Maulvi Sahib aur Jinn ke Bachay ka Ajeeb o Ghareeb Waqia

Maulvi Sahib aur Jinn ke Bachay ka Ajeeb o Ghareeb Waqia

Maulvi Sahib aur Jinn ke Bachay

اسلام علیکم اُمید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے ۔

آج میں آپ کے لیے ایک اور کہانی لے کر آیا ہوں ۔ یہ کہانی حقیقت پر مبنی ایک قصے سے لی گئی  ہے کچھ

دوست اس پر یقین نہیں کریں گے مگر ہم اس پر یقین کرنے یا نہ کرنے پر اصرار نہیں کرتے یہ محض ایک

قصہ ہے اسے آپ سچ سمجھیں یا جھوٹ محلے کے مسجد کے مولوی صاحب نہایت شریف انسان تھے وہ

شام کے وقت بچوں کو مفت قران کی تعلیم دیتے تھے یہ وہ زمانہ تھا جس وقت پیسے کی فراوانی نہیں تھی

لیکن دلوں میں محبت اور ایک دوسرے کے لیے احترام تھا محلے کے لوگ مولوی صاحب کا احترام کرتے

اور ان کا ہر گھر میں ایک فرد کی طرح انا جانا تھا مولوی صاحب کی بیوی وفات پا چکی تھی اور اولاد کی نعمت

سے وہ پہلے ہی محروم تھے ایک شام بچوں کو قران پاک پڑھا رہے تھے کہ ایک 14 15 سالہ بچہ مولوی

صاحب کے پاس آیا اور کہنے لگا مولوی صاحب میں اس محلے کا نہیں مگر میں آپ سے قران پاک پڑھنا چاہتا

ہوں کیا ہی آچھا ہو اگر آپ بھی ان باقی لوگوں کے ساتھ مجھے بھی قران کی تعلیم دیں مولوی صاحب

نہایت شفقت سے بولے بیٹا کوئی بات نہیں تم بھی پڑھنے آ جایا کرو قران کی تعلیم دینا ثواب کا کام ہے۔

 وہ بچہ بھی شام کو پڑھنے کے لیے آنے لگا دوسرے بچوں سے الگ تھلگ بیٹھتا کسی سے بات نہیں کرتا تھا

نہایت خاموش تباہ اور سنجیدہ لڑکا تھا مسجد میں ایک پانی والی ٹینک کی تھی جو نمازیوں کے لیے بزرگ کی

غرض سے بنائی گئی تھی چونکہ مسجد چھوٹی سی تھی اس لیے محدود انتظامات تھے مولوی صاحب روز کسی نہ

کسی بچے کی ڈیوٹی لگا دیتے کہ موٹر چلا کر پانی بھرو اور تب تک ٹینکی پر نظر رکھو جب تک وہ بھر نہ جائے اور

پھر موٹر بند کر دو تاکہ پانی بھی ضائع نہ ہو اور بجلی کا بھی زیادہ نہ ہو اس کام میں 20 ،25 منٹ کا وقت لگ

جاتا تھا۔

 ایک دن مولوی صاحب نے اس بچے سے کہا کہ تم جاؤ اور ٹینکی بھرو وہ لڑکا سر ہلا کر اُٹھا اور ٹینکی بننے کے

لیے چلا گیا ٹھیک پانچ منٹ کے بعد وہ اگیا مولوی صاحب نے پوچھا کیا ٹینکی بھر دی وہ بولا جی مولوی

صاحب مولوی صاحب حیران ہوئے اتنی جلدی وہ لڑکا کہنے لگا مولوی صاحب آپ دوسرے بچوں کو

پڑھانے میں مگن تھے اس لیے اپ نے دھیان نہیں دیا میں تو ٹینکی بھرنے میں کافی دیر لگا کر آیا مولوی

صاحب سر جھٹک کر رہ گئے دوسرے دن مولوی صاحب نے پھر اسی کی ڈیوٹی لگائی پھر ایسا ہی ہوا اور وہ

پانچ منٹ میں ٹینکی بھر کے واپس اگیا مولوی صاحب بے یقینی کے انداز میں اُسے دیکھنے لگے انہوں نے اٹھ

کر دیکھا تو واقعی ٹینکی بھر چکی تھی مولوی صاحب نے سوچا شاید پانی بہت اچھی رفتار سے اتا ہوگا اسی لیے

ٹینکی جلدی بھر جاتی ہے تیسرے دن مولوی صاحب نے ایک اور بچے کی ڈیوٹی لگائی مگر اب کی بار وہ بچہ

پورے 20 منٹ لگا کر ٹینکی بھر کر واپس آیا اب تو مولوی صاحب کا ماتھا ٹھمکا مولوی صاحب اس لڑکے پر

خاص نظر رکھنے لگے مگر کوئی بات یا کوئی صراحت نہیں آیا۔

Maulvi Sahib aur Jinn ke Bachay

 ایک دن وہ بچہ بولا مولوی صاحب میری ماں نے آپ کو ہمارے گھر بلایا ہے آپ نے ختم پڑھانا ہے مولوی

صاحب نے پوچھا تمہارا گھر کدھر ہے وہ بولا ریلوے اسٹیشن سے آگے ایک چھوٹی سی بستی میں مولوی

صاحب بولے کل شام کو پڑھائی کے بعد میں تمہارے ساتھ چلوں گا اگلے دن پڑھائی ختم کرنے کے بعد

مولوی صاحب اس لڑکے کو ساتھ لے کر چل پڑے ریلوے لائن سے باہر ہونے کے بعد وہ چلتے ہی چلے

گئے مگر بستی کا نام و نشان نظر نہیں ارہا تھا مولوی صاحب کے پاؤں تھکنے لگے مگر اس کا گھرکا نام و نشان نہ تھا

  مولوی صاحب نے بیزار ہو کر پوچھا کتنی دور ہے بھئی تمہاراگھر لڑکے نے مڑ کر دیکھا اورکہکا لگا کر بولا ارے مولوی صاحب آپ اتنی جلدی تھک گئے بس نزدیک ہی ہے۔ مولوی صاحب کو اس کا کہکالگانا پسند

نہیں ایا مگر خاموش ہوکرچلتے رہے ایک فرلانگ چلنے کے بعد مولوی صاحب کو وہ سنسان کھیتوں سے

گزارتا ہوا ایک پہاڑی ڈیلی میں لے گیا ۔

مولوی صاحب ڈر گئے کہ ان جنگلوں میں تو کوئی انسان نہیں رہتے پھر یہ مجھے کہاں لے ایا وہ بچہ چلتے چلتے

ایک ڈیلے کے پاس جا کھڑا ہوا جس میں سے ایک بڑا سا غار نما سراخ نظر ا رہا تھا لڑکے نے پیچھے مڑ کر انہیں

دیکھا اور بولا مولوی صاحب میرے پیچھے پیچھے آ جائیں مولوی صاحب جو پہلے اس صورتحال سے گھبرا گئے

تھے چاروں ناچار اس کے پیچھے ڈرتے ڈرتے اندر داخل ہو گئے غار کے اندر گپ اندھیرا چھایا ہوا تھا مگر

تھوڑی دور اگے جا کر انہیں روشنی نظر ائی مولوی صاحب نے دیکھا اندر ادھیڑ عمر کے دو لوگ ایک مرد اور

ایک عورت اور دو جوان درمیانی عمر کے عورت مرد تھے انہوں نے مولوی صاحب کو سلام کیا ادھیڑ عمر

کے دونوں مرد اور عورت اٹھ کر چلے گئے جبکہ دوسرے دونوں مرد اور عورت وہیں بیٹھے رہے ایک بات

مولوی صاحب کو بہت عجیب لگی کہ اس غار نما گھر میں چھوٹے بچوں کی بھرمار تھی کوئی 15، 20 کے

قریب بچے فرش پر کھیل رہے تھے مولوی صاحب انہیں دیکھ کر اندر ہی اندر خوفزدہ تھے مگر کرتے کیا۔

 اب تو وہاں پہنچ چکے تھے مولوی صاحب نے کہا جلدی جلدی ختم کے لیے لوازمات لائیے میں ختم پڑھ کر

جلد از جلد واپس جانا چاہتا ہوں تاکہ مجھے شام نہ ہو جائے انہوں نے ختم شریف کے لیے پھل اور دیگر

لوازمات مولوی صاحب کے سامنے رکھے مولوی صاحب نے ختم پڑھنا شروع کیا اور جلدی جلدی ختم

پڑھا ختم پڑھتے ہی مولوی صاحب اٹھے اور واپسی کے لیے اجازت مانگی اس نوجوان مرد نے کہا مولوی

صاحب ہم آپ کی اور کوئی خدمت نہیں کر سکتے آپ یہ کوئلے رکھ لیں اور ایک گٹھڑی میں کافی سارے

کوئلے بھر دیے اور اس لڑکے سے کہنے لگا کہ جاؤ مولوی صاحب کو باحفاظت واپس چھوڑ کر آو۔

وہ لڑکا مولوی صاحب کو لے کر غار سے باہر ا گیا مولوی صاحب اندر سے تلمنا رہے تھے کہ دیا بھی تو کیا اتنی

دور ختم پڑھنے کے لیے آیا تو کوئلوں سے تھیلا بھر کے میرے حوالے کر دیا کیسے عجیب لوگ ہیں انہیں

کسی گھر آئے مہمان کی خاطر مدارت کرنا بھی نہیں آتی لڑکے نے وہ کوئلوں والا تھیلا مولوی صاحب کو

پکڑا دیا مولوی صاحب تھیلا اُٹھائیں غصے سے بھرے آگے آگے چلنے لگے جب مولوی صاحب کا غصہ

عروج سے بڑھ گیا تو انہوں نے گٹھڑی کے وزن کے خاطر کوئلے ایک ایک کر کے نکال کر زمین پر پھینکنے

شروع کر دیے بچہ مولوی صاحب کی حرکت دیکھ رہا تھا مولوی صاحب کو کوئلے پھینکتے جا رہے تھے اور وہ

لڑکا انہیں اٹھاتا چلا جا رہا تھا بچہ اسٹیشن تک مولوی صاحب کو چھوڑنے کے لیے ایا اور پھر وہاں سے واپس چلا

گیا۔

 گھر پہنچنے تک مولوی صاحب کے پاس چند ہی کوئلے بچے تھے وہ انہوں نے گھر لا کر پھینک دیے اور

چارپائی پر رہ گئے تھکن سے برا حال تھا پسینے سے شرابور تھے مگر دل ہی دل میں سخت غصہ تھا کہ اتنی دور

بھی گئے اور کچھ حاصل نہیں آیا نہ ہی انہوں نے کھانے کا پوچھا اور نہ ہی کوئی نظرانہ دیا بھی تو کیا کوئلے

مولوی صاحب اسی غصے کے عالم میں نہ جانے کس وقت سو گئے۔

Maulvi Sahib aur Jinn ke Bachay

 صبح فجر کی نماز کے وقت اُٹھے اور باہر صحن میں نکلے انہیں فرش پر کوئی چیز چمکتی ہوئی نظر ائی انہوں نے اٹھا

کر دیکھا تو وہی کوئلے کے ٹکڑے جو انہوں نے پھینکے تھے سونے کی طرح جگمگا رہے تھے مولوی صاحب

کوئلوں کو سونا بنتے دیکھ کر حیران رہ گئے اس طرح کا سونا انہوں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا تھا

مولوی صاحب نے جیسے تیسے کر کے فجر کی جماعت ادا کروائی اور انہی پیروں پر سٹیشن کی طرف بھاگ گئی

اور جن جن جگہوں پر جن جن راستوں پر وہ کوئلے پھینکتے چلے آئے تھے وہ دیکھنے گئے لیکن راستے میں

انہیں کوئی کوئلے یا سونے کا ٹکڑا نہیں ملتا ملا چلتے چلتے وہ اسی جگہ پہنچے جہاں اس لڑکے کا گھر تھا مگر وہاں کسی

گھر کا نام و نشان تو کیا کوئی پہاڑی ڈھیلا بھی موجود نہیں تھا مولوی صاحب کافی دیر وہیں ویرانے میں خاک

چھانتے پھرتے رہے مگر کچھ ہاتھ نہیں آیا مولوی صاحب مایوس ہو کر واپس لوٹ آئے اتنی دولت اتنا سونا

شاید انہوں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا تھا مولوی صاحب مسجد میں کئی دن تک اُس لڑکے کا انتظار

کرتے رہے مگر اس دن کے بعد وہ بچہ کبھی بھی مولوی صاحب کے پاس واپس پڑھنے کے لیے نہیں آیا ۔

کیونکہ دراصل وہ انسان نہیں جن تھے وہ جنات میں سے تھا اور جنات نے مولوی صاحب کو جو کوئلے

دیے تھے وہی کوئلے سونا بن گئے تھے مگر مولوی صاحب اس راز کو اس وقت سمجھنے سے قاصر تھے۔

کہانی پڑھنے کا شکریہ اُمید ہے آپ کوکہانی پسند آئی ہو گی۔

آپنا خیال رکھے اور مجھے آپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔     

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment