Jannati bakra

Jannati bakra

جناتی بکرا

 

اسلام علیکم اُمید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے ۔

آج کی کہانی میں خوش آمدید

آج کی کہانی میں جنات سے متعلق ایک اور اثرار اور سچی کہانی رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں وہ تیز تیز

قدم بڑھاتا جا رہا تھا پورے علاقہ بجلی نہ ہونے کے باعث اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا موبائل کے ٹورچ

چلائیں وہ اس کے روشنی میں راستہ دیکھتے ہوئے گھر کے جانب روا دوا تھا گھر  سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر

اس کی ورکشاپ تھی وہ دن کے 11 بجے کام پر جاتا تھا اور واپسی پر اکثر رات کے تین بھی بچایا کرتے تھے

ابھی  شاید دو بج رہے تھے سڑک پر نظریں جمائے وہ لمبے لمبےٹک  بھرتا جلدی سے گھر پہنچانا چاہتا تھا کہ

اچانک ایک تیز سرسراہٹ پر اس کی نگاح  بھٹک گئی یہ ہوا کا جھونکا ہی تھا جو کسی قدر تیزی سے اس کے

قریب سے گزر کر اسے چمکا گیا تھا ۔

اس کی نظر دائیں جانب وسیع مریض قبرستان پر جا پڑی جس کے داخلے دروازے پر کوئی جانور کھڑا تھا

جب چاند کی ہلکی اور مدھم روشنی اس وجود کو واضح طور پر دکھانے میں ناکام رہی تو اس نے موبائل سے

پھوٹتی  مصنوعی روشنی میں اسے دیکھا وہ ایک قاداور بکرا تھا موٹا تازہ صحت مند بکرا اسے دیکھ کر اس کا جی

للچا اُٹھا  چونکہ یہ تسلی تھی کہ اس کے  پاس کوئی نہیں تھا تو وہ بلا جھجک اس کے قریب چلا گیا بکرا بہت

خوبصورت تھا یقینا اس کا مالک اس وقت گدھے بیچ کر سو رہا تھا اسی چیز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ بکرا بھاگ

کھڑا ہوا تھا وہ شاید اندھیرے کی وجہ سے یہاں رک گیا تھا وہا مولا کبھی کھبی چھپڑ پھاڑ کر دیتا ہے تو اس کی تو

خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا تھا وہ فرد مسرت میں جھوم کر آسمان کو تکتے ہوئے حرام مال غنیمت مل جانے پر

رب کا شکر گزار ہو رہا تھا بھوکے نظروں سے اسے تکتے ہوئے اس کی انکھیں جگمگا رہی تھیں۔

 اس نے بکرے کو کان سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے اسے ساتھ لے جانا چاہا مگر اس نے سر پری طرح جھٹک کر

اپنا کام چھڑوا لیا بکرا اسے گھورنے لگا تھا پھر اب کی بار اس نے گردن پکڑ کر اسے اس طرف ہونا چاہا وہ تو

بکرا ٹس سے مس نہ ہوااُف  کیا مصیبت ہے پھر وہ زیادہ دیر تک اس بکرے کے نخرے برداشت نہیں کر

سکتا تھا کیونکہ ابھی تک تو یہاں کوئی نہیں تھا مگر عین ممکن تھا کہ کسی بھی وقت یہاں چور چکا آ نکلتا اور اس

پر اپنے ہاتھ صاف  کر لیتا وہ کسی بھی قیمت پر یہ مفت کا مال گوانا نہیں تھا لہذا اس نے موبائل جیب میں رکھا

اور پھرتی سے اُس  بھاری بھرکم بکرے کو اٹھا کر اپنے کندھے پر ڈال لیا۔

 بکرے کے وزن سے اس کے کندھے جھک گئے تھے مگر وہ بھی اتنا کمزور نہیں تھا کہ اسے اٹھا نہ سکتا ویسے

بھی اس اچانک لاٹری لگ جانے پر اس کا سیر و خون بھر گیا تھا چنانچہ اس نے اپنی رفتار بھی بڑھا دی کہ کوئیآ

ہی نہ جائے چند میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد اسے اپنے کندھے بھاری ہوتے محسوس ہوئے دو چار قدم

چل کر وہ ہمپنے لگا جسم پسینے میں نہا دیا جبکہ کندھے ٹوٹنے کے برابر ہو گئے تھے یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے

بکرے کی بجائے گیندا اُٹھا رکھا اس نے سر کو تھوڑا سا گھمایا تو بکرا لا نمگارا ہوتی خون خوار آنکھوں سے اسے

گھور  رہا تھا

اب کی بار اُس کا دم دھک سا رہ گیا اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا تو پیروں تلے زمین ہی نہ رہی اس نے بکرے کو

جہاں سے اٹھایا تھا اس کی ٹانگیں وہیں پر جمی تھی اور وہ جیسے جیسے اگے بڑھ رہا تھا ویسے ویسے بکرے کے

جسامت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا اتنا بڑا خوف ناک بکرا  اس کے کندھوں سے چپکا  تھا اب کی بار  وہ بہت

خوف ذادا ہو گیا  جیسےآسمان  سر پر اگیا اس نے چیختے چلاتے بکرے کوکندوں  سے دور جھٹکا اور سر پر دُھور لگا

کے وہ پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔

 شیر محمد تو میرے دادا علیم الدین صاحب ان کی اچانک امد پر اچھلی تو پڑے تھے ہاں بھئی تم تو شہر آ کر گاؤں

کا  راستہ بھول ہی گئے میں نے سوچا خود ہی تم سے ملنے آ جاؤں تمہیں تو میری یاد نہیں آتی نا اُن کا  لہجا اُداس

بھرا تھا مگر دادا جی نے انہیں خود میں بیچ کر مسکرانے پر مجبور کر دیا تھا کتنی غلط بات ہے ابھی تین ماہ پہلے ہی

میں گاؤں آیا تھا تم خود تو کبھی  شہر نہیں آتے اور کہتے ہو میں تمہیں بھول گیا دادا جی نے اخر میں میں  پر زور

دیتے ہوئے کہا وہ زبان کو شکوہ کرنے سے روک نہ سکے تھے۔

آپ دادا جی کے ساتھ سائے کی طرح رہنے والی میں بھی آ ٹپکی  کیسے ہیں اپ انہیں دیکھ کر مجھے خوشگوار

حیرت  ہوئی الحمداللہ ٹھیک ہوں سندرس کیسی ہیں میں اندر ائی تو انہوں نے میرے سر پر شفقت سے  ہاتھ

پھرا میں بھی ٹھیک ہوں اللہ کا شکر ہے مجھے دل فریب سے شادمانی کا احساس ہو رہا تھا سچ تو یہ ہے کہ مجھے ان

سے اُنسیات  سی ہو گئی  تھی ان کی چھڑی کے کشموں نے مجھے ان کا گرویدا بنا دیا تھا اور میں دادا جی کہ طرح

ان سے پیار کرنے لگی تھی اسی لمحے گھر کا بیرونی دروازہ بجاتا میں نے جا کر دیکھا تو اسلم صاحب آئے تھے

ان کے کہنے پر میں نے دادا جی کو باہر بھیجا اسلم صاحب نے بتایا کہ ان کے بیٹے اکرم کی طبیعت اچانک ہی

بہت زیادہ بگڑ گئی تھی اور وہ عجیب و غریب حرکتیں کرنے لگا تھا یہ سننا تھا کہ دادا جی فورا سے بیشتر ان کے

ساتھ چلے گئے میرے عقل میں  جو بات ائی وہ یہ تھی کہ پچھلے دو روز سے اکرم بیمار تھا نہ جانے اسے کیا ہو

گیا تھا وہ نہ کچھ کھاتا تھا نہ ہی کام پر جاتا تھا بلکہ سارا دن چارپائی پر لیتا کسی بکرے کو یاد کر کے روتا رہتا تھا۔

 اسلم صاحب دادا جی کو اس لیے ساتھ لیتے تھے تاکہ وہ ان کے لخت جگر پر دم کر سکیں بیٹا علیم الدین کہاں

گیا ہے میں بیٹھک میں انہیں دیکھنے گئی کہ ایا کسی شے کی ضرورت تو نہیں تب انہوں نے مجھ سے پوچھا وہ

دادا جی وہ انکل اسلم  کے گھر گئے ہیں ان کے بیٹے پر دم کرنے اس کی طبیعت خراب ہے نا اس لیے میں نے

انہیں بتایا اچھا ان کےلبوں پر مسکراہٹ آ گئی بس یہ دیکھنا تھا کہ میں اندر اگئی میں ایسی ہی ہوں کہ کسی نے

مسکرا کر بات کی نہیں تو میں اس کے ساتھ فری ہوئی نہیں بڑے تم تراک سے میں صوفے پر بڑا جمال جن

کی خیر نہیں تھی کیونکہ میں نے بول بول کرہی ان کا دماغ چاٹ لینا تھا اپ کو معلوم ہے وہ بکرا چوری کر

کے آ رہا تھا اسی دن سے بیمار ہے بکرے کے مالک نے بددعادی  ہوگی اچھا ہوآ اُس کے ساتھ بھی میں نے

اپنے بھویں اچکاتے ہوئے انہیں سب کچھ بتایا ہ بری بات وہ بیمار ہے تو اپ کو اس کے صحت یابی کے لیے

دعا کرنا چاہیے نا بابا کے دوست مجھے فوراٹوکا  آپ حقیقت نہیں  جانتے اسی لیے ایسا کہہ رہے ہیں ۔

کون سی حقیقت یہی کہ اس نے میرے اتنے سارے چوزے چرائے ہیں اس دن جب میری مرغی کہاں

سے باہر نکل گئی تھی نا تو اس نے پکڑ لی اور واپس بھی نہیں کی اُلٹا اُس کا گوشت پکا  کر ہمارے گھر بھجوایا تھا

جبکہ وہ میری داستان کو سنتے ہوئے ہونٹوں  کو منہ میں قید کیے دبا دبا کر ہنس رہے تھےاکرم  بہت بڑا چور

ہے جب میں پانچ سال کی تھی نا تو وہ میرے گھر ا کر کھیلنے کے بہانے مرغی کے انڈے چڑا کر بھاگ جاتا تھا

اور تو وہ ان کی بکری بھی چور تھی ہر بار زبردستی میرے ہاتھ سے پیسے چھین کر کھا جاتی تھی آچھا چلو بیٹا کوئی

بات نہیں اپ اسے معاف کر دو اللہ تعالی کو درگزر کرنے والے لوگ بہت پسند ہیں وہ آپنے کہکہوں کو

 دبانے کے چکر میں منہ لال کر بیٹھے تھے اچھا ابھی تھوڑی دیر میں کرتی ہوں میں نے دل پر پتھر رکھتے

ہوئے کہا میں مسلسل ان کے ساتھ باتوں میں لگی تھے تو ابھی وہ میری باتوں پر مسکرا لیتے کبھی پہلو کو بدل

لیتے یا پھر دکھتا ہوا سر انگلیوں سے دبا لیتے البتہ انہوں نے مروت میں مجھے وہاں سے جانے کے لیے نہیں

کہا تھا وہ مجھے ایسے ہی شخص کی تلاش تھی جو مجھے چپ چاپ سنتا رہے اور جھڑ کے بھی نہ ۔

Jannati bakra

 اُسی پر دادا جی کی انٹری ہوئی وہ میں اگلے لمحے کمرے سے باہر اگئی علیم الدین صاحب کچھ کیجیے میرا بیٹا موت

کے قریب جا رہا ہے اسلم  صاحب نے فریاد کی میں اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہا ہوں سایہ بہت

سخت ہے اسے کنٹرول میں کرنے کے لیے وقت درکار ہے انہوں نے اپنے طریقے سے ان کو  سمجھانا چاہا

مگر وہ سمجھنے کے بجائے رونے پر زوردے رہے تھے پلیز میرے بیٹے کو بچا لیجیے ارے صبر سے کام لو میاں

اللہ ضرور بہتر کرے گا دادا  جی وہاں سے اٹھاآئے تھے کیسی  طبیعت ہے اس لڑکے کی علیم الدین دادا ابو کے

دوست نے ان کے دوست سے پوچھا کچھ خاص نہیں تو نہیں ہے ادھر امید ہے وہ جلد ہو جائے گا پر تم کچھ

پریشان لگ رہے ہو علیم الدین ، دادا  جی کی سوچ پڑھنے کی کوشش کی ان کی پریشانی لگی اور ان سے بڑھ گئی

نہیں میں ٹھیک ہوں ارے کھل کر کہوں علیم الدین کیا بات ہے انہوں نے دادا کے کندھے پر ہاتھ رکھ

کر حوصلہ دیا اصل میں اُس لڑکے نے بہت بڑے حماقت کرتے ہیں اس نے ایک دیو  کو چھیڑ دیا ہے مجھے

کافی محنت کرنی ہوگی اسے بچانے کے لیے۔

 اخر دادا انہیں مزید چھپانے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے اپنی پریشانی جگری دوست کو بتاتی تھی تم پیچھے ہٹ

جاؤ یہ کام میں دیکھتا ہوں علیم الدین نہیں  شیرو تم کچھ دن اس زندگی سے ازاد ہو کر یہاں سکون سے رہنے

ائے ہو مجھے بالکل اچھا نہیں لگے گا کہ تم یہاں بھی اسی جھنجک میں پہنچے داتا ابو کو اپنے دوست شہروں کا

فیصلہ برا لگا تھا ارے میرا تو کام ہی یہی ہے روز جب تک کسی جن بت سے پالا نہ پڑے میرا تو دن ہی نہیں

گزرتا وہ مسکرائے نے اپنے کام پر پکا تھا پھر بھی دادا جی کو کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا ارے میں نے دراصل

میں نہیں چاہتا کہ میں نے جو خونی تاوان کبھی ماضی میں عطا کیا تھا۔

 وہ کسی اور کے حصے میں آئے سندر س ابھی  بہت معصوم ہے اسے نہیں وہ بھی بول رہے تھے کہ ان کی بات

دادا نے کاٹ دی خوف سےلتھڑی یہ آواز دادا جی  کی تھی شہر محمد صاحب جن کو پیار سےدادا جاں  شیرو

کہتے تھے ان کا اتا کیا ہوا خونی  تاوان دادا کے ذہن میں تازہ ہو گیا تھا وہ ان کے ظاہر کیے ہوئے خدشے  کو سمجھ

گئے تھے ارے اسی لیے کہہ رہا ہوں کہ یہ کام تم مجھ پر چھوڑ دو انہوں نے تحمل سے کہا تھا اس بار دادا جی

انہیں منع نہیں کر سکے تھے۔

 میں اپ کے بیٹے کو دیکھنا چاہتا ہوں شیر  محمد صاحب اس وقت دادا جی کہ ہمراہ اسلم  صاحب کے گھر پر

موجود ان سے مخاطب تھےآئے  جناب دیکھیں میرا بیٹا مر رہا ہے انہوں نے چارپائی پر پڑے زندہ لاش

جیسے اس شخص کی طرف اشارہ کیا جو عمر میں تقریبا 18 سال کا تھا شیر محمد صاحب نے اس پر دم کیا تو کچھ

دیر اس کا بہت جائزہ لیتے رہے تاہم  انہوں نے کچھ بھی کہنے سے گریز کیا تھا واپس آکر وہ مراقے میں چلے

گئے تھے پورا ایک دن اور رات انہوں نے مراقبے میں گزارا تھا آخر کار اس مصیبت کا حل نکال کر ہی دم

لیا تھا میرا اندازہ ٹھیک تھا دیو کبھی بھی جان لیے بغیر نہیں جاتا۔

 ان کی بات پر دادا جی چونکہ مطلب وہ سمجھ تو گئے تھے مگر ماننے سے انکاری تھے نہ جانے کس کی جان کا

سودا تھا مطلب کہ ہمیں کسی جانور کی جان پیش کرنی ہوگی مگر وہ دیو ایک لینے پر راضی نہیں ہو رہا پھر کتنے

سات دادا جی کو کچھ تسلی ہوئی تھی مگر شیر محمد صاحب کے ماتھے پر ہنوز لکیروں کا جال بچھاہوا تھا وہ جلدسے

جلد  اسلم صاحب کو اگاہ کرنا چاہتے تھے لہذا یہ دونوں ان کے گھر کی جانب چلے  گئے ایک بکرا ہر پیر کے روز

مغرب کے بعد اپ نے اسی صحن میں اکرم کی چارپائی کے ساتھ باندھ دینا ہے پھر وہ بکرا کیا کرتا ہے کہاں

جاتا ہے اسے اپ کو کوئی سر اتار نہیں ہونا چاہیے۔

 اپ کو بس  یہاں باندھ کر  بھول جانا ہے یاد رہے کہ بکرے کا وزن ایک من ہونا چاہیے شیر  محمد صاحب

نے تفصیل سے اگاہ کر رہے تھے جبکہ اسلم صاحب سسٹر بیٹھے ہونے کے اوپر ٹپر دیکھ رہے تھے انہیں لگتا

تھا کہ وہ کوئی دم درود کریں گے یا قران خوانی کروانے کا کہیں گے مگر  وہ یہ سب کیا کہہ رہے تھے اپ کو

یقینا میری باتیں عجیب لگ رہی ہوں گی نا لیکن اگر اکرم کی جان بچانی ہے تو یہی ایک باریک اور آخری حل

ہے اپ کو نہ چاہتے ہوئے بھی اس پر عمل کرنا ہوگا ٹھیک ہے وہ مطمن  نہیں ہوئے تھے مگر  یوں ہی ظاہر کر

رہے تھے داداجی ساری کاروائی میں خاموش رہے وہ جانتے تھے کہ جو بھی ہو رہا تھا وہی ٹھیک تھا کیونکہ

انہیں اپنے بھائی جیسے دوست پر پورا بھروسہ تھا چل یار اس مسافر کو اجازت دی دادا جی کے دوست

شیروں اپنے سفری بیگ  کی زیپ بند کرتے ہوئے موڑے دو ہفتے یہاں گزارلینے کے بعد وہ واپس جا رہے

تھے۔

Jannati bakra

 دادا جی افسردہ نظر ائےآپ جا رہے ہیں میں بھی دکھی ہوئی تھی کہ یہ دو ہفتے دو دنوں کی طرح گزر گئے

تھے ہاں بیٹا مسافر تو مسافر ہوتا ہے نا جتنی بھی مرضی کہیں گزارلے آخر کار اُسے جانا ہی ہوتا ہے انہوں

نے میرےگال سہلاتے  ہوئے کہا مجھے کچھ کچھ سمجھ ائی تھی ان کےبات چلو ایک ہفتے اور ٹھر جاتے مسافر

صاحب دادا جی نے کہا یار تم جانتے ہو نا کہ وہاں لوگ میرے بغیر ادھورے ہیں یہ حقیقت تھی جسے وہ دہرا

رہے تھے ۔

کسی کا کوئی مسئلہ ہے تو کسی کا کوئی مجھے حیرت ہوتی ہے کہ لوگ مسجد نہیں جاتے مگر دم  درود کروانے آ

جاتے ہیں یہ سب ہم انسانوں کی کمزوریاں خرابیاں ہیں اگر ہم جنات کو تنگ نہ کریں تو انہیں کیا پڑی ہے

ہماری زندگی میں دخل   ڈالنے کی اب یہی اکرم کو دیکھ لو اگر یہ اس بکرے کو نہ چھیڑنا لالچ میں نہ پڑتا تو پھر

اس کی یہ حالت تو نہ ہوتی  ایک چھوٹی سی غلط اس کی زندگی کے لیے وبال  بن گئی وہ انسانیت پر افسوس کر

رہے تھے اشرف  المخلوقات کے یہ حال ہے تو پھر باقی سب کا کیا قصور دادا جی خاموش ہو کر رہ گئے اب ان

مسائل پر اور کیا زبان کھلنا لوگ تو گلے پھاڑ پھاڑ کر تھک گئے ہیں مگر کسی پر اثر نہیں ہوتا سندس جی میں اپ

کو کچھ دینا چاہتا ہوں انہوں نے مسکرا کر کہا اور میں خوش ہو گئے کہ تحفے لینا اور دینا میرا پسندیدہ عمل تھا ا

نہوں نے اپنی بیگ سے کچھ نکال کر میرے ہاتھ میں تھما دیا وہ رنگین تجویدی سولہ  ستری مصف تھا میں

نے فرقے جذبات کو اسے چوم کر انکھوں سے لگایا اس کی تلاوت روز کرنا اور جب لگے کہ کوئی سننے والا

نہیں تو اللہ سے باتیں کرنا جب اللہ کی باتیں سننے کا من کرے تو اسے پڑھ لینا انسانوں سے کیا کہنا اور سننا

انسان تو تھک جاتے ہیں نا اپنی جھڑک دیتے ہیں مگر اللہ کے لیے مستوں کی بڑی غور سے سنتا ہے انہوں

نے کھلے اسمان کی جانب شہادت کی انگلی اٹھاتے ہوئے زور دیا خوش رہیں اللہ تعالی اپ کو کامیاب

کرےآمین۔

 مجھے دعا دیتے ہوئے انہوں نے سر پر ہاتھ پھیرا میری انکھوں میں ہلکی سی نمی ترآئی اب تو اصول آپ

لوگوں کو انا چاہیے نا اپنے بارے میں تمہیں کچھ کہہ نہیں سکتا انسان کی زندگی کا کیا بھروسہ کب موت

ائے اور  اخری سانس بھی نکل جائیں نہ جانے کیوں ان کی باتیں میرا دل چھر رہی تھی میں نے چاہا کہ کاش

یہ پل  یہی رک جائیں اور میں انہیں اس وقت میں قید کر لوں کہیں جانے نہ دو کیسی باتیں کر رہے ہو

شیرواللہ  تمہاری عمر دراز کرے ہزاروں سال جیو دادا جی نے انہیں ڈانٹا جوابا وہ ہنس دے  داداجی انہیں

سٹیشن تک چھوڑنے جا رہے تھے اور میں مصف سنبھالتی دروازے سے پلٹ ائی تھی۔

 ساتویں ہفتے یعنی منگل   کی صبح منہ اندھیرے اسلم صاحب کے گھر کہورام  مچ گایاتھا  تمام اہل خانہ رو رہے

تھے ان کی بہن سن کر سارے معاملہ ان کے گھر جمع ہوتا تھا کچھ ہی دیر میں جب مسجد میں یہ اعلان ہوا کہ

اکرم  ملک ادم سدھار گیا  ہے تو کانوں کو یقین کرنا مشکل ہو گیا تھا دادا سے بھی مغمون  تھے وہ اسلم  صاحب

کے دکھ میں برابر کے شریک تھے انہیں یہ فکر ستائے جا رہی تھی کہ سب کچھ دیر جا رہا تھا تو پھر غلطی کہاں

ہوئی کمی  کہاں رہ گئی تھی یہ سوال  کسی سانپ کی طرح دادا کے اثراب کو ڈس رہا تھا ارے شیر محمد صاحب

نے آپ  کےذمے جو کام  لگایا تھا تو اپ نے وہ کیااکرم  کے سوئم کے بعد دادا جی نے اس سے پوچھا وہ کیا تھا

مگر نتیجہ دیکھ سکتے ہیں مگر یہ کیسا ممکن ہے سب کچھ سمجھ سے باہر تھا اگلے دن  دادا جی اسلم  صاحب کو کے

لیے گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے اگرچے  اسلم صاحب وہاں جانے کے لیے راضی نہیں ہو رہے تھے دادا

جی نے انہیں راضی کر کے لیا تھا وہاں شیر  محمد صاحب دادا جی کا یوں اچانک دیکھنا خوشی سے پھولے  نہیں سما

رہے تھے تاہم جب انہیں حقیقت کا علم  ہوا تو وہ رنجیدہ ہو گئے۔

 کیا آپ نے سات بکرے اکرم کی چارپائی کے ساتھ باندھے تھے  نہیں لیکن 6 تو باندھے تھے نا اس کی

حالت زیادہ بگڑتی جا رہی تھی وہ چارپائی سے اٹھ نہیں پا رہا تھا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تھا اس عمل کا اس لیے

میں نے ساتواں بکرا نہیں باندھا اسلم  صاحب کو غصہ آرہا تھا اور وہ نہ گواری سے بول رہے تھے نہ جانے یہ

کیسا  کام ہمارے ذمے لگا دیا تھا دادا جی کو حیرت کا جھٹکا لگا کہ اسلم صاحب نے شیر محمد صاحب کے عمل کی

بات کو پوری طرح سے نہیں مانا تھا یہ دیکھو شیر محمد صاحب نے اپنی مٹھی کھول کر ان کے سامنے کی تو

ہتھیلی جیسے ٹیلی ویژن کی کوئی سکرین بن گئی اس میں نظر اتا منظر ان کے گھر کے صحن کا تھا چارپائی پر سوئے

ہوئےاکرم اور ساتھ بندے بکرے کو وہ باسانی دیکھ سکتے تھے صبح صادق  کے وقت کوئی بھیانک دیوبلا ان

کے گھر آ گئی وہ اکرم  کی طرف بڑھ رہی تھی کہ سامنے وہ بکرا ا گیا اس با  شکل چیز نے وہ بکرا اپنے منہ میں

دبایا اور وہاں سے چلی گئی اسی طرح چھ بار ہوا تھا ساتویں بار جب وہ دیو بلا وہاں  دوبارہ ائی تب وہاں  بکرا نہیں

تھا لہذا اس نے زندہ اکرم کو منہ میں دبایا اور باہر کی راہ لی منظر غائب ہوا تو انہوں نے اپنی ہتھیلی بند کر لی یہ

دیکھنا یہ تھا کہ اسلم صاحب سرپیٹتے  رہ گئے تھے وہ ان کے کدموں  میں گرکر پھوٹ پھوٹ کر رو دیے تھے

داداجی بھی اب دیدا ہو گئے تھے  کہ اولاد کا غم تو انسان کو کھا جاتا ہے

اسلم صاحب جو شیر محمد صاحب کے علم پر شک کرنے کی سنگین غلطی کے مرتکب ہوئے تھے اب ان کے

مرید ہو کر  رہ گئے تھے اور اس غلطی کے سزا بھی وہ  بھوگت رہے تھے کاش وہ ساتواں بکرا بھی لے آتے  تو

شاید اج اکرم  زندہ ہوتا یہ پشتاوا  ان کو   ساری عمر رہنا تھا سچ ہے کہ اللہ کے ولیوں کے علم پر کبھی شک نہیں

کرنا چاہیے کیونکہ وہ حالات کو باطن کی نظر سے دیکھ سکتے ہیں مگر ہم میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی۔

کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment