Aik Ghareeb Ladki Kesy Ameer Bani

Aik Ghareeb Ladki Kesy Ameer Bani

Aik Ghareeb Ladki

اسلام علیکم اُمید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے ۔

آج کی کہانی میں خوش آمدید

دوستوں یہ کہانی ہے ایک ایسی لڑکی کی جس نے غریب کے گھر میں جنم لیا اور شادی بھی غریب سے لیکن

پھر کیسے اس نے اپنی زندگی کو بدلا یہ جان کر اپ حیران ہو جائیں  گےیہ کہانی خاص طور پر ان لڑکیوں اور

نوجوانوں کے لیے ہیں جو زندگی سے مایوس ہو جاتے ہیں اور اپنے اپ کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتے یہ

کہانی اپ کی زندگی بدل سکتی ہے اس لیے اس کہانی کو آخر تک لازمی دیکھیے گا تو چلیے شروع کرتے ہیں آج

کے کہا نی ۔

کیسے بتاؤں ایک مزدور کی زندگی کے روز و شب کیسے ہوتے  ہیں اس بات کو خوشحال لوگ کبھی نہیں سمجھ

سکتے کہتے ہیں جس جگہ آگ لگی ہو وہی جگہ اس کی تپش کو جانتی ہے میں نے بھی ایک مزدور کے گھر میں

آنکھ کھولی جہاں بچوں کے ریل پہن تھی میرے چار بھائی تھے جن کو چھوٹی عمر سے ہی آبا نے کام پر لگا دیا

کسی کو نان بھائی کی دکان پر بٹھایا تو کسی کو ورکشاپ کے مالک کے ہوالے کر ائے کہ وہ جوٹو بن کر ہونا سیکھ

جائے گا ایک کو چرواہے کے سپرد کیا اور ایک تو اپنے ساتھ ریت بجری ڈھونڈنے پر لگایا اپنے کم سے نازک

سے لڑکوں کے ساتھ آبا نے یہ امر بام مجبوری کی ظاہر ہے ایک مزدور اپنے اٹھ بچوں کو اکیلا تو اپنے دو

ہاتھوں سے کما کر نہیں کھلا سکتا ۔

میرے والدین خود ان پڑھ  تھے لہذا کسی بچے کو بھی پڑھنے نہ بٹھایا البتہ قران پاک کے تعلیم دلوائی ہم سب

بہنوں کو جو خاتون اپنے گھر پر سپارہ پڑھاتی تھی وہ ہماری پڑوسن تھی جو تھوڑا بہت لکھنا پڑھنا جانتی تھی مجھ

میں پڑھنے کا شوق دیکھ کر انہوں نے اردو کا قائدہ اور تیسری جماعت کے کتابیں پڑھا دیں یوں میں لکھنے کے

لائق ہوگی  ہمارا گھر چھوٹا سا تھا چار مرحلے کا گھر اور اتنا بڑا خاندان بڑی بہن 17 سال کی ہوئی تو اس کی

شادی کر دی جس سے شادی ہوئی وہ نوجوان بھی ان پڑھ تھا اور مزدوری کرتا تھا سچ ہے کہ مزدور کے بیٹے

کو مزدور کا یہ رشتہ ملنا تھا تا ہم میرے والدین نے سکون محسوس کیا کہ بیٹی اپنے گھر کی میری باقی بہنیں

کڑھائی اور انڈے کا کام کرتی میرا نمبر تیسرا تھا بڑی بہن اپنے گھر میں غربت کے باوجود خوش تھی اس نے

مستقبل کے بارے میں بنا تعبیر والے سہانے خواب نہیں دیکھے تھے ماں باپ کے گھر سے ہی صبر و بارات

سے جھولی بھر کر سسرال گئی تھی جب بھی اس کو باغ کے گھر کی کوٹھڑی کی بجائے اپنے شوہر کے دو

کمروں کا پکا گھر ملا جنت جیسا لگا دو سال بعد میری دوسری بہن کی بھی شادی ہو گئی وہ بھی صبر کی دولت جہیز

میں لے کر گئی اس کا شوہر منڈی میں سبزی لگاتا تھا اس کو اچھی آمدنی ہو جاتی تھی وہ لوگ فطرت کے آچھے

تھے میری یہ بہن سکھی ہو گئی ڈیڑھ سال بعد میری باری آگئی ہم بہنوں کی شادیوں میں صاحب استطاعت

لوگوں نے مدد کی جب یہ ہماری شادیاں ممکن ہو پائیں  ورنہ ایک غریب آدمی دو سال کے وقفے سے

بیٹیوں کی شادی کیسے کر سکتا ہے ؟

میرا رشتہ ہماری ایک جاننے والی لائیں بتایا کہ گھر کے افراد میں دو نندے ایک جیٹ اور ایک دیور شامل

ہیں ساس  تھی سسر نہ تھے وہ نندیں  چھوٹی تھی یہ لڑکا بھی مزدوری کرتا تھا دیکھ بھال کے بعد میرا رشتہ

طے پا گیا میری اور میرے بڑے بھائی کی شادی ایک دن کے وقفے سے ہوں میں بھی اپنی بہنوں کی طرح

والدین کی رضا پر راضی تھی میرے شوہر تنویر اچھا ادمی تھا اور اس کے گھر والے بھی ٹھیک لوگ تھے

شادی کے 15 روز تک تنویر کام پر نہ گیا سولویں روز میں نے اس سے پوچھا کہ تم گھر پر ہی رہتے ہو کام پر

کیوں نہیں جاتے تو اس نے کہا کام ملتا ہی کب  ہے جاؤ تو سہی گھر سے تم کو کام پر بلانے کے لیے کوئی نہیں

آئے گا بازار میں چوک پر مزدوروں کے ٹھیے پر جا کر بیٹھو گے تو انشاءاللہ کام بھی مل جائے گا میرے کہنے پر

وہ دو روز ٹھیہ پڑ جاتا رہا اور کام بھی مل گیا رات کو کچھ روپے مجھے اور کچھ ماں کو ملا کر دئیے مجھ کو لگا کہ اج

میری خوشی مکمل ہو گئی لیکن یہ خوشی عارضی تھی اس کے بعد تنویر اکثر گھر پر ہی رہتا میرا دیور باقاعدگی

 کسی کام پر جاتا تھا وہ اچھا کماتا تھا اور اسی کی کمائی سے گھر چلتا تھا نندیں  گھر پر کڑھائی سلائی کرتی  میں سمجھتی

تھی کہ عورت کی اپنی قسمت ہوتی ہے میری بہن کا شوہر بھی تو مزدور ہی تھا لیکن وہ گھر نہیں بیٹھتا تھا تبھی

روز ہی کچھ نہ کچھ کمالا تا۔

ان کے دال  روٹی بنا کسی رکاوٹ کے چل رہی تھی وہ یوں اپنے گھر میں سکھی تھی جبکہ تنویر کے کاہلی کے

سبب اس کے ساتھ مجھے بھی مفت خوری کے طعنے  سننے پڑتے تھے یہ سب تنویر کی وجہ سے تھا اگر وہ کماتا تو

ہم کو یوں بڑوں اور چھوٹوں کے ہاتھوں خوار نہ ہونا پڑتا ۔

شادی کے سوا سال بعد میرے بیٹی گڈو کی پیدائش کے بعد صورتحال مزید بگڑ گئی اس کی پرورش کے لیے

بھی مجھے پیسہ چاہیے تھااس ڈیڑھ فٹ کے وجود کا خرچہ کم نہیں تھا سردیوں کے دن تھے اور اس کے گرم

کپڑے اور دوسری چیزیں پوری کرنے کے استطاعت میں نہیں رکھتی تھی نتیجہ یہ نکلا کہ گڈو بیمار ہو گئی

اسے شدید ٹھنڈ لگ گئی ساس کے پاس اس کے علاج کے لیے روپیہ نہیں تھا جب میری بیٹی کی نمونیا سے

پسلی  چلنے لگی تو اس روز پہلے مرتبہ میں اپنے شوہر سے خوب لڑی کہ ہر صورت کماؤاور مجھے پیسہ لا کر دو

تنویر خود کمزور سا تھا ٹھنڈ کی وجہ سے بیمار پڑ گیا تھا وہ سخت مزدوری نہیں کر سکتا تھا اور ہمارا خرچہ بھی پورا

کرنے سے قاصر تھا میرے گھر والےگڈو کو دیکھنے آئے میرا حال دیکھا بچی سانس کھینچ کر لے رہی تھی

تبھی ماں نے مجھ کو ساتھ چلنے کو کہا بچی کو سسرال میں بغیر علاج لیے کیسے بیٹھی رہتی تمہیں ان کے ساتھ

چلے گئے اپنے گھر والوں کو پہلی بار سسرال میں اپنی حالت زار بتائی۔

 ابا نے کہا بیٹی جب تک تیرا شوہر کام پر نہیں جائے گا تم یہاں ہی رہو گے بچی کا علاج تو کروانا  ہی ہے جیتے جی

 اس کو مارنا تو نہیں تھا تین ہفتے گزرے کہ تنویر مجھ کو لینے آبا کے گھر آگیا ساس بھی آئیں  میرے گھر والوں

نے اپنا مطالبہ ان کے سامنے رکھ دیا تنویر نے وعدہ کیا کہ وہ اب کام پر جایا کرے گا میں ان کے ساتھ اپنے

گھر واپس اگئی تنویر کچھ دن بعد کا پابند رہا اور کام پر گیا لیکن پھر وہی بہانہ کے کام نہیں ملتا جن کی ہڈیوں کو

محنت کی عادت نہ ہو ان کو ہر کام ہی مصیبت لگتا تھا اس مرتبہ جب میں مالی لحاظ سے بہت تنگ اور جیڑ دیور

کے محتاج ہوئی تو پھر سے والدین کے گھر آ بیٹھی دو ماہ بیٹھ کر کھایا لیکن جب میری چھوٹی بہن کی شادی تھی

اس کے لیے بھی میرے والدین کورقم درکار تھی جبکہ وہ پہلے سے ہی بہت غریب تھی تبھی میں نے یہ

سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا کہ میں ان پر بوجھ بننے کی بجائے محنت کر کے خود اپنا اور اپنی بچی کا بوجھ اٹھاؤں گی میں

نے اپنے گھر سے کچھ دوری پر ایک خوشحال گھرانے کا کام کرنا منظور کر لیا یہ آبا کے پرانے جاننے والے

تھے وہ مجھ کو ناشتہ اور دوپہر کا کھانا دیتے دیگر ضروریات صابن تیل کپڑے میں عنایت کر دیتے تھے تنخواہ

بھی اتنی مل جاتی کہ میرا اور میرے بچی کا خرچہ پورا ہو جاتا تھا اب تنویر کو بیٹی کی یاد ستانے لگی وہ پھر سے

میری مہکے آئے مجھ کو ساتھ چلنے پر اصرار کرنے لگےمیں نے انکار کر دیا یہاں میری اپنی محنت سے اچھی

طرح گزارا ہو رہو تھا تاور ساس نندوں کے طانوں سے بھی بچی ہوئی تھی شوہر کو بھی باور کرانا چاہتی تھی

کہ معاشرے میں ایک کاہل آدمی کا یہی مقام ہے دو سال گزر گئے تنویر نہ سدھرا اس نے محنت کو سنجیدگی

سے نہ لیا اور نا کما کر دیا میری بچی اب بڑی ہو رہی تھی تنویر کے گھر والوں نے جب دیکھا کہ میرا پلٹ انے

کا کوئی امکان نہیں رہا تو انہوں نے ایک شریف گھرانے کی ایسی لڑکی تلاش کر لی جو میٹرک پاس تھی اور

ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھاتی تھی۔

 جیٹھ اور دیور نے سوچا کہ رضوانہ نہیں ائی تو اسی بیوا کی لڑکی سے تنویر کا بیان کرتے ہیں بیوہ بیچاری کو

سہارے کی ضرورت تھی اور اس کی لڑکی ملازمت کر رہی تھی انہوں نے تنویر کی دوسری شادی کی بات

کی تو میرا شوہر نہ مانا اس نے اپنی بیٹی سے پیار تھا حالانکہ وہ اس کے پاس تھوڑی ہی دن رہی تھی تنویر نے

دوسری شادی سے انکار کر دیا جب یہ خبر مجھ تک پہنچے تو میں نے سوچا کہ اگر وہ بچے کی وجہ سے دوسری

شادی سے انکار کر رہا ہے تمہیں کیوں تنویر کو ٹکراؤں آخر تو وہ میری بچی کا باپ ہے بہتر ہے کہ اس کو راہ

راست پر لانے کی کوشش کروں میں بھی تو میکے میں عمر بھر کو نہیں سما سکتی تھی اصل میں تو یہ میرے

بھائیوں کا گھر تھا آج یا کل مجھ کو یہاں سے رخصت ہونا ہی پڑتا میری بیٹی باپ کے سائے میں نہیں تھی

تنویر اگر مجھ کو طلاق دے دیتا تو یہ ہم دونوں میں سے کسی ایک سے محروم ہو جاتے سوچا کہ ماں باپ کے

گھر مزید نہیں رہوں گی ایسا نہ ہو کہ تنویر کو نکٹو ہونے کا احساس دلاتے دلاتے میں کہیں کی نہ رہوں اور

بچی کو برباد کر بیٹھو میں نے شوہر سے رابطہ کیا اور کہا کہ میں واپس آنے پر تیار ہوں بشرط یہ کہ تم مجھ کو کسی

کے گھر میں کام کرنے کی اجازت دو تاکہ وہاں میں پیسے پیسے کی محتاج نہ میرے جیٹھ نے اجازت نہ دی اور

کسی کے گھر کام کرنے سے سختی سے منع کر دیا بالاخر میں نے تنویر سے کہا کہ تم  ہی ہماری طرف آ جاؤ

کیونکہ بغیر کمائی تو ہمارا گزارا نہ ہوگا اس نے میری بات مان لی اور اپنے بھائیوں کو چھوڑ کر ہمارے گھر آگیا

کیونکہ وہ خود بھی تو بھائیوں کا ہی دست رگر تھا میرے والد کے گھر کی چھت پر ایک کوٹھری  بنی ہوئی تھی

جس میں فالتو سامان پڑا تھا میں نے اس کو صاف کیا اور ہم اس میں رہنے لگے اب میرے شوہر بچی کو

سنبھالتا تو میں ایک گھر کی بجائے دو گھروں میں کام کرنے لگی کچھ عرصے بعد جب دوسرے بھائی کی شادی

کی باتیں ہونے لگی میں نے سوچا آخر کب تک میں اپنے شوہر اور بچوں کے ہمراہ میکے میں رہ سکتی ہوں عمر

بھر تو نہیں مگر ابھی سے طلب حقیقت کے بارے میں نہ سوچا اور کوئی تدبیر نہ کی تو کل بھائیوں اور

بھابھیوں کو رویہ بدل جائے گا مجھے اور میرے شوہر کو عزت نہ ملے گی اور ایسے رویوں سے میرے بچی کے

ذہن پر برا اثر ہوگا جب اس کے مانو نمانیاں اور ان کے بچے اس کو عزت و بدر کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے

بڑی بھابی تو مجھ کو ابھی بھی تیکھی نظروں سے دیکھتی تھی میں جن گھروں میں کام کرتی تھی ان کے وہاں

میں نے کمیٹی ڈالی دو سال تک ان کمیٹیوں کی رقم ان سے نہ لی اور جب میرے شوہر نے چار مرلہ زمین

سستی بکتی پائی تو میں نے اپنے کمیٹیوں کی رقم لے کر وہ پلاٹ ان کے ذریعے خرید لیا تھا تا ہم  اس پر ایک

کمرہ بنانے کی استطاعت تو نہیں تھی۔

Aik Ghareeb Ladki

 میں نے بھائیوں سے مشورہ کیا انہوں نے تنویر کو اپنے ساتھ ملا لیا اور میرا شوہر بھی میرے بھائیوں کے

ساتھ کام پر جانے لگا میں نے بھی شام کو گھر کے پاس بھاڑ بنا لیا اب میں اپنی تنخواہ کا ایک دھیلا خرچ نہ کرتی

اس تنویر کی مزدوری کی اجرت اور کچھ  تندور پر روٹیاں لگانے کی وجہ سے ہم کو گزارے کی رقم مل جاتی

جب اتنی رقم ہو گئی کہ ہم پلاٹ پر دو کمرے بنوا سکیں تو تنویر اور میرے مزدور بھائیوں نے مل کر وہاں دو

کمرے خود بنا دی چار دیواری کی رقم میرے چاروں بھائیوں نے مل کر دی یوں سر چھپانے کا ٹھکانہ میسر

اگیا جب میں اپنے چار مرحلے کے مکان میں آگئی یہاں میرے بیٹے احمد کی پیدائش ہوئی اب دو بچوں کو گھر

پر چھوڑ کر میرے لیے کام پر جانا ممکن نہ تھا جبکہ احد کے پیدائش سے خرچے میں اضافہ ہو چکا تھا میں اب

امی کے پاس بچے چھوڑ کر کاروپر جاتی میرے شوہر کو ایک ورکشاپ پر ملازمت مل گئی اس دنوں بعد ہی

بدقسمتی سے ان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ان کا ہاتھ مشین میں اگیا اور وہ ایک ہاتھ سے معذور ہو گئے اس کے

ساتھ ہی وہ شدید علیل ہو کر بستر سے لگ

گئے علیل اور معذور جیون ساتھی کے ساتھ دو بچوں کا بوجھ چار نفوس کی روزی روٹی کا انتظام اس تنہا

عورت کے لیے بہت مشکل تھا۔

 مریض کو سنبھالنے کے لیے تو ہمہ وقت اس کے پاس رہنے کی ضرورت تھی کام پر کیسے جاتے یہ وقت جو

بہت کھڑا تھا گھر یا میری زندگی کا امتحان تھا مجھ کو شدید ذہنی اور مالی پریشانیوں کا سامنا تھا جس سے میں بھی

ذہنی مریض بن گئی اب میں خد کو  بدقسمت تصور کرنے لگی میری بہنوں کی شادیاں غریب گھرانوں میں

ہوئی تھی لیکن وہ پرسکون تھی جبکہ میں مسلسل پریشانیوں سے لڑ رہی تھی زندگی میں دیکھا یہ کیا تھا خواہش

میں کہ تو دو وقت کی روٹی اور ایک چھوٹے سے گھر کی کہ یہی انسان کی بنیادی ضروریات ہوتی ہیں کہ جن

کے بغیر وہ جی نہیں سکتا میرے بھائی کون سے ساہوکارتھے وہ بیچارے بھی تو مزدوری کرتے تھے کب

تک میرے امداد کرتے اب میں زندگی سے مایوس اور جینے سے تنگ آ گئی تھی لہذا خودکشی کے بارے میں

سوچنے لگی شوہر کا معزور جسم ایک لاش کی مانند بستر پر دھرا تھا بچے میری ماں کے گھر کھانے کی خاطر جاتے

بھابیاں جانے کے اس دل سے ان کے اگے تھالی میں ابلے ہوئے چاول یا ایک روٹی رکھ دیتی تھی ۔

میں اکثرفاقوں سے ہوتی ماں کو موقع ملتا تو ا کر مجھے کھانا دے جاتی اب مجھ پر تھکن اور ناکاہت کی کیفیت

طاری رہنے لگی کسی میں دلچسپی نہ رہی شوہر میں اور نہ بچوں میں ہر پریشانی سے منہ مار کر کہیں بھاگ جانا

چاہتی تھی ایک روز چارپائی پر لیٹے اپنے حالات کو سوچ کر رو رہی تھی اور موت کے شدید خواہش کر رہی

تھی انکھیں موند کر دعا کرنے لگی کہ اے اللہ ایسی نیند دے دے کہ یہ انکھیں دوبارہ نہ پڑے میرے بچے

اسی وقت ماں نے میرے گھر کے اندر کر دیے اور خود باہر سے لوٹ گئی بچے کھیلتے کھیلتے اندر آئے بچوں کو

آج شاید نانی کے گھر سے روٹی نہ ملی تھی انہوں نے اتے ہی کھانا مانگنا شروع کر دیا میں تو بے سود لیٹی تھی

اماں جو دو دن پہلے تھوڑے سے کچے چاول اور دال دے کر گئی تھی وہ پکا کر تنویر کو کھلا دیے تھے اب تو گھر

میں اناج کا ایک دانہ بھی نہ تھا خود بھوکی پڑی تھی بچوں کو کیا کھلاتی گڈوکچھ دیر مجھے پکارتی رہی روٹی مانگتے

رہی جب میں نے اس کی پکار نہ سنی تو وہ پریشان ہو گئی مجھے اونچے آواز میں رونے لگی اس کی دیکھا دیکھی احد

بھی رونے لگا میں پھر بھی میں نے بہری بنی رہی اور جنبش نہ کی اتنی دیر میں احد باورچی خانے کی میز پر

چڑھ گیا شاید کچھ کھانے کی تلاش میں وہ ڈبے کھول رہا تھا کہ اس کا پاؤں پھسل گیا پر وہ دھڑام سے زمین پر

گیا اگے کوئی برتن رکھا تھا جس کا کنارہ اس کے ماتھے پر لگا اور خون بہنے لگا اس کے دل خراش چیخوں سے

میں اٹھ بیٹھی اس کے بہت زور کی چوٹ ائی تھی ماتھے  اور ناک سے خون بہہ رہا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی

کہ بھابھی نے امی سے جھگڑا کیا تھا تو وہ جھنجھلا کر بچوں کو بھوکا ہی میرے گھر کے دروازے کے اندر کر کے

چلی گئی تھی۔

Aik Ghareeb Ladki

 یہ میری چند لمحوں کی بے خبری کا نتیجہ تھا اور اگر میں مر جاتی میری دعا کسی طریقے سے قبول ہو جاتی تو

میرے بچوں کا کیا ہوتا یہ اللہ نے مجھے دکھا دیا یہ سوچ کر کیوں اپنے رب کی رحمت سے مایوس اور نا امید

ہوئی میں نے اپنے رب سے معافی مانگی توبہ کی اور دونوں کو ساتھ لپٹایا بہت دیر تک روتی رہی تھوڑی دیر

پہلے میں نے جو تنویر کے خلاف سوچا تھا اب ہمدردی سے سوچنے لگی کہ جو بھی ہے میرے بچوں کا باپ ہے

اس نے مجھے نہیں چھوڑا تو اب جب کہ وہ معذور ہو گیا ہے میں کیونکہ اس کو چھوڑ سکتی ہوں تبھی تہیہ کر لیا

کہ حالات جیسے بھی ہوں گے میں اللہ سے آس لگائے رکھوں گی اور اپنی ہمت سے ہی ان حالات کو بدلوں

گی کیونکہ کوئی دوسرا کسی کے حالات کو نہیں بدل سکتا ایسے میں اللہ کی ذات سے دعا اور اپنی ہمت یہ کام

آتی ہیں میرے لیے اب لوگوں کے گھروں میں کام کرنا ممکن نہ تھا لیکن جہاں کام کرتی تھی وہ اب بھی

میری مدد کرنے پر راضی تھی میں ان کے گھر گئی اور کچھ رقم ادھار مانگی انہوں نے یہ رقم مجھ کو دے دی

تبھی اپنے گھر کے پاس بھاڑ لگا لیا رات کو سارے محلے کی عورتیں ا کر ان سے روٹیاں بنوانے لگی یوں مجھ کو

روز روٹیاں اور پیسے مل جاتے اور آٹا بھی ملنے لگا لیکن یہ کافی نہیں تھا تنویر کو ابھی تک علاج کی ضرورت

تھی ابھی زخم ہرا تھا وہ نہ تو کام کر سکتا تھا اور نہ اس کے کمزوری دور ہوتی تھی نقاہت  کے باعث وہ اٹھ بھی

نہ پاتا تھا مجھ کو اس بات کا بھی شدید دکھ رہتا تھا کہ اپنے بچوں کو سکول نہ بھیج پائی تھی جبکہ ان کو پڑھانا

لکھانا چاہتی تھی تاکہ وہ مزدور نہ بنے بلکہ پڑھ لے کر اچھی زندگی گزارنے کے قابل ہو جائے بھاڑ میں اگ

سنگاتے اور تندور پر روٹیاں لگاتے میرا ذہن کسی اور سمت لگا رہتا ایسا کیا کروں کہ میرے گھر کے حالات

سدھر جائیں اب میں دوپہر پر بھی تندور لگانے لگی کیونکہ مجھے کچھ زیادہ کرنا تھا۔

 میری ماں کا گھر آبای میں تھا جبکہ میرا گھر ان کے مکان سے تھوڑا ہٹ کر تھا جہاں ابادی کم تھی تا ہم  یہاں

خانہ بدوشوں کی کثرت تھی ان کی بہت سی جنگیاں تھیں اکثر بھولے بھٹکے مسافر بھی ادھر کا رخ کرتے

میرے گھر کے قریب نہ تو کوئی چائےخانہ تھا اور نہ ہوٹل تھا بازار بھی  دوری پر تھا اور ارد گرد دکان میں

ایک ادھی تھی باڑ اور تندور دونوں مجھے مطمئن نہ کر سکے۔

حالانکہ اعتراف میں جتنے گھرانے تھے گرمیوں کے باعث خود روٹیاں گھر پر بنانے کی بجائے ان سے ہی

لگواتے تھے اور خانہ بدوش بھی  اتے وہ کہتے کہ اگر تم دال روٹی پکی پکائی فروخت کرنا شروع کر دو تو زیادہ

اچھا ہو تب میں اسی بارے سوچنے لگی تبھی میں نے ایک طریقہ اور سوچا کہ میں صبح کا ناشتہ پکا کر تندور کے

پاس میز پر رکھ دیتی لوگ  الو کی بھانجی اور چھولے چاول لینے آتے ہیں گھی کے پراٹھے بھی بنانے لگی وہ بھی

شوق سے صبح ناشتے کے وقت پراٹھے اور چائے لینے لگے میری بکری میں دن رات اضافہ ہونے لگا یہ

ضرور کروں گی کہ رب ساتھ نہ دیں تو کسی کام میں کامیابی نہیں ہوتی میرا رب میرا ساتھ دے رہا تھا اور

میں دن رات چولہے کے پاس بیٹھی محنت کرتی تھی میرا اللہ ماں کے دل سے بچوں کے بہتر مستقبل کے

لیے اٹھنے والی تڑپ کو جانتا تھا اس کے کرم سے میرا یہ کام اتنا چلا کہ مجھے لگا ایک چھوٹا سا ہوٹل ہوتا تو کیا

بات ہے لیکن میں عورت ذات ایک بٹیارن تو بن سکتی تھی مگر چائے کا ہوٹل تنہا نہیں کر سکتی تھی لوگ

میرے کھانے کو پسند کرتے ہیں وہ مجھ سے الو اور مولی کے پراٹھے کی فرمائش کرتے۔

 تنویر اماب روبہ صحت تھا مگر وہ محنت کا کام نہ کر سکتا تھا میں نے بڑے بھائی کی منت ضمانت کی کہ ایک کمرہ

مجھ کو میری چھت پر بنوا دوں تاکہ اوپر اپنا رہن سہن رکھوں اور نیچے کے گھر میں ڈھابہ یا ہوٹل بنا تاکہ

لوگ یہاں بیٹھ کر کھا پی سکیں پہلے تو بھائی نے اس بات کو ناممکن اور درست نہ جانا پھر چھوٹے دونوں

بھائیوں نے میری تجویز کی حمایت کی تو انہوں نے مل کر مجھ کو کمرہ اور غسل خانہ اوپر بنا کر دیا میں نے نیچے

گھر خالی کر دیا دونوں کمروں میں دریاں بچھا دی جن پر دسترخوان لگا کر فرشی نظام کر دیا اور ذہن میں

چارپائیاں اور چند کرسیاں میزیں یوں میرا ڈھابہ کھل گیا۔

 تنویر کا کام کرنے پر بیٹھ کر رقم لینا تھا میرا کام اوپر پکانا اور ہم نے ایک غریب لڑکا ملازم رکھ لیا جو کھانے

پینے کا سامان نیچے لا کرگاہکوں کے آگے رکھتا اور جھوٹے برتن دھو کر اوپر لا کر مجھے دے دیتا جو گاہک مانگتے

میں صبح سے تیار کر کے رکھ دیتے تندور بھی اوپر لگا لیا گرم روٹیاں لگا دیتی جو پراٹھوں کی فرمائش کرتے ان

کے پراٹھے بنا دیتے یہ غریب بوڑھی عورت جو میرے گھر کے پاس جھگی  میں رہتی تھی اس کی تنخواہ دینے

لگی وہ صبح سویرے آ جاتی اور شام تک رہتی چھوٹے موٹے کام میں میرا ہاتھ بٹاتے اور میرے بچوں کو بھی

دیکھ لیتی تھی وہ کہتے ہیں نا کہ جہاں غم و بندوں کے اخری حد ا جاتی ہے وہاں سے ہی خوشی کی لکیر شروع ہو

جاتی میں نے اپنے ہوٹل کا نام احد ہوٹل رکھا تھا مگر یہ ٹنٹے کا ہوٹل مشہور ہو گیا کیونکہ تنویر جو اب اس

ہوٹل  کا مالک تھا اس کا ایک ہاتھ کٹ چکا تھا تاہم  ان کے اگر ذات میرے ساتھ نہ ہوتی تو میں دو ہاتھوں

والی ہو کر بھی ہوٹل نہ چلا پاتی کیونکہ میں عورت تھی اور عورت چاہے کتنی ہی ہمت والے اور طاقتور ہو وہ

کمزور اور معذور مرد سے بھی معاشرے کی نظروں میں زیادہ کمزور زات ہوتی ہے تنویر نے اس ہوٹل کو

درمیان کرنے میں میرا پورا پورا ساتھ دیا کیونکہ اس میں وہ احساس پیدا ہو چکا تھا جو میں اس میں جگانا چاہتی

تھی اب میرے بچے سکول جانے لگے میں اس قابل تھی کہ ان کے تعلیمی اخراجات برداشت کر سکوں اب میرے پاس کسی شے کی کمی نہ تھی پیسہ ہوں تو اپ ملازم اور مددگار بھی رکھ سکتے ہیں تنویر کو بھی امدنی

کے اضافے نے اعتماد بخشا تھا اب حالات مکمل طور پر بدل گئے تھے میرے بھائی بھی سوچتے تھے کہ محنت

مزدوری سے تو اچھا تھا کہ ہم بھی اپنا ذاتی کام ہی کرتے ہمارے علاقے کی ابادی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ

رہی تھی پختہ مکانات خالی پلاٹوں پر بننے جا رہے تھے ہم نے بھی برابر والا پانچ مرلے کا خالی پلاٹ خرید لیا

تھا تاکہ اپنے کاروبار کو بڑھا سکیں اور اپنے ہوٹل کا معیار بلند کر سکیں میرے سسرال تک بھی ہمارے ہوٹل کے دھوپ پہنچے وہ ہم سے صلح کرنے اگئے اور ہم نے صلح کر لی مجھے  اعتراف ہے کہ میں نے زندگی

کے دکھوں  سے بہت کچھ سیکھا کبھی غلط اور کبھی صحیح فیصلے کیے مگر دکھ پا کر میں خدا کی یاد سے مایوس نہ ہو اس عظیم طاقت نے بھی مجھ کو نہیں چھوڑا بلکہ جب میں نے ہمت سے کام لیا اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا سچ

ہے کہ سونا بھٹی میں جلتا ہے تو کندن بنتا ہے اور انسان جب دکھوں کی اگ میں جلتا ہے تو وہ نکھرتا ہے  اگر میں مایوس ہو کر ہمت ہار جاتی تو میرا گھر بکھر جاتا اور بچے شاید رل جاتے یا پھر چھوٹی سی عمر میں مزدوری

کرنے پر مجبور ہو جاتے اور میرا ان کو تعلیم دلوانے کا خواب ادھورا ہی رہ جاتا خدا کا شکر ہے کہ وہ خواب جو میں نے دیکھا اج پورا ہو چکا ہے آج اللہ کا شکر ہے میرے بچے تعلیم مکمل کر چکے ہیں احد ایک سرکاری ادارے میں اچھے عہدے پر ہیں اور میری بیٹی بھی سرکاری سکول میں ٹیچر ہیں۔

 اس لیے زندگی کے کسی موڑ پر ہمت نہ ہاری مایوس نہ ہو بلکہ کوشش کرتے رہے اور اللہ کا شکر ادا کرتے

رہیں اچھے دن ضرور آتے میری یہ کہانی ان لوگوں کے لیے ہے جو ہمت ہار جاتے ہیں حالات کا مقابلہ

نہیں کرتے ایک بات ضرور یاد رکھیے گا عورت مرد کے بنا کچھ بھی نہیں اس لیے اپنے شوہر کو اس کا مقام

 ضرور دیں ورنہ اکثر دیکھا ہے کہ عورت جب کچھ کمانے لگے تو مجھے لگتا ہے کہ اب اسے مرد کی ضرورت

نہیں لیکن یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے جو جلد دور ہو جاتی ہیں لیکن پچھتاوا چھوڑ جاتے ہیں کیسی لگے کہانی

.دوستو کمنٹ باکس میں ضرور بتائیں ملتے ہیں اگلی کہانی  میں تب تک کے لئے اللہ حافظ

کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment