Pari aur Tote ka Anokha Qissa Episode No 2
طوطا ارشد کے لیے پھل وغیرہ لینے گیا ہوا تھا جب واپس آیا تو ارشد کو قید میں پا کر افسوس کرتا ہوا ایک
طرف اڑ گیا سورج اسمان کے وسط میں آ چکا تھا دھوپ کی تیزی بڑے زوروں پر تھی گرمی کی شدت اس
قدر تھی کہ توبہ ارشد زمین پر گڑا ہوا بھوک پیاسے نڈھال ہو رہا تھا زبان میں کانٹے پڑ گئے تھے ہونٹوں پر
پپڑیاں جم چکی تھیں حلک خشک ہو چکا تھا انکھوں سے انسو مثل برسات کے جا رہی تھی۔
اپنی موت کو قریب دیکھ کر آسمان کی طرف سر اُٹھا کر پکارا یا الہی اس ناگہانی مصیبت سے رہائی دینے والا
تیرے سوا کوئی نہیں تو ہی سب کی مدد کرتا ہے تیرے بغیر میں کس سے التجا کروں ابھی ارشد کی دعا پوری
بھی نہ ہوئی تھی کہ اللہ نے اس کی دعا قبول کر لی وہاں پر ایک فقیر ظاہر ہوا اور ارشد کو اس حال میں دیکھ کر
اس کے نزدیک آیا کلام الہی پڑھ کر دم کیا ارشد اس قید سے آزاد ہو گیا ارشد فقیر کے قدموں پر گر پڑا اور
اپنی تمام سرگزشیں سنائی فقیر نے اسے تسلی دے کر کہا کہ بیٹا گھبراؤ نہیں یہ سلیمانی من کا لو جب اسے
اپنے منہ میں رکھو گے تو دنیا کی نگاہوں سے غائب ہو جاؤ گے اسے اپنے پاس سنبھال کر رکھو خدا حافظ مگر
آئندہ بہت ہوشیاری سے کام کرنا اور کسی مکر و فریب میں نہ آنا پھر فقیر نے ارشد کو کھانا کھلایا پانی پلایا اور
ارشد کو کئی باتیں سمجھا کر غائب ہو گیا ۔
ارشد نے منکی کو ازمانے کی خاطر اُسے اپنےمنہ میں رکھ لیا اور ایک جانب کو چل دیا سامنے سے ایک دھوبی
بیل پر کپڑے لادے آ رہا تھا ارشد کو شرارت سوچی اس نے دھوبی کے پیچھے ا کر اسے ایک چپت لگائی
دھوبی نے سمجھا کہ یہ کسی بھوت کی کاروائی ہے وہ بدحواس ہو کر بیل کو وہیں چھوڑ کر بے تحاشہ بھاگ اٹھا
ارشد نے اسے کئی آوازیں دی مگر اس نے پھر پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا ارشد ہنستا ہوا آگے چل دیا دور پہنچ کر
کیا دیکھتا ہے کہ ایک بڑے سے مندر کے اندر باہر چاروں طرف لوگ ہی لوگ جمع ہیں معلوم کرنے سے
پتہ چلا کہ وہاں پر میلے کا تہوار ہے مندر میں ایک بڑا سا بت بنا ہوا تھا لوگ نظرانے جواہر پھل پھول اور
مٹھائیاں بت کے چرنوں میں رکھ کر ماتھا ٹیکتے اور پھر ہاتھ جوڑ کر سر جھکائے منہ میں کچھ بڑبڑا کر واپس چلی
جاتی ارشد کو پھر شرارت سوچی بدھ کے قریب جو پجاری پوجا کر رہے تھے ان کی چٹکیاں لینی شروع کر
دی پجاری آپس میں لڑنے لگے ارشد نے ہر ایک کے پاس جا کر کسی کو لات ماری کسی کو مکہ رسید کیا کسی کی
چٹکی لے لی عورتوں نے اپس میں بالوں کو کھینچنا شروع کر دیا تمام میلے میں کہرام مچ گیا وہاں ایک بہت بڑا
خیمہ نصب تھا۔
اس میں سے وہی عورت برآمد ہوئی جس نے ارشد کو قید کر دیا تھا میلے کو اس حالت میں دیکھ کر وہ عورت
حیران ہو رہی تھی کہ ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے یہ اپس میں کیوں لڑنے لگے ارشد نے اسے دور سے دیکھ
کر پہچانا وہ ہوا کے مانند اس کے پاس اور آتے ہی ایک ڈنڈا اس کے سر پر رسید کر دیا وہ لڑکھڑا کر گری ارشد
نے پہلے اس کے ہاتھ سے اپنی انگوٹھی اتاری پھر خیمے میں گھس کر تلوار پر قبضہ کیا ایک کونے میں اپنے
طوطے کو پنجرے میں قید پایا پھر اسے بھی رہا کیا طوطا اور ارشد دونوں خیمے سے باہر نکلے اس بدزار عورت
کو قتل کر کے موت کے گھاٹ اتارا اس کا مرنا تھا کہ پہلے طوفان آیا پھر مندر وغیرہ کا نام و نشان مٹ گیا
اب ارشد نے دیکھا کہ سوائے طوطے اور اپنے سفید گھوڑے کے وہاں کوئی بھی نہیں تھا ارشد نے اللہ کا
شکر ادا کیا ۔
طوطے نے ارشد سے التجا کی کہ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر کو کاف کا راستہ اختیار کرے ارشد کا گھوڑا آسمان پر
اڑتا ہوا جا رہا تھا طوطا ارشد سے آگے رہنمائی کرتا ہوا جا رہا تھا دو دن کی لگاتار مسافت کے بعد وہ کوکا کی
سرحد پر پہنچ گیا جس وقت ارشد کے گھوڑے نے کوکاف کی زمین پر قدم رکھا تو طوطا ایک درخت پر
چھپ کر بیٹھ گیا درخت کے سائے تلے چند سرحدی دربان دیو موجود تھے اور کچھ فاصلے پر ان کی چھاونی
بھی تھی گھوڑے کو دیکھ کر دیوں کی باچھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کیونکہ ارشد منکے کی وجہ سے انہیں دکھائی
نہیں دے رہا تھا دیو نے اپس میں کہا کہ اس گھوڑے کو پکڑ کر کیوں نہ اس کو کھایا جائے یہ صلاح کر کے وہ
سب کے سب گھوڑے کی طرف بڑھے۔
جب اس کے قریب پہنچے تو ارشد نے نیام سے تلوار کھینچ کر انہیں قتل کرنا شروع کر دیا دو تین مر کر
گرے باقی چھاونی کی طرف بھاگے اور شور کرنا شروع کر دیا کہ یہاں کوئی ادم زاد ا پہنچا ہے وہ خود تو دکھائی
نہیں دیتا مگر اس کی تلوار موت کا پیغام دے رہی ہے ابھی یہ اتنی ہی گفتگو کرنے پائے تھے کہ گھوڑا وہاں
بھی جا پہنچا دیو سمجھتے بھی نہ پائے تھے کہ تلوار چلنی شروع ہو گئی کچھ قتل ہوئے کچھ سر پر پاؤں رکھ کر
بھاگ اٹھے ارشد نے ان کا پیچھا کیا طوطا بھی ارشد کے ساتھ ساتھ جا رہا تھا تمام دیو بھاگم بھاگ کے کنویں پر
آئے اور اس میں چھلانگیں لگانی شروع کر دی طوطے نے ارشد سے کہا کہ تم بھی گھوڑے سمیت کنویں
میں کود پڑو ارشد بھی کود پڑا گھوڑے کے پاؤں زمین ہیلو جی کہا کہ کسی دیو کا نام و نشان نہیں تھا بلکہ وہ تو ایک
عالی شان باغ میں تھا اور وہاں ایک بہت ہی خوبصورت محل بنا ہوا تھا اور اس کے گرد ہر قسم کے درخت
اور پھول وغیرہ عجیب باہر دے رہے تھے توطے کے کہنے سے ارشد گھوڑے سے اتر کر اس محل میں
داخل ہوا۔
چند پریزاد دکھائی دیے ارشد نے ایک بری ذات کی چٹکی لی اور دوسرے کے منہ پر تھپڑ رسید کیا وہ اپس میں
لڑنے لگے ارشد ان کا تماشہ دیکھتے ہوئے اگے بڑھا ایک بڑے سے کمرے میں پہنچا وہاں ایک دیو کے پاس
دو تین ادم ساتھ ستونوں سے بندھے ہوئے کھڑے تھے وہ دیو جھومتا ہوا بھڑا اور جہاں کے خنجر سے ادمی
کا گوشت کاٹے مگر اوپر سے ارشد کی تلوار پڑی اس کا سر کٹ کر الگ جا پڑا اس کا مرنا تھا کہ بہت سے دیو
چلاتے ہوئے اندر داخل ہوئے مگر تلوار کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دیا تلوار نے ان پر اپنا کام کرنا شروع
کر دیا حتی کہ تمام کے تمام ڈھیر ہو گئے ان کے مرتے ہی باغ اور محل انکھوں سے اوجھل ہو گیا۔
اب ارشد نے دیکھا کہ سامنے شاہی محل نظر ارہا تھا طوطے نے ارشد سے کہا کہ اب گھوڑے پر سوار ہو جاؤ
اور شاہی دربار کی طرف بڑھو کیونکہ اس سے اگے میں بھی نہیں جا سکتا بعد میں تمہارے پاس پہنچ جاؤں گا
ارشد گھوڑے کو سر پر دوڑاتا ہوا دربار کی طرف جا پہنچا دیو گھوڑے کو اس طرف آتے دیکھ کر پریشان ہو
گئے اور جیسے ہی اس کو پکڑنے کے لیے اگے بڑھتے لقمہ اجل بن کر رہ جاتے دیو بھاگتے ہوئے دربار میں
بادشاہ کے روبرو حاضر ہوئے اور رو رو کر گھوڑے اور تلوار کا ماجرہ بیان کیا جنات کا بادشاہ یہ واقعہ سن کر
بہت پریشان ہوا اور درباریوں کو حکم دیا کہ جاؤ جلدی سے اس گھوڑے کو پکڑ کر میرے سامنے پیش کرو
بادشاہ کے منہ سے یہ الفاظ نکلے ہی تھے کہ گھوڑا خود دربار میں اگیا ارشد نے آواز دی کہ او مغرور بادشاہ اگر
تم اپنی زندگی چاہتے ہو تو سر کا تاج اتار کر میرے حوالے کر دو ورنہ یہ تلوار ہوگی یا تیری گردن بادشاہ نے
جواب دیا تم کون ہو یہاں کس لیے آئے ہو اور کس کے سامنے بے ادبانہ گفتگو کر رہے ہو یہاں سے چلے
جاؤ ورنہ مارے جاؤ گے اور چھپ کر کیا لڑتے ہو اگر مرد ہو تو ظاہر ہو یہ سن کر ارشد نے منکے کو اپنے منہ
سے نکالا اور تلوار کھینچ کر بادشاہ کی طرف بڑھاتی بادشاہ نے جنوں کو حکم دیا کہ اسے پکڑ لو یہ جانے نہ
پائیں۔
جن اور دیو اپنے اپنے ہتھیار سنبھال کر ارشد کی طرف لپکے لیکن ارشد کی تلوار کی چمک سے وہ اندھے ہو
جاتے اور کٹ کٹ کر گرتے جاتے بادشاہ نے جب ارشد کی یہ جرات دیکھی تو غیض و غضب میں ا کر
تخت سے اٹھا مگر ارشدوں سے لپٹ کر بادشاہ کے تخت پر ا پہنچا اور تلوار کی نوک سے بادشاہ کے سر سے
تاج اتار کر اپنے سر پر رکھ لیا اب جتنے بھی بقایا دو تمام کے تمام ارشد کے پاؤں پر گر پڑے ارشد نے حکم دیا
کہ بادشاہ کو قید کر لو اتنے میں طوطا بھی آ پہنچا اور بادشاہ کے تاج کو ارشد سے لے کر اپنے بدن سے مس کیا
تو وہ طوطا ایک خوبصورت پر ہی بن گیا ارشد پری کو دیکھ کر ہکا پکا ہو کر رہ گیا پری نے تاج اپنے سر پر پہن لیا
اور تخت پر بیٹھ گئی ۔
جتنے بھی دیوتے سب اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے پری نے ارشد کو اپنے پاس بٹھایا اور کہا کہ اے نوجوان
تاج کا راز یہی تھا جو اج تم پر ظاہر ہوا میں یہاں کے بادشاہ کی بیٹی ہوں یہ جن میرے باپ کا وزیر تھا اس نے
نمک حرامی سے میرے باپ کو کہیں قید کر دیا اور اس کا تاج اپنے سر پر پہن کر تخت کا مالک بن بیٹھا اور مجھے
اس نے جادو کے زور سے طوطا بنا کر انسانوں کی دنیا میں پھینک دیا تھا میں نے تمہیں اس وقت دیکھا جب
تم اس شکاری سے بات چیت کر رہے تھے تمہاری جرات پر میں تم پر عاشق ہو گئی ہوں اتنا کہہ کر پری نے
دیوں کو حکم دیا جاؤ میرے باپ کو قید خانے سے رہا کر کے باعزت لے اؤ دیو گئے اور ان کی ان میں اصلی
بادشاہ کو لے کر دربار میں حاصل ہوئے بادشاہ نے اپنی بیٹی کو دیکھا تو اسے گلے سے لگا لیا پری نے ارشد کا
تمام حال بیان کیا کہ کس طرح مشکلات سے لڑتے ہوئے ارشد نے ان کی مدد کی بادشاہ نے ارشد کا شکریہ
ادا کیا اور اپنے وزیر کو قتل کر ڈالا اور اپنی بیٹی سے ارشد کی شادی کر کے کوکاف کے تحفوں سمیت انسانوں
کی طرف روانہ کر دیا ارشد پری کو ساتھ لیا اپنی ماں ا کر ملا اور پری کا تمام حال بیان کیا پری نے وہاں پر ایک
عالی شان محل بنایا پھر پری ارشد اور اس کی والدہ خوشی کی زندگی بسر کرنے لگے۔