Bhayanak Raat

Bhayanak Raat

Bhayanak Raat

 

اسلام علیکم اُمید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے ۔

آج کی کہانی میں خوش آمدید

مجھے سردیوں کی وہ بھیانک رات آج بھی یاد ہے جس رات میری دادی جان کی طبیعت بہت خراب تھی

ہم سب گھر والے ان کے پاس پریشان بیٹھے ہوئے تھے ڈاکٹر نے ہمیں ان کی صحت کے حوالے سے

جواب دے رکھا تھا کئی مہینوں سے ان کا علاج چل رہا تھا مگر بیماری ایسی تھی جو لاعلاج تھی اس لیے

ڈاکٹروں نے جواب دے دیا اور ہم پچھلے دو ہفتے سے گھر میں ہی ان کی خدمت میں مصروف تھے۔

 دادی جان کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ ہم گھر والے رو رہے تھے ابا جان بھی پریشان بیٹھے

ہوئے تھے وہ ان کے سرہانے بیٹھ کر ان کا ہاتھ تھامے انہیں دیکھ رہے تھے اور ان کی انکھوں سے آنسو

جاری تھے دفعتادی نے ایک ہچکی لی اور ان کی روح قفس انصری سے پرواز کر گئی آبا جان دھاڑے مار مار کر

رونے لگے امی اور گھر والے سب اداس تھے رات کا وقت تھا اور سردیوں کے دن تھے 10 بج رہے تھے

کافی دیر جب گھر والے روتے دھوتے رہے تو اس پڑوس کے لوگ بھی اکٹھے ہو گئے گاؤں کے لوگوں نے

آبا جان اور گھر والوں کو تسلیاں دینی شروع کر دیں اور بولے بھائی جی جنازہ تو اب صبح ہی ہوگا لیکن اپ کے

رشتہ داروں کو اطلاع کرنا ضروری ہے آبا جان نے روتے ہوئے کہا ہمارے رشتہ دار تو فرید نگر میں ہیں

ایاز کو میں بھیج دیتا ہوں۔

 میں ان دنوں میٹرک کر کے فارغ ہوا تھا اور میری عمر 16 کے قریب تھی اس وقت رات کے ٹائم

سواری ملنا ممکن نہیں تھا گاؤں والا نے کہا کہ چوہری صاحب سے بات کرتے ہیں وہ اپنی گاڑی میں ایاز کو

بھیج دیں گے چوہری صاحب کے گھر سے پتہ کیا تو پتہ چلا ان کی گاڑی پچھلے دو دن سے خراب تھی ابا جان

کہنے لگے ایاس تم خود ہی چلے جاؤ امید ہے کہ کوئی نہ کوئی بس یا لاری تمہیں مل جائے گی ابا جان کا حکم با کر

میں گھر سے نکل آیا گاؤں کی ویران گلیوں میں کہیں کہیں کتے کے بھونکنے کی آوازیں ارہی تھی مجھے ذرا

برابر بھی خوف نہیں تھا۔

 کیونکہ ساری زندگی میں اسی گاؤں میں کھیل کود کر جوان ہوا تھا میں چلتا چلتا گاؤں سے باہر اگیا پکی سڑک

گاؤں سے باہر کچھ فاصلے پر تھی میں سڑک پر اگیا یہ 80 کی دہائی کا زمانہ تھا اس وقت ٹرانسپورٹ ویسے بھی

کم تھی اس وقت کسی بس یا سواری کا ملنا تقریبا ناممکن تھا مگر پھر بھی ایک امید تھی کہ شاید سواری مل

جائے کچھ دادی جان کے مر جانے کا بھی مجھے بہت افسوس تھا اور بار بار آنکھوں سے آنسو جاری ہو رہے

تھے مجھے وہاں کھڑے کافی دیر ہو گئی مگر کوئی بس نہیں آئی فرید نگر کا فاصلہ وہاں سے تقریبا 20 کلومیٹر تھا

جو میرے لیے پیدل طے کرنا ناممکن تھا پھر میں کچھ سوچ کر فرید نگر کی طرف منہ کر کے سڑک پر ہی

پیدل چلنے لگا کہ چلو جتنی دیر تک سواری ملے میں کچھ نہ کچھ پیدل سفر طے کر لوں جنازہ تو صبح ہونا تھا مگر

سب رشتہ داروں کو بروقت اطلاع دینا ضروری تھا ہمارے تایا جان بہت جھگڑالو قسم کے تھے اگر انہیں

وقت پر اطلاع نہ ملتی تو صبح ہمارے خاندان میں واویلا کھڑا ہو جاتا چلتے چلتے میں کافی دور تک اگیا۔

 اتنے میں پیچھے مجھے کسی گاڑی کی ہیڈ لائٹس نظر ائی میں نے دیکھا دور سے دونوں ہیڈ لائٹس دیے کی طرح

مدہم نظر ارہی تھی اور پھر آہستہ آہستہ وہ گاڑی قریب اتی چلی گئی جب پاس آئی تو دیکھا وہ ایک ٹرک تھا

میں نے اسے رکنے کا اشارہ کیا کہ شاید اس وقت ٹرک سے ہی لفٹ مل جائے وہ مجھ سے چند قدم دور جا کر

رک گیا میں دوڑتا ہوا ساتھ والی کھڑکی پر پہنچا اور پائدان پر پاؤں رکھ کر اوپر چڑھ گیا دروازہ کھولا اور دیکھا

ایک ادھیڑ عمر کا ڈرائیور بیٹھا تھا۔

 بزرگوار مجھے فرید نگر تک لفٹ چاہیے اس وقت کوئی سواری نہیں مل رہی ہے اس نے سگریٹ کا کش

لگاتے ہوئے مجھے اندر انے کا اشارہ کیا میں نے شکریہ ادا کیا اور اندر بیٹھ کر دروازہ بند کر دیا وہ کوئی 60 سال

کے قریب عمر کا آدمی تھا سگرٹ کے کش پر کش لگائے جا رہا تھا اس نے سٹیرنگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے ٹرک

آگے بڑھایا اور بولا خیریت ہے اس وقت فرید نگر کیوں جا رہے ہو اس نے پوچھا تو میں نے اسے دادی جان

کی وفات کے بارے میں بتایا وہ افسوس کرنے لگا ابھی گاڑی تھوڑی ہی دور چلی ہوگی کہ اس نے ٹرک

آہستہ کر کے سڑک پر روک دیا اور دل پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگا میری کچھ طبیعت خراب ہو رہی ہے مجھے فکر

لاحق ہوئی کہنے لگا مجھے پانی پلاؤ اس نے پیچھے کی طرف اشارہ کیا میں نے دیکھا ایک پانی کی بوتل پڑی تھی

میں نے اٹھا کر بوتل کا ڈھکنا کھول کر اسے دیا اس نے بوتل منہ سے لگا لی اور پانی پینے لگا۔

 اور تھوڑی ہی دیر میں غٹا گٹ پانی چڑھا گیا پانی چڑھانے کے بعد اس نے کچھ سانس لیا اور پھر دوبارہ ٹرک

سٹارٹ کر کے آگے بڑھا دیا ابھی ہم کچھ دور ہی چلے ہوں گے کہ اچانک اس نے پھر سینے پر ہاتھ رکھا ٹرک

چونکہ اپنی پوری رفتار سے بھاگ رہا تھا اس لیے سٹیرنگ اس سے سنبھالنا مشکل ہو گیا میں اچانک اس

مصیبت پر گھبرا گیا اور اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھتا ڈرک لڑکھڑاتا ہوا سڑک سے بائیں جانب نیچے اتر گیا

اور سامنے دھڑم سے ایک درخت سے جا ٹکرایا ادھیڑ عمر ڈرائیور کو دل کا شدید دورہ پڑا تھا میرا سر زور سے

ٹرک کے ڈیش بورڈ سے ٹکرایا اور پھر میرا دماغ اندھیرے میں ڈوبتا چلا گیا نہ جانے میں کتنی دیر تک بے

ہوش رہا جس وقت مجھے ہوش آیا میں ٹرک میں بے سود پڑا ہوا تھا اور ساتھ میں نے نکاح دوڑائی تو ڈرائیور سٹیرنگ پر سر رکھے ہوئے تھا وہ مر چکا تھا اس کی انکھیں کھلی ہوئی تھیں اور اس وقت اس کا چہرہ بہت

خوفناک محسوس ہو رہا تھا۔

 رات کے آدھائی کا وقت ہو گا  میں نے گھڑی پر دیکھا شدید ضرب کی وجہ سے مجھے سخت تکلیف ہو رہی تھی

میرا سر بری طرح زخمی ہوا تھا اس کے مرنے کا مجھے بہت افسوس تھا میں نے اسے ہلا جلا کر دیکھا اس کی

نبض بھی چل نہیں رہی تھی مجھے اس کے مرنے کا بہت افسوس ہوا تھا میں کچھ دیر سوچتا رہا کہ مجھے کیا کرنا

چاہیے میں نے نیچے اترنے کا ارادہ کیا میں جو ہی نیچے اترنے لگا میں یہ دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا کہ اس کی لاش نے

میری کلائی پکڑ رکھی تھی خوف سے میرا جسم کام کر رہ گیا میں نے کلائی چھڑانی چاہی تو اس کی گرفت میری

کلائی پر اور مضبوط ہو گئی اس کا سر اسی طرح بدستور سٹیرنگ پر رکھا ہوا تھا اور بے جان نظر آرہا تھا مگر اس

نے اپنے ہاتھ سے میری کلائی مضبوطی سے پکڑ رکھی تھی میں زور لگاتا رہا مگر کلائی اس کے ہاتھ سے نہیں

چھڑا سکا اس کا ہاتھ اتنا ٹھنڈا اور سرد تھا کہ مجھے عجیب سا لگا میں خوف سے کانپنے لگا میں زور زور سے اپنا ہاتھ

چھڑانے کی کوشش کرنے لگا اس کا مردہ جسم اور اس کی انکھیں بہت خوفناک لگ رہی تھی خوف سے

میرے منہ سے چیخ نکل گئی اور پھر میں نے کلمہ پاک کا ورد شروع کیا اور زور کا جھٹکا لگایا نہ جانے مجھ میں

اتنی طاقت کہاں سے اگئی کہ میرے زور لگاتے ہی میں اچھل کر ٹرک سے باہر گر پڑا۔

 میں فورا اٹھ کھڑا ہوا اندر اس کی لاش ویسے ہی بدستور پڑی ہوئی تھی میں بھاگ کر ٹرک کی دوسری طرف

آگیا اور سڑک کی طرف دوڑ لگا دی میں سڑک پر پہنچ کر کھڑا ہو گیا اور ٹرک کی طرف دیکھنے لگا اچانک اس کا

چہرہ مجھے کھڑکی سے نمودار ہوتا دکھائی دیا اور اس کی آنکھوں میں سرخ انگارے دیکھ کر جیسے میری روح فنا

ہو گئی وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا میں فورا سڑک کی طرف دوڑنے لگا دوڑتے دوڑتے میں نے پیچھے مڑ کر

دیکھا وہ ٹرک سے نیچے اتر رہا تھا میرے اندر اتنا خوف سما گیا کہ میں بتا نہیں سکتا یہ اچانک زندہ کیسے ہو گیا

میں نے خود دیکھا تھا کہ اس کی نبض بند تھی وہ مر چکا تھا پھر اس کی لاش اچانک زندہ کیسے ہو گئی وہ آہستہ

آہستہ کسی ریبوٹ کی طرح سڑک کی طرف آ رہا تھا میں جتنی تیز دوڑ سکتا تھا دوڑنے لگا دوڑتے دوڑتے

میں کافی دور تک نکل آیا میرا سانس بری طرح پھولا ہوا تھا ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے میرا دل سینا پھاڑ کر باہر

نکل آئے گا میں ایک جگہ کھڑا ہو کر ہانپنے لگا اچانک مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میرے پاس کوئی زور سے

سانس لے رہا ہو میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا مگر کوئی نہیں تھا ۔

Bhayanak Raat

 

پھر میں اگے بڑھنے لگا لاش کا خوف ابھی تک مجھ پر سوار تھا اور پھر میں نے دور سے دیکھا وہ سڑک کے

بجائے نیچے کھیتوں میں ہی میری طرف بڑھ رہا تھا میں بڑا حیران ہوا میں اس سے بہت دور آ چکا تھا اور جس

رفتار سے وہ چل رہا تھا اتنی دیر میں وہ مجھ تک نہیں پہنچ سکتا تھا میں نے پھر دوڑنا شروع کر دیا دوڑتے

دوڑتے میرا برا حال ہو گیا اور پھر ایک جگہ میں بے دم ہو کر وہیں سڑک پر گر پڑا اور زور زور سے سانسیں

لینے لگا اچانک مجھے دور سے گاڑی کی لائٹ نظر ائی میں فورا اٹھ بیٹھا ایسا نہ ہو کہ اندھیرے میں کوئی گاڑی

میرے اوپر ہی چڑھ جائے میں سڑک کے درمیان میں کھڑا ہو گیا دور سے آتی ہوئی گاڑی اتنی تیز رفتاری

سے آ رہی تھی مجھے دیکھ کر دور سے ہی وہ آہستہ ہو گئی اور پھر میرے قریب آ کر رک گئی میں جلدی سے

دوڑ کر ڈرائیونگ سیٹ کی طرف بڑھا اور دیکھا ایک بوڑھا ادمی سر نکال کر پوچھنے لگا کون ہو بھائی اور

سڑک کے درمیان کیا کر رہے ہو تمہارا دماغ خراب تو نہیں اگر مرنا ہی ہے تو کیا میری گاڑی کے نیچے ہی اؤ

گے۔

 بزرگوار میری مدد کیجئے مجھے لفٹ چاہیے میں نے کہا تو وہ بزرگ ادمی میری طرف حیرت سے دیکھنے لگا گویا

وہ شش و پن میں ہو کہ مجھے اقرار کرے یا انکار اچانک اس کے ساتھ بیٹھی ہوئی بوڑھی عورت نے نیچے

سے جھانک کر میری طرف دیکھا اور کہنے لگی مدد کر دو بیچارے کی بیچارہ اس وقت کہاں جائے گا اس کی

بات سن کر میرا حوصلہ بڑھا اور میں نے کہا آپ کو خدا اور رسول کا واسطہ میری مدد کیجئے میں مشکل میں

ہوں بوڑھا کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر بولا چلو پیچھے بیٹھو میں فورا کار کا دروازہ کھول کر پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا میں

نے پچھلے شیشے سے دیکھا وہ مجھے نظر نہیں آیا بوڑھے آدمی نے گاڑی اگے بڑھا دی کہنے لگا کیا میں پوچھ سکتا

ہوں اس وقت رات کے اس پہر تو مس ویرانے میں کیا کر رہے تھے بوڑھے نے پوچھا تو میں نے اسے

اپنی دادی کی فوتگی کا بتایا اور مجبوری بتائی کہ سواری نہ ملنے کی وجہ سے مجھے پیدل ہی سفر کرنا پڑا اور یہاں

تک ا کر میں خوفزدہ ہو گیا۔

 مگر میں نے اپنے ساتھ پیش انے والا ٹرک والا واقعہ اسے نہیں سنایا میں نے صرف اتنا بتایا کہ مجھے تنہا

سڑک پر ڈر لگ رہا تھا شاید اگر میں اس ٹرک والے واقعے کا ذکر کرتا تو وہ مجھے مشکوک جان کر وہیں اتار

دیتے کچھ دیر بعد فرید نگر کا سٹاپ ایا تو انہوں نے مجھے وہیں اتارا میں ان کا شکریہ ادا کر کے تایا جان کے گھر

کی طرف بڑھا ابھی فجر کی اذان ہونے میں کچھ وقت باقی تھا تایا جان کا دروازہ پیٹنے لگا انہوں نے تھوڑی دیر

کے بعد دروازہ کھولا مجھے دیکھ کر حیران رہ گئے وہ نماز  کے لیے اُٹھے ہوئے تھے میں نے انہیں دادی جان

کی فوتگی کا بتایا جسے سن کر وہ زار و زار رونے لگے بڑے پریشان تھے مجھے اندر لے گئے اور پوچھنے لگے کہ تم

رات میں یہاں کیسے پہنچے۔

Bhayanak Raat

 میں نے انہیں بتایا کہ گاڑی والے نے مجھے لفٹ دی ٹرک والے واقعے کا ذکر میں نے ان سے نہیں کیا

تایاں جان اور ان کے گھر والے کہنے لگے کہ نماز کے بعد ہم اکٹھے چلیں گے دادی کی وجہ سے سب گھر

والے پریشان ہو گئے تھے نواز کے بعد ہم نے تھوڑی دیر کے لیے ارام کیا اس دوران تایا کے بیٹے کو میں

نے اپنے ساتھ پیش آنے والا سارا واقعہ سنایا جسے سن کر وہ بڑا حیران اور خوفزدہ ہوا صبح کا اجالا پھیلتے ہی تایا

جان ان کی فیملی اور ہم سب اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوئے راستے میں میں نے اسی جگہ دیکھا کہ کچھ

لوگ ٹرک کے قریب کھڑے تھے اور ٹرک کو رسیوں سے باندھ کر سڑک پر لانے کی کوشش کر رہے

تھے ٹرک کا اگلا حصہ پوری طرح تباہ ہو چکا تھا مگر اس ادمی کی لاش کہیں اس پاس نہیں تھی اس لاش کا

کہیں عطا پتہ نہیں تھا خدا جانے ان لوگوں کو لاش ملی کہ نہیں میں واپس اپنے گھر آیا دادی جان کا جنازہ ادا

ہوا اور انہیں دفنا دیا گیا اگلے دن مجھے اپنے گاؤں سے اطلاع ملی گاؤں کے لوگ باتیں کر رہے تھے کہ پاس

یہ ایک رات کو ٹرک کا حادثہ ہوا تھا مگر عجیب بات تھی کہ ٹرک سارا تباہ ہو گیا۔

 مگر ٹرک ڈرائیور کا کہیں عطا پتہ نہیں چلا شاید وہ بچ گیا یا نہیں اگر وہ مر گیا تو پھر اس کی لاش کہیں نہیں تھی

اور اس کے بچنے کے چانس نہیں تھے سب گاؤں والے حیران تھے میں ان کے منہ سے یہ بات سن کر ہی

خاموش ہو گیا میں ان میں سے کسی کے ساتھ اس واقعے کا ذکر نہیں کرنا چاہتا تھا مگر اس دن کے بعد میں

نے کسی قیمت پر رات کے پہر گھر سے نکلنے سے ہمیشہ کے لیے توبہ کر لی۔

کیسی لگی اپ کو آج کی کہانی کمنٹ باکس میں ضرور بتائیں ملتے ہیں اگلی کہانی  میں تب تک کے لئے اللہ حافظ

کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment