Aatma ka basera

Aatma ka basera

Aatma ka basera

 

اسلام علیکم اُمید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے ۔

آج کی کہانی میں خوش آمدید

آج کی کہانی میں ایک بے چین روح کی پراسرار کہانی تہمینہ بھی ناشتے کے برتن دھو کر فارغ ہوئی تھی وہ

کچھ دیر ارام کرنا چاہتی تھی اس گھر میں آئے ہوئے اسے چند دن ہی ہوئے تھے صفائی اور گھر کے سامان کو

سلیقے سے رکھنے کی وجہ سے تہمینہ کو آرام کرنے کا بالکل بھی موقع نہیں مل رہا تھا بچے ناشتہ کر کے اسکول

چلے گئے تھے اس کا شوہر مقصود بچوں کو پڑھانے سکول چلا گیا تھا ناشتے کے برتن دھونے کے دوران اس

نے دوپہر کا کھانا بھی تیار کر لیا تھا اب اسے کسی قسم کی کوئی فکر نہیں تھی آرام کے دوران اگر وہ دیر تک سو

بھی جائیں تو پریشانی کی کوئی بات نہیں تھی بیڈ پر لیٹ نہیں اس کی انکھ لگ گئی آچانک اس کی آنکھ کھلی ۔

آبھی  وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ کیا وجہ ہے آبھی تو اس کی آنکھ لگی تھی چھت پر کوئی بھاری چیز گرنے کی

آواز سنائی دی وہ تیزی سے اٹھی اور چھت پڑ گئی وہاں ایک تابوت رکھا تھا تابوت دیکھ کر اسے پڑی حیرت

ہوئی کہ اس تابوت کو کون یہاں رکھ گیا اور یہ آواز کیا اسی کی تھی تہمینہ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتی تابوت

کے پاس گئی اس نے جیسے ہی تابوت کا ڈکن اُٹھایا اس کے منہ سے چیخ نکل گئی تابوت میں کسی خاتون کی لاش

تھی لاش کا چہرہ جگہ جگہ سے زخمی تھا گردن بھی کٹی ہوئی تھی ایسا محسوس ہو رہا تھا کسی تیز دھار آلے سے

اس کا گلا کاٹا گیا تھا لاش کا پورا جسم خون میں نہایا ہوا تھا اس کی انکھوں میں مرنے کے باوجود بھی ایک خاص

چمک تھی تہمینہ خوفزدہ ہو کر چھت سے نیچے بھاگی اور کمرے کا دروازہ بند کر کے بیڈ پر بیٹھ گئی ۔

اس نے خود کو پوری طرح سے چادر میں لپیٹ لیا اس طرح وہ خود کو محفوظ سمجھ رہی تھی اس کا جسم تھکن

سے چور تھا اس لیے کچھ دیر گزرنے پر اُسے نیند اگئی مقصود ایک سرکاری سکول میں استاد کے فرائض انجام

دے رہا تھا وہ نیو احمدہ آباد کے ایک سکول میں پڑھاتا تھا وہاں سے اب اس کا ٹرانسفر ٹنڈو ادم میں ہو گیا تھا

کرائے کے لیے خالی مکان بڑی مشکل سے ملا تھا مالک مکان نے بھرتی مہنگائی کے سبب مکانات کے

کرائے بہت بڑھا دیے تھے اچھے مکانات کرائے پر لینے کی مقصود کی گنجائش نہیں تھی موجودہ مکان اس

کی گنجائش کے مطابق تھا اور اس گھر کے قریب ہی سکول بھی تھا ۔

اس نے اپنے بچوں اویس مسعود کو قریب کے سکول میں ہی داخل کرآ دیا وہ ڈیوٹی پر جاتے ہوئے بچوں کو

ان کے سکول چھورجاتا مقصود سکول سے چھٹی ہونے پر بچوں کو ساتھ لے کر گھر پہنچا دروازے پر دستک

دینے پر تہمینہ نے خاصی دیر سے دروازہ کھولا وہ گھبرائی ہوئی تھی اسے پریشان دیکھ کر مقصود بھی حیران ہو

گیا کیا بات ہے تہمینہ تم اتنا گھبرائے ہوئے کیوں ہو وہ چھت پر چھت پر کیا ہے بہت تابوت ہے تابوت ہے

کیسا تابو تابوت میں ایک عورت کی لاش بھی ہے لاش مقصود بھوکھلا گیا ہاں تابوت میں لاش ہے لیکن

تابوت اور لاش چھت پر ائے کیسے مقصود نے پوچھا میری تو خود سمجھ میں نہیں ا رہا مقصود تیزی سے چھت

پڑ گیا مقصود تیزی سے چھت پڑ گیا۔

 لیکن چھت پر تابوت اور  لاش کا دور دور تک پتہ نہیں تھا وہ حیرانی سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا تہمینہ اور بچے

بھی اس کے پیچھے چھت پر آگئے یہاں تو ناتا بوت ہے اور نہ ہی کوئی لاش تہمینہ میں نے خود اپنی انکھوں

سے دیکھا تھا مقصود تو اب کہاں گیا تابوت اور لاش تہمینہ نے پڑوس کی چھت پر اور پھر گلی میں جھانک کر

دیکھا تابوت اور لاش تو کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی  اب ارے تم نے خواہم خواہ ہم سب کو پریشان کر

دیا ہے پر میں نے خود چپ کرو تم نے سوتے ہوئے کوئی خواب دیکھا ہوگا نہیں میں نے حقیقت میں دیکھا

تھا۔

 اچھا تو پھر کہاں ہے میری کچھ سمجھ میں نہیں ارہا مقصود کہ یہ سب کیا ہے تم جب سے اس گھر میں ائی ہو

مسلسل کام کر رہی ہو تھکاوٹ ڈپریشن کا شکار ہو اپنی نیند اور تھکاوٹ کو دور کرو پھر تمہیں ایسے خواب نظر

نہیں ائیں گے مقصود نے مسکراتے ہوئے کہا امی بہت زور کی بھوک لگی ہے اب کے مسعود بولا ارے

بھوک تو مجھے بھی زوروں کی لگ رہی ہے مقصود نے بھی یہی کہا کھانا تیار ہے نیچے آئے میں کھانا دیتی ہوں

وہ سب اس کے پیچھے چھت سے نیچے انے لگے تہمینہ سیڑھیاں اترتے ہوئے سوچ رہی تھی آخر وہ تابوت

اور لاش کہاں گئے یہ اس کے لیے ایک طرح سے ماما بن گئے تھے اس نے خود اپنی انکھوں سے تابوت اور

لاش کو دیکھا تھا پھر وہ کیسے غائب ہو گئے بچوں اور مقصود کے ساتھ اس نے بھی کھانا کھایا کھانے سے فارغ

ہو کر ان کو کیلولا کرنے کی عادت تھی اس لیے وہ سب بیڈ پر لیٹ گئے۔

 دوسرے دن تہمینہ دوپہر کا کھانا تیار کر رہی تھی کھانا بناتے ہوئے اس کا ذہن دوبارہ کل کے واقعے کی

طرف چلا گیا کسی طرح تابوت میں لاش دکھائی دی تھی اور پھر وہ غائب ہو گئی تھی عقل حیران تھی محلے

میں کسی نے تابوت کے بارے میں نہیں بتایا اگر حقیقت میں تابوت میں لاش ہوتی تو پھر ضرور چھت سے

کسی کے لے جانے پر کسی کو تو دکھائی دیتی کوئی نہ کوئی تابوت کو ضرور دیکھتا اتنا بڑا تابوت کسی کی انکھوں

سے چھپ نہیں سکتا تھا جب وہ دروازہ کھولنے کو اٹھی دروازہ لاک تھا اس کا مطلب ہے دروازے سے

کوئی بھی تابوت کو لے کر نہیں گیا تھا ورنہ دروازہ کھلا ہوتا۔

 تو پھر وہ تابوت چھت پر کیسے آیا ابھی وہ سوچو میں تھی کہ اسے محسوس ہوا کوئی سیڑھیاں اترتے ہوئے نیچے

آ رہا ہے وہ چونکی چھت پر تو کوئی نہیں تھا پھر کوئی سیڑھیوں پر سے کیسے اتر سکتا ہے وہ کچن سے نکل کر

سیڑھیوں کی طرف گئی وہاں ایک خاتون کھڑی تھی جب خاتون کے چہرے پر نظر پڑی تو اس کا چہرہ خوف

کے مارے فق ہو گیا اس کی چیخ نکل گئی تہمینہ کو پریشان دیکھ کر وہ خاتون مسکرائی وہ اس وقت بالوں میں

کنگھی کر رہی تھی تہمینہ کے خوفزدہ ہونے کی وجہ یہ تھی یہ وہی خاتون تھیں جس کی لاش اس نے کل

تابوت میں دیکھی تھی جب یہ مر چکی ہے تو میرا زندہ کیسے ہو گئی ۔

Aatma ka basera

 یہ اس کی کوئی ہمشکل تو نہیں یہ سوچنے پر اس کا خوف کچھ کم ہوا تہمینہ نے اس سے بات کرنے کا سوچا تم

کون ہو اور کل میں نے جس کی لاش دیکھی ہے اس کا تم سے کیا تعلق ہے خاتون نے تہمینہ کے سوال کا

کوئی جواب نہیں دیا اور ٹکٹکی باندھے اسے دیکھے جا رہی تھی اسے خاموش دیکھ کر تہمینہ اس کے پاس گئی

اس کے قریب آنے پر خاتون ایسے غائب ہوئی جیسے وہاں تھی ہی نہیں اس کی غائب ہو جانے پر تہمینہ کو

خوف محسوس ہوا اور وہ بھاگ کر کمرے میں چلی گئی بیڈ پر بیٹھ کر خوف کے مارے وہ گہرے گہرے سانس

لینے لگی۔

 اچانک یہ باہر والے دروازے پر دستک ہوئی وہ لپک کر دروازے پر آئی اور دروازہ کھول دیا مقصود بچوں

کے ساتھ کھڑا تھا وہ تہمینہ کو پریشان دیکھ کر بولا کیا ہوا ہے یار آج پھر تمہارے چہرے پر ہوائیں اڑ رہی ہیں

تہمینہ سوچ میں پڑ گئی یہ بات اپنے شوہر کو بتائی یا نہ بتائے کہیں اس کا مذاق نہ بن جائے بتانا بھی ضروری تھا

تاکہ مقصود کو اندازہ ہو کہ اس کی غیر موجودگی میں کس قسم کے واقعات اس کے ساتھ پیش آ رہی ہیں

تہمینہ نے یہ سوچ کر نہ بتانے کا فیصلہ کر لیا کہ جب اس طرح کے واقعات اس کے ساتھ پیش آ رہے ہیں تو

وہ مقصود کے ساتھ بھی آ سکتے ہیں تبھی ان کو میری بات پر یقین آئے گا کچھ نہیں میں بس کام میں مصروف

تھی ظاہر ہے گھر میں کام یہ کر رہی ہوں گی لیکن تمہارے چہرے کی رنگت اڑی اڑی کیوں لگ رہی ہے

اس لیے میں نے تم سے پوچھا تھا مجھے کچھ نہیں ہوا میں اپ کے لیے کھانا نکالتی ہوں یہ کہتے ہوئے اس نے

راستہ چھوڑا وہ سب اندر اگئے کھانا کھاتے ہوئے مقصود سوچ رہا تھا کچھ گڑبڑ ضرور ہے ورنہ یہ ایسے

گھبرانے والی نہیں۔

 رات کو گرمی اور حبس تھا اس لیے مقصود صحن نہیں سو گئے تہمینہ اور بچے کمرے میں سو رہے تھے نہ جانے

رات کا کون سا پہر تھا سوتے میں مقصود کے چہرے میں برف سے زیادہ ٹھنڈے ہاتھ لگنے کا احساس ہوا

اس نے گھبرا کر انکھیں کھول دی وہ کوئی عورت تھی وہ سیڑھیوں کی جانب لپکی مقصود اس کا چہرہ نہیں

دیکھ سکا تھا اس لیے یہ خیال کیا کہ شاید تہمینہ ہے اور اس سے مذاق کر رہی ہے یہ سوچ کر وہ اس عورت کی

جانب لپکا اپنی جانب اتا دیکھ کر وہ تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتی ہوئی چھت پر چلی گئی مقصود بھی چھت پر

چلا گیا ابھی وہ اس نے مخاطب ہونے کا سوچ ہی رہا تھا کہ عورت نے پلٹ کر مقصود کو دیکھا۔

 اس کا چہرہ انتہائی خوفناک تھا چہرے پر سے جگہ جگہ سے گوشت غائب تھا اس کی صورت دیکھ کر کرایت کا

احساس ہو رہا تھا مقصود خوفزدہ ہو کر نیچے کو پلٹا اسے ڈرتا دیکھ کر وہ خاتون مسکرائی اور پھر غائب ہو گئی تہمینہ کو سوتے میں پیاس لگی وہ جب صحن میں پانی پینے ائی تو مقصود اپنے بستر پر نہیں تھا ادھر ادھر دیکھنے پر وہ نظر

نہیں آیا پھر تہمینہ نے چھت پر جانے کا فیصلہ کرتے ہوئے قدم سینے کی طرف بڑھائی اس نے دیکھا کہ

مقصود تیزی سے سیڑھیاں اترتا ہوا نیچے ا رہا ہے کیا ہوا مقصود خیریت تو ہے نا اپ اس وقت چھت پر کیوں

گئے تھے بس ایسے ہی دل گھبرا رہا تھا اس لیے چھت پر چلا گیا ۔

Aatma ka basera

مقصود نے اسے خاتون کے بارے میں بتانا مناسب نہ سمجھا ورنہ اس کی غیر موجودگی میں تہمینہ کا گھر میں

اکیلے رہنا مشکل ہو جاتا اور وہ ڈر ڈر کر پوری ہو جاتی تہمینہ کو شک ہو رہا تھا ضرور کوئی گڑ پڑے اور مقصود

اسے کچھ چھپا رہا ہے خیر وہ خاموش ہو گئی اور مقصود چارپائی پر ا کر لیٹ گیا تو اسے دن جب وہ سکول میں تھا

اس کے ساتھی ماجد نے جب اسے خاموش دیکھا تو اس سے مخاطب ہوا کیا بات ہے مقصود تم کافی پریشان

لگ رہے ہو ہاں یار میں واقعی پریشان ہوں اور اس کی وجہ کرائے کا مکان ہے پریشانی کی وجہ کرائے کا مکان

ہے پر اس علاقے میں سب سے کم کرائے پر مکان دلایا ہے نہ تمہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے مکان کم

کرائے پر دلایا ہے پر اس گھر میں کچھ واقعات ہو رہے ہیں پھر کل رات جو کچھ ہوا تھا وہ اس نے اپنے

دوست ماجد کو بتا دیا ارے یار میں تو تمہیں یہ بات بتانا ہی بھول گیا تھا کہ اس گھر میں قتل ہو چکا ہے قتل

ہاں ہاں اس مکان میں دو میاں بیوی جن کا نام عبدالشکور و شبانہ تھا وہ کرائے پر ا کر رہ رہے تھے عبدالشکور

نے کسی غلط فہمی پر اپنی بیوی شبانہ کو قتل کر دیا تھا پولیس نے اسے قتل کے مقدمے میں گرفتار کر لیا ان

دنوں سے عمر قید با مشقت کی سزا بھگت رہا ہے۔

 تمہیں اور تمہاری بیوی کو جو عورت نظر ارہی ہے مجھے لگتا ہے وہ شبانہ ہی ہے تو میں سب پتہ ہے پھر بھی تم

نے مجھے وہ مکان دلایا اور اوپر سے مجھے حقیقت سے بھی اگاہ نہیں کیا اس کی وجہ ہے اس مکان کا کرایہ

تمہاری گنجائش کے مطابق ہے شبانہ صرف لوگوں کو نظر اتی ہے لیکن کسی کو کچھ کہتی نہیں اس لیے میں

نے تمہیں یہ مکان ڈلا دیا تھا ایک ماہ مکان میں رہ کر دیکھ لو اگر شبانہ کی روح تنگ کرے تو پھر کوئی اور

مکان دیکھ لیں گے مقصود اس کی بات سن کر خاموش ہو گیا وہ بالکل ٹھیک کہہ رہا تھا اگر شبانہ کی روح تنگ

کرے تو پھر بالکل ٹھیک کہہ رہا تھا اگر شبانہ کی روح تنگ کرے تو پھر دوسرا مکان کرائے پر لینے کا سوچنا

پڑے گا۔

 رات میں جب سب سو رہے تھے بلیوں کے رونے کی اوازیں انے لگی ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے بہت ساری

بلیاں مل کر گریازاری کر رہی ہوں مقصود تہمینہ اور بچے ان کی اوازیں سن کر اٹھ گئی بچے اوازوں سے بری

طرح سے خوفزدہ ہو رہے تھے مقصود کمرے سے صحن میں آیا وہاں کئی خوفناک بلیاں بیٹھی تھی وہ ایک

دوسرے کی صورتیں دیکھ دیکھ کر ایسے بین کر رہی تھی کہ ان کی کوئی ساتھی بلی مرنے کا انہیں بہت

افسوس ہو مقصود کو دیکھ کر بلیاں سیڑھیوں کی جانب لگتی ان کے بھاگنے پر وہ واپس کمرے میں آگیا بچے اور

تہمینہ کمرے میں بری طرح سے خوفزدہ تھی کیا ہوا تہمینہ نے پوچھا بیلیاں تھی بہت ساری باہر ایسے لگ

رہا تھا جیسے وہ بین  کر رہی ہوں مجھے دیکھ کر وہ بھاگ گئی۔

 فجر کی نماز میں مقصود کی انکھیں بوجل تھیں ایسا محسوس ہو رہا تھا نیند پوری نہ ہونے پر وہ بیمار لگ رہا ہے

پیش امام ظہیر سے جب وہ نماز کے بعد ہاتھ ملانے گیا انہوں نے روک لیا تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا

میاں جی ٹھیک ہے پر تمہاری انکھیں بہت بوجھل سے محسوس ہو رہی ہیں جیسے نیند پوری نہیں ہوئی امام

صاحب نے پوچھا راگ بلیوں نے رو رو کر سب گھر والوں کی نیندیں پوری نہیں ہونے دی یہ کہتے ہوئے

پھر مقصود نے مکان میں پیش آنے والے تمام واقعات امام صاحب کے گوش گزار کر دیے ہاں میاں اس

مکان میں قتل ہوا تھا شبانہ کو اس کے شوہر نے قتل کر دیا تھا اس کی روح مکان میں ہی گھوم رہی ہے لیکن

وہ بری نہیں اس لیے کسی کو نقصان نہیں پہنچا رہی پر وہ گھر کے لوگوں کو خوفزدہ تو کر رہی ہے نا امام

صاحب۔

 ہاں یہ بات تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو بچے اور خواتین تو ڈرتے ہوں گے اس کی تدبیر تم یہ کرو تم گھر میں نظر

نیاز کر دو اس روح کے ایصال ثواب کے لیے قران خوانی کرواؤ پھر وہ تم گھر والوں کو نظر نہیں ائے گی

ٹھیک ہے میں ایسا بھی کر کے دیکھ لیتا ہوں پھر مقصود نے جمعرات کو اپنے گھر میں شبانہ کی بے چین روح

کے ایصال ثواب کے لیے قران خوانی کرائی اور محلے کے چھوٹے بچوں میں بھی نظر نیاز بانٹ دی مقصود

کے اس عمل سے پھر شبانہ کی روح کبھی نظر نہیں ائی اس کی نظر نہ انے پر گھر والے بھی مطمئن ہو گئی ایک

رات مقصود کے خواب میں شبانہ نظرائی۔

وہ بہت مطمئن اور خوش نظر ارہی تھی اس نے خواب میں کہا کہ میری روح بہت بے چین تھی تمہارے

عمل سے مجھے بہت قرار ا گیا ہے میں تمہیں یا تمہارے بچوں کو کبھی نظر نہیں اؤں گی خواب میں مقصود اس

سے پوچھتا ہے کہ تمہارے شوہر نے تمہیں قتل کیوں کیا تو اس نے وجہ بتائی کہ وہ ایک شکی قسم کا شوہر تھا

بات بات پر شک کرنے والا اس نے ناحق شک و شبے میں مجھے قتل کر دیا تھا جس کی سزا وہ کہتے با مشقت کی

صورت میں کاٹ رہا ہے صبح بیدار ہونے پر اسے رات کا خواب یاد اگیا اس نے امام صاحب کو بھی بتا دیا جس

پر وہ بولے اب تم بے فکری سے کرائے کے مکان میں رہو اب کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے اپنی بیوی

سے بھی اس بات کا ذکر کر دینا تاکہ اس کے دل میں بھی جو خوف و ہراس بیٹھا ہے وہ بھی جاتا رہے۔

کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment