Malik e Room ka tajir aur shehzadi episode 2
جادوگرنی نے زور سے دو ہتھڑ مارا اور چیخی افسوس آج ایک انسان نے میرے سوالوں کے جواب دے
دیے افسوس میں اسے بھون کر کھا نہیں سکتی جا چلا جائے یہاں سے میں تجھے چھوڑتی ہوں تو آزاد ہے عثمان
نے کہا اے جادو کرنی ایک مہربانی کر مجھے کوکاف جانے کا راستہ بتاتے میں اپنے ملک کی شہزادی افشین کو
جن کی قید سے آزاد کرانا چاہتا ہوں جادوگرنی کہنے لگی میں تمہاری ذہانت سے خوش ہوں لے یہ گیند اسے
زمین پر پھینک دے اور اس کے پیچھے پیچھے چلتا جا یہ گین تجھے خون کے دریا کے کنارے تک پہنچا دے گی
اس دریا کےآگے کو کاف کی حدود شروع ہو جاتی ہیں دریا کے کنارے ایک چڑیل رہتی ہے وہی دریا کی
محافظ ہے اگر تم اسے مارنے میں کامیاب ہو گئے تو دریا پر ایک پول خود بخود بن جائے گا جس پر سے گزر کر
تم دوسری طرف جا سکو گے خبردار دریا کے خون میں تیرنے کی کوشش نہ کرنا ورنہ پتھر کے بن جاؤ گے
عثمان نے گین زمین پر ڈالی گیند خود بخود بھرنے لگی اور تاجر عثمان اس کے پیچھے چلنے لگا وہ بو نا بادشاہ اس کی
جیب میں تھا اور اسے مزے مزے کے لطیفے سنا کر ہنسا رہا تھا۔
اب ہم شہزادی افشین کی خبر لیتے ہیں کہ وہ کس حال میں ہیں پیٹو جن نے اسے چاندی کے بہت بڑے
پنجرے میں قید کر دیا تھا اور اسے مجبور کرتا تھا کہ اس سے شادی کر لے اس وقت بھی پیٹو جن کہہ رہا تھا
اے شہزادی میری بات مان لے یہاں کوئی تیری مدد کو نہیں آ سکتا شہزادی افشین یہ سن کر رونے لگی پیٹو
جن نے اُسے روتے دیکھا تو ہاتھ جوڑ کر بولا رو مت پیاری شہزادی میں ابھی تمہارے لیے میٹھی گولیاں
منگواتا ہوں پیٹو جن نے ایک دیو کو گولیاں لانے کا حکم دیا وہ لے آیا مگر یہ کیا کھٹی میٹھی گولیاں فٹبال کے
سائز کی تھیں لمبے لمبے بانسوں سے لپٹے ہوئے موٹے لولی پوپ تھے اور اینٹ اینٹ جتنے چاکلیٹ تھے پی ٹو
غصے سے بولا اے احمق دیو تم جنوں کے کھانے والی گولیاں اور لولی پاپ لے آئے ہو جاؤ ان کے ٹکڑے
کر کے لاؤ انہیں شہزادی نے کھانا ہے دیو چلا گیا پیٹو جن نے شہزادی کو رونا بند کرنے کے لیے کہا مگر وہ
روتی رہی تو پیٹو جن غصے میں اگیا اور اس زور سے دھاڑا کہ محل کانپ گیا پیٹو جن نے شہزادی کو رونا بند
کرنے کے لیے کہا مگر وہ روتی رہی تو پیٹو جن غصے میں اگیا اور اس زور سے دھاڑا کہ محل کانپ اٹھا اس نے
کہا اے نادان شہزادی تجھے میری بات ماننا پڑے گی ورنہ میں تجھے مار ڈالوں گا میں تجھے تین دن کی مہلت
دیتا ہوں آچھی طرح سوچ لے یا تو مجھ سے شادی کے لیے راضی ہو جا یا مرنے کے لیے تیار ہو جا پیٹو جن یہ
کہہ کر غصے سے پھنکارتا ہوا چلا گیا اور شہزادی اپنی قسمت پر آنسو بہانے لگی اُسے اپنے ماں باپ بھی حد یاد آ
رہے تھے اس نے سن رکھا تھا کہ جو بچے اور بڑے اپنے ماں باپ کی خدمت کرتے ہیں اور کہنا مانتے ہیں
اللہ میاں ان کی مدد فرماتے ہیں شہزادی کو امید تھی کہ اللہ بھی اس کی مدد کرے گا کیونکہ وہ بھی اپنے ماں
باپ کی فرمانبردار تھی۔
ادھر تاجر عثمان گیند کا تعاقب کرتا ہوا دریا تک پہنچ گیا اس نے دیکھا کہ دریا میں پانی کی بجائے خون بہہ رہا
ہے اور گاڑھا خون اس دریا کے کنارے کالے رنگ کا ایک پرانا محل تھا اسی میں وہ خون خوار چڑیل رہتی
تھی جو دریا کی محافظ تھی اس چڑیل نے تاجر کی بو سونگ لی تھی اور ادم بو ادم بو کے نعرے لگاتی بھاگتی چلی آ
رہی تھی اس چڑیل کے چار ہاتھ اور چار انکھیں تھیں گلے میں سانپوں کی مالا تھی لمبی سرخ زبان منہ سے
باہر لٹک رہی تھی اور دانت چمک رہے تھے عثمان اور بونا بادشاہ ایک درخت کے پیچھے چھپے ہوئے تھے
ڈراؤنی شکل والی وہ چڑیل چیخیں مارتی ادھر ا رہی تھی درخت کے قریب ا کر اس نے مکروہ کہکا لگایا اور تنے
پر زور سے ہاتھ مارا درخت ٹوٹ کر پرے جا گرا عثمان اس کے نیچے آتے آتے بچا عثمان نے فورا تلوار نکالی
اور کہا اے خون خوار چڑیل مرنے کے لیے تیار ہو جا میں تجھے اپنی تلوار سے کاٹ ڈالوں گا چڑیل دانت
نکال کر ہنسنے لگی اس کی خوفناک ہنسی سے بھونچال سا ا گیا درختوں پر بیٹھے پرندے پھڑپھڑا کر اڑ گئے اس نے
گرج کر کہا تیری یہ مجال خوش میں تجھے چٹکیوں میں مسل کر رکھ دوں گی تیرا خون اس دریا میں بہا کر
گوشت کھا جاؤں گی عثمان نے تلوار سے وار کیا تلوار چڑیل کے بازو پر پری مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوا اسے تو
زخم تک نہیں ایا اب تو عثمان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے بونا بادشاہ جیب میں کودتا ہوا بولا ہائے مارے گئے
ہائے مارے گئے چڑیل ہاتھ پھیلا کر عثمان کی طرف پڑی اسی وقت عثمان نے جیب سے پری کا دیا ہوا پر
نکال کر بالوں میں لگا لیا بس پھر کیا تھا ایک دھماکے کے ساتھ پری آ موجود ہوئی اس کے ہاتھ میں سونے کی
کمان تھی جس پر فولا تھی تیر چڑھا ہوا تھا اس نے آتے ہی تیر چلایا تیر سیدھا چڑیل کے سینے میں لگا اس نے
زوردار چیخ ماری اور زمین پر گر کر تڑپنے لگی چڑیل کی آنکھیں باہر ابلئیں اور وہ چیختی ہوئی مر گئی برے کام کا
برا انجام ہوتا ہے ۔
یہ چڑیل سینکڑوں انسانوں کو ہڑپ کر چکی تھی اور اج خود ماری گئی عثمان نے کہا اے پڑی میں کس منہ سے
تیرا شکریہ ادا کروں تم نے مجھے اور بونے بادشاہ کو موت سے بچا لیا پری نے ہنس کر جواب دیا جو کوئی نیکی
کرتے ہیں اس کا صلہ انہیں ضرور ملتا ہے تم نے میری جان بچائی تھی نا اج میں تمہارے کام ا گئی اچھا اللہ
حافظ پری چلی گئی۔
خون کے دریا پر اب ایک پل بن چکا تھا عثمان اس پل سے گزر کر کوکاف میں داخل ہو گیا کوکاف کی
سرزمین پر قدم رکھنا تھا کہ نہ جانے کدھر سے آوازیں آنے لگی اے نوجوان بھاگ جا ورنہ مار ڈالیں گے یہ
جنوں کی بستی ہے یہاں انسان کا کیا کام بھاگ جا بھاگ جا یہاں سے پہلے تو عثمان کی اوازیں سن کر گھبرا گیا
پھر حوصلہ کر کے اگے بڑھا تلوار اس نے دونوں ہاتھوں میں تھام رکھی تھی کچھ دیر تک اوازیں اتی رہیں
پھر بند ہو گئیں اسی وقت سامنے والے پہاڑ سے ایک بہت بڑا پرندہ نمودار ہوا یہ کوکاف کا خونی پرندہ تھا
جس کا نام اڑن ہاتھی تھا اس کا جسم تین ہاتھیوں کے برابر تھا رنگت سیاہ تھی اور چار ٹانگیں تھیں اس کی کمر
پر دو بڑے بڑے پر تھے اور منہ کے اگے سونڈ کی بجائے ایک لمبی نوکیلی چونچ تھی اس نئی آفت کو دیکھ کر
عثمان نے تلوار سونت لی اڑن ہاتھی بڑی تیزی کے ساتھ اس کے سر پر ا پہنچا اس نے اپنی غار جیسی لمبی چونچ
کھولی اور بڑی پھرتی سے جھک کر عثمان کو نگل گیا عثمان کو لگا جیسے وہ کسی گدلی سڑک پر پھسل رہا ہے وہ پھسلتا
ہوا ایک اندھیرے کمرے میں جا گرا یہ اس اڑن ہاتھی کا معدہ تھا عثمان معدے میں کھڑا ہو گیا اسے کچھ
نظر نہیں ارہا تھا اور سانس لینے میں بھی دقت ہو رہی تھی مگر پھر یہ مشکل حل ہو گئی اڑن ہاتھی نے اپنی
چونچ کھول دی روشنی اور ہوا اندر انے لگی بونے بادشاہ نے کہا باپ رے یہ خوفناک پرندہ میرے باپ
نہیں دادا بلکہ پردادا نے بھی نہیں دیکھا ہوگا عثمان نے کہا پر اب ہم اس جگہ سے نکلے کیسے کچھ دیر یہاں
رہے تو اس پرندے کے معدے کے تیزاب میں ہم ہضم ہو جائیں گے میرا خیال ہے تلوار کے ذریعے
سراخ کر کے باہر نکلنا چاہیے عثمان نے اللہ کا نام لیا اور تلوار سے بھرپور وار کیا اڑن ہاتھی کا گوشت اس
طرح کٹا جیسے صابن ہو وہ چیخیں مارتا ہوا اپنی ٹانگوں پر گھومنے لگا ایسا کرنے سے معدے میں گویا زلزلہ اگیا
اور عثمان اڑان ہاتھی کے پیٹ میں کلا بازیاں کھانے لگا مگر سنبھل کر وہ تلوار چلاتا رہا اڑن ہاتھی کو بڑی
تکلیف ہو رہی تھی اس نے عثمان کو باہر اگل دیا عثمان دھڑام سے باہر زمین پر گر پڑا گرتے ہی وہ اٹھا اور
تلوار سونتی اسی وقت اڑن ہاتھی نے کراتے ہوئے انسانی اواز میں کہا اے ادم زاد مجھے مارنا نہیں تم جو کہو
گے میں وہی کروں گا اڑن ہاتھی کو بولتے دیکھ کر عثمان حیران رہ گیا کوکاف بڑی عجیب دنیا ہے وہاں ایسی
ایسی مخلوقات پائی جاتی ہیں کہ عقل ماننے سے انکار کر دیتی ہے عثمان کہنے لگا ٹھیک ہے میں تمہیں ہلاک
نہیں کرتا تمہیں جنوں کے خلاف میری مدد کرنا ہوگی وہ ہمارے ملک کی شہزادی افشین کو اٹھا لائے ہیں
اور ان ہاتھی نے کہا مجھے منظور ہے میں یہاں کے اڑن ہاتھیوں کا سردار ہوں ہماری تعداد 50 ہے جب
بھی تم مغرب کی طرف منہ کر کے مجھے اواز دو گے میں اپنے ساتھیوں سمیت تمہاری مدد کے لیے ا جاؤں
گا عثمان اگے بڑھ گیا ایک دن اور ایک رات مسلسل سفر کے بعد وہ بیٹو جن کے محل کے پاس پہنچ گیا جہاں
شہزادی افشین قید تھی پیٹو جن کو جب خبر ملی کہ ایک انسان شہزادی کو رہا کرانے ایا ہے تو وہ کہہ کہہ لگانے
لگا اور اپنے محل کی چھت پر ا کر بولا اے ادم زاد تو ہم سے ٹکر لینے ایا ہے اپنا قد دیکھ اور اپنی طاقت دیکھ جا
چلا جا میں تمہاری جان بخشی کرتا ہوں عثمان نے بڑی جرات سے کہا او بدبخت جن غرور نہ کر کبھی کبھی
چیونٹی بھی ہاتھی کو مار ڈالتی ہے اپنی خیریت چاہتا ہے تو شہزادی کو ازاد کر دے پیٹو جن تو غصے میں ا کر
پھنکارنے لگا اس نے اپنے غلام دیوں کو حملہ کرنے کا حکم دیا اسمان نے اسی وقت مغرب کی طرف منہ کر
کے پوری طاقت سے کہا اے اڑن ہاتھیوں میری مدد کے لیے اؤ فورا اڑن ہاتھیوں کے جتھے اسمان پر نمودار
ہوئے ہر طرف اندھیرا سا چھا گیا اڑن ہاتھیوں نے چونچوں میں کئی کئی من کے پتھر دبوچ رکھے تھے
انہوں نے اڑتے ہوئے یہ پتھر دیوں پر پھینکنا شروع کر دیے ایک دیو کی چمکتی ٹنڈ پر پتھر پڑا تو وہ تربوز کی
طرح پھٹ گیا اور دیو مر گیا دیکھتے ہی دیکھتے میدان دیوں کی لاشوں سے بھر گیا عثمان محل میں گھس گیا پیٹو
جن کئی گز لمبی تلوار تھامے اس کے سامنے اگیا مقابلہ شروع ہوا پیٹو جن بڑا ماہر تلوار باز تھا عثمان ڈٹ کر
اس کا مقابلہ کر رہا تھا مگر پیٹو جن ہار ماننے کو تیار نہ تھا بونے بادشاہ نے یہ دیکھا تو عثمان کی جیب سے
جادوگرنی والا گیند نکال کر پورے زور سے بیٹو کے منہ پر مارا گیند پھٹ گیا اور اسے کالا دھواں نکلا پیٹو جن
بے ہوش ہو گیا عثمان نے لپک کر اس کا سر کاٹ لیا پیٹو جن تڑپتا ہوا ختم ہو گیا شہزادی افشین کو چاندی کے
پنجرے سے نکال کر عثمان واپس چل دیا اور منزلوں پر منزلیں طے کردہ ملک روم پہنچ گیا روم کے بادشاہ
اور ملکہ نے جب اپنی بیٹی کو زندہ سلامت دیکھا تو خوشی سے نہال ہو گئی تاجر عثمان اور شہزادی افشین کی
شادی ہو گئی بادشاہ نے تخت و تاج بھی عثمان کے حوالے کیا پھر عثمان نے کئی سال تک بڑے عدل و
انصاف کے ساتھ روم پر حکمرانی کی۔
پیارے بچوں آپ نے یہ کہانی پرھی ہے اُمید ہے آپ کو کہانی پسند آئی ہو گی اور آپ نے اس کہانی سے کچھ
سبق بھی سیکھا ہو گا ۔
آپ نے کیا سبق سیکھا؟
پیارے بچوں اس کہانی میں آپ لیے سبق یہ ہے کہ ہمیں اپنے ماں باپ کا کہنا ماننا چاہیے۔ اور ہمیں اپنے
ماں باپ کا ادب و احترام کرنا چاہیے ۔ اُس پڑی نے بھی اپنے ماں باپ کاکہنا مانا تو اللہ پاک نے اُس کی کیسے مدد کی ۔
اسی طرح جب ہم اپنے ماں باپ کو کہنا مانتے ہیں تو اللہ پاک خوش ہونے ہیں ۔اور اگر ہم اپنے ماں باپ کا
کہنا نہیں مانتے تو اللہ پاک ہم سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ اس لیے آپ کو بھی چاہیے کہ اپنے ماں باپ کو کہنا
مانے اور اُن کو ادب واحترام کرے ۔
اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ
nice website
In real the title of your story is interseting.
ya mari ek short story ha.
“The Mysterious Text” | Short story | #shorts #mystery #facts
https://youtube.com/shorts/LRy7wTsQcpM
Ek din, aik shakhs ko aik anjaan message mila: ‘Mujhe park mein milo, 3 baje, main surkh topi pehna hoga.’ Woh shakhs tajjus mein, park pohanch gaya aur wahaan kai logon ko surkh topi pehne dekha. Jab woh waapis janay laga, to ek aur message aya: ‘Apna peeche dekho.’ Murnay par us ka sab say acha dost do concert tickets liye khada tha! Dekhiye ye choti si kahani ek anmol mulaqat aur khushi ka pal.
#shortstory #friendship #goodmoments #interestingfacts