Ek ladki ki laash ka dahshatnaak waqia
اسلام علیکم اُمید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے ۔
آج کی کہانی میں خوش آمدید
اس کہانی میں پیش کیا جانے والا واقعہ ایک سچا واقعہ ہے جو ہندوستان کی تقسیم کے وقت پیش ایا جس وقت
پاکستان ایک الگ ملک بنا تو ائیے واقعہ بیان کرتے ہیں۔
زندگی کے چند ماہ ساہیوال شہر میں گزرے مارچ 1972 میں دانہ پانی وہاں سے لے گیا اور نومبر میں ہم
واپس لاہورہ گئے ساہیوال ایک چھوٹا سا خوبصورت شہر تھا کبھی کبھار ہمارے ایک عزیز جن کا نام بھی
عزیز تھا وہاں آاتے انہیں ساہیوال کے قریب زمین الاٹ ہوئی تھی یہ زمین اس لیے میری کہ ان کی ابائی
زمین اسلام اباد کے اندر شامل کر لی گئی تھی عزیز صاحب کے ساتھ ان کے دوست شفیق صاحب بھی آتے
جاتے رہتے انہیں بھی اسی طرح زمین الاٹ ہوئی تھی شفیق صاحب نے ایک رات میرے ہاں قیام کیا
باتوں باتوں میں کہنے لگے یہ جس مکان میں آپ رہتے ہیں یہاں بھی کبھی ہندو رہتے ہوں گے۔
کیونکہ مکان کے باہر 1939 اور ہندی کے کچھ الفاظ لکھے ہیں میں نے کہا ہاں میں نے بھی سنا ہے کہ اس
مکان میں تقسیم ہند سے پہلے ایک ہندو فیملی رہتی تھی شفیق صاحب کہنے لگے مجھے یہ دیکھ کر ایک ہندو کا
مکان یاد آگیا جو ہمارے گاؤں میں تھا جس کا ایک لرزہ خیز واقعہ اج بھی میرے ذہن میں ہے میں نے پوچھا
شفیق صاحب آپ کا گاؤں کہاں ہے کہنے لگے ہمارا گاؤں کالام راولپنڈی سے 40 50 کلومیٹر کے فاصلے پر
جنوب کی جانب واقع ہے تقسیم ہند کے وقت اس میں 70 80 مکانات تھے 10 15 گھر ہندوؤں کے
تھے گاؤں میں ایک گھر سیدوں کا تھا سید صاحب یعنی شاہ جی سکول ماسٹر تھے مسجد میں امامت کراتے اور
حکمت بھی جانتے تھے ان کے گھر اخبار بھی اتا تھا جو روزانہ شام کو پڑھ کر سنایا کرتے ہندوؤں کا محلہ الگ تھا
ایک مکان میں ایک ہندو ٹیچر کرشن لال اہل خانہ یعنی اپنی فیملی کے ساتھ رہتا تھا میں نے تو نہیں میرے
بڑے بھائی نے ان سے پڑھا تھا کرشن لال کھلے دل کے آدمی تھے کسی مذہب سے نفرت نہیں کرتے تھے
کریشن لال کے ایک بیٹی تھی اور اس کا نام گلاب دیوی تھا اور سید صاحب کے ایک بیٹی رخشندہ گلاب دیوی
کی ہم عمر تھی گلاب دیوی دن میں کئی دفعہ سید صاحب یعنی شاہ جی کے گھر چکر لگاتی تھی کیونکہ دونوں ہم
عمر تھی گھر والے کچھ نہ کہتے مسلمان گھرآنے میں انے جانے کا یہ اثر ہوا کہ وہ اپنے مذہب یعنی بتوں سے
بیزار رہنے لگی لیکن اپنے گھر میں مصلحت کے تحت خاموش رہتی تھی تقسیم ہند کے وقت اس کی عمر 19
20 سال ہوگی اس کے ماں باپ نے فیصلہ کیا کہ اب ملک کا بٹوارا ہو رہا ہے اس لیے ہم دہلی چلے جاتے ہیں
انہوں نے جس دن بھارت جانا تھا اسے چار پانچ روز پہلے گلاب دیوی سید صاحب کی بیوی سے کہنے لگی
میرے ماں باپ تو یہ ملک چھوڑ کر اب دہلی جا رہے ہیں کیونکہ ہندوستان کا بٹوارا ہو چکا ہے یہ ملک الگ ہو
چکا ہے لیکن میں وہاں نہیں جانا چاہتی میں نے مسلمان ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے میں کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو
جاؤں گی اور ادھر اپ کے پاس یعنی اپنی سہیلی رخشندہ کے ساتھ رہوں گی ۔
میں نے ساری زندگی اس گاؤں میں گزاری ہے بچپن یہاں گزرا ہے میں اس گاؤں کو نہیں چھوڑ سکتی نہ ہی
اپنی سہیلی کو سید صاحب کی بیوی نے جب یہ بات سنی تو بڑی حیران ہوئی مگر ظاہر سی بات ہے بچے کی بات
تو صحیح تھی اس نے بچپن جوانی یہیں پر گزاری تھی اس لیے اس کی اپنے گاؤں سے محبت ایک قدرتی عمل
تھا بیگم نے اپنے شوہر یعنی سید صاحب کو ساری صورتحال سے اگاہ کیا انہوں نے کہا کہ یہ بات اتنی آسان
نہیں جتنی کہ یہ بچی سمجھ رہی ہے سید صاحب نے تو بچی سے براہ راست بات کی بچی نے کہا میں تو دل سے
کئی سالوں سے مسلمان ہو چکی ہوں لیکن حتمی فیصلہ میں نے اب کیا ہے۔
دہلی جا کر میں اپنے اپ کو ازمائش میں نہیں ڈالنا چاہتی سید صاحب نے کہا وہ تو ٹھیک ہے لیکن اگر یہاں
کوئی آزمائش اگئی تو پھر کیا ہوگا تمہارے گھر والے کیا سوچیں گے وہ سمجھیں گے کہ شاید ہم نے تمہیں
تمہارے مذہب سے بھٹکا دیا ہے وہ کہنے لگی میں ہر مصیبت ہر تکلیف برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں
زیادہ سے زیادہ جان جانے کا خطرہ ہو سکتا ہے نا میں نے فیصلہ کر لیا ہے میں مروں گی تو مسلمان کی حیثیت
سے قصہ مختصر لڑکے کی کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہو گئی اور سید صاحب کے گھر رہنے لگی سید صاحب
بہرحال اس بات سے پریشان تھے مگر گلاب دیوی کے خواہش کے آگے مجبور تھے یہی سوچتے ہوئے
انہوں نے مناسب سمجھا کہ گلاب دیوی کے باپ سے بات کی جائے سید صاحب کرشن لال کے گھر گئے
اور ساری صورتحال سے اگاہ کیا کہ اپ کی بیٹی یہیں پر رہنا چاہتی ہے وہ بھارت نہیں جانا چاہتی ۔
یہ سنتے ہی کرشن لال کے چہرے پر حیرت اور پریشانی کے اثار مٹائے پھر کچھ لمحے ٹھہر اور سوچ کر کہنے لگا
اپ کو معلوم ہے کہ میں ایک کھلے دل کا انسان ہوں میں سمجھتا ہوں کہ مذہب یعنی دھرم ہر انسان کا نجی
معاملہ ہے ہماری بیٹی نے اسلام دھرم قبول کیا ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں بالکل کوئی اعتراض نہیں اس
نے آپ کے گھر ٹھہرنے کا پروگرام بنایا ہے آپ میرے بڑے بھائیوں جیسے ہیں مجھے اس پر بھی کوئی
اعتراض نہیں اس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ بھارت دہلی نہیں جائے گی وہ کہہ سکتی ہے کہ وہ بالغ ہیں اپنے
فیصلے خود کر سکتی ہے میں اعتراض کرنے والا کون ہوتا ہوں۔
یہ سب باتیں مجھے منظور ہیں لیکن میری اپ سے ایک بنتی ہے یعنی میری آپ سے گزارش ہے ہم اس کے
ماں باپ ہیں جب تک ہم ہندوستان نہیں چلے جاتے اسے اپ ہمارے ساتھ رہنے دیں وہ ہماری بیٹی ہے
اور ہم اس سے بہت محبت کرتے ہیں جس دن ہماری یہاں سے بھارت روانگی ہوگی میں اسے خود اپ کے
گھر لے کر اؤں گا اسے خود اپ کے گھر چھوڑوں گا یہ میرا آپ سے وعدہ ہے۔
سید صاحب نے گھر آ کر بتایا کہ کرشن لال سے میری بات ہوئی ہے اس نے میری توقع کے خلاف میری
تمام بات طیش میں آئے بغیر بڑے تحمل سے سنی ہے اور پھر جو باتیں کی ہیں وہ سن کر تو مجھے خود اپنے
کانوں پر یقین نہیں آ رہا کرشن لال یقینا ایک بہت عظیم انسان ہے سید صاحب کی بیوی نے یہ سن کر کہا
سوچ لیجئے ایسا نہ ہو کہ نہیں نہیں میں جانتا ہوں کہ کرشن لال کی نیت اچھی ہے سیدانی کہنے لگی خدا کے
واسطے گلاب دیوی کو واپس مت بھیجیں ایسا نہ ہو کہ اس پر کوئی مصیبت آ جائے سید صاحب کہنے لگے تم
حوصلہ رکھو وہ اخر ان کی بیٹی ہے وہ اس پر حق رکھتے ہیں گلاب دیوی نے بھی بڑا شور مچایا کہ میں اپنے ماں
باپ کے گھر نہیں جانا چاہتی لیکن سید صاحب نے کہا میں وعدہ کر آیا ہوں کرشن لال کو میں زبان دے آیا
ہوں اب مجھے تمہیں اس کے پاس بھیجنا ہی پڑے۔
گا گلاب دیوی جس کا نیا نام خدیجہ بی بی رکھا گیا تھا وہ بہت روئی بیٹی لیکن سید صاحب نے اسے کہا تم بے فکر
ہو جاؤ میرا تم سے وعدہ ہے کہ میں تمہیں اپنی دوسری بیٹی کی طرح اس گھر میں رکھوں گا تھوڑی دیر میں
لڑکی کی ماں سید صاحب کے گھر ائی اور روتے روتے اپنی بیٹی سے چمٹ گئی اس سے پیار محبت کرنے لگی اس
نے سید صاحب کو بتایا کہ اس کا باپ ماسٹر کرشن لال باہر کھڑا ہے اور اپنی بیٹی سے ملنا چاہتا ہے ماں نے کہا
بیٹی تو نے اپنا دھرم تو چھوڑ دیا لیکن تیرے باپ نے تجھے دل سے معاف کر دیا ہے آخر ہم نے تجھے جنم دیا
ہے ہم تجھ سے ملنا چاہتے ہیں جن ماں باپ نے تجھے پالا بوسا ہوں ان کی تجھ سے بنتی ہے کہ تو ہمارے ساتھ
گھر چل ہم نہیں چاہتے کہ تیری وجہ سے سید صاحب سے ہمارے تعلقات خراب ہوں یہ ہمارا تجھ سے
وعدہ ہے ہم تجھے اس بات کا بچن دیتے ہیں کہ ہم تجھے خود ان کے گھر چھوڑ کر جائیں گے میں تجھے وچن دیتی
ہوں کہ تو کسی بھی صورت اس گاؤں سے باہر نہیں جائے گی تو پاکستان میں ہی رہے گی بے شک ملک
تقسیم ہو رہا ہے لیکن ہم نہ اس گاؤں کو بلائیں گے نہ تجھے بلائیں گے ہم بھارت سے تیرے پاس آتے جاتے
رہیں گے تجھے ملیں گے اور سید صاحب سے ملنے کے لیے ائیں گے یوں کچھ ایسی جذباتی صورتحال پیدا ہو
گئی کہ کرشن لال اور اس کی بیوی اپنی بیٹی کو اپنے گھر لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔
اگلے تمام دن ماسٹر اپریشن لال کا گھر بند رہا کسی کو انہوں نے گھر میں گھسنے دیا نہ خود گھر سے باہر نکلے اس
سے اگلے دن وہ لوگ منہ اندھیرے گھر چھوڑ کر چلے گئے کسی پڑوسی نے گلاب دیوی کے بارے میں پوچھا
تو اُسے بتایا گیا کہ کل رات اُس کا ماموں آیا تھا وہ لڑکی کو ساتھ لے گیا لڑکی نے اپنی غلطی تسلیم کی ہے کہ
اسے اپنا دھرم نہیں چھوڑنا چاہیے تھا اس نے بتایا ہے کہ میں نے صرف گھر اور گاؤں کی محبت میں اور اپنی
سہیلی رکشندہ کی خاطر مسلمان ہونے کا فیصلہ کیا تھا اور سید صاحب کے گھر رہنے کا فیصلہ کیا تھا ماموں نے
جب اسے سمجھایا ہے تو وہ دہلی جانے کے لیے تیار ہو گئی ہے سیدانی صاحبہ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو
انہوں نے سید صاحب سے کہا قیامت کے دن اگر اس بچی نے آپ کا دامن پکڑ لیا تو اپ اس کو کیا جواب
دیں گے آپ قصوروار ہیں اپ نے ہی اسے اس کے ماتھا پتا کے حوالے کیا سید صاحب بیچارے پریشانی کے
عالم میں کافی دیر سر پکڑ کر بیٹھے رہے روتے بھی رہیں کہ کتنی بڑی غلطی ہو گئی ہے نہ جانے بچے کے ساتھ
کیا ظلم ہوا ہوگا۔
کرشن لال نے باتوں میں ان کو چکر دے دیا تھا اب بھارت جا کر کیسے ممکن تھا کہ وہ لڑکی کو واپس لاتے
ادھر جلد ہی بھارت سے مہاجرین کے قافلے پاکستان آنا شروع ہو گئے کچھ مسلمان خاندان اس گاؤں میں
بھی پہنچے اور ہندوؤں کے چھوڑے ہوئے مکانوں میں ا کر آباد ہو گئے کرشن لال کا گھر بھی ایک مہاجر فیملی
نے لے لیا چند دن بعد وہ مکان چھوڑ کر راولپنڈی شہر چلے گئے ان کا کہنا تھا کہ اس مکان میں کوئی جن
بھوت ہیں یا کوئی زندہ روح ہے دن کو اتنا محسوس نہیں ہوتا لیکن رات کو بڑے عجیب عجیب ڈرامے ہوتے
ہیں کبھی دروازے خود ہی کھلتے اور بند ہو جاتے ہیں کبھی ہوا کے عجیب سے جھونکے چلنے لگتے ہیں کبھی گھر
میں اچانک خوشبو سی پھیل جاتی ہے۔
ایک اور فیملی اس مکان میں آئی لوگوں نے انہیں ساری باتیں بتائی لیکن انہوں نے کہا ہم کسی جن بھوت
وغیرہ سے نہیں ڈرتے لیکن معلوم نہیں کیا ہوا ایک ہی رات میں نئے خاندان نے بھی گھر خالی کر دیا پھر
کرشن لال کا مکان بند ہی پڑا رہا 1954 یا 55 میں گورنمنٹ نے لڑکیوں کے لیے گاؤں میں سکول
کھولنے کا اعلان کیا محکمہ تعلیم والوں نے گاؤں والوں سے کہا کہ آپ جگہ کا بندوبست کر دیں دوستانیاں
بچیوں کو پڑھانے ائیں گی گاؤں کے لوگوں نے سوچا کہ کرشن لال کا مکان کافی عرصہ سے بند پڑا ہے اس
میں کوئی نہیں رہتا اس مکان میں سکول کھولا جا سکتا ہے گاؤں کی عورتوں نے سکول مل کر صاف کیا اس
میں سفیدی کی گئی استانیوں کے لیے کرسیاں اور میزے مہیا کی گئیں دوستانیوں میں سے ایک سینیئر اور
سکول کی ہیڈ مسٹرز تھی اس نے ایک کمرے میں اپنی کرسی اور میز لگوائی اور باقی دو کمرے جماعت یعنی
کلاسیں بنا دی گئی سکول ٹھیک ٹھاک چل پڑا چھٹا ساتواں دن تھا ہیڈ مسٹرز اپنی کرسی پر بیٹھی تھی اور دو
خواتین بچوں سمیت اس کے سامنے کھڑی تھی ہیڈ مسٹرز بچوں کے داخلہ فارم پر کر رہی تھی اچانک کرسی
کے نیچے سے کڑک کی آواز ائی جیسے لکڑی ٹوٹی ہو اور ساتھ ہی کرسی کے ایک ٹانگ زمین میں دھنس گئی
پھر عجیب قسم کی تیز خوشبو پورے کمرے میں پھیل گئی ہیڈ مسٹرز اور وہ خواتین کمرے سے باہر نکل ائیں
سب لڑکیاں پڑھائی چھوڑ کر اسی طرف متوجہ ہو گئی ہیڈ مسٹرز اور سب نے وہ جگہ جا کر دیکھی جاں کرسی
پڑی ہوئی تھی ۔
وہاں سے عجیب و غریب خوشبو نکل کر فضا میں پھیل رہی تھی ایک لڑکی دوڑ کر گئی اور سید صاحب کو بلانا
ہی سارا ماجرہ دیکھ کر وہ بھی حیران ہوئے انہوں نے کہا کہ زمین میں سے خوشبو نکلنے کا چکر سمجھ میں نہیں
آیا سید صاحب نے گاؤں کے چار پانچ معتبر آدمیوں کو بلا لیا ایک ادمی کو کہا گیا کہ وہ فرش کی اینٹیں ہٹائیں
اس نے اینٹیں اکھیڑ دی اس کے بعد مٹی اگئی تو وہ بھی ہٹائی نیچے ایک ٹوٹا ہوا لکڑی کا پھٹا نظر آیا پھٹے کے
ہٹاتے ہی خوشبو کی شدت ناقابل بیان حد تک بڑھ گئی سیاہ گڑے میں سے کوئی کپڑا سا نظر ا رہا تھا وہ کپڑا باہر
نکالا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک موٹی سی سیاہ چادر ہے چادر کے نیچے کالے سیاہ بادل نظر ا رہے تھے لالٹین منگوا
کر اندر روشنی کی گئی معلوم ہوا کہ اندر کوئی عورت بیٹھی ہوئی ہے سب لوگ دہشت زدہ ہو گئے سب ڈر
گئے تب سید صاحب نے کہا میرا خیال ہے کہ ظالم کرشن لال نے گڑھا کھود کر بیٹی کو یہاں زندہ دفن کر دیا
تھا۔
لڑکی کو جو لال جوڑے میں ملبوس تھی باہر نکال کر چارپائی پر لٹا دیا گیا جو نزدیکی گھر سے منگوائی گئی تھی سید
صاحب نے سب کو کمرے سے باہر نکال دیا خوشبو لڑکی کے کپڑوں سے آ رہی تھی ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ
جیسے لڑکی میٹھی نیند سوئی ہوئی ہے اور ابھی اٹھ کر بیٹھ جائے گی سات اٹھ سال قبل زمین میں اسے دفنا دیا
گیا تھا لیکن سر کے بال اسی طرح کنگھی سے سورے نظر ارہے تھے چہرے پر ہلکا ہلکا تبسم یعنی مسکراہٹ
تھی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کیا جائے قصبہ بھی پانچ چھ کلومیٹر دور تھا وہاں سے تھانیدار
صاحب کو بھی بلوا لیا گیا فیصلہ ہوا کہ لڑکی کو باقاعدہ غسل دے کر اور جنازہ پڑھ کر قبرستان میں دفن کر دیا
جائے۔
جلد ہی پورے علاقے میں یہ بات پھیل گئی تمام قریبی دیہات سے جنازے میں شرکت کرنے کے لیے
لوگ آنے لگے اوروں نے خدیجہ بی بی کا چہرہ دیکھا ان کا کہنا تھا کہ چہرہ چودوی کے چاند کی طرح چمک رہا تھا
خوشبو تو لاش کے قریب جانے والے ہر فرد کو محسوس ہو رہی تھی لوگوں نے اندازہ لگایا کہ کرشن لال اتنا
چھوٹا سا گڑھائی کھول سکا کہ جس میں لڑکی کو بٹھایا جا سکا اس نے لڑکی کو بے ہوشی کی کوئی چیز کھلا کر گڑے
میں اتار دیا تھا بس یوں سمجھیں کہ بچی کو زندہ دفن کر دیا زندہ درگور کر دیا گلاب دیوی کو دفنائے ہوئے
تقریبا دو ہفتے ہو چکے کہ سید صاحب کو بھارت سے کرشن لال کا ایک خط موصول ہوا اس نے خط میں لکھا
تھا کہ میں جب سے دہلی ایا ہوں گلاب دیوی مجھے خوابوں میں دکھائی دیتی رہتی ہے یہ خط میں اس لیے لکھ
رہا ہوں کہ یہ چند دن پہلے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا کیا دیکھتا ہوں کہ میری بیٹی انکھیں بند کیے
چارپائی پر لیٹی ہوئی ہے اپ اس کا جنازہ پڑھا رہے ہیں اور بہت سارے لوگ صفحے باندھے کھڑے ہیں خط
میں کرشن لال نے یہ بھی لکھا تھا کہ جب سے ہم ادھر سے دہلی ائے ہیں میری بیوی نیم پاگل ہو چکی ہے
مجھے دیکھتے ہی قاتل ظالم وحشی اور نہ جانے کیا کیا کہتی رہتی ہے۔
صبح شام ایک ہی بات کہتی رہتی ہے میری بیٹی زندہ ہے میری بیٹی زندہ ہے سید صاحب نے جواب میں اسے
تفصیل سے سارے حالات و واقعات لکھ کر بھیجے کرشن لال نے جو دھوکہ دیا تھا اس پر اسے شرم دلائی
اسے بتایا کہ اپ کی بیوی صحیح کہتی ہے وہ شہید ہے وہ زندہ ہیں ہماری کتاب مقدس قران مجید میں لکھا ہے
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں مگر تمہیں ان
کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔
کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔
اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔
اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔
بچوں کی کہانیاں ، سبق آموز کہانیاں ، نانی اماں کی کہانیاں