Log kya kahenge Episode no 2

Log kya kahenge Episode no 2

Log kya kahenge

اسے بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا مجھے اپنے گرد زمین گھومتی ہوئی محسوس ہوئی جب

ملازمہ نے مجھے سہارا دیا میں نے اسی وقت چادر اوڑھی اور اسی ملازمہ کے ساتھ پرانی حویلی پہنچی سب پہرے دار سو

رہے تھے میں نے چپکے سے چوکیدار کے سامنے سے چابی اٹھائیں اور زبیر کو ملازمہ کی مدد سے وہاں سے نکالا وہ چل نہیں

پا رہا تھا اس کو بہت مارا گیا تھا جس کی وجہ سے وہ زخمی تھا میں نے زبیر کو دل سے چاہا تھا اس کی یہ حالت دیکھی نہیں جا

رہی تھی زبیر کو اس کے دوست کے پاس چھوڑا اس نے کہا کہ وہ زبیر کو سنبھال کر لے جائے گا آپ گھر جائیں رات کے

بارہ بجنے  والے ہیں پیر سائیں آپ کو ڈھونڈ رہے ہوں گے ۔ میں ملازمہ کے ساتھ واپس آئے تو اماں سامنے برآمدے

میں بیٹھی میرا انتظار کر رہی تھی میرے دل کی دھڑکن مزید تیز ہوگئی مجھے اپنی دھڑکن کی آواز کانوں میں سنائی دینے لگی

اما ں نے ملازمہ کو وہاں سے بھیج دیا اور مجھے بازو سے پکڑ کر اپنے کمرے میں لے گئی میں نے اپنی صفائی دینی چاہیے تو ماں

جی بہت غصے سے بولی کہ کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں میں سب جانتی ہوں مگر شاید تم نہیں جانتی کہ اس سب کا کیا

نتیجہ نکلے گا تمہارا باپ اتمہارا بھائی تمہیں زندہ دفنا دیں گے پر کبھی وہ نہیں کریں گے جو تم چاہتی ہو میں ماں کے گلے لگ

کے رونے لگیں جب ماں جی نے کہا کہ تمھارے بابا نے تمہارا نکاح کرنے کا فیصلہ کیا ہے وہ بھی اپنی عمر کے آدمی کے

ساتھ کیونکہ تمہارے بابا کی نظر میں تم نے جو محبت  کرنے کی سنگین غلطی کی ہے یہ اس کی سزا ہے مگر میں یہ ہونے

نہیں دوں گی تم کل رات کو اس گھر سے چلی جاؤ کیونکہ کل تمہارے ابا یہاں  نہیں ہونگے ۔

 

Log kya kahenge

زبیر کے ساتھ بہت دور چلی جانا کبھی ان لوگوں کے ہاتھ مت آنا یہ لوگ بہت ظالم ہے میں نے ا  ماں کی آنکھوں میں

آنسو دیکھ رہی تھی اماں  نے ملازمہ کو بلایا اس سے  کہا زویا  اور زبیر کو حفاظت کے ساتھ دوسرے شہر محفوظ جگہ پہنچاؤ وہ

ہماری بہت پرانی ملازمت تھی وہ اور اس کا باپ دونوں ماضی کے وفادار ہےاماں  کی ہر بات کو وہ حکم  مانتے تھے ۔

ا ماں کے گلے لگ کر بہت روئی ماں سے بچھڑنے کا بھی دکھ بہت تھا میری ماں بہت اچھی تھی زندگی کے کسی بھی موڑ پر

مجھےکبھی اکیلے نہیں چھوڑا تھا اور آج بھی میرے ساتھ چٹان کی طرح کھڑی تھی۔

 جب ہم لاہور پہنچنے والے تھے راستے میں اماں کی بات  یاد آئی اماں  نے یہ کیوں کہا کہ زبیر تمہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑے

گا کبھی دھوکا نہیں دے گا ہمیشہ اس کی قدر  کرنا اماں کو زبیر  پر اتنا اعتماد کیسے تھا ؟

زبیر نے مجھے پریشان دیکھ کر کہا زویا فکر نہیں کرو سب ٹھیک ہو جائے گا انشاء اللہ زبیر بہت اچھا تھا راستے میں اچانک

ہمارا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہر طرف آگ تھی پھر پتہ نہیں کیا ہوا جب مجھے ہوش آیا تو ہم ہسپتال میں تھے زبیر کو بھی بہت

چوٹیں آئیں تھی ملازمہ اور اس کے ابا کہیں نظر نہیں آرہے تھے ایک ہفتہ ہم ہسپتال  رہے پھر زبیر کے بابا ہمیں اپنے

گھر لے آئے زبیر کے بابا بہت سلجھے ہوئے اور ملنسار شخصیت تھے جیسے وہ اپنائیت سے پیار سے بات کرتے تھے کبھی

اپنے بابا کو ایسے نہیں دیکھا تھا ما ں جی سے بھی کچھے کچھے رہتے تھے ہر وقت غصہ کرتے اور کبھی اماں جی کے ساتھ ہنستے

نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی کبھی اماں سی سے نرمی سے بات کرتے ہوئے دیکھا تھا ہر وقت رُعب  جھاڑتے دیکھا شیراز بھائی

بھی بابا سے ان کے کام سے خار کھاتے تھے بھائی مجھ سے بہت پیار کرتے تھے میں نے اماں  سے کہا بھائی مجھے معاف

کردیں گے تو اماں نے کہا کہ میں اسے سمجھا لوں گی تم اپنا اور زبیر کا خیال رکھنا میں ابھی اماں کی باتوں کو سوچ رہی تھی

کہ تب ہی زبیر کے بابا انکل رحمان آ گئے مجھے خاموش دیکھ کر بولے بیٹا پریشان نہیں ہونا جتنا مجھےزبیر  پیارا ہے اس سے

زیادہ تم مجھے عزیز ہو انکل سے مجھے بہت اپنائیت محسوس ہوتی مجھے لگا ہی نہیں کہ میں کسی انجان گھر میں آئی ہوں انکل

نے اگلے ہی دن میرا  اور زبیر کا نکاح کروا دیا اور ہمیں ملک سے باہر بھیج دیا تھا تا کہ جیسے ہی پیچھے  معاملہ ٹھنڈا ہوگا ہمیں

واپس بلا لیں گے مجھے اماں اور بھائی کی کمی شدت سے کمی محسوس ہو رہی تھی اسی طرح دن گزرتے گئے اور ہماری شادی

کو ایک سال ہوگیا زبیر بہت اچھا ہمسفر ثابت ہوا انہوں نے مجھے کبھی کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دی بس کمی  تھی

تو ماں جی اور بھائی سے ملنے کی ہم وطن واپس آگئے تھے سب کچھ ٹھیک تھا میں انکل اور زبیر کے لئے چائے بنا کر لے جا

رہی تھی جب ایک نام پر میرے قدم وہیں رک گیا ہے تحریم شاہ انکل کہہ رہے تھے زبیر سے کہہ زویا  بالکل تحریم جیسی

ہے جب زبیر نے اچانک مجھے دروازے میں کھڑے دیکھا تو میرے ہاتھ سے چائے کی ٹرے لے کر میز پر رکھی اور مجھے

بیٹھے نے کہا میں ابھی ابھی ماضی کا نام سن کر اسی سوچ میں تھی جب زبیر نے کہا بابا آب وقت آ گیا ہے کہ زویا ساری

حقیقت جان لیں میں حیرت کا مجسمہ بنی  زبیر اور انکل کو دیکھ رہی تھی  انکل بتانے لگے کہ میں اور تحریم ایک شادی پر ملے

تھے پہلی نظر میں مجھے تحریم اچھی  لگی اور جب میں نے تحریم سے  پسند کا اظہار کیا تو وہ بھی خوشی سے ہاں میں سر ہلا گی ہم

بہت خوش تھے کہ ہم بہت جلد ایک ہو جائیں گے مگر یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ آج کے اس دور میں بھی لوگ زات

برا دری کے چکر میں خون کے رشتوں کو آگ میں دھکیل دیتے ہیں۔  

 

Log kya kahenge

ہماری محبت ذات برادری کی بھینٹ چڑھی تحریم  یعنی زویہ کی اماں سے جب میری آخری ملاقات ہوئی تو اس نے کہا کہ

ہم نہیں تو ہمارے بچے زندگی کے کسی موڑ پر ضرور ملیں گے پھر کئی سالوں کے بعد مجھے تمہاری ماں نے فون کیا اور مدد

مانگی جو کچھ میرے ساتھ ہوا ہے وہ میری بیٹی کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے اور پھر میں نے زبیر کو خادم بنا کر بھیج دیا اور خدا

کی کرنی کے تم سے ملاقات ہوئی لیکن تب مجھے لگا تھا کہ شاید آستانے پر کوئی اور لڑکی سے مل گئی ہے کیونکہ گھر کی

عورتیں کبھی آستانے پر آتی ہیں لیکن جب اس نے مجھے تمہارا نام بتایا تو میں نے سوچ لیا تھا جو میرے ساتھ ہوا وہ میں

اپنے بیٹے کے ساتھ نہیں ہونے دوں گا اور پتہ ہے تمہاری مما بھی جانتی ہیں کہ زبیر میرا بیٹا ہے اور تب مجھے یاد آیا کہ

اماں  نے یہ کیوں کہا تھا کہ زبیر کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا میری ماں نے ہمیشہ کی طرح کتنی خاموشی سے میرے راستے

کے سارے کانٹے خود چن لیے تھے میری ماں ایک عظیم ماں ہے میں رو رہی تھیں انکل اور زبیر مجھے چپ کروا رہے

تھے اماں سے ملنے کی تڑپ اور بڑھ گئی تھی پھر زبیر نے کہا کہ ایک راستہ ہے تم اپنی ماں سے پردے میں جاکر مل سکتی

ہوں بس خیال رکھنا مکمل پر دے  میں جانا اور کبھی کسی سے کوئی بات مت کرنا میری نند بتا کر خاموش ہو چکی تھی اور

میں اس کو گلے سے لگا کر اسے کہنے لگی دنیا کی پرواہ مت کرو اب تو تمہارے والد بھی نہیں رہے اور خاندان والوں کا کیا

ہے تعلق ختم کر لیں گے پہلے کونسا خاندان والے ہمیں ہار  ڈالتے ہیں یہ لوگ تو بس تماشا دیکھتے ہیں اور

 

ہم لوگ کیا کہیں گے اس بات کی پیروی ساری عمر کر تے ہیں

 

جب  زندگی ہماری ہے فیصلہ ہمارے ماں باپ کا ہے تو پھر یہ خاندان والے لوگ کون ہوتے ہیں تمہیں تمہاری ماں اور

بھائی سے الگ کرنے والے پر میری نند  نے کہا بھابھیا بھی ابھی مجھے نہیں چھوڑیں گے نہ ہم کبھی مجھے قبول نہیں کریں

گے اگر کر لیا تو سب لوگ انہیں باتیں کر کے مار دیں گے میں نے اپنی نند  کو سمجھایا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا تم میرا یقین کرو

تمہار بھائی اپنے باپ سے بالکل مختلف ہے وہ ان سب باتوں کو نہیں مانتا میری نند پھر آؤں گی کہہ کر چلی گی اور میر ا رخ

اپنی ساس کے کمرے کی طرف تھا وہ جائے نماز پر بیٹھی تسبیح کر رہی تھی جب مجھے دیکھا تو بولی کیا کہامیری خاص مریدنی

نے  اور ایسا انھوں نے اس لئے بولا کہ کہیں کوئی سن نہ  میں سب کچھ ان کو  بتانے لگی میں نے ان سے کہا کہ آپ کو کیسے

پتہ چلا کہ وہ کون ہے تو میری ساس نے کہا کہ میں ماں ہوں اور ماں اپنی اولاد کا لفظ پہچانتی ہے لیکن ہم کبھی وہ کچھ نہیں

کر سکتے جو تم سمجھتی ہو یہ سب آسان نہیں ہے میرا شوہر گھر آیا تو میں جان بوجھ کر باتوں ہی باتوں میں پوچھنے لگی کہ اگر

ہماری بیٹی ہیں اور وہ کسی سے محبت کرے جو ہمارے خاندان کا نہ ہو تو کیا اسے مار دیں گے میرے شوہر نے کہا تمہیں کیا

لگتا ہے میں پاگل ہوں یا انجان ہوں میں فق چہرے کے ساتھ  اس کو دیکھنے لگی میرے شوہر نے کہا تم ساس بہو اور بیٹی

مل کر کھیل میرے ساتھ کھیل چکی ہوں میں پہلے دن سے سب کچھ جانتا ہوں  ۔زویا میری بہن ہے میری بہن  میں

میری جان بستی ہے اپنی ماں کو بچپن سے سسکتے دیکھا ہے اور میری پھوپھو گھر بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو کر مر گئی اس خاندان

کی روایات کبھی نہیں بدل سکتی لیکن میں زویا کو قبول نہیں کر سکتا ۔روایات  کو توڑ دینا آسان نہیں ہوتا پر ہاں ہم ملتے

رہیں گے لیکن وہ کبھی اس گھر میں داخل نہیں ہوسکتیماں جی کا جب دل کرے اپنی بیٹی سے مل سکتی ہے اور اس سے

زیادہ میں کچھ نہیں کر سکتا اور نہ ہی تم مجھ سے ضد کرنا میری ساس نے صحیح کہا تھا سب اتنا آسان نہیں ہے اور میں اپنی

ساس سے کہہ دیں کہ میرے لیے دعا کریں میرے بیٹی پیدا نہ ہو مجھے اس کے نصیب سے ڈر لگنے لگا ہے میری ساس

بہت اچھی تھی کبھی ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی تھی وہ خود آستانے پر آنے والی لڑکیوں کے رشتے دھوتی اور ان کی

شادیاں کروائی تھی جب میرے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو میری نند اپنے شوہر کے ساتھ ہسپتال آئی تھی اور میری ساس میرے

شوہر زویا کو گلے لگا کر رو پڑے تھے میرا شوہر کہہ رہا تھا کہ ایک وقت آئے گا سب بدل جائے گا پر  میری نند نے کہا بھائی

آپ لوگ مجھ سے مل لیتے ہیں یہی بہت ہے اور میری نند نہیں میرے بیٹے کا نام رکھا تھا سب اپنی اپنی باتوں میں مگن

تھے اور میں سوچ رہی تھی کہ وقت کو انسان خود بدل سکتا ہے لیکن وقت بدلنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ اگر بدلنے

کی ضرعرت ہے تو وہ ہماری سوچ ہے جو کبھی اپنی خاندانی روایات سے آزاد نہیں ہو سکی ختم شُد

Log kya kahenge Episode no 1

اُمید ہے آپ کو ہماری کہانی پسند آئی ہو گی آپ نے سبق بھی سیکھا ہو گا ۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جن کی سوچ

ابھی بھی نہیں بدلی ہو گی ایسے لوگوں کو جتنا مرضی سمجھا لو ان کی سوچ نہیں بدلتی ۔آپ کو یہ کہانی پسند ائی ہے توزیادہ

سے زیادہ شیئر کیجئےاور  اس طرح کی مزید اچھی اچھی اور سبق آموز کہانیاں پڑھنے کے لیے ہم ویب سائٹ وزیٹ کریں

اور اگر آپ ک ساتھ کچھ ایسا ہویا ہوتو کمیٹ کرے یا اپنی رئے کا ازہار  کرے شکریہ   

 فی امان اللہ اللہ حافظ

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment