Ghar se bhaagne wali ladki

Ghar se bhaagne wali ladki

Ghar se bhaagne wali ladki

اسلام وعلیکم کیا حال ہے آپ سب کا اُمید ہے آپ سب خیریت ہوں گے ۔

آج کی  کہانی میں خوش آمدید

آج کل کے نوجوانوں کے نزدیک محبت بس ایک کھیل ہے ایسا کھیل جس میں وہ والدین کی عزت اور اپنی

زندگی سب برباد کر دیتے ہیں آج کی کہانی بھی کچھ اسی حوالے سے ہے ثنا ایئرپورٹ پر بیک گھسیٹتی ہوئی

کسی سے ٹکرا گئی اس نے نیچے گرے موبائل کو اٹھانے کے بعد جونہی اُس نےاُپر  دیکھا تو اس کی نظروں

کے سامنے وہ انسان کھڑا تھا جس کے لیے  برسوں پہلے اُس نے انکھوں کی پتلیوں سے انسوؤں کی ایک لمبی

قطار  میں بہا دیا تھا۔

 کیا یہ واقعی وہی بندہ ہے جو کچھ سال پہلے کافی ینگ اور سمارٹ دکھائی دیتا تھا مگر آب بالوں میں  چاندی کی

تارے نمایاں آنکھوں پر نظر کا چشمہ اور سفید شلوار قمیض پہنیں وہ بالکل کوئی انکل نما ادھیڑ عمر آدمی لگ رہا

تھا ثنا کے لیے تو اس سے پہچانا بھی مشکل مرحلہ ثابت ہوا وہ حیرت سے سامنے کھڑا اسے تک رہا تھا ثنا نے

کانپتے ہوئے ہاتھوں سے بمشکل موبائل بیگ کے سامنے والی جی ایف کی زپ کھول کر اس میں ڈالا اور ہاتھ

میں پکڑی سیاہ گلاسز لگا کر بیک کو گھسیٹتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔

 اس کے شانوں پر پڑی مخملی شال زمین پر اس کے ساتھ ساتھ کسیتی چلی جا رہی تھی جیسے ایک بار پھر سے وہ

اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھی ہے کسی عذاب کی طرح وہ ایک بار پھر اُس پر نازل ہوا تھا جس عذاب سے

برسوں پہلے مشکل ہی اس نے خود کو باہر نکالا تھا ماضی کتنا ہی غمزدہ کیوں نہ ہو ہم اسے لاکھ چاہا کر بھی نہیں

بھلا پاتے پھر بھلے ہی اسے اپنے سامنے جھٹلاتے پھرے مگر ایک نہ ایک دن وہ ماضی پھر سے حال بن کر

ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔

 ایک بھیانک روپ دھارے اس نے کچھ اگے جا کر وہاں پڑھے بینچ پر اپنا ہینڈ بیگ رکھ دیا تھا سیاہ گلاسز میں

سے بہتا ہوا انسوؤں کا ایک سیلاب اس کے چہرے کو ترٹ کرتا ہوا گردن میں کہیں جذب ہوتا جا رہا تھا وہ

جلدی سے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کی بودوں سے اپنے منہ کو پونجتی مگر انسوؤں کی بارش تھی کہ رکنے کا

نام ہی نہیں لے رہی تھی۔

 12 سال پہلے نادانی میں کی گئی غلطی اس کا پیچھا کرتے کرتے گھوم پھر کر پھر اسی موڑ پر اسےآ ملی تھی جہاں

سے اس نے ایک نئی زندگی کا اغاز کیا تھا وہ وقت وہ کیفیات جو وہ ماضی میں کاٹ چکی تھی پھر سے اس کی

انکھوں کے گرد منڈلانے لگے تھے۔

 ثنا شیشے کے سامنے بیٹھی اپنے جھونکوں سے کھیل رہی تھی جو اس کے کانوں میں کسی انگور کے گوشے کی

طرح لٹک رہے تھے اس کی سہیلی نے اسے کہا کہ آج مہندی ہے مہندی کی دلہن زیادہ میک اپ نہیں

کرتی مگر وہ کب اس بات سے واقف تھی کہ اج اس کی سہیلی کی ڈولی بھی اس گھر سے اٹھنے والی تھی اس کی

سہیلی ثنا تو اج کی اس گھر سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہونے والی تھی بغیر بڑوں کی دعائیں سمیٹے ہی وہ خالی

ہاتھ چور راستے سے اس گھر کی دہلیز پھلانگنے والی تھی اس کی سہیلی نے سات رنگوں میں رنگی اوڑنی اس

کے سر پر ساجائی ہاتھوں میں کلی کے گجرے کی خوشبو سے پورا کمرہ خوشبو سے مہک رہا تھا اور پیلا رنگ اس

پر بالکل ایسا لگ رہا تھا جیسے سورج مکھی کا پھول یا پھر فلک سے چاند زمین پر اتر آیا ہو ۔

اتنے میں لڑکے والوں کی امد سے پورا محلہ ڈھول کی تھاپ سے گونج پڑا ثنا کی سہیلی باہر کا جائزہ لینے کے

لیے اسے کمرے میں اکیلا چھوڑ کر باہر چلی گئی ثنا کے فون پر کسی کی گھنٹی بجی تو وہ فورا سے سر پہ چادر اڑ کر بیٹھ

کے نیچے پڑا بیگ اٹھا کر کھڑکی سے نکل گئی زین جسے ثنا پسند کرتی تھی موٹر سائیکل پر گلی کے نکڑ پر کھڑا اس کا

انتظار کر رہا تھا اسے دیکھتے ہی زین نے فورا موٹر سائیکل سٹارٹ کیا اور اس کی وہ اس کی پچھلی سیٹ بدوں

سے کندھے سے پکڑ کر بیٹھ گئی موٹر سائیکل کچھ ہی فاصلے پر ریلوے اسٹیشن پر رکا کیونکہ سردی کی شدت

کافی زیادہ تھی اس لیے زین  نے اسے اپنی شال بھی اڑا دی دونوں کے دانت سردی سے بچ رہے تھے اور

جسم پر ایک کپکپی تاری تھی جہاں گھر سے بھاگنے کا ڈر تھا  وہاں ایک انجان سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر

مہوے رکس تھی زین نے اس کے ماتھے پر ائے بالوں کو دھیرے سے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے پیچھے

کیا تو ثنا جو کہ ناخنوں سے نیل پالش کھرش رہی تھی اس کی جانب دیکھ کر ہلکا سا مسکرا دی ۔

کچھ ہی دیر میں ٹرین  انے والی تھی رات کے تقریبا نو بج رہے تھے اسمان پر چمکتے چاند جگمگاتے ستاروں کی

روشنی میں وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے مستقبل کے رنگین خیالوں میں کھوئے ہوئے تھے خام

ہے علی اچھی مگر حقیقت اتنی ہی دردناک ہوتی ہے کہ کسی نے ان پر تاج کی روشنی ڈالی جس پر زین اٹھ کھڑا

ہوا سامنے کھڑا قد اور شخص پولیس کی وردی میں پراسرار نگاہوں سے ان دونوں کو گھور رہا تھا پولیس والے

نے جو ہی پوچھا کہ یہاں کیا کر رہے ہو اس وقت تو زین نے ہر براہت میں کہہ دیا کہ بیوی ہے میری اس

نے میکے جانا ہے ٹرین کا انتظار کر رہے ہیں۔

Ghar se bhaagne wali ladki

 ان دونوں کے ڈرے ڈرے سے لہجے نے پولیس والے کو شک میں مبتلا کر دیا تھا ان دونوں کو پولیس

تھانے لے جایا گیا اور کہا گیا کہ گھر والوں میں سے کسی کا نمبر دیں مگر ان لوگوں نے صاف انکار کر دیا

 پولیس کے شکوک و شبہات یقین کی شکلیں اختیار کر گئے دونوں کو لاک اپ میں بند کر دیا گیا زین پر کافی

تشدد کیا گیا مگر اس نے منہ سے ایک لفظ نہ نکالا ثنا کے لاکھ منتیں ترلے کرنے کے باوجود بھی انہیں نہ

چھوڑا گیا۔

 رات کے ایک بجے ثنا کو بالو سے پکڑ کر پولیس والا اسے لاکت سے باہر گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ لے گیا

اور صبح تفتیش کے بعد جب اسے واپس جیل میں بند کیا گیا تو تب ثنا کی کلائیوں پر جگہ جگہ چوڑیاں ٹوٹ کر

لگنے کے نشانات تھے جیسے کسی نے زبردستی کلائیوں کو موڑا ہو چوڑیاں ٹوٹ کر اس کی نرم و نازک سفید

کلائیوں میں دھنس چکی تھی اب اس پر کیا قیامت توڑی گئی تھی اس کا تو خدا کو ہی پتہ تھا مگر ہر ایک نے اپنی

اپنی جگہ خوب اندازے لگائے بدکاری تک کے الزامات اور نہ جانے کیا کیا پولیس کے چند چماٹ کھانے

کے بعد ثنا نے پولیس والوں کو اپنے باپ کا نمبر دے دیا تھا۔

 جس پر کال کرتے ہوئے اس کا باپ فوراپولیس سٹیشن پہنچ گیا سنا اپنی غلطی پر شرمندہ سر جو گائے کھڑی

تھی مگر گزرا وقت تو پلٹ کر نہیں اس سکتا نا جو عزت اس نے اپنے ماں باپ کی بری محفل میں اچھال دی

تھی اس کو تو واپس نہیں لایا جا سکتا بیٹی کا اجڑاحولیاں  دیکھ کر باپ کی بھی انکھیں بھر ائیں احد کو باپ تھا کس

طرح اس کی غیرت گوارا کر رہی تھی کہ اسے اس حال میں دیکھتا کس قدر بھاری بھرکم پتھر دل پر رکھ کر

وہ وہاں خاموش کھڑا تھا یہ صرف وہی جانتا تھا۔

 انسوؤں کو چھپانے کے لیے اس نے اپنی نظریں زمین میں گھاڑ لی اور سر کا رخ دوسری جانب کر لیا ثنا کے

باپ نے ا اپنی بیٹی کی رہائی کے ساتھ ساتھ زین کو بھی چھڑوا لیا رہائی کے بعد سنا سے کہا گیا کہ زین کو بولنے

کے رشتہ بھیجے تاکہ سادگی سے نکاح کر کے رخصت کر دیا جائے مگر زین نے پہلے دو تین دن تو سنا کا فون

اٹھانا بھی گوارا نہ کیا اور تیسرے دن یہ کہہ کر کال کاٹ دی کہ میں اپنی امی کی مرضی کے خلاف نہیں جا

سکتا جو کچھ پہلے بھگت چکا ہوں تمہارے لیے وہی کافی ہے کسی کے مزید ناراضگی اپنے سر نہیں لے سکتا

ویسے بھی اپ میری امی میرا رشتہ میری حالہ ازاد کے ساتھ طے کر چکی ہیں جو کہ نہایت شریف اور اچھے

گھر کی لڑکی ہے اس نے کبھی کورٹ کچہریوں کے چکر کاٹے اور نہ ہی کسی غیر مرد کے ساتھ کوئی رات

گزاری کچھ ہی مہینوں میں ثنا کا کزن جو کہ یورپ سے چھٹی ایا ہوا تھا اس کی تین سالہ بیٹی تھی بیوی کا کینسر

سے انتقال ہو چکا تھا اس سے ثنا کی شادی ہو گئی قیصر ایک بہت ہی اچھا انسان تھا شادی کے ان 12 سالوں

میں قیصر نے ایک بار بھی ثنا سے اس کا ماضی ٹچولنے کی کوشش نہیں کی آج یوں زین کو اپنے سامنے دیکھ کر

سنا کا دل دکھ سے بھر گیا ایک بار پھر اپنی رسوائی یاد اگئی جس کے لیے والدین کا سر جھکایا تھا وہ کتنا کٹھور نکلا

تھا آنکھوں میں آیا انسو کو ہتھیلی سے رگڑ کر صاف کرتے ہوئے ثنا کے دل سے اپنی ذلت رسوائی کی وہ

پھانس بھی نکل گئی جو اس کو دن رات کچوکے لگاتی تھی ۔

Ghar se bhaagne wali ladki

کیونکہ اب اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ بچوں کو سمجھائے گی کہ محبت کچھ نہیں ہوتی اور اگر محبت کرنی ہی

ہے تو اپنے والدین بہن بھائیوں اور اپنے رب سے کرو کیونکہ ان کی محبت انسان کو منزل عطا کرتی ہے۔

کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment