Insan Se Naag Ban Gya

Insan Se Naag Ban Gya

Insan Se Naag Ban Gya

ہمارے شہر میں دو دوست رہتے تھے جن کے نام اصف اور اسلم تھے ایک دن وہ کسی کام کے سلسلے میں

دوسرے شہر جا رہے تھے دونوں کا تعلق ایک گاؤں سے تھا ریل گاڑی کے ذریعے سفر پر روانہ ہوئے تھے

وہ ریل گاڑی میں دوران سفر ایک دوسرے سے بات چیت کر رہے تھے اس وقت شام کے چھ بج رہے

تھے کہ آسمان بادلوں سے بھر گیا دیکھتے ہی دیکھتے زبردست گرج چمک کے ساتھ بارش برسنے لگی بارش

اتنی شدید ہو رہی تھی کہ ریل گاڑی بھی چلنے سے قاصر تھی اچانک ایک زوردار جھٹکے کے ساتھ ریل

گاڑی رک گئی ان دونوں نے گاڑی سے باہر دیکھا تو بارش بہت تیز اور موسلا دھار ہو رہی تھی تقریبا تمام

مسافر گاڑی سے اتر کر کسی محفوظ جگہ پر پہنچ چکے تھے ۔

یہ دونوں بھی گاڑی سے نیچے اتر کر کسی محفوظ جگہ کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھ رہے تھے کہ اچانک انہیں

ایک بوسیدہ سا مکان نظر آیا اصف نے کہا او اسلم اس مکان میں چل کر پناہ لیتے ہیں دونوں نے اپنا سامان

اٹھایا اور مکان کی طرف چل دیے جب وہ مکان کے اندر داخل ہوئے تو وہاں انہیں ایک بوڑھا ادمی بیٹھا

دکھائی دیا جو اگ کے سامنے بیٹھا ہاتھ سینک رہا تھا ان دونوں کو دیکھ کر وہ بزرگ بولا اؤ بیٹا مسافر لگ رہے

ہو تبھی اصف نے کہا جی بابا جان ہم دونوں گاؤں سے شہر کام کے سلسلے میں جا رہے تھے کہ اچانک ہی

بارش اگئی بابا ہمیں کچھ دیر کے لیے اپنے گھر میں پناہ دے دو ہم بارش کی ختم ہوتے ہی یہاں سے چلے

جائیں گے بابا نے انہیں کہا کیوں نہیں آگ کے قریب ا کر بیٹھو میں تم لوگوں کے لیے چائے بناتا ہوں تب

تک تم دونوں آرام کر لو انہوں نے دیکھا کہ یہ مکان کافی پرانا اور بوسیدہ ہے جگہ جگہ سے جالے لٹک رہے

ہیں بابا نے تھوڑی دیر کے بعد کھانا اس چائے کے ساتھ لا کر رکھ دیا جب وہ دونوں کھانا کھا رہے تھے تو بابا

نے انہیں بڑی عجیب و غریب نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا ۔

جب وہ دونوں ہی کھانے سے فارغ ہوئے تو بابا نے کہا اب تم دونوں ہی ارام کر لو کیونکہ سردی بڑھ گئی

ہے تم دونوں کے بستر لگا دیے گئے ہیں تم دونوں اوپر کے کمروں میں چلے جاؤ جب اصف اور اسلم دونوں

اوپر جا رہے تھے تو اصف کو خوف محسوس ہو رہا تھا کیونکہ یہ مکان انتہائی پوسیدہ تھا اور کچھ کچھ پر اسرار بھی

نظر ا رہا تھا اسلم تو بہت تھک چکا تھا وہ تو لیٹتے ہی سو گیا تھا مگر اصف کچھ خوفزدہ لگ رہا تھا اسے ڈر کے مارے

نیند نہیں ارہی تھی پھر اسے پیاس محسوس ہوئی وہ اٹھ کر پانی پینے کے لیے نیچے آیا اس نے پانی لینے کے لیے

نلکے کو کھولا تو اس میں سے پانی کی جگہ خون کے قطرے نکلنے لگے ۔

یہ دیکھ کر اصف کی زبردست چیخ نکل گئی چیخ اتنی زوردار تھی کہ اسلم کی انکھ کھل گئی وہ جلدی سے اٹھ کر

نیچے کی طرف بھاگا جہاں پر اصف ڈر کے ماری بے ہوش ہو گیا تھا اسلم نے اسے اٹھایا اسے آوازیں دی مگر

اسلم کیا جانتا تھا کہ اس کا دوست خود ایک آسیب بن چکا ہے اسی اثنا میں اصف نے انکھیں کھولیں اسلم کی

نظریں اس کی انکھوں کی طرف نہیں گئی جن میں صرف خون ہی خون اترا ہوا تھا اصف نے اسلم کو دیکھ کر

اطمینان کا سانس لیا اور اسے بتایا کہ نلکے میں پانی کی جگہ خون نکل رہا ہے تبھی اسلم نے کہا یار نلکے میں سے

تو پانی ہی نکل رہا ہے نہ جانے تم نے خون کہاں سے دیکھ لیا اصف نے دیکھا تو واقعی اب نلکے سے پانی نکل رہا

تھا یہ سب دیکھ کر دونوں دوست بہت خوفزدہ ہو گئے مگر پھر ہمت کر کے واپس اوپر اپنے کمرے میں آئے

اور آتے ہی سو گئے ۔

اب اصف کا ڈر ختم ہو چکا تھا کیونکہ بات کچھ اور تھی اصف خودایک آسیب بن چکا تھا رات کے پچھلے پہر

انہیں ایک زوردار چیخ سنائی دی اسلم کی انکھ کھل گئی تھی اس نے دیکھا اصف اپنے بستر پر موجود نہیں تھا اس

نے اصف کو اوازیں دی مگر اصف وہاں ہوتا تو جواب دیتا اس نے اسے بزرگ کو بھی آوازیں دینا شروع کر

دی مگر بابا یعنی وہ بزرگ بھی نظر نہیں آیا اخر وہ اصف اور اس کو اوازیں دیتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا مجھے

باہر ایا تو اسے ہر طرف ایک اچانک سا شور سنائی دیا ۔

پھر اس نے ایک طرف دیکھا ایک عورت بیٹھی رو رہی اور سامنے ہی ایک مرد لیٹا ہوا تھا اس کی گردن پر

دانتوں کے نشان تھے جیسے کسی نے اس کے سارے کا سارا خون پی لیا ہو یہ منظر دیکھ کر اسلم کو چکر سا ا گیا

اتنی دیر میں اس کی نظر اصف پر پڑی تھی جو اسے کچھ عجیب سا دکھائی دے رہا تھا اصف اسلم کو دیکھنے کی

بجائے اس مردہ شخص کو دیکھ رہا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اور اصف چیخنے لگ گیا اب تو رات بھی ہونے والی

تھی بارش بھی تھم چکی تھی ریل گاڑی کے دوسرے مسافر بھی اکٹھے ہو گئے تھے ۔

مردہ شخص کو دیکھ کر سبھی نے چیخنا چلانا شروع کر دیا کہ پولیس کو بلاؤں ان کے بلانے پر پولیس بھی وہاں

اگئی پولیس نے لاش کو اپنے قبضے میں لے لیا انسپیکٹر نے کہا یہ تو لگتا ہے کہ کسی نے اس کا خون نچوڑنے کی

کوشش کی ہے کیونکہ اس کا جسم سفید پڑ چکا ہے اب اپ لوگ بتا سکتے ہیں کہ کسی نے ایک ایسے شخص کو

دیکھا ہے جس نے اس شخص کی گردن پر نشان لگانے کی کوشش کی ہے تب ہی اس عورت نے روتے

ہوئے بتایا تھا کہ میرے بچے کا کھلونا کمرے سے باہر رہ گیا تھا یہ اٹھانے گئی تھی پھر باہر سے ایک چیخ سنائی

تھی میں وہاں گئی تو وہاں میں  نے شوہر کو مردہ حالت میں پایا۔

 اسلم نے اچانک اصف کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ تھی اسلم نے اسے آواز دی

تو اصف جیسے چونک گیا تھا مگر اب بھی اس کے سر پر ایک جنون سات طاری تھا وہ تو اگے بڑھ کر انسپیکٹر

کے سامنے کھڑا ہو گیا انسپیکٹر اس کی جرات مندی پر حیران رہ گیا تھا کیونکہ اصف کا لہجہ انتہائی مختلف تھا

اس کی انکھوں میں خون اترا ہوا تھا اس نے انسپیکٹر کا آگے بڑھ کر ہاتھ تھاما انسپیکٹر کو لگا جیسے اس کا ہاتھ

کسی اہنی پنجرے میں اگیا ہو اس نے درد سے کلبلا کر اصف کی طرف دیکھا جس کی انکھیں لال سرخ ہو

رہی تھی اسے اسنا میں اس نے ایک زبردست چھلانگ لگائی اور پولیس انسپیکٹر کی گردن پر دانت جما دیے

اسلم جو اصف کو جاتا دیکھ کر اس کے پیچھے آیا تھا وہ یہ منظر دیکھ کر دہشت زدہ ہو گیا ۔

کیونکہ اصف کے اندر اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ ایک پولیس والے کے آگے بڑھ کر بات کر سکے مگر اج وہ

ایک پولیس والے پر یوں مار دھاڑ کر رہا تھا جیسے وہ برسوں سے اس کام میں ماہر ہو اصف انسپیکٹر پر مکے برسا

رہا تھا جبکہ اسلم نے اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے بھاگنا ہی مناسب سمجھا تھا اتنے میں وہاں دوسرے

مسافر بھی آگئے تھے وہیں بزرگ جو انہیں ملے تھے وہ بھی وہاں آ گئے بولے یہ ایسے نہیں مانے گا تم اس پر

آیت الکرسی پڑھ کر پھونک مارو خود بخود ہی مر جائے گا تب ہی ایک پولیس انسپیکٹر نےاصف  کی طرف

دیکھا جو آبھی  بھی خوفخواہ نگاہوں سے سب کو دیکھ رہا تھا اس کی انکھوں میں غصہ دہشت اور نہ جانے کیا کیا

جذبات تھے۔

Insan Se Naag Ban Gya

 تبھی پولیس انسپیکٹر نے بزرگ کا بتایا ہویا وہ ورد پڑھا اور اصف پر پھونک مار دی دیکھتے ہی دیکھتے اصف

دردناک چیخ کے ساتھ زمین پر گر کر تڑپنے لگا کچھ دیر کے بعد شاہد وہ ختم ہو چکا تھا سبھی اُ سے مردہ سمجھ کر

وہاں سے جا چکی تھے۔

 اسلم جسے ابھی وہاں سے گئے ہوئے تھوڑی ہی دیر گزری تھی اس نے اپنے بچپن کے دوست کی لاش

دیکھی تو رونے لگا کیونکہ اس کا پیارا دوست ایک بھیانک بلا بن چکا تھا اتنے میں ریل گاڑی بھی چلنے کو تیار

ہو چکی تھی اور طوفان بھی تھم چکا تھا اسلم جب واپس ٹرین میں بیٹھا تو اس نے دیکھا کہ وہ بوسیدہ مکان

غائب ہو چکا تھا اس مکان کی جگہ پر ایک میدان تھا وہ بابا بھی شاید ایک بلا یا جن تھا جس نے اصف کو اپنے

اصف میں جکڑ لیا تھا اسلم کو اپنے دوست کی موت کا گہرا صدمہ تھا کیونکہ وہ اس کا بچپن کا دوست تھا اور یہ

اس سے بچھڑ چکا تھا اسے مردہ سمجھ کر استمس کے گھر والوں کے پاس گیا اور انہیں بتایا کہ اصف کی ایک

ناگہانی افت میں موت واقع ہو چکی ہے۔

 اس کے گھر والے بھی بہت روئے سبھی نے اسلم کو بھی اس معاملے میں قصوروار ٹھہرایا مگر پھر ناکافی شاہد

ہونے کی وجہ سے اسلم کو باعزت بری کر دیا گیا سب اس واقعے کو پھول بھال گئے تھے اس کے گھر والے

یعنی اصف کے ماں باپ بھی اس واقعے کو ایک برا خواب سمجھ کر بھلانے کی کوشش کر رہے تھے کسی کے

وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اصف زندہ ہوگا سبھی کو لگتا تھا کہ اب شاید اس کی لاش ہی گھر واپس ائے

بلکہ اب تو لگنے لگا تھا کہ اصف کا نام لیوا بھی کوئی نہیں ملے گا اور کسی کو اس کے بارے میں نہیں پتہ تھا۔

 تبھی ایک دن اصف کی ماں اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی کہ اسے دروازے پر کسی کی دستک کا اندیشہ ہوا اس

نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا سوچا کہ شاید اس کا پیارا بیٹا اگیا ہے کیونکہ وہ بھی تقریبا اسی وقت گھر ایا کرتا تھا

مگر اس کے بیٹے کی تو موت واقع ہو چکی تھی وہ اپنے اآنسو پونچ کر واپس سو گئی کہ شاید اپنے بیٹے کی یاد میں

بہت وہمی ہو گئی ہے مگر تھوڑی ہی دیر کے بعد جب دستک دوبارہ ہوئی تو اُسے کچھ شک پڑا وہ دھیمی دھیمی

دروازہ کھول کر باہر کی طرف گئی دروازہ کھولا جس پر ابھی تک بدستور دستک ہو رہی تھی۔

Insan Se Naag Ban Gya

 مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ دستک دو ابھی بھی ہو رہی تھی مگر دروازہ کھولنے پر سامنے کوئی بھی موجود

نہیں تھا خوف کے مارے اس نے دروازہ بند کیا اور واپس ا کر اپنے بستر پر سو گئی اسے کچھ کچھ اندیشہ تو ہونے

لگا تھا کہ کچھ ہے جو پرصرار ہے اور اس کی سمجھ سے بالاتر ہیں مگر یہ کیا تھا اس کی سمجھ میں کچھ نہیں ارہا تھا۔

 اصف کی ماں کو اب نیند کہانی تھی وہ مسلسل اپنے بیٹے کی یادوں میں کھوئی ہوئی تھی وہ سونے کی کوشش کر

ہی رہی تھی کہ اسے اپنے پاؤں پر کسی کے لنگز کا احساس ہوا وہ تڑپ کر اُٹھ بیٹھی سمجھا کہ شاید کسی کیڑے

مکوڑے نے کاٹ لیا ہے مگر وہ یہ دیکھ کر اپنے ہوش و حوا سے کھو بیٹھی کہ اس کی رضائی میں تقریبا چھ فٹ

لمبا ایک ناک بیٹھا ہوا تھا ناک کے پھنکانے کی آواز کمرے میں صاف سنائی دے رہی تھی اصف کی ماں نے

اپنے میاں کو جگانے کی کوشش کی مگر وہ گہری نیند سویا رہا۔

 یہ تو بعد میں عقد کھلا تھا کہ گھر والوں کو وہ ناگ نظر نہیں اتا تھا جو اصف کی ماں کو نظر آتا تھا اصف کی ماں

بتاتی ہے کہ ناک اس کے پاؤں سے لپٹ کر اسے اماں اماں بلاتا ہے اسے کیوں لگتا ہے کہ یہ اس کا بیٹا اصف

ہے اسے کیوں لگتا ہے کہ یہ اس کے بیٹے کا لمس ہے جو اس کے قدموں میں بیٹھ جایا کرتا تھا اب اصف کی

ماں اس ناک کو کھلاتی پلاتی ہے اسے اپنے ہی ساتھ سلاتی ہے وہ تو یہی کہتی ہے کہ میں اپنے بیٹے کے ساتھ

اپنے دن رات گزار رہی ہوں اس کی یاد میں ہوں مگر لوگ کہتے ہیں کہ اصف کی ماں پاگل ہو چکی ہے۔

 آپ لوگوں کی طرح مجھے بھی یقین نہیں تھا کہ یہ بات سچ ہے مگر ایک دن جب میں ان کے گھر گئی میں ان

کے گھر دودھ دینے جاتی تھی ہماری امی نے بھیس بکریاں رکھی ہوئی تھیں ہمارے گھر سے کافی دور گاؤں

کے گھروں کو جاتا تھا یہ لوگ بھی ہم سے ماہانہ تین ہزار روپے دودھ لے کر جاتے تھے میں ایک کلو کا دور

ڈبے میں بھر کر ان کے گھر لے گئی تو اصف کی ماں نے وہ ڈبہ مجھ سے لیتے ہی زمین پر گرانا شروع کر دیا

میں حیران ہو گئی کہ بڑھیا پاگل تو نہیں ہو گئی مگر یہ تو دیکھ کر میرے حواس باختہ ہو گئے کہ وہ دودھ زمین پر

گرنے کی بجائے فضا میں ہی غائب ہو رہا تھا میں نے اصف کی ماں سے گھبرا کر پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے تبھی

مسکرا کر بولی تمہیں نہیں پتا یہاں میرا بیٹا رہتا ہے وہ اور کچھ کھا بھی نہیں سکتا ظالموں نے اس کے دانت

تک توڑ دیے ہیں اب بس دودھ پیتا ہے یا پھر گوشت کا قیمہ اسے کھلا دیتی ہوں۔

 یہ کہہ کر اصف کی ماں مسکرانے لگی اس لمحے مجھے اس کا چہرہ اتنا بھیانک اور پراصرار سا لگا کہ میں وہاں چند

لمحے بھی ٹھہر نہیں سکی اور بھاگتی ہوئی گھر واپس اگئی اب اپ ہی بتائیے کہ کیا اصف کی ماں واقعی اپنے بیٹے

کے ساتھ رہتی ہے یا پھر جو میں نے دیکھا وہ بھی فہم ہے یا پھر کوئی جادوگری ہے کیونکہ ایک شخص جو مر

چکا ہے وہ ناک کے روپ میں واپس کیسے آ سکتا ہے اس امر کی مجھے اج تک سمجھ نہیں آتی۔

کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment