JalPari Ki Badua Ka Ajeeb Qissa

JalPari Ki Badua Ka Ajeeb Qissa

JalPari Ki Badua

اسلام علیکم اُمید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے ۔

آج کی کہانی میں خوش آمدید

آج کی نانی اماں کی کہانی ہے ایک جل پری اور یتیم لڑکی کسی چھوٹی سی بستی میں کوئی بڑھیا رہتی تھی اس کے

آگے پیچھے ایک لڑکی کے سوا کوئی دوسرا نہ تھا بڑھیا نے لاڈ پیار میں اس لڑکی کو ایسا بگاڑا تھا کہ وہ نہ اپنوں کو

خاطر میں لاتی تھی اور نہ ہی غیروں کو زبان دراز تھی کلے کار وہ ہر کام چور ماں کے تو بال نوچنے کو تیار مگر

ماں تھی کہ واری صدقے جاتی تھی اس کے نخرے اُٹھاتی تھی بڑھیا نے اپنے مرنے والی بہن کی لڑکی کو

بھی اپنے پاس رکھ لیا تھا بیچاری بے گھر بے بس سارا دن خالہ کی خدمت میں لگی رہتی تھی بہن کے نخرے

اٹھاتی جب کہیں روکھی سوکھی میسر اتی تو کھا لیتی۔

 غریب لونڈیوں کی طرح صبح سے شام تک ٹخر ٹخر کرتی اپنی ننھی سی جان کو مارتی لیکن کیا مجال جو کبھی خالہ

نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا یا بہن نے میٹھی زبان سے کوئی بات کی ہو جب دیکھا ماں بیٹیوں کو غراتے ہی

دیکھا مثل تو یہ مشہور ہے کہ ماں مرے اور موسی جیے ہوتی ہوں گی ماں سے زیادہ چاہنے والی خالائیں بھی

لیکن اس کے نصیب سے تو بڑھیا جلادنی تھی عید بکر عید کو بھی بیچاری آچھے کھانے اپنے کپڑوں کے لیے

ترستی کی ترستی ہی رہ جاتی شاباش ہے اس لڑکی کو کہ اتنے برے برتاؤ پر بھی ایک دن بھی اس نے کسی سے

شکایت نہیں کی ناکام کاج سے جی چرایا جس حال میں خالہ رکھتی رہتی اور ہنسی خوشی کے ساتھ وقت

گزارتی۔

 بڑی بھی اگر اندھی تھی یا ان کے دل سے ترس اٹھ گیا تھا تو دوسرے تو آندھے نہ تھے دونوں لڑکیوں کا

رنگ ڈھنگ سب کے سامنے تھا پاس پڑوس والیاں دیکھتی اور جلتی مگر کیا کر سکتی تھی ایک تو پرائی آگ

میں بڑے کون دوسرا یہ کہ بڑھیا چلتی ہوا سے لڑنے والی تھی بد مزاج حق ناحق الٹی سیدھی بکنے والی اچھی

کہو تو وہ بری سمجھتی تھی جھاڑکا کانٹا ہو کر لپٹ جاتی تھی پڑوسنوں کا اور تو کیا بس چلتا بڑھیا اپنے گھر کی مالک

تھی ایک اس کی بیٹی تو دوسری اس کی بھانجی ہاں انہوں نے اپنے دل کے جلے پپولے پھولنے کو دونوں

لڑکیوں کے نام رکھ دیے جب آپس میں ذکر اتا تو بڑھیا کی چہیتی کو تدیا کہتی کہ ہر وقت بن بھن ذرا چھیڑا

اور کانٹا اور دوسری کو کہو کہ نگوڑی ٹپتی ہے برا بھلا سنتی ہے اور کان تک نہیں ہلاتی وہ جو مثل ہے کہ نکلی

ہونٹوں اور چڑھی کونٹو بستی ہی کون سی لمبی چوڑی تھی دونوں لڑکیوں کے یہ نام سب کو یاد ہو گئے۔

 جہاں ذکر آتا بڑھیا کو تتیا اور بھانجی کو کو کہتے ایک دن کہیں جلو خانم کے کانوں میں بھی بھنک پڑ گئی وہ ائے تو

جائے کہاں پڑوس نو پر تو دل ہی دل میں خوب برسی کہ جاتی کہاں ہے میرا موقع انے دو ایسی پھل جھڑی

چھوڑوں گی کہ گاؤں بھر میں ناشتی پھریں گی تتیہ ہی نہ لگا دوں تو بات ہی کیا ہاں غریب بھانجی کی کمبختی

آگئی کہاوت سنی ہوگی کمہار پر بس نہ چلا تو گھدیا کے کان میں تھے جب ہوتا اسے گود گود کر کھائے جاتی کہ

ہاں یہ گاؤں ہے اور میری بچی تتیہ خدا کرے کہنے والوں کی زبان میں تتیہ ہی کاٹ دے کیوں ریتو گاؤ ہے

نا یہ سارے کو تک تیرے ہی ہیں میں سب جانتی ہوں ارے تجھے کہیں اس نے ڈنگ مارا ہوگا نہ جانے

میرے گھر میں سوتن بن کر کہاں سے آگئی ہے  یہ جیسی میسنی سی ہے نا اسے کوئی نہیں جانتا اس طرح روز

بڑھیا بقا کرتی اور لڑکی شامت کی ماری کو سننا پڑتا سننے کے سوا اسے کوئی چارہ تھا ہی نہیں خدا کسی کو بے گھر

اور بے بس نہ کرے۔

  ایک دن بستی کے باہر کوئی میلہ تھا بڑھیا کی لاڈلی اچھے کپڑے پہن مٹکتی اتراتی اپنی سہیلیوں کے ساتھ

میلہ دیکھنے چلی گئی گاؤ بھی آخر لڑکی ہی تھی ایک ایک کا منہ دیکھنے لگی ہمسائی اوپر سے جھانک رہی تھی اس

نے کہا بوا اس بچی کو بھی میلے میں بھیج دو نا اس کا دل بھی خوش ہو جائے گا دیکھنا بیچاری کیسی چپ چاپ

کھڑی ہے بڑی بھی جلا کر بولی یہ میلے میں جانے کے قابل ہے کیا سر جھاڑ منہ پھاڑ نہ ڈھنگ کے کپڑے نہ

کہیں جانے کا سلیقہ دوسرے گھر کا کام کون کرے گا اس کی لونڈیاں بیٹھی ہیں نا جو کام کرنے ائیں گی اور

لڑکی سے چلا کر کہنے لگی چل گھڑا اٹھا اور کنویں پر سے پانی لا۔

JalPari Ki Badua

 اس غریب لڑکی نے کھڑا اٹھایا اور انکھوں میں انسو ٹپ ٹپائے کنویں پر گئی پانی بھرا اور درخت کی چھاؤں

میں پہنچی کہ ذرا دل ٹھہر جائے تو گھر چلو رات دن کی مصیبت پر اسے رونا اگیا اتنے میں پیچھے سے اس کو

ایک آواز سنائی تھی اس نے جھٹ بلو سے آنسو پہنچ کر گردن اونچی کی تو دیکھا ایک بڑھیا کھڑی ہے گڑیا نے

گڑگڑا کر لڑکی سے کہا بیٹی پیاسی ذرا سا پانی پلا دے لڑکی نے خوشی خوشی بڑھیا کو پانی پلا دیا پانی پی کر بڑھیا

نے لڑکی کو دعائیں دیں اور بولی تم بڑی اچھی لڑکی ہو میں تمہارے ساتھ ایسا سلوک کرتی ہوں کہ ساری

عمر تم یاد رکھو گی لو آج سے جب تم بات کرو گی تمہارے منہ سے موتی جھڑیں گے یہ کہتے کہتے بڑھیا لڑکی

کی آنکھوں کے اگے سے غائب ہو گئی اصل میں وہ بڑھیا چل پری تھی جل پری تو چلی گئی اور لڑکی بھی اپنا

گھڑا سر پر رکھ کر اپنے گھر کی طرف روانہ لیکن اب اسے یہ فکر ہوئی کہ یہ بڑھیا کون تھی اور اس نے یہ کیا

کہہ دیا میں تو اس کا مطلب ہی نہیں سمجھی گھر پہنچی تو خالہ نے بیچاری کی خوب خبر لی اب تک کہاں تھی تو

تیرا کام کرنے کو دل نہیں چاہتا تو تو کہیں اور چلی جا لڑکی دبی زبان سے بولی خالہ جی اب ایسا نہیں ہوگا ایک

بڑھیا کو پانی پلانے لگی تھی لڑکی کے منہ سے بات کرنا تھا کہ انگن میں موتی بکھر گئی چل پری کا کہا سچ ہوا

بڑھیا نے جو چمکتے ہوئے موتی دیکھے تو دیوانوں کی طرح جھپتی اور موتی چننے لگی موتی سمیٹ چکی تو بڑے

پیار سے بولی ارے چندا یہ کہاں سے تم موتی لائی ہے اور اتنے موتی تو نے منہ میں کیسے دبائی تھے لڑکی نے

کہا خالہ جی لائی تو کہیں سے بھی نہیں میرے منہ سے جھڑ رہے ہیں بڑھیا ہنس کر بولی چل چھوٹی منہ سے

بھی موتی چھڑا کرتے ہیں کیا ایک باری میں ہی سچ بتا ضرور تجھے کہیں سے خزانہ ملا ہوگا اور تو انہیں باہر سے

منہ میں چھپا کر لائی ہے میرے پوچھنے پر منہ کھولا اور موتی نکل گئی نہیں خالہ اللہ جانتا ہے میرے منہ سے

جھڑے ہیں ایک بڑھیا کنویں پر ملی تھی اسے میں نے پانی پلایا اس نے مجھے دعا دی کہ جب تو بات کرے گی

تیرے منہ سے موتی چھڑیں گے لڑکی نے جواب دیا وہ ضرور کوئی پری تھی مگر بیٹی اب تو دو چار دن پانی

بھرنے نہ چاہیے پریوں کا کیا بھروسہ آج مہربان ہے تو کل قہر مان تجھے کہیں کنویں میں نہ لے جائیں بڑی

بھی بڑی تیز تھی بھانجی سے تو ظاہر میں یہ باتیں بنائیں لیکن دل میں کھول ہی گئی کہ پری نے میری بچی کو

موتیا خان کیوں نہ بنایا ۔

بیٹی میلے میں سے ائی تو اسے خوب پٹیاں پڑھائیں اور بڑی مشکل سے دوسرے دن اس کو کنویں پر پانی

بھرنے کے لیے بھیج دیا تتیا کنویں پر تو گئی بڑے نخرے سے پھر کنویں پر ڈول کو جھٹکتی پٹکتی رہی چھینک

پیٹ کر گھڑا بھرا اور درخت کے نیچے جا بیٹھی بیٹھی ہی ٹھیک کہ چل پری کبر نکلی ہوئی بڑھیا کے روپ میں

اس کے پاس بھی ائی اور بولی بیٹی ذرا سا پانی تو پلا دے تب سے پیاسی مر رہی ہوں بڑھیا کی لڑکی ویسے ہی

جلاتن تھی پھر جلپری نے ایسی گھناونی صورت بنا رکھی تھی کہ دیکھنے سے ہی نفرت ہو لڑکی گرک کر بولی

ارے چل چل میں نے کوئی پیاؤ لگا رکھا ہے کیا جل پری تھک گیا کر بولی پانی پلاتے بیٹی ثواب ہی ہوگا نا لڑکی

نے جواب دیا جاتی ہے یا پتھر ماروں اری میں بہت پیاسی ہوں ارے میری چوتی پیاسی ہے تو کنویں میں

ڈوب جا لڑکی نے تیزی سے جواب دیا چل پری کو پانی کی کیا ضرورت تھی اسے تو اس بھینس میں اپنا اپنا

کرشمہ دکھانا تھا غصے میں ہو کر بولی بدتمیز لڑکی جاتی کہاں ہے اتنی آپے سے باہر ہو گئی میں بھی تجھے وہ مزہ

چکھاتی ہوں یہ بھی تجھے وہ مزہ چکھاتی ہوں کہ تو یاد رکھے گی جا میں نے کہہ دیا کہ آج سے جب تو بات

کرے گی تیرے منہ سے مینڈک پھدک پھدک کر باہر آئیں گے لڑکی کو اس بات پر غصہ تو بہت آیا جوتی

اٹھا کر مارنے کو کھڑی ہوئی لیکن جلپری کب تہرنے والی تھی وہ بددعا دیتے ہی غائب ہو گئی لڑکی دیر تک

دانت پیستی رہی پری کا بھی اسے انتظار تھا تو پہروں نے کو آئی تھی اور پری وری کوئی دکھائی نہیں تھی تو وہ

دل ہی دل میں بڑبڑاتی اپنے گھر روانہ ہوئی۔

 ماں اپنی چہیتی بیٹی کے انتظار میں دروازے کی طرف ٹکٹکی لگائے بیٹھی تھی دیکھتے ہی پوچھا کہو بیٹی پری ملی

اس نے تجھے کیا دیا لڑکی جلی بھونی تو پہلے ہی چلی آ رہی تھی ترک کر جواب دیا چولہے میں جائے تمہاری پری

نگوڑی میری تو گردن بھی ٹوٹ گئی آخر کیا ہوا پریا جائی نہیں کیا ماں نے پوچھا میسی پری وہاں تو ایک پگلی سی

بڑھیا نہ جانے کہاں سے ان مری تھی لڑکی نے جل کر جواب دیا لڑکی جب ماں سے بات کر رہی تھی تو اس

کے منہ سے مینڈکیاں نکل کر زمین پر پھدکنے لگتی پہلے تو بڑھیا نے اپنی دھن میں دیکھا ہی نہیں لیکن جب

ایک مینڈکی نے بڑھیا کی گود میں چھلانگ لگائی تو بڑھیا اچھل پڑی اوئے یہ مینڈکی کہاں سے ائی پھر جو

دیکھتی ہے تو سارے صحن میں مینڈکیاں ہی مینڈکیاں کوٹتی پھر رہی تھیں ارے ارے نگوڑی کیا تو

گھڑے میں بھر کر لائی ہے میں انٹکیاں اسی پہ چل پہری بڑھیا نے تو کوسا تھا اور بددعا دی تھی کہ تیرے

منہ سے مینڈکیاں برسیں گی تو جب بھی بات کرے گی بیٹی نے منہ بسور کا جواب دیا جھلسا دوں اس کے

منہ کو وہ پری نہیں کوئی بھوتنی ہوگی بڑھیا بولی اماں یہ سب اس کٹنی کے کرتوت ہیں اسے تم نے گھر میں

کیوں گھسا رکھا ہے اچھا اب تو تم منہ بند کر پڑوس نے دیکھ لیں گی تو سارا گاؤں تماشہ دیکھنے آ جائے گا دیکھ

میں اس مردار کی کیسی خبر لیتی ہوں یہ کہہ کر بڑھیا نے پھونکنی اٹھائی اور بیچاری بے قصور بھانجی کو دھمنا

شروع کر دیا۔

JalPari Ki Badua

 کیوں ری مردار تیرے منہ سے تو موتی جھڑیں اور میری بچی کے منہ سے مینڈکیاں جاتی کہاں ہے آج

میں بھی تیری دھول جھاڑ کر رہوں گی بڑھیا اپنی یتیم بھانجی پر برس پری مارنے کے بعد بھی بڑھیا کو صبر نہ

ایا ہاتھ پکڑ کر گھر سے باہر نکالا لڑکی اور کہاں جاتی ماہی پاس تھا روتی ہوئی اس درخت کے نیچے جا بیٹھی جہاں

چل پڑی ملی تھی کبھی خیال کرتی کہ ڈوب کر مر جاؤں تبھی سوچتی کہ کسی اور بستی میں چلی جا اتنے میں

جلپری بھی اگئی اور اس نے لڑکی سے پوچھا ارے بیٹی تو روتی کیوں ہے لڑکی نے اس کو اپنی بپتا سنائی اور کہا

تمہاری بدولت میں گھر سے نکالی گئی چل پری نے کہکا لگایا اور بولی اچھی لڑکیاں کہیں اس طرح بے آس ہو

کر رویا کرتی ہیں جا خدا تیرے دن پھیر دے آج سے تو پھولوں کی سیج پر بادشاہی محل میں سوئے گی اللہ کو

نہ بگاڑتے دیر لگتی ہے نہ بناتے۔

 اتفاق سے ادھر تو جل پر ہی نظروں سے اوجل ہوئی اور ایک شہزادہ شکار کھیلتا پانی کی تلاش میں کنویں کے

پاس آیا ڈول اٹھاتے اٹھاتے لڑکی پر نظر پڑی وہ لڑکی تو حقیقت میں چاند کا ٹکڑا تھی کیسا پانی اور کیسی پیاس

ڈول ول چھوڑ شہزادہ لڑکی کے پاس آیا بات کی تو منہ سے سچ مچ کے موتی جھڑ رہے تھے اتنے میں پھر جل

پری سامنے ائی اب وہ اور ہی شان سے ائی تھی شہزادہ سمجھا کہ یہ لڑکی کی ماں ہے اس نے جلپری سے لڑکی

کے رشتے کی درخواست کی چلبلی نے عہد و پیمان کر کے لڑکی کو شہزادے کے ساتھ روانہ کر دیا شہزادہ اپنے

ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا وہ لڑکی کو اپنے محل میں لے گیا بہو کو دیکھ کر ساس سسر بہت خوش ہوئے بڑی

دھوم دھام سے ان دونوں کی شادی ہوئی بے ماں باپ کی لاوارث یتیم لڑکی کو خدا نے اس کے صبر کا پھل

.دیا بڑھیا اور بڑھیا کی تتیا ساری عمر اپنے گھر میں کھولتی رہیں اور مینڈکیوں کے ہی چکر میں رہی

کیسی لگے کہانی دوستو کمنٹ باکس میں ضرور بتائیں ملتے ہیں اگلی کہانی  میں تب تک کے لئے اللہ حافظ

کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment