Kam Umar Ladki Ki Borhy Sy Shadi

Kam Umar Ladki Ki Borhy Sy Shadi

Kam Umar Ladki Ki Borhy Sy Shadi

اسلام علیکم اُمید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے ۔

آج کی کہانی میں خوش آمدید

شہلا میری کلاس فیلو تھی ہم دوسری جماعت میں ساتھ پڑھتے تھے غریب ماں باپ کی بیٹی تھی اس کا وہ

چھوٹی سی دکان چلاتے تھے یہ دکان انہوں نے اپنے گھر میں بیٹھک میں کھول رکھی تھی وہ بیمار پڑ گئے تو یہ

دکان بند ہو گئی بیماری ایک عذاب ہوتی ہے جو غربت سے بھی بڑا عذاب ہے خدا کسی کو بیماری نہ دے باپ

کی علالت سے گھر میں واقع ہونے لگے ان دنوں شہلا کی عمر بمشکل اٹھ برس تھی اور تیسری جماعت میں

تھی ہمیں اکٹھا سکول آتی جاتی تھی ایک دن اس نے اچانک سکول آنا ترک کر دیا وجہ معلوم کرنے میں امی

کے ہمراہ ان کے گھر گئی پتہ چلا کہ اس کی شادی ہو رہی ہے امی نے سنا تو دانتوں تلے انگلی دبا دی وہ کہنے لگی

خدا کی پناہ یہ غربت کیسی بری بلا ہے جب بس نہیں چلتا تو معصوم لڑکیاں اس کے بھینٹ چڑھا دی جاتی

ہیں۔

صالح محمد شہلا کے ابو کے کزن کا بیٹا تھا اس کے چچا کمال دین سے دوستی بھی تھی جس کی وجہ سے خیریت

پوچھنے اکثر ان کے پاس آجاتا تھا یہ شخص رحم دل تھا اور اچھے دل کا مالک تھا چچا کمال کی بیماری میں ان کے

کافی مدد کی علاج معالجہ بھی کرایا دور کا رشتہ دار تھا خواتین پردہ نہ کرتی تھی شہلا تو کمسن تھی وہ یوں بھی پردہ

نہ کرتی اور بے دھڑک سامنے آ جاتی اس شخص کی عمر جانس برس تھی اور کھالوں کا کاروبار تھا جو اچھا جا رہا

تھا بیوی فوت ہو چکی تھی ایک بیٹی تھی جو بیاہی جا چکی تھی صالح محمد کی صحت قابل رشک تھی 40 سال کا

ہونے کے باوجود وہ 25 کا لگتا تھا قد لمبا تھا شکل و صورت بھی اچھی تھی دوسری شادی کے لیے کافی

کوشش کی مگر موضوع رشتہ نہ ملا جانیں کیسے اس کے دماغ میں یہ بات اگئی کہ شہلا جیسی کم سے لڑکی اس

کے لیے موضوع رہے گی۔

 اس کنبے کی غربت پر بھی اس کا دل اڑ رہا تھا سوچا اگر یہاں رشتہ طے ہو جائے تو ماں کول مدد بطور داماد کر

سکے گا اور یہ لوگ فاطمہ سے بچ جائیں گے شہلا کے پانچ بہن بھائی تھے یہ سب سے بڑی بیٹی تھی صالح محمد

اپنی ماں کو لے آیا جس نے چچا کمال سے بات کی اور واضح  یوں کہہ دیا کہ تمہارے کنبے کو میرے بیٹے جیسے

داماد کی سخت  ضرورت ہے جو ان سب کو سنبھالیں ورنہ تم خود تو ٹی وی جیسی موزی مرض میں مبتلا ہو اور

بستر مرگ پر ہو اج ہو کل نہیں ہو گے تمہاری چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کا کیا بنے گا کچھ اس طرح صالح محمد

کی ماں نے ہمدردی جتلائی کہ شہلا کے ابو رشتے پر راضی ہو گئے۔

 ایک لاکھ روپیہ اسی وقت صالح نے چچا کمال کے قدموں میں رکھ دیا یوں یہ کنبہ مرتے مرتے جی اٹھا شہلا

اتنی معصوم تھی کہ اپنی شادی کے بارے میں گھر والوں کی باتیں سنتی اور اس کی سمجھ میں نہ آتا کہ یہ لوگ

کیا کہہ رہے ہیں اسے خبر ہی نہ تھی شادی کیا بلا ہو گئی ماں پریشان تھی مگر بیمار شوہر کے فیصلے کے اگے کچھ

بھول نہ سکیں اس نے اللہ تعالی پر بھروسہ کر لیا ایک ماہ میں ہی شہلا کو دلہن بنا دیا گیا جب بارات آئی یہ بچے

اپنی بارات دیکھنے کے شوق میں خود بھی دروازے کے باہر اگئی تب کسی بزرگ عورت نے اس کا بازو پکڑ

کر اسے گھر کے اندر کھینچ لیا وہ ٹک ٹک بنی سمری عورتوں کو دیکھتی تھی جو اس کی رخصتی لینے ائی تھی یہ

عجیب شادی تھی میں بھی لڑکیوں کے جرمٹ میں کھڑی تماشہ دیکھ رہی تھی وہاں نہ سہیلیاں تھیں اور نہ

کوئی رسم ہوئی کیونکہ چچا کمال دین تو گھاٹ پر بڑے خون تھوک رہے تھے اور عجب وحشت زدہ اور

پتھرائ انکھوں سے ہر کسی کو دیکھ رہے تھے بڑا بھائی کوئی نہ تھا کہ بہن کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے رخصت

کرتا یا والدین سے اس میں جوڑ رشتے پر احتجاج کرتا۔

 قصہ مختصر غربت دور کرنے کی خاطر یہ سودا ہوا شہلا کو سجی ہوئی کار میں بٹھا دیا گیا ماں اس وقت خاموش

تھی لیکن جب کار چلی تو وہ دھاڑے مار مار کر رونے لگے میں نے کار کے ونڈو کے پاس جا کر دیکھا میری سہیلی سجی ہوئی ایک گڑیا کی طرح خوبصورت لگ رہی تھی وہ حیرت زدہ ننگاہوں سے باراتیوں کو دیکھ رہی

تھی تبھی اس کی نظر روتی ہوئی ماں اور بہنوں پر پڑی تو وہ بھی رونے لگی دلہا باپ جیسا شفیق پاس ہی  بیٹھا تھا

اور اس کے انسو اپنے رومال سے صاف کر رہا تھا شہلا نے اس وقت گوئٹے  کناری سے بھرا ہوا جوڑا پہن

رکھا تھا جو سسرالی اسے دلہن کا روپ دینے کو لائے تھے اور اس نے عید کا دن سمجھ کر خوشی خوشی پہن لیا

تھا آہستہ آہستہ رینگتی ہوئی کار گلی کا موڈ مڑتے ہی نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔

 اب خانہ سلیمہ کے دل پر اری چلی اور وہ فرش پر گر پڑی تبھی امی نے دوڑ کر ان کو سہارا دیا بازو سے پکڑ کر

کمرے میں جانےلٹایا کئی دن تک کھانا بستر سے نہ اٹھی اماں ہی گھر سے کھانا پکا کر لے جاتی اور ان سب کو

کھلاتی ذرا حواس  میں آئی تو بتایا کہ صالح میاں ان کو تین لاکھ روپیہ نقد کاروبار کے لیے دے گئے ہیں اور

ان کی بیٹی کا حق مہروہ الگ دیں گے یعنی بیٹی کی شادی کا سونگ رچا کر انہوں نے اس معصوم کو بھیجا تھا

کیونکہ تین لاکھ روپیہ اس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی بارات کے ساتھ شہلا کی خالہ گئی تھی اس نےآ کر

بتایا کہ جب کار صالح کے گھر پہنچے تو سارے رشتے دار قربانی کے اس بکرے کے استقبال میں لگ گئے وہ

کار پر پھول بتیاں نچھاور کر رہے تھے اور پٹاخے چلا رہے تھے۔

 مکان کافی بڑا اور کشادہ تھا سامنے باغ تھا دلہا دلہن کا کمرہ کمال محنت سے سجایا تھا بچے پھولوں کی سیج پر بیٹھی

ہر ایک کو بھولپن سے  دیکھتی تھی تبھی صالح کی بہن اس کے پاس بیٹھ گئی اور سمجھانے لگی دیکھو یہ کمرہ

تمہارا ہے یہ چیزیں کالین سنگھار میز سب تمہارے لیے ہیں کار بھی ہے اس پر تم روز سیر کرو گی اپنی امی

کے پاس جاؤ گے نا ماں کا ذکر آتے شہلابے چین ہو گئی وہ بے قرار ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگی یا اللہ یہ کیا،

ہجوم  کے شور میں سمجھ ہی نہ ا سکی کیا ہو رہا ہے کار میں بیٹھ کر کدھر اگئی ہے چھوٹے بہن بھائی چھوڑ بیمار ابا

سے اوجھل پیار کرنے والی ماں سے تو سوچیں اس کو پریشان کرنے لگے وہ ادھر ادھر دیکھتی اپنا کو ڈھونڈتی

یکدم پھولوں کی سیج سے اٹھنے لگی نند نے بازو پکڑ کر دوبارہ صحن پر بٹھا دیا اور جیٹھانی اسے سر پر دوپٹہ اڑاتے

ہوئے بولی گھبراؤ نہیں رونا نہیں ہم تمہارے ہیں گھر والوں کو یاد نہیں کرنا وہ کل آ جائیں گے بس اج کا دن

نہیں ا سکتے اور پھر نہیں گئے ادھر ادھر دیکھنے لگی کمرے کی ہر شے کو گرنے لگی۔

 جب سہیلیوں کے گھر جاتی تھی ان کے گھروں میں اور میرے گھر میں یہ سب چیزیں دیکھتی تھی سوچتی

تھی کہ کہاں سے آجاتی ہیں یہ چیزیں ان کے گھروں میں اور میرے گھر میں کیوں نہیں یہ فریج یہ ٹی وی

یہ سنگھارمیز اور اس میں رکھا ہوا سامان اور اب یہ سب کچھ یہاں موجود تھا یہ سب کہہ رہے تھے رونا

نہیں اداس مت ہونا یہ سب چیزیں تمہاری ہیں میری ہیں تو پھر میرے ماں باپ کے گھر کیوں نہیں ہیں

اگر یہ سب میرے گھر پہنچا دیں تو ہم بھی امیر ہو جائیں تھوڑی دیر وہ بولی مگر جب رات ہو گئی تو گھر والے

یاد اگئے یہ ساری چیزیں ہیں اگر ماں باپ تو نہیں ہیں وہ اپنی نند سے پوچھنے لگی گھر کب جائیں گے مجھے اماں

کے پاس جانا ہے ضد کرنے لگی نہیں ابھی چلو میں یہاں نہیں سوں گی واپس گھر جاؤں گی صالح محمد کی بہن

کا دل بھر ایا اس نے ننھی منی گڑیا کو باہوں میں بھر لیا سمجھانے لگی تمہاری شادی ہو گئی ہے اب یہی گھر

تمہارا ہے تم اب سسرال میں ہو کل تمہاری امی بہن بھائی آ جائیں گے تم سے ملنے گھبراؤ مت مہمان ابھی

تک گھر میں تھے عورتیں دلہن دیکھنے کمرے میں گھسیا رہی تھی نند تب جلدی سے اس کا گونگٹ ڈالنے

لگتے اور برس ہاتھ میں دے کر کان میں کہتی سر جھکا کر بیٹھو۔

 معصومیا غضب ڈھا رہی تھی جو عورت دیکھتی دل تھام کر کہتی ہائے اللہ اتنا ظلم رات کے 10 بج گئے شہلا

پر تھکن سے غنودگی طاری ہونے لگی تب اس کی نند اور جٹھانی نے عورتوں کو کمرے سے باہر دھکیل دیا اور

دلہن در ا گیا اس نے آتے ہی دلہن کو خوبصورت زیورات کا سیٹ دیا مگر اب وہ کسی کو نہیں دیکھنا چاہتی تھی

اسے نیند ارہی تھی بستر پر لیٹتے ہی سو گئی صالح محمد اسے ایک بات نہ کر سکا حالانکہ وہ اس کو سمجھا رہا تھا کہ تم

میری دلہن ہو اور میں تمہارا شوہر ہوں اٹھو دیکھو کتنے خوبصورت زیور تمہارے لیے لایا ہوں وہ سو چکی

تھی سوتی ہوئی بچی بر صالح کو رحم بھی آیا اور پیار بھی اس نے ماں سے کہا اماں تم اس کے پاس سو رہے ہو

میں بیٹھک میں سو جاتا ہوں۔

 اگلے دن اٹھتے ہی اس نے ادھر ادھر جھانکا پھر ماں  کو پکارنے لگی تبھی ساس نے سمجھایا بیٹی یہ تیرا گھر ہے

ماں بھی آتی ہوگی مگر وہ اپنے گھر سے آئے گی تیرے گھر تجھ سے ملنے اور ماں کا گھر تیرا گھر نہیں ہے مجھے

کچھ نہیں پتا اس نے ساس کا ہاتھ جھٹکا اور میری ماں کو پکارنے لگی تب نند نے ا کر اس کوبہلایا اور ناشتہ اپنے

ہاتھ سے کرایا پھر نہلا دھلا کر سجا دیا دوبارہ دلہن بنا کر بٹھا دیا دوپہر کے بعد ہم تم کو سیر کرانے لے جائیں

گے صالح تم کو بازار لے جائے گا جو شے تمہارا دل چاہے خرید لینا اور پھر کار پر اپنی ماں کے گھر چلی جانا

ٹھیک ہے۔

 ہاں اس نے اثبات میں سر ہلا دیا ایسے سب کچھ اس کی سمجھ میں اگیا ماں اور بہن نے صالح کو سمجھایا کہ یہ

بہت کم عمر ہے اس دن اس کو بالکل تنگ نہیں کرنا بلکہ جو کہے وہی کرنا ہم سب اکٹھے گھومنے پھرنے جانے

لگے تاکہ شہلا ہم سے مانوس ہو جائے اب وہ روز شام کو کار پر سیر کرنے جاتے شہلا کو چیزیں خرید کر دیتے

تو تحفے لاتے وہ بچی تھی خوش ہوتی تھی ان باتوں سے انہوں نے اس پر کوئی دباؤ نہ ڈالا رات کو ساس اپنے

پاس سلاتی تھی دن کو نندے ہاتھوں میں ہاتھ لیے رکھتی تھی یوں رفتہ رفتہ خوف و اجنبیت دور میں گئی وہ

اس کو ہر دوسرے تیسرے دن میں کے بھی لے جاتے تھے چار پانچ گھنٹے بہن بھائیوں میں رہ کر اتی تو

خوش رہتی وقت دھیرے دھیرے آگے سڑکنے لگا یہ اچھے لوگ تھے انہوں نے ننھی منی چالاکو اتنے پیار

سے رکھا کہ وہ گھر والوں کو بھول گئی اور اس کو سمجھ میں اتا گیا کہ شوہر اور بیوی میں کیا رشتہ ہوتا ہے اور

سسرالی کون لوگ ہوتے ہیں صالح اس کا اتنا خیال رکھتا کہ وہ اس سے پیار کرنے لگی لوگوں نے بہت

باتیں کی اس ظلم کے بارے میں کانوں کو ہاتھ لگاتے مگر شہلا کے ماں باپ خوش تھے ان کے تمام

خدشات مٹ گئے تھے صالح امیر آدمی تھا ان کا خیال تھا اس طرح ان کے بیٹے کے قسمت چمک گئی تھی وہ

اپنے سسرال کے ہر فرد کے لیے فرشتہ رحمت بن گیا سسر کا علاج کرایا برادر نسبتی کو دکان کھول کر دی

سسر کے باقی بچوں کو سکول میں داخل کرایا اس مردہ کنبے میں اس کے پیسے نے جان ڈال دی تھی یہ

عجیب کہانی تھی عمر رسیدہ شوہر کو کمسن بیوی اتنا چاہتی تھی کہ زمانہ حیرت زدہ تھا کوئی  شہلا کے خاوند کو عمر

رسیدہ کہتا تو یہ اس پر پل پڑتی تھی خدا نے شادی کے چھٹے سال پہلے بچے سے بھی نواز دیا پھر تو اوپر تلے وہ چار

بچوں کی ماں بن گئی بچوں کو دادی اور پھوپی نے پالا کیونکہ وہ بچوں کو اٹھاتی تھی تو ان کی ماں نہیں لگتی تھی

میں شہلا سے ملنے گئی تو وہ بہت خوش تھی شوہر بڑی عمر کا تھا مگر وہ اسے بہت چاہتی تھی کیونکہ اس نے

شہلاکے گھر والوں کے لیے بہت کچھ کیا تھا انہیں افاقوں اور بیماری سے بچایا تھا ان کو نئی زندگی دی تھی

شہلا اپنے خاوند کا ہر حکم مانتی تھی اور دل و جان سے خدمت کرتی تھی۔

Kam Umar Ladki Ki Borhy Sy Shadi

 شوہر کے بغیر ایک پل نہیں رہ سکتی تھی میں اسے پھولے نہ سماتے دیکھ کر حیران رہ گئی خوبصورت تو تھی

ہی عیش و آرام کی زندگی نے اسے اور حسین بنا دیا تھا چار بچوں کی ماں لگتی  نہ تھی وقت گزرتے دیر نہیں

لگتی شہلا کی شادی کو 20 برس ہو چکے تھے وہ 28 برس کی ہو گئی تھی اور اب بھرپور جوان عورت تھی اس

پر جوانی کے ساتھ جوبن اور روح تو اب ایا تھا لیکن اس کا شوہر ان دنوں پر بیمار رہنے لگا تھا 60 سال کی عمر

میں بھی وہ عمر رسیدہ نہیں لگتا تھا مگر سستی اسم حلال اس کی ڈلتی عمر کے چغلی کھا رہے تھے اچانک ایک

روز بہت ہو گیا جس کا کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔

ایک روز وہ رات کا کھانا کھا کر بستر پر دراز ہوا تو نیند میں موت نے گلے سے لگا لیا جانے شب کے کون  سے

پہر دل کا دورہ پڑا اور صالح محمد وفات پا گیا صبح جب حسب معمول بیدار نہ ہوا تو شہلا نے جگایا کہ اٹھیے فجر کی

نماز کا وقت نکلا جاتا ہے مگر صالح اس دنیا میں ہوتا تو جواب  دیتا شہالا نے شوہر کا جواب نہ پا کر کئی بار اسے

پکارا ہر پکار کے بعد خاموشی تھی دل دہل گیا اور پھر معاملہ سمجھ میں آتے ہی وہ چیخ مار کر بے ہوش ہو گئی

شوہر کی میت کو رشتہ داروں نے سنبھالا جبکہ شہالا کو ہسپتال لے گئے جہاں ایک دن کومے کی حالت میں

رہ کر وہ فوت ہو گئی کسی کو  یقین نہیں اتا تھا کہ 32 برس چھوٹی چلا اپنے شوہر صالح محمد سے اس قدر والہانہ

پیار کرتی ہوئی کہ وہ اس کی وفات کا صدمہ بھی برداشت نہ کر سکی اور خالق حقیقی سے جا ملی۔

 دونوں ساتھ ساتھ لہر میں چلے گئے اتنی رفاقت ایسا پیار کبھی کسی نے نہ دیکھا ہوگا مرنے کے بعد بھی ساتھ

نبھا رہے تھے تو جنازے آگے پیچھے دنیا سے گئے تو ہر آنکھ اشکبار تھی ایک بچی سے عورت بنی تھی پھر 20

برس کی رفاقت سے وہ اس کی دوست بن گزار اور جیون ساتھی بھی بن چکی تھی اس کے بچوں کی ماں تھی

اپنے سسرال کی آنکھوں کا تارا اور ساس نندوں کے چہیتی تھی آہ میری سہیلی میں کتنی خوبیاں تھی گنوانے

بیٹھوں تو گنوا نہیں سکتی یہ کچھ پرانے وقتوں کی باتیں ہیں آج تو شادیاں کھیل اور طلاقیں عام بات ہیں

برسوں پرانے لوگ کیسی انہونی نبھا جاتے تھے کہ اج سوچو تو حیرت ہوتی ہے۔

Kam Umar Ladki Ki Borhy Sy Shadi

 ان دنوں شادی کے بندھن کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی اور شادی کو ایک معمولی رشتہ گردانہ جاتا ہے معمولی

بات پر علیحدگی اور طلاق کے کیس عام ہیں  میاں بیوی اس قدر نازک مزاج ہو گئے ہیں کہ میاں خراٹے

لے یا بیوی پالتو جانور رکھ لے تو اس بات پرطلاق ہو جاتی ہے عمروں کو فرق تو بڑی بات ہے رنگت کے

فرق پر جیون ساتھی کو خدا حافظ کہتے نہیں جھجکتے شہلا نے تو خود سے 20 برس بڑے شخص کے ساتھ

زندگی کے 20 برس ایسے گزارے تھے جیسے کوئی جنت میں زندگی گزارتا ہے اس وقت جب اس اٹھ

برس کے بچے کا نکاح 40 سال کے شخص سے ہو رہا تھا محلے کی عورتیں بھی رو رہی تھیں مگر جس طرح

شہلا نے سمجھوتہ کیا اور زندگی ہنس کر گزاری اس پر دنیا حیرت میں تھی دنیا میں ایسی عورتیں بہت ہیں جن

کے صبر اور تدبر کی مثال نہیں ملتی شہلا کے بچے اج بھی اپنی ماں کی قبر پر فاتح پڑھنے جاتے ہیں پھول اس

کے لحد پر نچھاور کرتے ہیں کیسی بے مثال ماں اب کس کی ہو دوستو اس کہانی کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ کم عمر

بچوں کی شادی کی جائے لیکن یہ ایک حقیقی کہانی تھی جس میں مجبورا غربت کی وجہ سے لڑکی کی شادی کرنی

پڑی اور ایسا نہیں صلالح یا اس کے گھر والوں نے ساتھ نہیں دیا بلکہ بہت اچھے طریقے سے رکھا اور بہت

پیار دیا اور شہلا نے بھی اپنے شوہر سے اور سسرال والوں سے بہت پیار کیا اور بہت اچھی زندگی گزاری

کاش ہر شوہر اور بیوی ایک دوسرے سے ایسے ہی پیار محبت سے رہیں تو یہ زندگی جنت بن جائے کیسی لگی

اج کی یہ درد بھری کہانی کمنٹ باکس میں ضرور بتائیں ملتے ہیں اگلی کہانی  میں تب تک کے لیے مجھے اجازت

دے اللہ حافظ۔

کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment