Truck Driver ka Sacha Waqia

Truck Driver ka Sacha Waqia

Truck Driver ka Sacha Waqia

میرا نام جمال الدین یوسف زئی ہے میرا تعلق ایک پٹھان قبیلے سے ہے میں عمر کے اس وقت 70 ویں

سال میں ہوں یعنی میری عمر اس وقت 70 سال سے تجاوز کر چکی ہے اور یہ واقعہ جو میں آپ کو سنانے جا

رہا ہوں میری زندگی میں بیتا ہوا ایک حقیقی اور سچا واقعہ ہے جو آج سے تقریبا 40 سال پہلے پیش آیا اس

واقعہ کی سچائی کے لیے مجھے کسی اور گواہ کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس واقعہ کا عینی شاہد میں خود ہوں یہ

سمجھ لیجیے کہ یہ واقعہ مجھ ہی پر بیتا ہوا ہے جو میں آپ کو حقیقت کے بارے میں آگاہ کروں گا آپ کو واقعے

کی نوعیت کا سن کر اندازہ ہو جائے گا کہ انسان کی زندگی میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جو اس

کی زندگی کے ساتھ اپنی یادیں  چھوڑ جاتے ہیں یہ یادیں بُری بھی ہوتی ہیں اور اچھی بھی لیکن عموما بُری

داستانوں کو زندگی سے نکالنا تقریبا ناممکن ہو جاتا ہے ایسا ہی واقعہ میرے ساتھ 40 سال پہلے پیش آیا۔

 میرا ذاتی طور پر تعلق مالاکنڈ سے ہے اور آپ جانتے ہیں کہ مالاکنڈ اونچے نیچے پہاڑی اور سرسبز و شاداب

وادیوں کی جگہ ہے والد صاحب پاکستان کے دور دراز علاقوں میں مال بردار ٹرک چلایا کرتے تھے پڑھائی

کی طرف میرا جینا لگتا تھا تو انہوں نے بھی مجھے اپنے ساتھ ہی ٹرک چلانے پر لگا لیا کہ ایسا نہ ہو پڑھائی سے

بھاگتے بھاگتے میں کہیں لوفر من کا شکار ہو جاؤں میری عمر اس وقت 17 برس کی تھی اور 20 سال کی عمر

تک پہنچتے پہنچتے والد صاحب کی سربراہی میں میں ایک ماہر ٹرک ڈرائیور بن چکا تھا پھر والد صاحب نے

جب دیکھا کہ میں ایک ماہ ڈرائیور بن چکا ہوں اور ڈرائیوری کے تمام اسرار و رموز سے واقف ہو چکا ہوں

تو انہوں نے اپنی بڑھتی ہوئی عمر کے پیش نظر ٹرک ڈرائیوری چھوڑ دی اور گاؤں میں ایک چھوٹی سی دکان

کھولی اور ٹرک کو میرے حوالے کر دیا ۔

میرے ساتھ ٹرک پر ایک ہیلپر موجود ہوتا تھا شاہنواز کو جو میرا ہی ہم عمر تھا اور ہمارے گاؤں سے ایک

قریبی گاؤں میں رہتا تھا ہم دونوں کئی کئی مہینے گھر سے باہر رہتے کام کے سلسلے میں ہمارا پاکستان کے دور

دراز علاقوں تک جانا ہوتا جس جس جگہ سے ہمیں مال لوڈ اور ان لوڈ کرنا ہوتا جہاں جہاں سے ہمیں ارڈر ملتا

ہم اسی حساب سے مال ایک ہی جگہ سے لے کر دوسری جگہ چلے جاتے شاہنواز جو کہ میرا ہیلپر تھا مگر اس

کے ساتھ ساتھ میرا ایک اچھا دوست بھی تھا۔

 اپنے اس پیشے کے دوران میں نے پاکستان کے بہت سے دور دراز علاقے دیکھ رہے تھے مجھے دشوار گزار

پہاڑی علاقوں سے لے کر میدانی علاقوں سمندری علاقوں اور صحرائی علاقوں کے ساتھ ساتھ کم ہی کوئی

ایسی جگہ ہوگی جو میں نے اپنی زندگی میں نہ دیکھی ہو شاہنواز گل اور میں جس جگہ جاتے سامان لوڈ یا ان لوڈ

کرنا ہمارا کام نہیں ہوتا ہمارا کام صرف سامان کو پہنچانا ہوتا مقررہ جگہ پر جہاں سے سامان اُٹھانا یا ان لوڈ کرنا

ہوتا اسے ان لوڈ یا لوڈ کرنے کے لیے مزدور وہاں پر پہلے سے موجود ہوتے شاہنواز کا کام ٹرک کے ٹائروں

وغیرہ کو دیکھنا گاڑی کی چھوٹی موٹی ضروریات اور مرمت شاہنواز کے ذمے ہوتی۔

 اس کے ساتھ ساتھ شاہنواز کو میں نے ڈرائیونگ بھی سکھا دی تھی یوں ہی ایک روز کا واقعہ ہے کہ ایک

روز ہمیں چلاس کے دشوار گزار پہاڑی علاقے کی طرف سفر کرنا تھا مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہم نے کے

پی کے کے ایک میدانی شہر سے سامان لوڈکیااور اسے چلاس کے دشوار گزار وادی میں لے کر جانا تھا اور

ایک قصبے میں ان لوڈ کرنا تھا سامان لوڈ کروانے والا آدمی شاہنواز کا اچھا جاننے والا تھا شاہنواز نے اسے

دوست ہونے کی خاطر اپنے ساتھ ڈرک میں بٹھا لیا تاکہ راستہ میں گپ شپ رہے گی ہم نے اس کا سامان

لوڈ کروایا اور ہم تینوں ٹرک لے کر چل پڑے اور جلاس کی طرف روانہ ہو گئے ہمارا سفر 20 سے تقریبا

25 گھنٹے کے قریب تھا سفر کے دوران راستے میں ایک جگہ پر ہمارا پڑاؤ تھا وہاں پر کھانے پینے اور رکنے اور

تازہ دم ہونے کے بعد ہم دوبارہ اپنے سفر پر روانہ ہو گئے۔

Truck Driver ka Sacha Waqia

 پہاڑی علاقوں کے موسم انتہائی خوبصورت اور وہاں کی شادابیاں اور منظر انکھوں کو دل لبھانے والے

ہوتے ہیں دلکش پہاڑ میٹھے بہتے ہوئے جھرنے میٹھے بہتے پانی کے دریا اور پہاڑی وادیوں سے گزرتے

گزرتے ہم ایک ایسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں رات کا اندھیرآ پڑ گیا تھا شاہنواز کا دوست مسعود شاہ بہت باتونی

شخص تھا جس نے مال لوڈ کروایا تھا ہم ایک جگہ رک گئے ٹرک سے اتر کر ہم نے ایک طرف سڑک کے

کنارے چولہا وغیرہ رکھا اور چائے بنانے لگے وہاں پر ڈھابہ نما ہوٹل بہت دور دور ہوتے تھے اس لیے ہم

نے ٹرک پر چھوٹا موٹا چائے وغیرہ کا انتظام چائے وغیرہ بنائی اور پی  اور اس کے بعد ایک گپے ہانپتے ہوئے

آگے روانہ ہو گئے۔

 شام کا اندھیرا پھیلنے لگا تھا اور رات ہونے والی تھی آب بھئی ہماری منزل ادھے سفر سے بھی زیادہ دور تھی

اور رات کے 11 بج گئے ہم ایک دشوار گزار پہاڑی علاقے سے گزر رہے تھے ہر طرف خاموشی چھائی

ہوئی تھی سناٹے اور ویرانی کا راج تھا کیونکہ اس دور میں ٹریفک بھی اتنے عام نہیں ہوا کرتے تھے اس لیے

روڈ پر کوئی گاڑی دوسری دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی تھی سردی کا موسم تھا اور سردی بھی بڑھتی جا

رہی تھی اور ویسے بھی پہاڑی علاقوں کی سردی بہت شدت والی ہوتی ہے اس لیے ٹرک کے کیبن کے

دونوں طرف کی کھڑکیوں کو بند کیا گیا تھا شیشے بھی اوپر کر دیے گئے تھے اچانک چلتے چلتے مجھے ایسا محسوس

ہوا جیسے میرے ساتھ بیٹھے ہوئے مسعود شاہ کی طبیعت آچانک خراب ہونا شروع ہو گئی اس نے جیسے اپنے

دل پر ہاتھ رکھ لیا تھا وہ کہنے لگا میری طبیعت کچھ بے چین ہو رہی ہے میں گھبرا کر شاہنواز کی طرف دیکھنے لگا

شاہنواز نے مجھے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا اور میں نے ٹرک ایک طرف کر کے روک دیا باہر

ہولناک سناٹا اور اندھیرا چھایا ہوا تھا شاہنواز نے مسعود شاہ کی طرف دیکھا اور کہنے لگا نیچے اترو اور تھوڑی

دیر تازہ ہوا میں چلو پھرو اور پھر خود اس نے فورا کھڑکی کھولی اور نیچے کود گیا اس کے پیچھے ہی مسعود صاحب

بھی نیچے اترا میں بھی ٹرک بند کر کے نیچے اتر ایا باہر ٹھنڈ بہت زیادہ تھی اور باہر کی سردی اندر کی سردی

سے بھی زیادہ ناقابل برداشت تھی میں نے شاہنواز کی طرف دیکھ کر کہا میرا خیال ہے یہاں رکنا عقلمندی

نہیں باہر ٹھنڈ بہت زیادہ ہے ہاں مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ کیبن کے اندر اس کے طبیعت

زیادہ گھبرا رہی تھی شاہنواز نے کہا مسعود شاہ کو نیچے اتارنے کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوا اس کی طبیعت نا سنبھل

رہی تھی وہ مسلسل اپنے سینے پر ہاتھ رکھے اونچے اونچے سانس لے رہا تھا ہم لوگ پریشانی کے عالم میں وہیں

بیٹھ گئے شاہنواز کیبن کے اندر گیا اور پانی کی بوتل نکال ایا اس نے جلدی سے پانی مسعود شاہ کو پلایا مسعود

شاہ بیچارہ ایک دم ٹھہر سا گیا میں نے اگے بڑھ کر اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا وہ اونچے اونچے سانس لے رہا

تھا جیسے بہت تکلیف میں ہو میرے اور شاہنواز کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگی یہ چلتے چلتے نہ جانے کیا

مصیبت ہم پر وارد ہو گئی میں نے اس سے پوچھا کیا تم جانتے تھے کہ یہ پہلے سے بیمار ہے نہیں مجھے تو نہیں

معلوم ہاں مجھے بھی ایسا محسوس ابھی ہو رہا ہے کہ یہ پہلے سے کسی بیماری کا شکار تھا پھر مسعود شاہ جیسے بے

سد سا ہونے لگا اس پر جیسے بے ہوشی سی طاری ہونے لگی ہم نے اس کا سینہ وغیرہ دبایا تاکہ اسے ہوش میں

لانے کی کوشش کی جا سکے مگر ہماری کوششیں کسی بھی طرح کارامد ثابت نہیں ہو رہی تھی اس کی بے

ہوشی اور بنودگی بڑھتی جا رہی تھی پھر اسے ٹھنڈے پسینے آنے شروع ہو گئے شاہنواز قریبی قصبہ تو یہاں

سے بہت دور ہے اب کیا کیا جائے اس پاس تو کوئی آبادی بھی نہیں یہ تو سارا ویرانہ ہی ویرانہ ہے میں اور

شاہنواز اسی اتھیڑپور میں تھے کہ مسعود شاہ نے ہماری آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہی دیکھتے زور سے ہچکلی

اور اس نے دم توڑ دیا۔

Truck Driver ka Sacha Waqia

 اس وقت جو حالت میری اور شاہنواز کی تھی وہ میں بیان نہیں کر سکتا ہماری یہ حالت تھی کہ کاٹو تو بدن

میں نہ رہیں میرے خیال کے مطابق مسعود شاہ کو دل کا شدید ترین دورہ پڑا تھا جو جان لیوا ثابت ہوا تھا او

میرے خدا یہ کیا ہو گیا میں سخت پریشان تھا شاہنواز بھی بیچارہ رونے کو تھا اب کیا ہوگا یہ تو لگتا ہے مر گیا میں

نے کہا اس نے بغور اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیا یہ تصدیق شدہ ہے کہ اس کی وفات ہو چکی اس نے

میری طرف دیکھتے ہوئے کہا لگتا تو ایسا ہی ہے میں نے اس ک ہاں میں ہاں ملاتے  ہوئے کہا لیکن حتمی طور

پر کچھ کہا نہیں جا سکتا جب تک کسی حکیم یا ڈاکٹر کو نہ دکھا دیا جائے ۔

لیکن ایسا کیسے ممکن ہے اس پاس تو کوئی آبادی نظر نہیں آتی ڈاکٹر یا حکیم یہاں کہاں سے اگیا اسے کسی

قریبی ابادی لے کر چلنا ہوگا مگر سچی بات تو یہ ہے کہ ہم دونوں اس کے مردہ وجود کو اٹھا کر ٹرک کے اندر

لے جانے سے ڈر رہے تھے پھر ایسا کرو شاہ نواز کہ تم یہیں پر بیٹھ کر اس کا دھیان رکھو میں قریبی کسی ڈاکٹر

یا حکیم کو لے کر آتا ہوں اگر قریب کہیں کوئی ڈاکٹر یا حکیم مل جائے میرا دوست شاہنواز میری بات سن کر

گھبرا گیا مطلب میں اکیلا اس کے پاس رہوں ۔ میں نے کہاں گھبراؤ نہیں میں ابھی ا جاؤں گا میں زیادہ دور

نہیں جاؤں گا دیکھتا ہوں پاس کوئی نہ کوئی آبادی ضرور مل جائے گی تم یہیں بیٹھے رہو بڑی مشکل سے میں

نے مسعود شاہ کو اس کے مردہ جسم کے پاس بیٹھے رہنے کے لیے تیار کیا اور خود اٹھ کر روڈ کے ادھر ادھر

دیکھتا ہوا اگے بڑھنے لگا ۔

اونچے اونچے درخت اوپر سے ٹھنڈی برفانی رات میں للٹین ہاتھ میں لیے اگے بڑھنے لگا کافی دور اگے چلنے

کے بعد مجھے کچے راستے سڑک سے نیچے اتر کر اندھیرے میں گم ہوتے دکھائی دیے مجھے اندازہ نہیں تھا کہ

وہ راستے کدھر جاتے ہیں اس لیے میں نے ان راستوں پر چلنے سے اجتناب کیا مبادہ میں راستہ بھٹکمبادہ میں

راستہ بھٹک جاؤں اور واپسی کا راستہ نہ ملے میں کافی دیر تک آبادی کی تلاش میں رہا مگر مجھے کوئی آبادی نہ

مل سکی پیدل چلتے چلتے مجھے تقریبا دو گھنٹے گزر گئے جب آبادی کا کوئی سرا نہ ملا تو میں واپس ڈر کر بھاگا جب

میں گرتے پڑتے واپس ٹرک کے نزدیک پہنچا تو یہ دیکھ کر میرے اوسان خطا ہو گئے ۔

کہ میرا دوست شاہنواز بھی بے ست پڑا ہوا تھا اس کی حالت غیر ہو رہی تھی میں فورا اس کے قریب پہنچا

اور اس کا سر اپنے گود میں لے لیا وہ اٹک اٹک کر یہ الفاظ دہرا رہا تھا یہ لاش مجھے مار ڈالے گی مجھے بچاؤ میں

نے اس کا سر سہلاتے ہوئے کہا کیا ہوا شاہنواز خیریت تو ہے میں سخت گھبرایا ہوا تھا وہ لاش وہ وہ مجھے مار

ڈالے گی وہ لاش کی طرف دیکھتے ہوئے اٹک اٹک کر بولا یہ یہ ابھی اٹھ کر بیٹھ گئی تھی کیا کہا تم نے یہ اٹھ کر

بیٹھ گئی تھی میں حیرانی سے مسعود شاہ کی لاش کی طرف دیکھنے لگا لاش اسی طرح بے ست پڑی ہوئی تھی اور

اس کی اد کھلی انکھیں بے نور تھی یہ تو مر چکا ہے شاہنواز یہ کیسے اٹھ سکتا ہے میں نے کہا نہیں یہ یہ مجھے مار

ڈالے گی وہ خوفزدہ انداز میں اس یعنی کیفیت میں یہی بولے چلا جا رہا تھا مجھے لگتا تھا وہ اکیلا لاش کے پاس

بیٹھے بیٹھے سخت خوف کی کیفیت کا شکار ہو گیا تھا یہ تم کیا کہہ رہے ہو شاہنوازکیا  لاش اُٹھ کر  بیٹھ سکتی ہے ہاں

بیٹھ سکتی ہے اس میں بہت مشکل کہا اور پھر اس کا سر ایک طرف لڑک گیا میں نے حیرانی سے اس کی طرف

دیکھا تو یہ دیکھ کر میری انکھوں کے سامنے جیسے اندھیرا سا چھانے لگا شاہنواز بھی مر چکا تھا او میرے خدا یہ

کیا ہو گیا میرے سامنے پہلے صرف مسعود شاہ کی لاج تھی مگر اب ایک نئی بلکہ دو لاشیں تھیں اب شاہ نواز

کی لاش بھی میری انکھوں کے سامنے پڑی تھی اس کا سر میری گود میں تھا اور اس کی انکھیں بے جان ہو

چکی تھی میرے خدا یہ کیا مصیبت بڑھ گئی اب ایک نہیں دو دو لاشیں میرے سامنے تھی اور میں اس

ویران سناٹے میں اونچے اونچے درختوں کے جھنڈ کے درمیان خاموش اور ویران سڑک پر بیٹھا ان دو

لاشوں کے درمیان اکیلا بے بسی کی تصویر بنا ہوا تھا یا میرے خدا میں کیا کروں اچانک بہادر ہونے کے

باوجود مجھے خوف محسوس ہونا شروع ہو گیا شاہنواز کے اخری الفاظ بار بار میرے کانوں سے ٹکراتے وہ

لاش اٹھ کر بیٹھ گئی ہے اور میں بے اختیار مسعود شاہ کی لاش کو غور سے دیکھنے لگا لاش اس ویرانے میں بڑی

بہت ڈراؤنی معلوم ہو رہی تھی اور واقعی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ابھی وہ اٹھ کر بیٹھ جائے گی مسعود شاہ

کی اکڑی ہوئی لاش عجیب خوفناک منظر پیش کر رہی تھی میں کتنی دیر ادھر بیٹھا رہا اور سوچ میں گم تھا کہ

مجھے کیا کرنا چاہیے اخر مجھے خیال ایا کہ ایسا نہ ہو کہ میرا حشر بھی ان دونوں جیسا ہو مجھے فورا یہاں سے نکلنا

چاہیے اور کسی قریبی قصبے میں جا کر لوگوں کی مدد حاصل کرنا چاہیے ان لاشوں کو سڑک سے ہٹا کر میں نے

ایک طرف ڈال دیا اور خود ڈرگ میں سوار ہوا اور ٹرکا کے بڑھا دیا مجھے اچھی طرح یاد ہے پیچھے دو گھنٹے کے

سفر میں مجھے کوئی قصبہ یا گاؤں دیہات نظر نہیں ایا تھا اور اسی طرح مزید اگے ایک گھنٹہ چلنے تک مجھے کچھ

دکھائی نہ دیا ایک گھنٹے کے بعد ایک چھوٹی سی ابادی کے اثار دکھائی دیے میں نے اپنا ٹرک ایک سائیڈ پر روکا

اور گرتا پڑتا ان لوگوں کی طرح بڑھا جو سائیڈ میں ایک چھوٹے سے ڈانبے پر بیٹھے ہوئے کچھ کھانے پینے

میں مصروف تھے صبح ہونے میں ابھی تھوڑی ہی دیر باقی تھی لوگوں نے مجھے خواص باختہ دیکھا تو مجھے بٹھایا

پانی پلایا میری اس حالت کی وجہ پوچھی تو میں نے انہیں سارا ماجرہ سنا دیا بٹھا کے مالک نے گاؤں کے ایک دو

لوگوں کو میرے ساتھ ٹرک پر روانہ کیا ہم واپس اسی جگہ پہنچے جہاں وہ دونوں لاشیں پڑی تھی ان کو اٹھا کر

ٹرک میں ڈالا گیا اور انہیں لے کر ہمیں اسی ابادی میں پہنچے ان دونوں کی موت کی تصدیق ہو چکی تھی پتہ

چلا کہ مسعود شاہ تو اپنی بیماری کے باعث چل بسا اسے شدید دل کا دورہ پڑا تھا جو جان لیوا ثابت ہوا۔

 اور شاہنواز جو بیچارہ اس لاش کے پاس اکیلا بیٹھا تھا اسی کے خوف سے مر گیا تھا نہ جانے اس نے لاش کو اٹھ

کر بیٹھے دیکھا تھا یا کس وجہ سے اس پر اتنی دہشت داری ہو گئی کہ وہ خوف سے ہی مر گیا ایک گاڑی میں

دونوں کی لاشیں ڈال کر ان کے ورثا کے حوالے کر دی گئی اور میں مایوس دل کے ساتھ اگے روانہ ہوا

میرے دل کی کیا کیفیت تھی میں بتا نہیں سکتا سامان ان لوڈ کرنے کے بعد میں پہلی فرصت میں اپنے

دوستوں کے لواحقین کے پاس پہنچا اور ان کو تمام واقعات من و ان اسی طرح سنا دیے جس طرح وہ پیش

ائے تھے پتہ چلا کہ مسعود شاہ واقعی دل کی بیماری کا شکار تھا جبکہ شاہنواز کی موت لاش کے پاس اکیلے بیٹھے ہونے کی وجہ سے دہشت کا شکار ہو کر ہو گئی تھی مگر مجھے شاہنواز کے اخری الفاظ اب بھی یاد ہیں کہ اس

نے لاش کو اٹھتے بیٹھتے دیکھا تھا نہ جانے کیا اس نے دیکھا تھا کہ وہ بھی بیچارہ ڈر کے مارے وہیں مر گیا۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

 

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment