Bachpan ke Zamane ki Sunehri Yaadein

Bachpan ke Zamane ki Sunehri Yaadein

Bachpan ke Zamane ki Sunehri Yaadein

 یہ غالبا000 2 کی بات ہے میرے دوست نے مجھے ایک بہت بڑی خوشخبری سنائی  کہ بازار میں محض چند

سو ایم بی کی ہر ڈسکائی ہے مجھے یاد ہے کہ میری آنکھیں حیرت سے کھولی کے کھلی رہ  گئی کیونکہ آج دو دو چار

چار ہزار جی بی کے ہارڈ ڈسک میں کسی وقت کم پڑ جاتی ہے وہ پینٹیم فور جو کسی وقت سٹیٹس سمبل سمجھا جاتا

تھا آج کسی کو یاد بھی نہیں حالانکہ آج سے کچھ سال پہلے لوگوں کے پاس ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر تک موجود

تھے آئے دن کبھی پاور کیبل خراب ہو جاتی کبھی سیڑھی روم خراب ہو جاتے اور چھوٹے چھوٹے مسائل

لگے رہتے پرانے وقت میں فلاپی ڈسک کے بغیر کام نہیں چلتا تھا جیسے ڈیٹا سٹور کرنے کے لیے استعمال کیا

جاتا تھا اور جب محض چند ایم بی پر مشتمل تھی ۔

لیکن وہ بھی اپنی مرضی کے مالک ہوتی چل پڑتی تو چل پڑتی اور اگر نہ چلتی تو نہ چلتی یہ سب کچھ ہمارے کئی

دوستوں نے ہمارے سمیت اپنی انکھوں کے سامنے بدلتے ہوئے دیکھا ہے موبائل سے موبائل تک کے

سفر میں ہم قدیم سے جدید ہو گئے لباس سے لے کر کھانے ہر چیز بدل گئی اگر نہیں بدلا تو آج تک ساگ

کے پراٹھے کا ذائقہ نہیں بدلا ۔

Bachpan ke Zamane ki Sunehri Yaadein

شہروں میں ہزاروں کے حساب سے زنگر برگر اور فاسٹ فوڈ کی دکانیں کھل گئی ہیں ہر طرف اپ کو

میکڈونلڈ کے ایف سی سب میں اور طرح طرح کے فاسٹ ووٹ کے نئے نئے جدید ریسٹورنٹس نظر ائیں

گے مگر اپ مکئی کی روٹی اور ساگ کی تلاش شروع کریں تو اپ کو شاید ہی ملے گھروں میں بننے والی لسی

کھیلوں اور دکانوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے بہت کم ہی گھر ایسے رہ گئے ہوں گے جن میں آج بھی

سارے لوگ دسترخوان پر بیٹھ کر یا ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کر ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں پرانے وقتوں میں

گھروں میں پانی کے گھڑے رکھے ہوتے تھے اب تو گھڑے بھی تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں آپ کو شاید ہی

کہیں پر گھڑا نظر آئے غریب سے غریب اور امیر سے امیر گھر میں بھی فرج موجود ہے یہاں تک کہ ہر

گاؤں میں آپ کو فرج ہی نظر ائیں گے جس کا جب دل  چاہتا ہے وہ فرج سے بوٹل نکالتا ہے اور ٹھنڈا پانی پی

لیتا ہے ۔

اور اوون میں کھانا گرم کر کے کھا لیتا ہے البتہ گھروں سے باہر جا کر ہوٹلز اور ریسٹورنٹس میں کھانے کی

روایت ابھی تک برقرار ہے بلکہ اس میں پہلے سے بھی زیادہ تیزی ا گئی ہے جن گھروں کے دروازے پہلے

رات اٹھ بجے بند ہو جایا کرتے تھے وہی دروازے اب رات 10گ بجے کھلتے ہیں اور پوری فیملی

ریسٹورنٹ میں کھانا کھا کر 12 بارہ اور ایک ایک بجے واپس اتی ہے واٹر کولر میں اپ 10 روپے کی برف

ڈالنے کی ضرورت نہیں رہی اب اپ کو ہر جگہ ہر دکان میں ڈسپنسر یا فریج ضرور نظر آئے گا برف کا

استعمال بہت کم ہو گیا ہے ہر جگہ ٹھنڈے پانی کی سہولت موجود ہے گلی محلوں میں جو آپ کو تندور نظر

آتے تھے جہاں پر ایک بوڑھی مائی روٹیاں لگا رہی ہوتی تھی آب وہ بھی اپ کو خان خالی نظر ائیں گے جو

روٹی لگانے کے عوض اپ سے پیسے نہیں بلکہ ایک پیڑا اٹا لے لیا کرتی تھی اور اس وقت جو روٹیاں بنانے

کے لیے عورتیں گھر سے پیڑے بنا کر بھیجتی تھی اب وہ بھی نہیں بھیجے جاتے بلکہ تیار روٹیاں یا نان گھر میں

منگوا لیے جاتے ہیں ۔

ہر محلے ہر گلی ہر سڑک پر جدید قسم کے تندور کھل چکے ہیں جہاں پر صرف روٹی نہیں رہی بلکہ انواع و

اقسام کے نان بھی ملتے ہیں طرح طرح کے ذائقوں والے چکن نان سے لے کر الو نان اور الو نان سے

لے کر میٹھے روغنی اور نہ جانے کتنی قسموں کے نام اب لنڈے کی پرانی پینٹ سے لوگ سکول کے بچوں

کے بیگ نہیں سیتے بلکہ مارکیٹ میں ایک سے بڑھ کر ایک سکول بیگ دستیاب ہے بچے اب اپنے ماں باپ

کو اماں یا بابا یا ابا یا اماں نہیں کہتے بلکہ ممی ڈیڈی کہہ کر بلاتے ہیں اور کئی لوگ تو اس حد تک بے تکلف ہو

جاتے ہیں کہ یار کہہ کر بھی بلاتے ہیں۔

 گھروں میں لگے ہوئے پہلے پرانے 60 واٹ کے بلب کی جگہ اب اپ کو ایل ای ڈی نظر آئے گی جبکہ اب

ایل ای ڈی کی جگہ انرجی سیون نے لے لی ہے پرانے وقتوں میں لوگ گرمیوں میں چھت پر سوتے تھے

ایک ہی قطار میں سارے گھر کے لوگوں کی چارپائیاں لگا دی جاتی تھی مگر اب چھتوں پر سونا بھی خواب بن

گیا ہے جس کی وجہ سے گھروں میں چارپائیاں بھی کم ہی نظر اتی ہیں ہر کمرے میں بیڈ موجود ہیں سنگل بیڈ

ڈبل بیڈ اور خوبصورت پلنگ اور مسہریاں اور ان پر بچھے ہوئے قیمتی موٹے موٹے نرم نرم گدے اب

چھوٹے بچوں کو سائیکل چلانے کے لیے کینچی نہیں لگانی پڑتی کیونکہ بازار میں ہر عمر کے بچے کے سائز کے

مختلف سائیکلیں دستیاب ہیں جدید قسم کی مہنگے سے مہنگی سائیکلیں جن سڑکوں پر تانگے دھول اڑایا کرتے

تھے اب ان سڑکوں پر گاڑیاں دھواں اڑاتی ہیں۔

  کیا زمانہ تھا جب گھروں کے دروازے سارا سارا دن کھلے رہتے تھے بچے ایک گھر سے دوسرے گھر میں

کھیلنے کے لیے چلے جاتے ان گھروں کے دروازوں پر ایک ٹاٹ یا بوری کا پردہ لٹک رہا ہوتا تھا بچوں کو اس

پاس محلے کے گھروں میں انے جانے کی کوئی ممانعت نہیں تھی اب تو دن کے وقت بھی اگر کوئی

دروازے یا گیٹ پر بیل بجا دے تو لوگ سب سے پہلے اندر سی سی ٹی وی کیمرے میں دیکھتے ہیں کہ باہر

ہمارے دروازے پر کون آیا ہے لینڈ لائن ٹیلی فون کسی کے گھر میں ہوتا تھا ملک سے باہر کال ملانا ہوتی تو

پہلے کال بک کروانی پڑتی تھی اور پھر وہیں موجود رہنا پڑتا تھا اور نہ جانے کتنی دیر کے بعد کال مل گئی اب تو

ہر گھر میں لینڈ لائن کیا بلکہ انٹرنیٹ اور سمارٹ ٹی وی جیسی سہولتے ہیں اور موبائل فون کے تو کیا کہنے اگر

ایک گھر کے 10 افراد ہیں تو ایسا مشکل یہ ہوگا کہ کسی کے پاس موبائل نہ ہو ہر ایک کی جیب ہر عورت کے

پرس میں موبائل موجود ہے اور سمارٹ فون جس پر انٹرنیٹ اور ہر طرح کی سہولت ہے لینڈ لائن فون کی

تو بالکل اہمیت نہیں رہی پرانے وقتوں میں ایک واک مین ہوا کرتا تھا جس پر لوگ بڑے شوق سے کیسٹ

لگا سفر کے دوران گانے سنا کرتے تھے اب واک مین کا دور بھی ختم ہو گیا پانی کے ٹب میں موبتی سے چلنے

والی کشتی بھی ماضی کا حصہ بن گئی گھروں میں پانی کے بڑے بڑے ٹینک لگ گئے تو ہاتھ سے چلنے والے

نرکے کا رواج بھی آہستہ آہستہ ختم ہو گیا اور کنویں بھی بند ہو گئے۔

 پہلے ہر گھر میں کنواں سے ڈھونڈتا تھا جب سے جدید بور کا سسٹم آیا ہے تب سے یہ کنویں بھی ختم ہو گئے

واش بیسن گھر ایا تو گھروں میں کُھرے بنانے کی روایت بھی ختم ہو گئی چائے بھی گول پیالیوں سے نکل کر

جدید خوبصورت کپ میں اگئی طرح طرح کے مختلف برانڈز یا سگریٹس اگئے تو گھروں میں حقے کا رواج

بھی ختم ہو گیا اب شاید ہی کسی گھر میں حقے کی چلم تازی ہوتی ہوگی لوگوں نے ماؤں اور بڑی بوڑھیوں کو

پرانے کپڑے اور ڈاکیاں تکیوں کے اندر بھرتے ہوئے دیکھا ہوگا تب ایسا ہی ہوتا تھا لیکن اب نہیں ہوتا

اب مختلف قسم کی کوالٹی کے تکیے اور سرہانے بنے بنائے بازاروں سے مل جاتے ہیں اور پسند بھی کیے

جاتے ہیں اعلی سے الگ کوالٹی کے پہلے مائیں خود بچوں کے کپڑے سیا کرتی تھی اور اکثر بڑی بوڑھی

عورتیں بازار سے سلائیاں اور اون کے کولے منگوا کر سویٹر اور جرسیاں بنا کرتی تھی اب ایسا نہیں ہوتا اب

بازاروں میں ایک سے بڑھ کر ایک سویٹر اور جرسی جیکٹس موجود ہیں سستی بھی مہنگے بھی لوکل بھی اور

امپورٹڈ بھی ہر طرح کی ہر کوالٹی کی چیز میسر ہے ورائٹی اتنی ہے کہ انسان کے لیے انتخاب کرنا مشکل ہو

جاتا ہے۔

 پہلے استاد بنتے تھے اب استاد مانے جاتے ہیں پرانے وقتوں میں گھر کے سب افراد ایک جگہ بیٹھ کر ٹی وی پر

کوئی پروگرام ڈرامہ دیکھا کرتے تھے ایک چینل پی ٹی وی ہوتا تھا جس کا دورانیہ شام چار بجے سے رات

11 یا 10 بجے تک ہوتا اور اس پر ہر طبقے کے افراد کے پروگرام لگائے جاتے بچوں کے بڑوں کے اور

بڑوں کے انٹرٹینمنٹ مذہبی پروگرام اور خبریں وغیرہ اکثر رات کا ڈرامہ سب مل کر دیکھا کرتے تھے اور

اس پاس کے لوگ جن کے گھر ٹیلی ویژن نہیں ہوتا تھا وہ بھی آ جاتے ٹی وی کا دور ختم ہوئے کئی سال ہو

گئے اب ہر گھر میں بڑی بڑی ایل سی جدید قسم کی سمارٹ ایل سی ڈیز دیواروں پر نصب ہیں لیکن اس کے

باوجود ہر کوئی اپنے اپنے کمرے میں بیٹھ کر اپنے پسندیدہ پروگرام موبائل پر دیکھتا ہے سمارٹ فونز پر لوگ

انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے پسندیدہ پروگرامز دیکھتے ہیں نیوز چینل فلموں اور ڈراموں کا راج ہے پہلے ہر قسم

کے پروگرام تھوڑی سی مخصوص وقت کے لیے ایک واحد چینل پر چلتے تھے اب 24، 24 گھنٹے کے کئی

ہزاروں چینل موجود ہیں اور 24 گھنٹے پروگرام نشر کرتے ہیں پرانے زمانے میں الماریوں میں انگریزی

اخبار بچھائے جاتے تھے کہ ان میں مقدس مذہبی الفاظ درج نہیں ہوتے تاکہ بے حرمتی نہ ہو چھوٹی سے

چھوٹی کوتاہی پر بھی کوئی نہ کوئی خوف اڑے ا جاتا تھا اگر زمین پر نمک یا مرچیں گر جاتی یا روٹی کے ٹکڑے

گرتے تو ہوش و حواس اڑ جاتے کہ قیامت کے دن آنکھوں سے اٹھانے پڑیں گے ۔

فقیروں گداگروں اور مانگنے والوں کو پورا محلہ جانتا تھا اور ان کے لیے گھروں میں خیرات کے لیے کھلے

پیسے رکھے جاتے یکم از کم اٹا ضرور رکھا جاتا گھروں میں خط اتے تھے اور جو لوگ پڑھنا نہیں جانتے تھے وہ

اپنے خط ڈاکے سے پڑھایا کرتے تھے ڈاکیا ابھی گھر کا ایک فرد تصور کیا جاتا تھا خط لکھ بھی دیتا تھا اور پڑھ بھی

دیتا تھا اور چائے پانی پی کر اپنی سائیکل پر بیٹھا اور یہ جاہر ہو جا گھروں میں خط اتے تھے اور جو لوگ پڑھنا

نہیں جانتے تھے وہ اپنے خط ڈاکے سے پڑھایا کرتے تھے ڈاکیہ ابھی گھر کا ایک فرد تصور کیا جاتا تھا خط لکھ

بھی دیتا تھا اور پڑھ بھی دیتا تھا اور چاہے پانی پی کر اپنی سائیکل پر بیٹھا اور یہ جا اور وہ جا مختلف موقعوں اور

تہواروں پر کارڈ بھیجے جاتے عید یا اگر کوئی بیمار ہو جاتا تو ان کے کارڈ اور بھیجنے والے کے اس گارڈ کو بڑی

محبت سے دیکھا جاتا اس پر بھیجنے والے کی محبت کا گمان ہوتا۔

 بڑے بڑے بزرگ بیرون ملک مقیم اپنے رشتہ داروں اور بچوں کے خطوط کا انتظار بڑی بے چینی سے گھر

کے دروازے کے باہر بیٹھ کر کیا کرتے ایک 31 مارچ کو سکول کے امتحانات کا نتیجہ سننے کے لیے گھر سے

ہر بچہ ناصرم من اللہ وفات قریب پڑھ کر نکلا کرتا کہ یا اللہ ہمیں کامیابی عطا فرما اور پورا محلہ ہر گھر کے

بچوں کے لیے کامیابی کی دعائیں کرتا اور خوشی خوشی پاس ہو کر ہاتھوں میں کپ اٹھائے یکم از کم پاس ہونے

کی خوشخبری لے کر بچے گھر واپس اتے یہ وہ دور تھا جب لوگ کسی کی بات سن کر اگے سے اوکے نہیں بلکہ

ٹھیک ہے یا اچھا جی کہتے تھے کسی کے گھر میں موت ہو جاتی تو سب عزیز رشتہ دار محلے دار دکھاوے کا رونا

نہیں روتے تھے بلکہ ان کی انکھوں میں سچائی اور محبت کی نمی ہوتی تھی وہ دنیا سے جانے والے کے لیے

حقیقی طور پر دل میں دکھ محسوس کرتے اور جس گھر میں خوشی ہوتی اس گھر میں حقیقی کہ لگائے جاتے محلے

کے کسی بچی یا بچے کی شادی ہوتی تو پورا محلہ اس گھر کے کام میں بڑھ چڑھ کر تعاون کرتا دیکھیں پکائی جاتی یا

کھانا تقسیم ہوتا ڈیڈ لگائے جاتے یا کرسیاں لگائی جاتی ہر کام میں سب چھوٹے بڑے پیش پیش ہوتے اور

اپنے گھر کا کام سمجھ کر اس میں حصہ ڈالتے تہواروں کے علاوہ بھی رات کے مخصوص کھانے کے وقت

ہمسایوں اور اس پاس کے لوگوں کو سالن کی پلیٹ بھیجنے کا رواج تھا اور جس کے گھر میں وہ پلیٹ جاتی وہ

خالی کبھی واپس نہ اتی جوابی طور پر بھی اس میں کچھ نہ کچھ بھیج دیا جاتا ۔

Bachpan ke Zamane ki Sunehri Yaadein

اس طرح سے لوگوں کی محبت اپس میں بڑھتی اج کل اکثر لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ہمارے ہمسائے

میں رہتا کون ہے میٹھے کے صرف تین اقسام تھی زردہ کھیر اور حلوہ اب تو نہ جانے کتنے قسم کی میٹھی ڈشز

نکل ائی ہیں ائس کریم دکانوں یا بیکریوں سے نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے لکڑی کے بنے ہوئے ڈھیلوں سے

ملتی تھی جو محلے کے گلیوں میں اکثر اوازیں لگاتے ہوئے اتے اج کی طرح کے جدید چھوٹے چھوٹے سے

ائس کریم باکس والے نہیں ہوتے جو ساتھ ساتھ میوزک بجاتے ہوئے گلیوں سے گزرتے ہیں بلکہ اس

وقت دودھ سے بنی ہوئی کلفیاں بچھی جاتی جن کا اپنا ہی ایک ذائقہ ہوتا تھا گلی گلی میں سائیکل کی دکان ہوتی

تھی اور سائیکل مکینک موجود ہوتے اور کسی نہ کسی دکان پر اپ کو گلی محلے کا کوئی ادمی قمیض کا کونا منہ میں

دبائے سائیکل میں پمپ سے ہوا بھرتا ہوا نظر اتا محلے میں بچوں میں اکثر ٹافیاں اور چیزیں بانٹی جاتی جس

سے محلے میں بچوں کا جم غفیر اکٹھا ہو جاتا وہ اپنی پسند کی چیز لے کر بہت خوش ہوتے نیاز کے چاول بھی

تقسیم ہوتے تو اکثر اوازیں اتی یہ میرے بھائی کا حصہ بھی دے دیں اب دودھ کی دکانیں جگہ جگہ بن گئی

ہیں دہی اور دودھ دکانوں سے ملتا ہے لیکن پہلے دودھ اور دہی کے لیے بھینسوں کے باڑے پر جانا پڑتا تھا

اس وقت دودھ کا ذائقہ بھی بہت اچھا ہوتا تھا۔

 خالص دودھ ہوتا تھا گفتگو ہی گفتگو تھی باتیں ہی باتیں تھی وقت ہر ایک کے پاس تھا مگر گھڑی کسی کسی

کے پاس تھی گلی محلوں کے کسی نہ کسی کونے میں چارپائیاں لگی ہوتی اور محلے کے بزرگ بیٹھے ہونگا بھی

رہے ہوتے اور پرانے وقتوں کی باتیں کر رہے ہوتے بزرگ بڑوں کے کہاوتیں اور کہانیاں سناتے اور

اچھی اچھی باتیں ایک دوسرے سے شیئر کرتے پرانے واقعات ایک دوسرے کو بتاتے جن میں کوئی نہ

کوئی سبق ضرور ہوتا اور عام طور پر بچوں کو پاس بٹھا کر اچھی اچھی باتیں سکھانے کے لیے وہ واقعات بتائے

جاتے محلے کے امیر گھر جن گھروں میں ٹی وی موجود ہوتا وہ محلے کے دوسرے بچوں کے لیے اپنے گھروں

کے دروازے کھول دیتے اور کارٹون کے وقت اس گھر میں بچوں کا ایک ہٹ ہو جاتا سب ایک ہی کمرے

میں بیٹھ کر اپنا پسندیدہ کارٹون یا ڈرامہ دیکھتے مٹی سے لے وہی چھت کے نیچے چلتا ہوا پنکھا سخت گرمی میں

بھی ٹھنڈی ہوا دیتا اج کی طرح نہیں کہ ہر گھر میں اے سی چل رہے ہیں لیکن پھر سب کچھ اہستہ اہستہ

بدل گیا ہم لوگ قدیم سے جدید ہو گئے اب باورچی خانہ سیڑھیوں کے نیچے نہیں ہوتا اور نہ ہی کھانا بیٹھ

کرپکایا جاتا ہے اور نہ ہی صحن میں لکڑیوں کے چولہے پر بنایا جاتا ہے اب دسترخوان بھی شاید ہی کوئی

استعمال کرتا ہو منجن سے ٹوتھ پیسٹ کے اس سفر میں ہر چیز بہتر سے بہتر اور خوب ہوتی چلی گئی مگر پتہ

نہیں کیوں اس قدر سہولتوں اور ارام کے باوجود اس قدر اسائشیں ہونے کے باوجود گھر میں ایک ڈبہ

ضرور رکھنا پڑتا ہے اور کارٹون کے وقت اس گھر میں بچوں کا اکٹ ہو جاتا سب ایک ہی کمرے میں بیٹھ کر

اپنا پسندیدہ کارٹون یا ڈرامہ دیکھتے مٹی سے لے وہی چھت کے نیچے چلتا ہوا پنکھا سخت گرمی میں بھی ٹھنڈی

ہوا دیتا اج کی طرح نہیں کہ ہر گھر میں ایسی چل رہے ہیں لیکن پھر سب کچھ اہستہ اہستہ بدل گیا ہم لوگ

قدیم سے جدید ہو گئے اب باورچی خانہ سیڑھیوں کے نیچے نہیں ہوتا اور نہ ہی کھانا بیٹھ کر پکایا جاتا ہے اور نہ

ہی صحن میں لکڑیوں کے چولہے پر بنایا جاتا ہے اب دسترخوان بھی شاید ہی کوئی استعمال کرتا ہو منجن سے

ٹوتھ پیسٹ کے اس سفر میں ہر چیز بہتر سے بہتر اور خوب ہوتی چلی گئی مگر پتہ نہیں کیوں اس قدر سہولتوں

اور ارام کے باوجود اس قدر اسائشیں ہونے کے باوجود گھر میں ایک ڈبہ ضرور رکھنا پڑتا ہے جس میں

ڈپریشن سر درد بلڈ پریشر نیند اور وٹامنز کی ٹیبلٹ ضرور رکھنی پڑتی ہے         ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

 

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment