پسند چونکہ ناصرہ ہیں تو کوئی اور لڑکی ڈھونڈنے کی کیا ضرورت ہے والد
صاحب نے مجھے بلوایا اور کہا کہ اپنے بھائی سے اس معاملے پر بات کرو میں رزاق کو زبان دے چکا ہوں میں
نے وارث سے بات کی وہ بولا آپاخدا کا خوف کرو کیا میرے لیے یہی بدصورت لڑکی رہ گئی ہے جس کی
طرف دیکھنے کے لیے بھی جی کڑوا کرنا پڑتا ہے میں ہرگز ایسی بد شکل لڑکی سے شادی نہیں کروں گا میں
نے کہا وارث یہ تم کیا کہہ رہے ہو تم تو امی جان سے کہا کرتے تھے کہ گنوں میں یہ لڑکی لاکھوں میں ایک
ہے اور میں اسی سے شادی کروں گا کیونکہ شریک حیات میں اس کے گن دیکھنے جائیں صورت ہے ناصرہ
میں اتنی خوبیاں ہیں کہ ان کے مطابق کوئی معنی نہیں رکھتی یہ دھوکہ تھا فریب تھا جو میں اسے دے رہا تھا
اس نے کھل کر کہہ دیا کیونکہ جانتا تھا بغیر مطلب کوئی کسی کے لیے اپنا سکھ چین اور آرام قربان نہیں کرتا
اگر میں اس سے ایسی جھوٹی محبت نہ جتلاتا تو وہ کبھی کی امی جان کو چھوڑ کر جا چکی ہوں گی اسے باندھ کر
رکھنے کا محض یہ ایک حربہ تھا اور میں کیا کر سکتا تھا ماں کو بے سہارا بے اسرہ تڑپتے سی سکتے تو نہیں دیکھ سکتا
تھا۔
تم بھی مہکے انے سے مجبور تھی لہذا میں نے ناصرہ کو بھرپور توجہ اور اہمیت دی اور وہ امی جان کی خدمت
میں جی جان سے جٹی رہی جو خواب میں نے اسے دکھایا اسی سراب کی خاطر اُف میرے خدا میرے بھائی یہ
تم کب سے اتنے بے رحم ہو گئے تمہیں اس لڑکی پر ذرا بھر بھی ترس نہ ائے اپا ترس اتا تھا مگر کیا کرتا ماں
بھی تو بیچاری اٹھنے بیٹھنے سے قاصر تھی انہیں بھی تو رات دن کسی خدمت گار کی اشد ضرورت تھی ان کی
بہو بھی ناصرہ کی جگہ ہوتی تو اتنا خیال نہ کرتی جس قدر اس لڑکی نے کیا تو اب تم ہی سوچو اس کے دل پر کیا گزرے گی اس نے بھی تو میری خاطر یہ سب کیا کہ مجھ سے شادی ہو جائے گی ہر کسی کی نیک ادواری کے
پیچھے اس کی غرض چھپی ہوتی ہے نا لہذا اب تو مجھے ہرگز دوشی مت ٹھہرانا اور میرا سر اس چڑیل کو نہ مڑ دینا
ورنہ میری زندگی برباد ہو جائے گی وارث کی باتیں سن کر سچ مچ مجھے پسینہ آگیا۔
سوچنے لگی اب ابا رضا انکل اور میں اس معصوم لڑکی کو کس منہ سے آگاہ کروں کہ وارث کی شادی سے
انکاری ہے وہ بھی اس وجہ سے کہ ناصرہ بدصورت ہے اور وہ خود حسین ہے اور حسن کا شیدائی ہے۔
وہ دبئی میں اپنے ساتھ کام کرنے والے ایک دو شاہ زمان کی بہن کو پسند کر آیا تھا جو بے حد حسین تھی اور
اس کے ماں باپ بھی میرے بھائی کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کرنا چاہتے تھے یہ بات اسی روز وارث نے
مجھے بتا کر کہا تھا کہ اگر میری شادی پر ی وش سے نہ ہوئی تو میں مر جاؤں دونوں ہی ایک دوسرے سے بے
حد محبت کرتے ہیں میری ہمت نہ پڑی کہ ناصرہ سے ملتی اور اُسے یہ سب بتاتی کہ وہ اب مزید خواب نہ
دیکھے کیونکہ اس کے خوابوں کو تعبیر ملنے والی نہیں جو وہ سوچے بیٹھی ہے۔
وارث واپس دبئی چلا گیا اور ہم سب کو سوچوں کہ مائی دھار میں ڈوبنے کو چھوڑ گیا کسی نے کسی کو کچھ نہ بتایا
سب نے خاموشی اختیار کر لی ہم سب وارث کے لوٹانے کا انتظار کر رہے تھے دھیرے دھیرے سرکتا ہوا
سال بالاخر گزر گیا اور وہ دوبارہ لوٹ کر گھر آگیا وہ اب مزید خوشحال تھا اور بہت سا سامان اپنے ساتھ لایا تھا
اپنی ہونے والی دلہن کے لیے تاہم اس کے ہونے والی دلہن ناصرہ ہرگز نہیں تھی یہ ناصرہ کی بھی بے
وقوفی تھی کہ اس نے وارث کی باتوں پر یقین کر لیا اور یوں بزرگوں میں دونوں طرف سے ہاں بھی ہو گئی
میں مہکے ائی ہوئی تھی جب وہ مجھ سے ملنے کے بہانے ہمارے گھر ائی اور وارث سے پوچھا کہ کب کر رہے
ہو تم مجھ سے شادی وہ پھر جھوٹی تسلیاں دینے لگا مجھے بے حد برا لگا میں نے اپنے بھائی کو ٹوک دیا کہ ایسا
مت کرو جو بات ہے وہ سیدھی طرح بتا دوں ناصرہ بولی سیدھی بات یہ ہے کہ انہوں نے مجھے اپنا لیا تھا
شادی کا وعدہ بھی کیا اور اب وعدہ پورا کرنے کا وقت اگیا ہے امی ابو یہی بات کرنے کل آپ لوگوں کے
گھر انے والے اپنا لیا تھا کیا مطلب اس پر بھائی نے گردن جھکا لی اور وہ بھی خاموش ہو رہی گویا کہتی ہو جو
چاہو سمجھ لو میں اب کچھ نہ بولوں گی جب بھائی باہر چلا گیا تو میں نے ناصرہ سے کہا دیکھو ناصرہ انسان وقت
اور حالات کے ساتھ بدل جاتا ہے اور اب مجھے نہیں لگتا کہ میرا بھائی اپنے وعدے پر قائم رہے گا بہتر ہے
کہ تم اس کا خیال دل سے نکال دو وہ مجھے بتا چکا ہے کہ ابھی 15 برس اور شادی نہیں کرنے والا میں عمر بھر
اس کا انتظار کر لوں گی اس نے عزم سے کہا میرے پاس مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہ رہی ایک بار پھر میں
نے اپنے بھائی کو سمجھایا کہ اگر تم نے ناصرہ کا کوئی بڑا نقصان کر دیا ہے تو پھر اپنے وعدے پر قائم رہو وہ بولا
ہاں اپا میرا ضمیر بھی مجھے بہت ملامت کر رہا ہے اتنا کہ رات بھر سو نہیں سکتا واقعی میں نے اس کا ناقابل
تلافی نقصان کیا ہے لیکن اب کیا کروں اب یہ کرو کہ ضمیر کی سزا سے بچنے کے لیے ناصرہ کے ساتھ شادی
کر لو ورنہ امی کی بھی روح کو تکلیف پہنچے گی جی تو بالکل نہیں چاہتا کہ اس بد شکل کو اپنی شریک حیات بناؤ
تہم قدرت کی سزا سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ انسان خود کو سزا دے مجھ میں اب ناصرہ کے روبرو انکار کی
جرات نہیں اس کے ماں باپ سارے محلے والوں کی طرح طرح کی باتوں کو سن کر بھی نظر انداز کرتے
رہے اور والدہ کی تیمارداری کی خاطر سے ہمارے گھر مسلسل بھیجتے رہے وہ کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہ
رہیں گے جبکہ سب کو معلوم ہے کہ والدہ مرحومہ خود یہ رشتہ طے کر کے گئی مگر اس کا چھوٹا قد اور گہرا
ساملہ رنگ اس کا چھوٹا قد اور گہرا ساملا چہرہ کیا پہلے تمہیں برا نہیں لگا تھا میں نے سوال کیا اس نے اپنا سر
پکڑ لیا ضمیر اور خواہش میں کشمکش کئی دنوں تک جاری رہی بالاخر فتح ضمیر کی کی ہوئی اور باطل ناخواستہ صحیح
ناصرہ سے شادی پر رضامندی دے دی۔
کیونکہ اسے یقین تھا اگر شادی سے انکار کیا تو سچ مچھی لڑکی مر جائے گی بالاخر میری کوششوں سے وارث
اور ناصرہ کی شادی انجام پا گئی ناصرہ کے ماں باپ بے حد غریب تھے یہاں تک کہ وہ ناصرہ کو صرف پانچ
جوڑے کپڑے اور ایک بستر ہی دے سکے جبکہ بری میں اسے ایک سے ایک بڑھیا شامی یہ سب چیزیں
بھائی دبئی سے لایا تھا بری کے جوڑے اور زیور دیکھ کر محلے والے کہہ رہے تھے کہ اسے کہتے ہیں اچھی
قسمت ورنہ لڑکی والے تو دلہا کو ایک عمل نہیں پہنا سکتے تھے شادی والے دن محلے والوں نے طرح طرح
کی باتیں کی کہ دولہا کتنا حسین ہے دلہن اس کے ساتھ ذرا بھی نہیں سج رہی کہاں چھ فٹ قد کا وارث اور
کہاں یہ دو بالشت کی چوہیا سی چھوکری خدا کی قدرت کے حور کے پہلو میں لنگور کی مثال تو سنی تھی مگر
یہاں تو سب الٹ ہو گیا ہے خدا جانے کیا دیکھا وارث اور اس کے ماں باپ نے اس لڑکی میں خود وارث کی
شکل اس قدر روہاصی ہو رہی تھی کہ میرا بھی دل سلگ اٹھا کہ یا رب یہ کیسا جوڑ ملا دیا کوئی بھی ایسی بات
نہیں تھی اس لڑکی میں جیسی ہر خاوند اپنی بیوی میں دیکھنا چاہتا ہے اور اب تو یہ ڈھول ساری زندگی گلے
میں ڈال کر اسے بجانا تھا۔
شادی کے بعد صرف دو ماہ وہ پاکستان رہا اور پھر دبئی چلا گیا دبئی سے سال بعد یورپ کو نکل گیا اور پانچ برس
تک ناصرہ کی خبر نہ لی جب وہ گھر لوٹا تو ناصرہ کو گھر میں نہ پایا ضعیف باپ نے بتایا کہ ایک روز ذرا سی بات
پر وہ الجھ پڑی اور مجھ سے چیخ کر بات کرنے لگی میں نے ڈانٹا تو گھر چھوڑ کر چلی گئی وارث کو بہانہ مل گیا اس
نے اس بات پر کہ ناصرہ نے کیوں بوڑھے سسر سے آونچی آواز میں بات کی تھی اس کو طلاق دینے کی
ٹھان یہ بھلا دیا کہ اس نے پانچ مرتبیسی سالہ سسر کی دیکھ بھال کی دکھی تھی ان کو کھانا پکا کر کھلایا تھا کیا ہوا
جو ایک دن اس سے گستاخی ہو گئی ناصرہ کو پتہ چلا کہ شوہر آگیا ہے وہ اپنے والدین کے ساتھ اگئی شوہر اور
سسرسے معافی مانگی سسر نے تو معاف کر دیا مگر میرا بھائی اسے معافی دینے پر تیار نہ تھا کیونکہ اس کے
من میں چور تھا اس کا برتاؤ اپنے سسر کے ساتھ برا نہیں رہا تھا مگر وہ وارث کے انتظار کی وجہ سے تھک
چکی تھی تبھی گھر پر پوری توجہ نہ دے سکتی تھی پڑوسن نے بھی وارث کو بتایا کہ قصور تمہاری بیوی کا ہے
جب بھی میں تمہارے گھر اتی تو یہی دیکھا کہ گھر پھیلا ہوا ہے اکثر سالن ہوٹل سے منگوا لیتی کبھی روٹیاں
زیادہ بناتی تو بچی رہتی ۔
غرض اس نے ایسی لاپرواہی اختیار کر لی کہ گھر کو گھر وا کر کے رکھ دیا وارث کو تو بہانہ چاہیے تھا پڑوسن کی
باتوں نے اور حوادی اور یوں پڑوسن کی گواہی نے نازلہ کر باہر اجاڑ کر رکھ دیا وہ اتنے انتظار کی اذیت سہہ کر
بھی ثابت قدم تھی طلاق لینا نہیں چاہتی تھی لیکن وارث نے اسے طلاق دے دی میں نے جب اسے لعن
تان کی تو کہا کہ میں طلاق دینے نہیں آیا تھا ساتھ لے جانے آیا تھا لیکن اس نے خود ایسے حالات پیدا کر
لیے کہ یہ ناگوار امر مجھے انجام دینا پڑا اپنے بھائی کا یہ جواب سن کر میرا دل خون ہو گیا بھائی یہ امر ناگوار
انجام دے کر یورپ لوٹ گیا بعد میں مجھ پر انکشاف ہوا کہ اس نے پری وش سے شادی کر لی کیونکہ اس
کے والدین کا یہی تقاضہ تھا کہ پہلے پہلی بی بی کو طلاق دو پھر ہمیں تمہیں اپنی لڑکی کا رشتہ دیں گے انسان
کبھی بہت ظالم ہو جاتا ہے کے لیے جو اسے نہیں کرنا چاہتا دوستو وارث نے بہت غلط کیا کہ جیسے ناصرہ سے
شادی ہے بلکہ وہ سب کچھ ہو گیا جو کہ گناہ ہے ایسے ظالم کو کیا سزا ملنی چاہیے لیکن لڑکیوں کے لیے بھی
سبق ہے کہ کبھی شادی سے پہلے کسی لڑکے کے اتنے قریب نہ ہوں کہ ہر حد سے گزر جائیں اور بعد میں
پچھتاوا کیسی لگی کہانی کمنٹ باکس میں لازمی بتائیں ملتے ہیں اگلی کہانی میں اللہ حافظ
کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔
اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔
اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔