Majboor Ladki Ki Baddua Ny

Majboor Ladki Ki Baddua Ny

Majboor Ladki Ki Baddua

اسلام علیکم اُمید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے ۔

آج کی کہانی میں خوش آمدید

 یہ ان دنوں کی بات ہے جب کراچی شہر ہر کسی کو بروقت اپنی پناہوں میں لینے کو تیار تھا جہاں غریب سے

غریب آدمی دو آنے میں اپنا پیٹ بھر لیتا تھا چلیں شروع کرتے ہیں اس بے بس انسان کی کہانی یہ موسم

سرما کیا ایک رات تھی اور رات کے 12 بچوں کے تھے میں بستر پر لیٹا کروٹ بدل رہا تھا نیند کا دور دور تک

پتہ نہیں تھا اس موقع پر مجھے سگریٹ کی طرف ہوئی میں نے سگریٹ کی ڈبیاں اٹھائی مگر وہ تو بالکل خالی ہو

چکی تھی اور سیکرٹ کے طلب میں شدت ا رہی تھی میں خاموشی سے اپنے بستر سے اٹھا تاکہ میری بیوی جو

دن بھر گھر کے کام کر کے تھک چکی تھی اور بے خبر نیند کی اغوش میں پناہ گزری تھی ۔

بیدار نہ ہو میں نےکھنٹی سے اپنے گرم کپڑوں سےکوٹ نکالا اور چپل ہاتھ میں لے کر خاموشی سے بیڈ

روم کا دروازہ بند کیا اور بیرونی دروازے کی طرف چل پڑا ہوا کے ایک سرد چونکے سے میرے تمام بدن

میں ایک سرد لہر سے اٹھ گئے مگر سگرٹ کے طلب نے مجھے باہر نکل جانے پر مجبور کر دیا حالانکہ مجھے

معلوم تھا کہ سگریٹ اس وقت کہاں سے مل سکتی ہے اور وہ فاصلہ میرے گھر سے تقریبا ڈیڑھ میل ضرور

میں نے اپنی موٹرسائیکل کی طرف دیکھا مگر یہ سوچ کر کے موٹر سائیکل پر بہت ٹھنڈ لگے گی پیدل ہی

جانے کا فیصلہ کر لیا زمانے میں نہ چوری کا ڈر تھا اور نہ ہی لوٹنے کی پرواہ لوگ سادہ دل اور محبت کرنے

والے تھے میں خاموشی سے باہر کا دروازہ اچھی طرح بند کر کے آہستہ آہستہ اپنی منزل کی طرف چل پڑا

جگہ جگہ فٹ پاتھ پر دن بھر کے تھکے ہارے مزدور فقیر اور غریب لوگ پرانے بوسیدہ سے کمبل لپیٹے اس

طرح سو رہے تھے جیسے کہ فوم کے گدے پر کمرہ بند کر کے اور لحاف اڑ کے امیر لوگ سوتے ہیں ۔

میں ان کے درمیان سے راستہ بناتا ہوا تیزی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف جا رہا تھا ناظم آباد عید گاہ کے

پاس مجھے ایسا لگا کہ جیسے کوئی گھٹی گھٹی آواز کے ساتھ رو رہا میرے قدم خود بخود آواز کے چل پڑے جیسے

جیسے میں قریب جا رہا تھا تو اس کی ایک گھوٹی گھوٹی سی رونے کی آواز میرے کانوں سے ٹکرا رہی تھی اور

پول لائٹ کی مدھم روشنی میں کوئی اپنے پاؤں کے درمیان میں سر جھکائے بیٹھا تھا یہاں تک کہ میں اس

کے بہت نزدیک پہنچ گیا مگر اس کو خبر ہی نہ ہو میں اس کے بالکل سامنے بینچ پر دوزانوں ہو کر بیٹھ گیا اور

ہلکی اواز میں اس کو سلام کیا مگر جواب سے محروم رہا میرے چھٹی حس مجھے خبردار کر رہی تھی کہ میں

واپس پلٹ کر اپنی منزل کی طرف چل پڑو مگر خوف  خدا سے مجھے اس کو اس حالت میں چھوڑ کر جانے کا

تصور بھی نہیں ا رہا تھا ڈرتے ڈرتے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ چونک پر میری طرف دیکھنے لگا ۔

میں نے کہا بھائی معاف کرنا میں نے اپ کو ڈسٹرب کر دیا اس نے عجیب سی نظروں سے میری طرف

دیکھا اور کہا کہ کوئی بات نہیں بھائی اپ مجھ سے اتنی رات کو کیا چاہتے ہو میں نے کہا میں تو سگرٹ پینے کو

جا رہا تھا مگر جب آپ کے رونے کی آواز سنی تو بے ساختہ اپ کی طرف میرے قدم بڑھ گئے اگر آپ بُرا

نہ مانے تو کیا میں اپ کے رونے کی وجہ جان سکتا ہوں شاید میں اپ کے کام آ جاؤں بھائی آپ میری کہانی

سن کر کیا کریں گے آپ جائیں اپنا کام کریں میں نے کہا بھائی چلو اپنا نام تو بتا دو میرا نام کیا ہے میرا نام یہ تو

میں بھی نہیں جانتا اب تو مجھے بے چینی ہو گئی کہ اس کی کہانی سنے بغیر میں  کہیں نہیں جاؤں اور سگریٹ

کے طلب جس کی وجہ سے میں گھر سے نکلا تھا وہ تو کہیں دفن ہو گئی پھر جب اس نے مجھے گھور  کر دیکھا تو نہ

چاہتے ہوئے بھی سرد موسم میں میری پیشانی پر پسینہ آگیا مگر میں نے بھی ہٹ دھرمی کی چادر اوڑھ لی اور

کہا کچھ بھی ہو جائے میں اپ کے کہانی سنے بغیر نہیں جاؤں گا۔

 اس نے اپنی پھٹے ہوئے کوٹ کی اندرونی جیب میں ہاتھ ڈالا اور سگرٹ کا پیکٹ نکال کر جلا کر ایک سگرٹ

مجھے  دیا اور ایک سگرٹ خود لگانے لگا میں نے سگریٹ لے کر کش لگایا تو میری سگریٹ کے طلب جو

موجود تھی وہ پوری ہونے لگی پھر وہ خاموشی سے سگریٹ پیتا رہا اور خلا میں گرتا رہا پھر تھوڑی دیر کی

خاموشی کے بعد بولا بھائی تم کون ہو تم کو اتنی رات کو اچانک ہمدردی کا بخار کیوں چڑھ گیا تم بھائی میرے

ساتھ میرے گھر چلو ٹھنڈ بہت ہے وہ ایک دم جلال میں اگیا اور انگریزی میں مجھ سے کہنے لگا میں تمہارے

ساتھ نہیں جاؤں گا اور پھر سگرٹ لگا کر میری طرف بڑھاتے ہوئے بولا سگریٹ لو اور دفع ہو جاؤ اس نے

انگریزی ہی میں مجھے گالی دی جو کہ خوش دلی کے ساتھ میں نے قبول کر لی تھوڑی دیر خاموش رہی صرف

ہوا کی سرسراہٹ فضا میں پھیلی ہوئی تھی پھر وہ خود مجھ سے مخاطب ہوں اور انگریزی میں مجھ سے کہنے لگا

بھاگ جاؤ مجھ سے بات مت کرو میں خاموش رہا سگرٹ کے آہستہ آہستہ کش لگاتا رہا پھر تھوڑی دیر کے

بعد اس نے انگریزی میں مجھ سے کہا میں دو دن کے بعد تم سے ملوں گا میں نے کہا وعدہ اس نے کہا میں

کبھی غلط بات نہیں کرتا۔

 ویسے تمہارا نام کیا ہے میرے اجنبی دوست؟ آب اس کا لہجہ کافی بدل گیا تھا وہ دوستانہ ماحول میں مجھ سے

بات کرنے لگا تمہارا نام کیا ہے اس نے مجھ سے سوال کیا جب تم نے اپنا نام نہیں بتایا تو میں کیوں بتاؤں

اچھا یہ بات ہے میرے دوست یقین جانو مجھے میرا نام یاد نہیں ہاں البتہ مجھے سب لوگ کالو کہہ کر بات

کرتے تھے اچھا چلو اب ہم ایک اچھے دوست بن گئے ہیں ہاتھ ملاؤ اس نے مجھے ہاتھ ملایا اور میں نے اس

سے وعدہ لیا کہ وہ دو دن کے بعد اپنی کہانی مجھے سنائے گا اس نے بڑے دوستانہ انداز میں مسکراتے ہوئے

وعدہ کر لیا اور میں جب جانے کے لیے اٹھنے لگا تو اس نے کہا دوست اپنا نام تو بتا کر جاؤ کیوں نہیں میرا نام

سرفراز احمد عابدی ہے اچھا تو تم شیعہ ہو یہ کیا بات ہوئی بھائی میں نے مسکراتے ہوئے کہا نہیں میں ایک

مسلمان ہوں اور تم بھی ایک مسلمان ہو نہ کوئی شیعہ نہ سنی یہ تو ہم لوگوں کی بنائی ہوئی بات ہے نا اس نے

ایک زوردار کہہ کہاں لگایا درست بہت عمدہ یہ بات صحیح ہے چلو پھر ملاقات ہوگی۔

Majboor Ladki Ki Baddua

 میں واپس گھر آگیا شکر ہے کہ صبح کے پانچ بج رہے تھے مگر میری بیوی ابھی بھی بے خبر سو رہی تھی میں

خاموشی سے بستر پر لیٹ گیا دوسرے دن میں اپنے کاموں میں مشغول ہو گیا لیکن جب فرصت ملتی تو میرا

ذہن اس کی طرف چلا جاتا وہ بہت ہی پراسرار شخصیت کا مالک تھا شام سے بارش ہو گئی اور ٹھنڈ میں اضافہ

ہو گیا اگلے دن مجھے اس سے ملنے جانا تھا مگر دوپہر سے رک رک کر بارش ہو رہی تھی لیکن پھر شام کو ٹھنڈ

تو بہت تھی مگر بارش رک چکی تھی میں نے 11 بجے رات سے تیاری شروع کر دی اور اپنی وائف کو بتایا

کہ مجھے ایک مشاعرے میں جانا ہے جو کہ رات دیر تک ہوگا اس لیے میرا انتظار نہ کرنا اور تم سو جانا میں صبح

آؤں گا کیونکہ دوسرے دن اتوار تھا اس لیے میری وائف کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔

 آج میں نے اپنی موٹر سائیکل نکالی ہیلمٹ پہن کر اچھی طرح اپنے آپ کو سردی سے بچانے کے لیے

دستانے وغیرہ پہن کر صرف 15 منٹ میں اس کے پاس پہنچ گیا آج وہ بہت خوشگوار موڈ میں تھا لیکن

چہرے پر ایک اداسی اور مایوسی صاف نظر ارہی تھی مجھے دیکھ کر وہ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ملا اور کہنے

لگا تم بھی اپنے عہد کے سچے ہو آخر کار آ ہی گئے میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا میرے بے حد اصرار پر وہ

میرے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر کافی ہاؤس جانے پر راضی ہو گیا ہم لوگ جیلانی منزل کے قریب ایک

کافی ہاؤس تھا جو کہ فجر کی اذان کے بعد بند ہوتا تھا میں نے راستے سے دو عدد گولڈلیف سگرٹ کے پیکٹ

لیے اور پھر کافی ہاؤس پہنچ کر ایک بالکل الگ تھلگ ٹیبل پر جا کر آمنے سامنے بیٹھ گئے۔

 اس کو میں نے سگریٹ کی افر کی جو اس نے بڑی خوش دلی سے لے لی اور کافی انے تک ہلکے ہلکے کش لگاتا رہا

مگر میں نے محسوس کیا کہ وہ کچھ بے چین سا تھا اور خاموشی سے کچھ سوچ رہا تھا اچانک وہ بلک بلک کر رو پڑا

بڑی مشکل سے میں نے اس کو چپ کروایا وہ کہنے لگا سرفراز بھائی نہ جانے کیوں میرا دل کہہ رہا ہے آج

آپ سے میں اپنے دل کی ہر بات شیئر کروں تاکہ مجھے آسانی سے موت آ جائے مجھے نہیں معلومم لیکن

میرا دل گواہی دے رہا ہے کہ اپ پر اعتبار کیا جا سکتا ہے اس کے بعد وہ ایک گہری سوچ میں ڈوب گیا میں

نے بھی خاموشی اختیار کر لی اور پھر رونے لگا اب کی مرتبہ میں نے اس کو رونے دیا تاکہ اس کے دل کا غبار

نکل جائے میں نے سگرٹ چلا کر اس کو دی اور وہ ہلکے ہلکے کش لگا کر سوچتا رہا پھر وہ مجھ سے گویا ہوا بھائی

اپ مجھ سے وعدہ کریں کہ میری کہانی آپ ضرور کہیں شائع کریں گے تاکہ لوگ میری کہانی سے عبرت حاصل کریں شاید کوئی میرے مرنے کے بعد میرے لیے دعا گو میں نے اس سے وعدہ کر لیا اور میں نے

اس کو کہا کافی کے ساتھ نمکو کا ارڈر دیتا ہوں پہلے تم کچھ کھا پی لو پھر شروع ہونا۔

 بھائی میرے پاس وقت ہی بہت کمی ہے میں ابھی اور اسی وقت اپ کو اپنی کہانی سناتا ہوں اور ساتھ ہی کافی

اور نمکو بھی کھاتا ہوں آپ بالکل فکر نہ کریں چلیے تو کہانی سنتے ہیں اس کی زبانی میرا نام خرم عابد ہے مگر

میری ماں مجھےکلو کہا کرتے تھے اور اس نام سے میں اپنے دوستوں اور جاننے والوں میں مشہور میرا اصل

نام بہت کم لوگوں کو معلوم تھا وہ چند منٹ بہت سوچتا رہا پھر کہنے لگا کہ میں سیٹھ عابد کا لڑکا ہوں کیا اپ کو

یقین آئے گا میرے پاس دولت کی کمی نہیں تھی اوٹری میں جو کپڑے کی مل تھی  وہ میرے نام پر تھی میرا

باپ بہت بڑا سمگلر تھا پاکستان کے بڑے بڑے سیاست دانوں سے اس کی دوستی تھی بڑے بڑے جرنل

ہوں یا کوئی چھوٹا آفسر سب اس کے ماتحت تھے مگر میرا باپ بہت عیاش تھا میں لڑکپن سے اپنے گھر

مختلف عورتوں کو آتے جاتے دیکھا کرتا تھا میری ماں ایک طوائف زادی تھی مگر اس کے رہن سہن نے بڑا

پکار تھا اور وہ کسی اعلی خاندان کے لکھتی تھی وقت بھی کیا ظالم چیز ہے یہ مجھے بعد میں پتہ چلا میرے پاس

ایک سپورٹس گاڑی تھی جس پہ میں سکول جاتا تھا اور چونکہ میں اکانومنٹ کا طالب علم تھا لڑکیاں لڑکے

اونچے گھرانے کے تھے اور سب بے باک قسم کے سٹوڈنٹس تھے۔

 پڑھائی سے زیادہ ہم لوگ پارٹی کیا کرتے تھے رات رات بھر شراب اور شباب کی محفل سجی رہتی تھی پھر

اس نے سگرٹ کا ایک لمبا کش لگایا اور کہنے لگا کہ اس میں ایک لڑکی تھی بہت خوبصورت اور نسوانی حسن

سے مالا مال میں نے اپنی دولت کے زور پر اس کو اپنا پابند کر لیا تھا اور وہ بھی دولت کے چکر میں میرے

ساتھ انوالو ہو گئی۔

  پھر ایک رات شراب کے نشے میں میں نے اس کی عزت دار تار کر دی مگر اس کے باوجود وہ میرے ساتھ

رہیں اور ہم دونوں ایک ناجائز رشتے میں خوش رہنے لگے مجھے وہ تمام طریقہ پتہ تھا جس سے اولاد نہیں ہو

سکتی تھی اس لیے ہماری دوستی بہت عرصے تک رہی لیکن پھر میرا دل اس سے بھر گیا اور میں مختلف

لڑکیوں کے ساتھ رات بسر کرنے لگا اس میں کئی تو ایسی تھی کہ رات کے ہزاروں روپے لیتی تھی پھر وہ

خلاؤں  میں گھورنے  لگا اور تھوڑی دیر کے بعد بولا لیکن عابدی بھائی ایک لڑکی کی بددعا نے میری دنیا اجاڑ

دی ہوا کچھ یوں کہ ایک دن میں اپنے افس میں بیٹھا ہوا تھا اور اپنے پرسنل سیکرٹری کے لیے انٹرویو کر رہا تھا

کافی بور قسم کی لڑکیاں تھیں مگر اب میں انٹرویو لے لے کر بور ہو رہا تھا تو میں نے اپنی سیکرٹری کو کہا کہ

اب  کسی کو اندر نہیں آنے دینا باقی انٹرویوز کل ہوں گے۔

اور میں جانی ورکر شراب سے لطف اندوز ہونے لگا کہ میری سیکرٹری نے انٹر کام پر بتایا کہ ایک لڑکی ہے

جو ضد کر رہی ہے کہ آپ اس کا انٹرویو کر لیں وہ بہت ضرورت مند ہے مگر پہلے تو میں نے ڈال دیا پھر اس

کے بہت اصرار پر میں نے اس کو اندر بلا لیا وہ بہت معصوم تھی بھائی اس نے بہت سے طریقے سے دوپٹہ لیا

ہوا تھا یہ کہہ کر اس نے پھر سگریٹ جلائی اور ہلکے ہلکے کس لینے لگا میں نے بہت لڑکیاں دیکھی تھی بہت

لڑکیوں کے ساتھ رات بسر کی تھی لیکن وہ بہت معصوم سی لڑکی نے نظریں نیچی کر کے اپنی فائل میرے

آگے رکھ دی میں کرسی پر سے اٹھ کر اس کے پاس اگیا وہ سہم گئی اور تھر تھر کانپنے لگے میں نے اس کو

دلاسا دیا اور بیٹھنے کو کہا جب وہ میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی میں نے دیکھا کہ اس کی انکھوں میں نمی

تھی اور وہ مجھے بہت معصوم اور بیچاری لگی میں نے انٹرکام پر اپنی سیکرٹری کو بلایا اور کہا کہ ان محترمہ کے

فائل لے کر جائیں اور ان کا اپوائنٹمنٹ لیٹر بنا کر لے آئے اب وہ بہت مطمئن اور خوش ہو رہی تھی وہ بار

بار میرا شکریہ ادا کر رہی تھی میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تنخواہ لیں گی اپ اس نے کہا کہ سر جو بھی اپ

دے دیں میں بہت ضرورت مند ہوں میں نے کہا ٹھیک ہے میں 50 ہزار روپے ماہانہ اپ کی تنخواہ دے

سکتا ہوں تو اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔

 اس کو یقین نہیں ارہا تھا لیکن میرا شیطانی دماغ کچھ اور ہی سوچ رہا تھا وہ لیٹر لے کر اور ایک ماہ کی ایڈوانس

تنخواہ لے کر خوشی خوشی روانہ ہو گئی میں نے اس کو گھر چھوڑنے کی افر کی مگر اس نے معذرت کر لی میں

نے بھی سوچ لیا تھا کہ اب ٹھنڈا کر کے کھاؤں گا مجھے جلدی نہیں تھی وہ میری سیکرٹری تھی اتنے میں کافی

لے کر ویڑآ گیا باتوں کا سلسلہ رک گیا اس کے جانے کے بعد اس نے بتایا کہ پورے 15 دن وہ میرے

افس آتی رہی اور دن بھر سر جھکا کر کام کر دیں اور پانچ بجے شام ہوتے ہی گھر کے لیے روانہ ہو جاتی میں

بھی اسے کچھ نہیں کہتا تاکہ وہ میرے اوپر اعتبار کرنے لگے یہی ہوا وہ مجھ پر اعتبار کرنے لگی اور کبھی کبھی

اپنے گھر کے حالات مجھے بتا دینے لگی ایک سچا ہمدرد بن کر میں اس کے زخموں پر مرہم رکھ دیا کرتا تھا دو

مہینے کے بعد دو مجھ سے بہت فری ہو گئی وہ میری بہت عزت کرتی تھی ایک دن کام کے بہانے میں نے

اس کو روک لیا اور اس طرح رات کے اٹھ بج گئے تمام سٹاف جا چکا تھا میں نے اس کو ایسا کام دیا کہ وہ بھی

ٹائم کا خیال نہ رکھ پائیں جب اس کو احساس ہوا تو وہ میرے پاس ائی سر بہت دیر ہو گئی ہے میری امی بہت

پریشان ہو رہی ہوں گی۔

Majboor Ladki Ki Baddua

 چلو میں تم کو تمہارے گھر چھوڑ دوں گا تم پریشان مت ہو یہ کہہ کر میں نے اس کو اپنی مضبوط باہوں میں

لے لیا اس نے بہت کوشش کی مگر اب اس کا بچنا بہت مشکل تھا وہ چلائی روئی اللہ کا واسطہ دیا مگر اب میں

کہاں سننے والا تھا مجھ پر شیطان حاوی ہو چکا تھا اور میں نے اس کی عزت کو تار تار کر دیا یہ کام ختم کر کے میں

نے اس کو بہت تسلی دی لیکن وہ برابر روئے جا رہی تھی میں نے ڈرائیور کو بلا کر کہا اس کو گھر چھوڑو اس کی

طبیعت ٹھیک نہیں۔

 مگر عابد بھائی اس نے جاتے جاتے مجھے کہا کہ اللہ نے چاہا تو نہ تو تیری شادی ہوگی اور نہ ہی تیری اولاد ہوگی

بات ائی گئی ہو گئی اس نے آفس آنا چھوڑ دیا میں مطلب نکلنے کے بعد اس کو بھول گیا اور دوسری لڑکیوں

کے ساتھ زندگی انجوائے کرتا رہا لیکن نہ جانے کیا بات تھی کہ جب بھی اکیلا ہوتا تو اس کا روتا ہوا چہرہ

میرے سامنے آ جاتا میرے لاک کوشش کے باوجود میں اس کو بھول نہیں پا رہا تھا آخر ایک دن میں نے

فائل میں سے اس کا پتہ نکالا اور اس کے گھر پہنچ گیا مگر گھر پر تالا لگا ہوا تھا میں نے اس کو بہت تلاش کیا مگر

مجھے نہ وہ مل سکی اتنے عرصے میں میرے باپ کو انٹرپول پولیس نے ایک کیس میں گرفتار کر لیا اور

کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود میرے باپ کو سزا ہو گئی۔

 اب تمام ذمہ داری میرے اوپر اگئی دوسری طرف میرے دوستوں اور خاص طور پر میری والدہ میری

شادی کے چکر میں پڑ گئی جبکہ میں شادی نہیں کرنا چاہ رہا تھا اور نہ ہی مجھے شادی کی ضرورت تھی باپ کے

گرفتاری کے باوجود ہمارا کام اور کاروبار بالکل ٹھیک تھا میری ماں نے زبردستی میری شادی کر دی بھائی  کیا

بتاؤں کہ شادی میری بربادی بن گئی یہ کہہ کر وہ پھر رونے لگا بلک بلک کر رو رہا تھا کہ میں نے حیرانی سے

اس کی شکل دیکھ کر کہا اگے بتاؤ ہوا کیا پھر اس نے مجھ سے جو کچھ کہا وہ ناقابل سماعت تھا کم از کم میرے

لیے یہ بہت مشکل تھا کہ اس موقع پر میں اس کو کیا کہوں اس نے بتایا مجھے اس لڑکے کی بددعا ایسی لگی کہ

میں اپنی بیوی کے پاس جانے کے قابل ہی نہ رہا ساری رات انجانے درد سے تڑپتا رہا دیواروں سے ٹکریں

مارتا رہا صبح میری بیوی اپنے گھر چلی گئی اور اس کے اصرار پر میں نے اسے طلاق بھجوا دی ہر بار شادی کی

رات میرے ساتھ ایسا ہی ہوا اور چوتھی شادی جو ابھی 15 دن پہلے ختم ہوئی ہے اس کے بعد تو وہ درد جو

صرف شادی کی رات اٹھتا تھا اب ہر لمحہ مجھے تڑپاتا ہے۔

 ڈاکٹر میرا مرض سمجھنے سے قاصر ہے مگر میں جانتا ہوں کہ مجھے اس لڑکی کی بددعا نے برباد کر دیا ہے میں

موت کی دعا کرتا ہوں مگر وہ بھی مجھ سے ناراض ہے میں نے اس سے کہا کہ تم اپنا علاج کیوں نہیں

کرواتے اس نے کہا کہ دنیا کا کون سا ملک ہے جہاں میں علاج کے لیے نہیں گیا مگر بھائی جب اللہ ناراض ہو

جائے نا تو پھر کہاں سے شفا ملے پھر میں نے اس سے کہا کہ اس لڑکی کو تلاش کرو اگر اس نے معاف کر دیا

تو تمہیں اللہ بھی معاف کر دے گا کہنے لگا میں نے بہت تلاش کیا مگر وہ نہیں ملی پھر میں نے اس کو بہت

تسلی دی اور میں کر بھی کیا سکتا تھا صبح ہونے والی تھی کافی ہاؤس میں بند ہو رہا تھا میں نے ٹوٹے دل کے

ساتھ اس کو رخصت کیا ۔

دوسرے دن میں اپنے کام سے فارغ ہو کر ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ خبر ائی کہ سیٹ عابد کے لڑکے خرم نے

خودکشی کر لی ہے یہ خبر سنتے ہی میں نے موٹرسائیکل اٹھائی اور کلپٹن میں اس کے گھر پہنچ گیا کیونکہ اس

نے رات ہی کو مجھے اپنے گھر کا پتہ دیا تھا ظہر کی نماز میں اس کا جنازہ اٹھایا گیا لیکن امام مسجد نے جنازہ پڑھنے

سے صاف انکار کر دیا کہ خود کشی کرنے والے کا جنازہ میں نہیں پڑھا سکتا آخر کار ناظم آباد عید گاہ میں اس

کی نماز جنازہ ہوئی جہاں وہ مجھے ملا تھا میں قدرت کے اس فیصلے پر حیران بھی تھا اور اپنے اجنبی دوست کے

لیے دعا گو بھی تھا شاید مرنے کے بعد اللہ اس کے گناہ معاف کر دے کیونکہ وہ بہت کریم ہے مگر کاش مجھے

وہ لڑکی مل جاتی تو میں اس کو معاف کروا دیتا لیکن کچھ نہ ہو سکا اور میرا اجنبی دوست ایک بددعا کے تحت

اللہ کو پیارا ہو گیا اللہ اس کی مغفرت فرمائے۔

 لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کسی مجبور کی مجبوری کا فائدہ کبھی نہیں اٹھانا چاہیے جو کام اللہ تعالی نے ہم مسلمانوں

کے لیے حرام قرار دے دیے ہیں ہمیں ممکنہ طور پر ان سے بچنا چاہیے کیونکہ دنیا والوں سے تو شاید ہم بچ

جائیں لیکن اللہ تعالی کی سزا سے اور اس کی پکڑ سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا کیسی لگی کہانی کمنٹ باکس میں

ضرور بتائیں ملتے ہیں اگلی کہانی  میں تب تک کے لئے اللہ حافظ

کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment