Khooni guriya
اسلام وعلیکم کیا حال ہے آپ سب کا اُمید ہے آپ سب خیریت ہوں گے ۔
آج کی کہانی میں خوش آمدید
آج کی ایک ناقابل یقین کہانی اج موسم کافی خوشگوار تھا ہلکی سی بوندا باندی کے باعث ٹھنڈی ہوا چل رہی
تھی موسم کی اس لطافت نے مجھے مجبور کر دیا کہ آج تو بازار چلی ہی جاؤں گھر کی ضروری خریداری کرنی
باقی تھی جو میں کافی دنوں سے نظر انداز کر رہی تھی گھر کا سامان خریدتے ہوئے اچانک میری نظر ایک
چھوٹی سی گڑیا پر پڑی جس میں ناقابل بیان کشش تھی اس کی خوبصورت نیلی آنکھیں براؤن بال اور سرخ
ہونٹ یوں لگتا تھا جیسے یہ بے جان نہیں ان میں زندگی ہے کچھ تھا جو مجھے اس گڑیا سے نظریں ہٹانے نہیں
دے رہا تھا میں نے اسے خرید لیا جب گھر کے پاس ائی تو وہاں اکثر ایک پاگل ملتا ہے جو کسی سے کچھ نہیں
کہتا مگر آج خلاف توقع وہ میری طرف بڑھا اور میرے ہاتھ سے شاپنگ بیگ چھین لیا ساری چیزیں زمین پر
پٹکتی زمین پر گری چیزوں میں گڑیا کی طرف دیکھ کر زور سے چیخاخونی گڑیا ،خونی گڑیا تم نے خونی گڑیا لے لی ہے۔
یہ کہہ کر وہ وہاں سے بھاگ گیا میں حیران ہو گئی اور بے ساختہ میرے منہ سے نکلا پاگل اور سامان بیگ میں
ڈالنے لگی گھر آئی تو مما نے چیزیں دیکھی گڑیا دیکھ کر ہنسنے لگی اور بولی ابھی بھی تمہارا بچپن نہیں گیا وہ گڑیا
تھی ہی اتنی پیاری کہ ماما کو بھی بہت پسند آئی ہماری فیملی میں ایک بچی کی برتھ ڈے تھی میں نے سوچا بازار
نہیں جایا جاتا چلو جوگڑیا میں اپنے لیے لائی ہوں یہ گُڑیا ہی اسے گفٹ کر دیتی ہوں حالانکہ وہ مجھے اتنی پسند
آئی تھی کہ میرا دل نہیں چاہ رہا تھا کہ کسی کو بھی دو میں نے بڑے پیار سے گڑیا کو پیک کیا اور اُسے گفٹ
دے ائی گھر واپس ائی تو گڑیا کو یاد کر کے مسکراہٹ بے ساختہ میرے لبوں پر اگئی میں نے بستر کے پاس
پڑی میز کو دیکھا جہاں میں گڑیا رکھتی تھی رات میں سوئے ہوئے میں نے خواب میں دیکھا جیسے گڑیا
میرے پاس آئی اور بولی تم نے تو مجھے چھوڑ دیا ہے نا مگر میں تمہیں نہیں چھوڑ کر کہیں اور جاؤں گی اور پھر
وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائیں صبح میں نے ناشتہ کرتے ہوئے اپنی امی کو خواب سنایا تو وہ ہنسنے لگی اور مجھ
سے کہنے لگی لگتا ہے تمہیں گڑیا سے عشق ہو گیا تھا کہ اب وہ خواب میں بھی تمہارے حواسوں پر مسلط
رہتی ہے۔
میں بھی ان کی بات سن کر مسکرائی اور پھر کالج چلی گئی کالج سے واپسی پر میں کمرے میں گئی تو دانستہ طور پر
میں نے اس میز کو دیکھنے سے اعتراض کیا کیونکہ خالی میز مجھے اُداس کرنے لگا تھا میں نے گھر والوں کے
ساتھ لنچ کیا اور ٹی وی دیکھنے میں مشغول ہو گئی اندھیرا پھیلنے لگا تھا جب میں اپنے کمرے میں داخل ہوئی اور
لائٹ اُن کی میری سرسری سی نظر میز پر پڑی اس لاشعوری نظر کو میں شعوری کوشش سے دوسری
طرف کرنا چاہ رہی تھی کہ جب مجھے احساس ہوا کہ میں اس پر تو گڑیا پڑی ہے میں نے جلدی سے دوبارہ
دیکھا کہ مجھے وہم ہوا ہے مگر یہ تو کوئی وہم نہیں تھا گڑیا تو حقیقت میں میز پر موجود تھی اور مجھے لگا کہ میری
طرف دیکھ کر مسکرا رہی ہے میں زور سے میری گڑیا کہتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لگا لیا اور اس کو کئی پپیاں
بھی کیں ۔
امی بھی میری آواز سن کر آگئی اور جب گڑیا کو میرے ہاتھ میں دیکھا تو حیران رہ گئی خوشی کی بجائے ان کی
انکھوں میں مجھے پریشانی نظر آئی کچھ خوف تھا جو کسی سوچ کے ساتھ ملا ہوا اس کی انکھوں میں پناہ گزی تھا
اس خوف اور گہری سوچ کی امیزش ان کی انکھوں سے صاف جھلک رہی تھی امی مجھے بغیر کچھ کہے واپس
پلٹ گیا اور میں اپنی گڑیا کے ساتھ مہوے گفتگو ہو گئی گڑیا کے ساتھ کھیلتے مجھے کس وقت نیند آئی پتہ ہی
نہیں چلا مجھے کچھ دیر بعد ایسے لگا جیسے گڑیا میرے پاس سے اٹھ کر کہیں گئی ہے میں نے فورا انکھیں کھول
دی گڑیا سچ میں میرے پاس نہیں تھی نہ جانے کہاں غائب ہو گئی تھی ۔
میں نے سوچا کہ شاید میں نہیں کہ ادھر ادھر رکھ دیا ہوگا اور تھوڑی دیر بعد میں سو گئی صبح جب حسب
معمول میری آنکھ کھلی تو گڑیا میری بستر پر ہی موجود تھی میں حیران رہ گئی کہ گڑیا کے میرے پاس ہونے
میں کیا خواب ہے اور کیا سچ ناشتے پر امی نے مجھ سے پوچھا بیٹی تم رات 12 بجے کے اس پاس کمرے سے
نکل کر کہاں گئی تھی امی کے بات سن کر میں حیران رہ گئی کہ میں تو کہیں بھی نہیں گئی تھی امی امی نے کہا
میں نے خود تمہارے کمرے کا دروازہ کھلتے دیکھا تھا عجیب کشمکش تھی میں کمرے سے باہر نہیں نکلی تھی اور
امی کا کہنا تھا کہ انہوں نے خود میرا دروازہ کھلتے دیکھا ۔
اتنے میں باہر گلی میں شور مچ گیا امی باہر گئی اور کچھ دیر بعد واپس ائیں ہمارے ساتھ والے گھر کی خاتون کو
کسی نے بہت بُڑے طریقے سے مار ڈالا تھا اس کا سارا جسم کٹا بھٹا تھا مگر حیرت انگیز طور پر خون کا ایک قطرہ
بھی فرش پر موجود نہیں تھا پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی حیران کو تھی۔
کہ کسی جنگلی جانور نے اُس کے جسم سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا ہے یہ ایسا خوفناک اور اپنی نوعیت
کا عجیب و غریب پہلا واقعہ تھا جس نے پورے علاقے کو خوفزدہ کر ڈالا تھا۔ مگر اب یہ حادثہ اور گھروں میں
بھی پیش آنے لگا سب لوگ سکتے اور خوف کے عالم میں آگئے کسی کو کوئی حل نہیں سوجھ رہا تھا پولیس بھی
حیران تھی اور کوئی اندازہ نہیں لگا پا رہی تھی اگر کوئی جانور ہوتا تو کسی نہ کسی کو کچھ نہ کچھ تو ضرور نظر آجاتا نا
مگر ایسے لگتا تھا جیسے کوئی چیز زمین سے نکلتی ہے اور خون پی کر واپس زمین کے اندر چلی جاتی ہے۔
لوگوں کے محتاط ہونے اور پولیس کی سخت نگرانی کے باوجود کسی کو کچھ نظر نہیں ارہا تھا کوئی بھی سراغ
نہیں مل رہا تھا مگر روز صبح ایک لاش لازمی مل جاتی ایک دن امی نے مجھ سے کہا سائرہ آج رات تم نہیں سو
سکتی تم نے بس سونے کی ایکٹنگ کرنی ہے میں نے حیران کی سے پوچھا امی کیوں اور کس لیے امی نے کہا کہ
بیٹی مجھے شک ہے تمہاری گڑیا پر تم گڑیا کو پا کر اتنا خوش اور مدہوش ہو گئی ہو کہ تم نے یہ نہیں سوچا تم تو گڑیا
گفٹ کر کر ائی تھی اس بچی کو یہ گڑیا واپس کیسے ائی تم رات کو جاگ کر دیکھنا کہ تمہاری گڑیا رات کو زندہ ہو
کر تمہارے کمرے سے نکلتی ہے۔
میں اتنی پاگل ہو گئی تھی گڑیا کے پیچھے یا گڑیا میں کچھ ایسی کشش تھی جو مجھے اس سے محبت کرنے پر مجبور
کرتی تھی میری تو گڑیا سے محبت کود کر باہر آئی اور میں نے تخت لہجے میں کہا اپنی اپ کہنا کیا چاہتی ہیں
میری گڑیا سارے قتل کر رہی ہے وہ خونی ہے کیا؟ اور جیسے ہی میرے منہ سے خونی نکلا ایک دم مجھے اس
پاگل کی بات یاد اگئی کہ یہ خونی گُڑیا ہے میں نے ارادہ کر لیا کہ اج رات کسی بھی قیمت پر نہیں سونا رات
12 بجے جب میں سونے کی ایکٹنگ کر رہی تھی اور اندر سے مجھے ڈر بھی لگا ہوا تھا کہ پتہ نہیں مجھے کیا کچھ ہو
جائے گا میں چادر کے اندر سے دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اچانک گڑیا میرے ساتھ بستر سے اٹھی
میری طرف مسکرا کر دیکھا اور کمرے سے چل پڑی ۔
اس وقت میری وہ حالت تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں دل کر رہا تھا کہ کہیں بھاگ جاؤں کہیں جا کر
چھپ جاؤں دوبارہ اس گڑیا کو اب نہ دیکھو کچھ دیر گزری ہوگی جب گڑیا کمرے میں اگئی اور میرے بستر پر
ا کر میرے ساتھ لیٹ گئی مجھے لگ رہا تھا کہ میری سانسیں بد ہو جائیں گی ایک ایک لمحہ عذاب تھا پوری
رات ایک لمحہ بھی دعوے سو نہ سکی صبح ناشتے پر امی نے دیکھا کہ میری انکھیں سرخ ہیں انہوں نے
دھیرے سے مجھ سے پوچھا تو میں نے سارا واقعہ سنا دیا ابھی بھی لرز کر رہ گئی اب ہمیں سمجھ نہیں ارہی تھی
کہ کیا کرنا چاہیے کون تھا جو اس بات پر یقین کرتا سب ہمیں پاگل سمجھتے ۔
اس کا حل ہمیں ہی کرنا تھا اور ہم کسی کی مدد بھی نہیں لے سکتے تھے ایسے میں مجھے پاگل کی یاد ائی مجھے یقین
تھا کہ اس پاگل کو ضرور علم ہوگا اس مشکل سے نکلنے کاحل میں باہر نکلی تو تھوڑی دیر کے بعد مجھے وہی پاگل
نظر اگیا میں اس کی طرف لپکی اس نے حیران ہو کر مجھے اپنی طرف اتے دیکھا بے قریب جا کر روحان سی
اواز میں بولی اپ کو یاد ہے جب میں ایک گڑیا لائی تھی تو اپ نے اسے خونی گڑیا کہہ کر پکارا تھا اس نے سر
ہلا دیا میں نے اسے ساری صورتحال بتائی مگر اس کی انکھوں میں مجھے کوئی خوف اور حیرت نظر نہ ائی جیسے
سب کچھ تو وہ پہلے سے ہی جانتا ہو ظاہر ہے جانتا تھا تو اس نے مجھے خونی گڑیا کا کہا تھا نا میں نے اس سے مدد کی
درخواست کی اس نے کہا خونی گڑیا نے اب تک تم لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا اس کا مطلب ہے وہ تم
لوگوں پر مہربان ہے اس نے مجھے ایک عجیب و غریب سا چاقو دیا اور بولا میری بات دھیان سے سنو وہ خونی
گڑیا روز رات کو 12 بجے زندہ ہوتی ہے تمہیں بہت ہمت سے کام لینا ہے یہ چاکو اس وقت اس کے دل
میں کھوپڑا ہے جب وہ ابھی پوری طرح نہ زندہ ہو نہ۔
مردہ یعنی ابھی 12 پر گھڑی کی سوئی جائے اور ساتھ ہی یہ چاکو خونی گڑیا کےدل والی سائیڈ پہ گھوپ دینا ذرا
سی دیر بہت تباہی مچا دے گی اور ذرا سی پہل اسے ختم ہونے سے بچا لے گی وقت کی پابندی پر اس خونی گڑیا
کی موت اور تمہاری زندگی کا دارومدار ہے ۔
کر پاؤ گے اس طرح کیا میرے اعصاب تو لگتا تھا مفلوج ہو گئے دعوی اقرار کر سکتی تھی نہ انکار مگر اس کے
سوا اور کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں تھا میرے پاس اگر کامیاب ہو جاتی تو اس خون خرابے کو روک پاتی اور
اگر ناکام رہتی تو اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی پھرکم سےکم روز لاشیں دیکھنے سے تو بچ جاتی روز روز کے
مرنے سے بہتر تھا ایک بار ہی مر جاؤں یا سب کو مرنے سے بچا لو میں نے اس کے دیے ہوئے چاکو کو
مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں پکڑا اور واپس گھر اگئی۔
امی کو اس پاگل کی باتیں بتا دی امی حیرت سے سنتی رہی جب میری بات ختم ہو گئی تو امی بولی ہم انسان بھی
کمال ہیں جو لوگ ہم سے کئی درجہ زیادہ عقلمند اور سمجھدارہوتے ہیں ہم لوگ اسے ہی پاگل سمجھنے لگتے ہیں
حالانکہ یہ لوگ تو ظاہری طبیا کو کیا ہماری انکھوں سے اوجھل دنیا کی بھی خبر رکھتے ہیں یعنی باورائی حقائق
ہمارے سامنے اپنی زبان پر لاتے ہیں اور ہم ان کی گہری باتوں کو سمجھنے کے لائق نہیں ہوتے تو انہیں پاگل
کے نام سے منسوب کر ڈالتے ہیں۔
رات ہوتی جا رہی تھی اور ہمارا پل حق پر غضب ڈھاتے ہوئے ہمیں لرزا رہا تھا بے حسب معمول کمرے
میں اگئی وہ خونی گڑیا جس کا چہرہ مجھے اتنا حسین لگتا تھا کہ نظر ہٹانے کو دل نہیں کرتا تھا اج اس کی طرف
دیکھنے کا مجھ میں حوصلہ نہیں ہو رہا تھا دل خوف اور نفرت سے بھرا ہوا تھا وقت اہستہ اہستہ سے گزرتا جا رہا
تھا کبھی دل میں اتا کہ جلدی سے 12 بج جائیں اور کبھی دل دعا کرتا کہ بارہ کبھی بچے ہی نہ کبھی خوف مجھ پر
غالب انے لگتا اور کبھی ہمت مجھے حوصلہ دینے بیٹھ جاتی 11:30 بج چکے تھے اور میرے دل کی دھڑکن
اتنی تیز ایسا لگ رہا تھا کہ دل سینے کے اندر ہی پھٹ جائے گا۔
میرے کانوں میں میرے دل کی تیز دھڑکنے کی اواز صاف ا رہی تھی اسی کیفیت میں 11 بج کے 59 ہو
گئے میرے چاکو کو دونوں ہاتھوں میں بلند کر کے مضبوطی سے پکڑ لیا اور 11 بج کے 59 منٹ اور سیکنڈ کی
سوئی 59 پر گئی نا اسی لمحے میرے دونوں ہاتھوں نے تیزی سے نیچے کی طرف حرکت کی خونی گڑیا بے
زندگی کے اثار پیدا ہونے لگے اور اسی لمحے میرا چاکوخونی گڑیا کے دل کی طرف کو اتر گیا میری ایک چیز تھی
اور خونی گڑیا کی کئی بہاٹک بدلتی شکلیں اور چیخیں اور پھر اخر میں بستر پر کچھ بھی نہیں تھا نا ہی خونی گڑیا اور
ناہی وہ چاکو ۔
اگلے ہی پل امی میرے کمرے میں تھی انہوں نے مجھے اپنے ساتھ گلے سے لگا لیا انسو ان کی انکھوں سے
جاری تھی اور میری انکھیں بھی نم تھی ایک پاگل نے کتنے لوگوں کو موت سے بچا لیا تھا اگلے دن سب
حیران تھے کہ اج کوئی لاش نہیں ملی کچھ دن کے بعد سب کو سکون ہو گیا کہ اس خونی گڑیا سے ہماری جان
چھوٹ گئی ہے مگر اس خونی گڑیا کے ڈر نےسے علاقے کے لوگوں کو نیکی کی طرف مائل کر دیا تھا اب اس
سمیت بہت سارے بے نمازی لوگ نماز کی پابندی کرنے لگے تھے۔
کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔
اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔
اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔