Maan Ny He Beti Ka Ghar Tabah Kia

Maan Ny He Beti Ka Ghar Tabah Kia 

Maan Ny He Beti Ka Ghar Tabah Kia

 

اسلام علیکم اُمید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے ۔

آج کی کہانی میں خوش آمدید

اپا کی صورت لاکھوں میں ایک تھی کسی کی شادی میں حسن بھائی نے دیکھا تھا تب اسے من میں بسا لیا اور

امی کے پاس سے رشتہ بھیجا امی کو گھر داماد کی ضرورت تھی ہمارے والد صاحب وفات پا چکے تھے اور بھائی

چھوٹے تھے گھر میں کوئی مرد موجود نہ تھا اورہمیں  سہارے کی ضرورت تھی ہم معاشی طور پر خود کفیل

تھے والد صاحب دو دکانیں اور ایک مکان چھوڑ گئے تھے جن کے کرائے پر گزر بسر ہو رہی تھی حسن

بھائی بھی اکیلے تھے ان کے والدین وفات پا چکے تھے ان کی بوپی نے انہیں پالا تھا اور شادی بھی انہوں نے

کروائی وہ امی کی پرانی واقف کار تھی انہوں نے حسن بھائی کو سمجھایا کہ اب تمہیں میری اور مجھے تمہاری

ضرورت نہیں ہے میری اپنی اولاد موجود ہے تم اپنا گھر بساؤ جب یہ بات دولہا بھائی کی سمجھ میں ائی انہوں

نے گھر داماد بننا قبول کر لیا ۔

کیونکہ ان کے خیال میں یہ ہم بے سہارا لوگوں کے لیے نیکی تھی انہوں نے شادی کے بعد میری ماں کو حج

بھی کروایا جب وہ حج پر جا رہی تھی تو بہت خوش تھی سچے کہ اتنا اچھا داماد قسمت واروں کو ملتا ہے امی جان کو

اب میری فکر تھی دلہا بھائی کے جاننے والے سعودی عرب میں تھے انہوں نے امی جان کو اپنی ایک

واقف فیملی سے ملوایا ان کا بھانجا کاشف بہت اچھا تھا اور روزگار کے سلسلے میں وہم و قیم تھا حج کے دوران

کاشف نے امی جان کی بہت خدمت کی اور ان کا دل جیت لیا امی کو بھی وہ پیٹوں جیسا لگا انہوں نے کاشف

سے وعدہ لیا کہ جب تم پاکستان اؤ تو میرے پاس ضرور آنا چھ ماہ بعد وہ پاکستان آیا تو ہمارے گھر بھی آیا مجھے

یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اتنا مالدار اور اعلی تعلیم یافتہ انسان کس قدر سادہ اور نیک دل ہے اس میں ذرا بھی

بناوٹ نہیں تھی۔

 جب امی جان نے اپنی مجبوریاں بتا کر اس کو داماد بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تو وہ سوچ میں پڑ گیا امی کو

میرے رشتے کی فکر دن رات کھائے جا رہی تھی اس نے وعدہ کیا کہ وہ اس معاملے میں ہمدردی سے

سوچے گا لیکن فیصلہ کرنے کے لیے اُسے تھوڑا سا وقت چاہیے تھا امی ان دنوں بہت مضطرب تھی چاہتی

تھی کہ کسی طرح کاشف کو راضی کر لیں اور وہ نکاح کر کے ہی جائے وہ ہر طرح سے اس کا دل مٹھی میں

رہنا چاہتی تھی کاشف 15 روز ہمارے گھر ٹھہرا اس دوران والدہ نے اس کی ایسی اؤ بھگت کی کہ میں سوچ

بھی نہ سکتی تھی ماں میری خاطر کسی کی اتنی خوشامد کر سکتی ہے میں سمجھتی تھی کہ وہ صرف اپا سے پیار کرتی

ہیں امی ایک جہاں دیدہ عورت تھی وہ اس معاملے کو راز میں رکھنا چاہتی تھی امی نے حسن بھائی سے اس

بات کو چھپا لیا اور کاشف سے بھی کہا کہ ابھی کسی سے تذکرہ نہ کریں 15 روز بعد امی نے کاشف کو فون کیا

بیٹا میں دل کی مریضہ ہوں میری زندگی کا بھروسہ نہیں تم جلد مجھے بتاؤ کہ تم نے کیا فیصلہ کیا ہے میں بیمار

ہوں مجھے تاخیر سے پریشانی ہوگی بہتر ہے تم ہاں یا نہیں جو بھی کہنا ہے ابھی کہہ دو تاکہ میں امید میں نہ رہو

میں بے اسرا عورت ہوں چاہتی ہوں مرنے سے پہلے جوان بیٹی کا بوجھ کندھوں سے اتار دو۔

 امی نے کچھ اس طرح رکت سے بات کہی کہ کاشف کو ہاں کہتے ہی بنی اس وقت لوہا گرم تھا چوٹ لگانے

سے کام بن گیا ہمدردی کے جذبات سے سرشار اس نوجوان نے ایک مجبور بیوہ کا دل رکھ لیا امی نے اسے

اتنی مہلت بھی نہ دی کہ وہ اپنے والدین کو آگاہ کر سکتا امی کا خیال تھا اس طرح وہ کاشف کی شادی میں

رکاوٹ ڈال دیں گی امی کی کاوشیں رنگ لائیں میری انن فانن شادی ہو گئی یہ شادی صیغہ راز میں رہی وہ

جدہ روانہ ہو گئے تین ماہ بعد آنے کا وعدہ کر کے امی نے سکون کا سانس لیا اب میں سہاگن تھی اور میری

ماں پھولی نہیں سماتی تھی وہ بڑے فخر سے کہتی کہ مجھے دونوں داماد ایسے ملے ہیں جو میرے گھر کو اپنا گھر

سمجھتے ہیں ماں کی بات درست تھی ۔

حسن بھائی نے اپنوں کو ہماری خاطر چھوڑ دیا تھا اور اب کاشف بھی اپنے والدین سے کٹے ہوئے تھے امی

جان نے ایک بات اچھی طرح میرے ذہن میں بٹھا دی تھی کہ سسرال والوں کو زیادہ لفٹ نہیں کرانا

ورنہ وہ تیرے میاں کی کمائی لوٹ کر کھا جائیں گے میں ان دنوں 17 برس کی تھی عقل سے نہیں سوچتی

تھی جو ماں کہتی میں اس پر بنا چوم چرا عمل کرتی تھی امی جان نے مجھے سکھا دیا تھا کہ ساس سسر کے خطوط

شوہر تک نہ پہنچنے دینا وہ اگر رہنے آجائیں تو ان کے ساتھ سیدھے منہ بات نہ کرنا ورنہ وہ تمہارے گلے پڑ

جائیں گے ٹھیک تین ماہ بعد کاشف جدہ سے لوٹے انہوں نے والدین کو بتا دیا تھا کہ وہ شادی کر چکے ہیں

والدین کی آرزو تھی کہ بیٹے کا سہرا دیکھیں لیکن پتہ چلا کہ بیٹے نے ان کو اپنی خوشی میں شامل کیے بغیر ہی

یہ کام کر لیا ہے تو سخت عارض ادا ہوئے تا مجھے دیکھتے ہی ان کی تمام آرزدگی ختم ہو گئی تبھی انہوں نے مجھے

ڈھیر ساری دعائیں دیں اور سونے کے زیورات بھی دیے میری ساس کی ارزو تھی کہ بیٹے کی اچھی سی بری

بناتی اور دھوم دھام سے بہو کو بیاہ کر لاتی انہوں نے یہ آرزو بھی پوری کر لی مجھے خود بازار لے جا کر بہت

عمدہ جوڑے خرید کر دیے مٹھائی بانٹی غرض اپنی خوشی پوری کی میں مانتی ہوں کہ میں ان دنوں بہت

نادان تھی ساس سسر اور ان کے گھر والوں کا حسن سلوک بھی میرے دل کو موم نہ کر سکا زیادہ پڑھی

لکھی نہ تھی جو ماں نے اسے کھا پڑھا دیا وہی میرے دل پر زیادہ پڑھی لکھی نہ تھی جو مانے سے کھا پڑھا دیا

وہی میرے دل پر پتھر کی لکیر ثابت ہوا۔

 سسرال میں 15 دن میں شہزادیوں کی طرح رہی پھر ہم جدہ روانہ ہو گئے جب میں روانہ ہونے لگی ساس

مجھے گلے لگا کر رونے لگی کہا بیٹی ہمارا دل تو سے لگ گیا تھا تیرے آنے سے رونق ہو گئی تھی اور تیرے

جانے سے ہمارا گھر سونا ہو گیا ہے وہاں جا کر خط لکھنا ہمیں بھول نہ جانا ساس ماں کی جگہ ہوتی ہے ان کے

احساسات کو میں نہ سمجھ سکی ان کی محبت کو خوش آمد جانا ان کے آنسوؤں اور دعاؤں کی قدر نہیں کی جدہ

میں میرے خاوند اعلی عہدے پر فائز تھے میں نے اتنی سہولتیں خواب میں بھی نہ دیکھی تھی میں بہت

خوش قسمت تھی میری تقدیر کھل گئی تھی کاشف میرا بہت خیال کرتے تھے وہ نجی خطوط گھر کے پتے پر

منگواتے تھے لہذا میں ان کے والدین کے خطوط کھول کر پڑتی اور پھاڑ دیتی ان کو نہ بتاتی کہ ان کے والدین

اداس ہیں یا ان کو کوئی تکلیف ہے 10 سال ہم جدہ میں رہے ہم تین بار پاکستان آئے لیکن میں سسال نہ

گئی  میں نے کاشف کو مجبور کیا کہ وہ میری والدہ کے پاس ٹھہرے اپنے والدین سے ملنے وہ ایک دو بار

سرسری طور پر ہی گئے تھے۔

Maan Ny He Beti Ka Ghar Tabah Kia

 اب میں چار بچوں کی ماں بن چکی تھی ان کو بھی میں ددیال نہ جانے دیتی تھی یہ میری والدہ کی منشا تھی ان کا

خیال تھا کہ بچے دادا دادی سے دور رہیں ورنہ وہ لوگ بچوں کی محبت کا بہانہ بنا کر ہمارے گھر گھسنے کی

کوشش کریں گے انسان خطا کا پتلا صحیح لیکن جب رونق حد سے بڑھ جائے خدا کی بے آواز لاٹھی اس کے

سر پر عالت دی ہے تب اسے ہوش آ جاتا ہے کہ دوسرے انسانوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں سکھ کے دن

تھوڑے ہوتے ہیں میری بادشاہی بھی اس دن ختم ہو گئی جس دن کاشف کی کار حادثے کا شکار ہو گئی اور وہ

ناگہانی اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے سارے چراغ یکلخت گل ہو گئے میرے چار سو آندھیرا پھیل گیا

میں تیار غیر میں تنہا اور غیر محفوظ ہو گئی ایسے برے وقت میں کاشف کے چند دوست کام آئے انہوں نے

میرے اور بچوں کے پاکستان جانے کا انتظام کیا اور جو رقم کمپنی نے دینی تھی وہ بھی ان کی بھاگ دوڑ کی وجہ

سے مجھ کو مل گئی میں جتنی عرصے جدہ رہی ہمیشہ واردہ اور بھائیوں کو تحفے دہائف اور رکوم بھجواتی رہی

واردہ کا گھر حقیقتا میرے خاوند کی کمائی سے چلتا تھا اب مجھ پر برا وقت آگیا تو میں نے میکے کی طرف دیکھنا

تھا میری آؤ بھگت ہوئی بھائیوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور ماں نے بھی پذیرائی وہ رقم جو کمپنی والوں نے ادا کی

تھی وہ تمام والدہ نے لے لی کہ تمہارے سسرال والوں کو پتہ چل جائے گا تو وہ اس رقم کے دعویدار بن

جائیں گے لہذا یہ پیسہ تم میرے نام جمع کروا دو رقم ماں نے بڑے بیٹے کے نام جمع کروا دی۔

 اب بھائی مجھے ہر ماہ قلیل رقم بچوں کے خرچے کے لیے دیتے تھے بچے عیش و آرام میں پلے تھے انہوں

نے تنگی نہیں دیکھی تھی اب ان کو یہ دن دیکھنے پڑ رہے تھے وہ چھوٹی چھوٹی خواہشات کے لیے ترس رہے

تھے میرے ساس اور سسر ایک بار ملنے آئے تو والدہ نے بچوں کو اپا کے پاس بھجوا دیا اور ان سے ملاقات

نہیں کروائی خود بھی نہ ملی اور مجھے بھی کہا کہ زیادہ لفٹ کرانے کی ضرورت نہیں جس کے ساتھ ناتا تھا

جب وہی نہیں رہا ہے تو اب ان لوگوں کی کہاں گنجائش ہے۔

 وہ سیدھے سادھے شریف لوگ تھے بہو ہماری مدد کی ضرورت ہو تو حاضر ہیں بلا تکلف بتا دینا کہ تمہیں کیا

چاہیے امی نے مجھے بعد میں سمجھایا کہ یہ تمہارا دل جیتنے کو ایسا کہہ رہی ہے ان کو پتہ ہے کہ تم کو کمپنی سے

کافی پیسہ ملا ہے تم اب لاکھوں کی اسامی ہو امی کا کنٹرول میرے دل و دماغ میں بچپن سے تھا ماں قابل

احترام ہستی ہے مجھے ان کی برائی مقصود نہیں لیکن کبھی کبھی یہی ہستی بڑی ظالم ہو جاتی ہے جب اپنے

بیٹوں کی خاطر خود غرض بن جاتی ہے اور بیٹی کا حق غضب کر لیتی ہے امی بیٹے کے لیے اونچے گھروں میں

رشتہ تلاش کر رہی تھی تاکہ ان کو مضبوط سہارا مل جائے بھائی سارا دن امی کے ساتھ میری گاڑی پر چڑھے

پھرتے اور میرے بچے پیدل سکول جاتے میں چپ تھی اف تک نہیں کر سکتی تھی ماں جیسا چاہتی تھی ویسا

کرتی تھی انہوں نے ایک خوشحال گھرانے میں بڑے بھائی کا رشتہ کر دیا زیور اور بری سب میرے پیسوں

سے بنایا گیا اور دلہن کا کمرہ سجا دیا گیا گھر کی دوبارہ تعمیر بھی کروائی اچھے گھر والوں میں رشتے ہوں تو خرچے

بھی اچھے کرنے پڑتے ہیں بھائی کی شادی پر ماں نے دل کھول کر خرچہ کیا شاندار ولیمہ دیا ۔

میں اپنے بچوں کا حق مارے جانے پر مہربالب تھی یہ وہ رقم تھی جسے میرے بچوں کا مستقبل وابستہ تھا اور

ماں مجھے جھوٹی  تسلیاں دیتی تھی کہ حوصلہ رکھ تیری ایک ایک بھائی تیرے بھائی جیتے رہے کما کر تیرا قرضہ

ادا کر دیں گے جب تیرے بچے جوان ہوں گے تو تیرے بھائی اس لائق ہو جائیں گے کہ ان کو وہاں پر کھڑا

کرنے میں مدد کریں گے بھائیوں نے گھر ٹھیک کرآیا اور دو مکان جو کرائے پر لگے ہوئے تھے واپس میں

بانٹ لیے مجھے والد اور والدہ کی جائیداد سے بھی محروم کر دیا گیا میں اور امی بچوں کے ساتھ اس پرانے گھر

میں رہتے رہے اور بھائی اپنی بیویوں کے ہمراہ پڑے مکانوں میں چلے گئے گویا آنکھ ہو جھل اور پہاڑ اجل

جب وہ اپنے گھروں میں آباد ہو گئے تو مجھے اور ماں کو بھول گئے میری رقم سے انہوں نے اپنی زندگی

سنواری آسائشیں حاصل کر لی اس کے بعد مڑ کر بھی نہیں دیکھا کہ بہن اور اس کے یتیم بچے کس حال

میں ہیں۔

 جب میرا بیٹا وسیم پانچویں میں تھا تو میں کوڑی کوڑی کو محتاج ہو چکی تھی پڑھی لکھی نہ تھی کہ کہیں ملازمت

کی کوشش کرتی ماں سے کچھ کہتی تو وہ اپنی مجبوری ظاہر کرتی کبھی بیٹوں کو کبھی مجھے برا بھلا کہنے لگتی تھی وہ

خود اب کوڑی کوڑی کو محتاج تھی تمام روپیہ اپنے بیٹوں کو کھلا بیٹھی تھی اب کوئی راستہ نہ تھا ادھر یہ حال کہ

میرے بچے تعلیمی اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے سکول سے باہر ہو چکے تھے میں کئی بار بھائیوں کے پاس

گئی انہوں نے ائیں بائیں شائیں کی اور بھابیوں نے تو پانی تک کا نہ پوچھا بھائی بولے ابھی ہمارے حالات

ٹھیک نہیں ہیں جب پیسے آئیں گے لوٹا دیں گے تک ہار کر گھر بیٹھ گئی اور اب فاقوں کی نوبت اگئی جب بری

طرح بیوگی کے حالات میں گھر گئی ۔

تو ایک روز سسر صاحب کا خیال آیا ساس سسر میں برائیاں تلاش کرنے کی کوشش کی کوئی برائی نہ ڈھونڈ

سکے اب دل کی عدالت میں مجرم بنی ان کا کیا قصور تھا وہ تو محبت کرتے تھے میرے بچوں سے پیار کرتے

تھے گود میں لینے کو ترستے تھے لیکن میں نے یہ کیا کیا ان کی اولاد کو ان سے دور رکھا اور بچوں کو انہیں

چھونے تک نہیں دیا یہ کہاں کا انصاف ہے کہ والدین جو پالتے پوستے ہیں بڑا کرتے ہیں جب بیٹا جوان ہو

جاتا ہے تو پھر وہ اپنے والدین کو بھلا دیتا ہے کلی طور پر بیوی بچوں کا ہو کر رہ جاتا ہے کاش میں نے اپنی ماں کی

باتوں کو گرہ میں نہ باندھا ہوتا اپنے ساس سسر کا خیال کیا ہوتا تو وہ اپنے پوتے پوتیوں کے سر پر ہاتھ رکھتے۔

Maan Ny He Beti Ka Ghar Tabah Kia

 ایک دن میں بازار سے گزر رہی تھی خرم کی دوا لینی تھی کہ اچانک سسر صاحب کلینک پر مل گئے مجھے

دیکھ کر فورا میری طرف آئے اور بولے کیا بات ہے بہو خیریت تو ہے خرم بیمار ہے اس کی دوا لینی تھی کہتے

ہوئے میری آنکھوں میں آنسو بھر ائے وہ بھی مجھے رنجیدہ دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے کہنے لگے میں ڈاکٹر کو دکھا

دیتا یہ ڈاکٹر میرا بیٹا بنا ہوا ہے انہوں نے پوتے کو گود میں اٹھا لیا اسے بہت تیز بخار تھا ڈاکٹر کو دکھایا پھر کہا

بیٹی ناراض نہ ہونا اگر کہو تو دو منٹ کے لیے گھر چلے بچوں کی دادی ان کے لیے بہت اداس ہے ان کو دیکھنے

کو ہماری آنکھیں ترستی رہتی ہیں اُنہوں نے میرے لباس سے ہماری خستہ حالی کا اندازہ لگا لیا تھا میں ان کے

ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر ان کے گھر چلی گئی جیسے ہی میں نے گھر میں قدم رکھا میری ساس نے کہا بسم اللہ خدا

تمہیں سلامت رکھے۔

 آج میری انکھیں روشن ہو گئی تم کیسے اگئی یقین نہیں اتا وہ اپنی جگہ سے اٹھیں اور لپک کر میرے بیٹے کو گود

میں بھرا سینے سے لگایا پیار کرتی جاتی تھی اور روتی جاتی تھی اپنے مرحوم بیٹے کی اولاد میں اپنی بیٹے کی روح کو

تلاش کر دی جاتی تھی ان نظارہ دیکھ کر میں رونے لگی خود کو لعنت ملامت کرنے لگی میں نے ان لوگوں پر

کتنا ظلم کیا ہے ان کو ظالم سمجھتی تھی حالانکہ خود ظالم تھی پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ میری ذات کی کچھ

اہمیت ہے میرے بچوں کو کسی کا تحفظ حاصل ہے اور یہ بے اسرہ نہیں جن بھائیوں پر فخر تھا وہ تو ساتھ چھوڑ

گئے اور جن کو اچھا نہیں سمجھتی تھی وہ کتنے اچھے نکلے گرچہ جواں سال بیٹے کی موت نے ان کی کمر توڑ دی

تھی پھر بھی میرے بوڑھے سسر میرے بچوں کو تحفظ دینے کے لیے کمر بستہ ہو گئے اج ان کا ساتھ

میرے لیے ڈوبتے

مرا نہیں تھا بلکہ انہوں نے میری اور بچوں کی بھرپور مالی مدد کی تھی اور وہ عزت و تکریم مجھے اس گھر سے

ملی جو واقعی ایک بہو کا حق تھا یہ خاندانی لوگ تھے روپے پیسے سے زیادہ عزت کو جانتے تھے انہوں نے

مرحوم بیٹے کی اولاد کو یہ کہہ کر سینے سے لگا لیا کہ یہ ہمارا خون ہے اور میرے سر پر چادر ڈال دی کہ یہ

ہماری بہو ہے اور بیٹی جیسی ہے اس گھرانے کی عزت اسی کے دم سے ہے میں سسرال میں رہنے لگی ان

لوگوں کا سلوک میرے ساتھ بہت اچھا تھا مجھے اپنے کیے پر شرمندگی ہوتی تھی میں خود کو ان کا مجرم

سمجھتی تھی ان کو تکلیف دی تھی انہیں ان کے بیٹے سے دور رکھا تھا اپنے بچوں کو جن سے چھپاتی تھی وہ تو

ان پر جان فدا کرتے تھے میرا یہ خیال بھی غلط تھا کہ ان کو دولت کا لالچ ہے کسی قسم کا لالچ نہ تھا انہوں

نے تو مجھ سے پوچھا تک نہیں کہ مجھے جدہ کمپنی سے جو پیسہ ملا وہ کتنا تھا اور وہ رقم کہاں ہے بلکہ وہ کہتے تھے

کہ بہو غم نہ کرو دولت چلی گئی تو کوئی بات نہیں دولت انی جانی چیز ہے لیکن رشتے دولت سے افضل

ہوتے ہیں میں نے خود ان کو بتا دیا کہ والدہ نے کمپنی سے ملنے والی رقم بھائیوں کو امانت دی اور انہوں نے

خیانت کی سسر کہنے لگے بیٹی غم نہ کرو تمہارے بھائیوں کی زندگی میں گئی تو گویا تم نے ماں کی خدمت کی

اور تم جنت کی حقدار ہو گئی میرے پوتو پوتیوں کے لیے ہمارے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ اب مجھے پتہ چلا کہ

اچھے لوگ کیسے ہوتے ہیں وہ واقعی فرشتہ صرف تھے میں نے اب جانا کہ میں کتنی خوش قسمت ہوں کہ

مجھے ایسا سسرال ملا اور میں کتنی بد نصیب تھی جو اتنی عرصے ایسے لوگوں سے دور رہیں اب سمجھ میں ایا کہ

 ساس سسر بھی باپ کی طرح ہوتے ہیں اور نیکی کا پھل ضرور ملتا ہے اچھائی رائیگاں نہیں جاتی جبکہ برائی

انسان کو نفرت کی پاتال میں ایسے پھینکتی ہے کہ ادمی دوسروں کو فنا کرنے کی چاہ میں خود ہی فنا ہو جاتا ہے

ہمیں ماں باپ کی قدر کرنے کے ساتھ ساتھ ساس سسر کی بھی قدر کرنا چاہیے اج میرے بچے تعلیم یافتہ

اور اچھے مقام پر ہیں تو میرے ساس سسر کے دم سے ورنہ میں نے تو ان کی بربادی میں کوئی کسر نہ چھوڑی

تھی اور جو سبق میری ماں نے مجھے دیا اس نے میری زندگی برباد کر دی تھی خدارا تمام ماؤں سے گزارش

ہے کہ بیٹیوں کو ان کا گھر بسانے کی نصیحت کیا کریں نہ کہ ساس سسر اور نندوں سے شوہر کو دور کرنے کی

الٹی سیدھی باتیں امید ہے میری کہانی بہت سے لوگوں کی زندگی بدل سکتی ہے کیسی لگی کہانی کمنٹ باکس

میں ضرور بتائیں ملتے ہیں اگلی کہانی میں تب تک کے لئے اللہ حافظ

کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

 

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment