Kunwey Ka Ajeeb Qissa
پرانے زمانے کے بعد ہے کہ گاؤں میں ایک غریب عورت رہتی تھی شوہر کا انتقال ہو چکا تھا محنت
مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بیٹے کا پیٹ پالتی تھی باپ کے سرپرستی سے محروم لڑکا اوارہ لڑکوں کی صحبت
میں پڑ گیا تھا دن بھر محلے کے ساتھ گلی ڈنڈا کھیلتا اور تباہی تباہی پھیرا کرتا ماں بیچاری محنت کر کے ہلکان ہو
جاتی اور جوان بیٹا ناکام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا گاؤں کے سبھی بڑے بوڑھے اسے برا بھلا کہتے سمجھاتے
لیکن اس کے کان پر جوں تک نہ رینگتی ۔
خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک دن اس کی ماں بیمار پڑ گئی ایسے بخار چڑھا کہ ہوش ہی نہ رہا کام پر کیا جاتی نتیجہ یہ ہوا
کہ گھر میں کھانے کے لالے پڑ گئے فاقے ہونے لگے دوا داروں تو دور کی بات ہے پیٹ کو روٹی تک نہ تھی
دو ایک وقت تو پڑوسیوں نے کھانا دیا لیکن غریبوں کی بستی تھی ہر ایک اپنی ہی روزی روٹی کے لیے خوار
رہتا تھا دوسروں کو کتنے دن کھلاتے ماں نے بیٹے کو جس کا نام کرموں تھا بٹھا کر سمجھایا کہ بیٹا یوں کب تک
کام چلے گا کب تک تمہاری بیمار ماں تمہیں گھر بٹھا کر کھلا سکتی ہے اللہ کے کرم سے جوان آدمی ہو کوئی کام
دھندھا کیوں نہیں کرتے ۔
کتنے شرم کی بات ہے جس عورت کا جوان بیٹا ہو وہ دوسروں سے اُدھار مانگتی پھرے آج تو میں پڑوس سے
اٹا مانگ کر لائی ہوں لیکن روز روز نہ کوئی ادھار دے گا اور نہ میں گھر گھر جا کر ہاتھ پھیلاؤں گی بیماری نے
مجھے توڑ کر رکھ دیا ہے ابھی کچھ روز میں مزدوری کرنے کے قابل بھی نہیں ہوں اس پر فاقوں نے کس بل
نکال دیے ہیں اگر تم نے کوئی کام دھندا نہیں کیا تو کل سے گھر میں چولہا نہیں چلے گا بات کرموں کی سمجھ
میں اگئی جس دن سے ماں بیمار پڑی تھی پیٹ بھر روٹی بھی نہیں ملی تھی کہنے لگا اچھا اماں اج میرے لیے چار
روٹی پکا کر رومال میں باندھ دو میں کام کی تلاش میں جاتا ہوں کچھ نہ کچھ لے کر ہی آؤں گا ماں اس پر خوش
ہو گئی پڑوس سے جو اٹا ادھار لائی تھی اس کی چار روٹیاں ایک پیاز کے ساتھ رومان میں باندھ دی اور میاں
نکھٹو چلے کمائی کرنے۔
کھیتوں میں پہنچے وہاں بہت کام کیا ہر ادمی مصروف نظر ا رہا تھا نئی فصل بونے کے لیے کھیتوں میں گڑھائی
چل رہی تھی کرموں نے کسان سے جا کر پوچھا میرے کرنے کا کوئی کام ہو تو بتائیے کسان بولا کام ہی کام
ہے گڑائی ہو رہی ہے تم بھی لگ جاؤ اور شام کو اپنی مزدوری لے کر ہنسی خوشی گھر جاؤ کرموں کہنے لگا لیکن
مجھے تو یہ کام آتا ہی نہیں کسان بولا کام تو کرنے سے آتا ہے بیٹا کوئی ماں کے پیٹ سے کام سیکھ کر تو نہیں آتا
کرموں بولا لیکن کام مجھ سے ہوگا نہیں سارے ہاتھ گندی مٹی میں رولتے رہو کسان بولا تو آگے جاؤ
تمہیں کام کرنا ہی نہیں مفت کے کھانے کی عادت جو پڑ گئی ہے۔
وہاں سے اگے بڑھا تو کرموں نے دیکھا کہ گیہوں سے بھوسا الگ کیا جا رہا تھا بہت سے لوگ کام کر رہے
تھے کرمو نے مالک سے پوچھا چاچا کوئی کام ملے گا کھیتوں کا مالک بولا کیوں نہیں ملے گا ہم تو مزدوروں کی
تلاش میں ہیں چلو تم بھی لگ جاؤ دو روپیہ روز دوں گا کرموں تھوڑی دیر رکا کہ بھوسا آنکھ ناک سب میں
گھسنے لگا کھانسی اگئی جا کر سر اور منہ جھاڑا انکھیں صاف کی پانی پیا بولا لعنت ہے ایسے کام پر مجھ سے یہ کام
نہیں ہوگا آنکھ ناک ایک ہو گئی مالک نے برا بھلا کہہ کر وہاں سے بھگا دیا ارے نواب ہے تو جا نوابوں والے
کام کر ۔
کرموں اور آگے بڑھا جنگل شروع ہو گیا جنگل میں پیڑوں کی کٹائی کا کام چل رہا تھا بہت سے لوگ پیڑ
کاٹ رہے تھے کچھ لوگ کٹے ہوئے درخت اٹھا کر ایک طرف ڈھیر کرتے جا رہے تھے کرموں نے
ٹھیکیدار سے پوچھا بھیا میں کام کی تلاش میں ہوں کوئی کام ہو تو بتائیے ٹھیکے دار بولا کام بہت ہے ابھی کئی
درخت گرانے ہیں کٹے ہوئے درختوں کے شاخیں کاٹنا ہے لٹوں کو بیل گاڑیوں میں لادنا ہے تم جوان
ادمی ہو کلہاڑی اٹھاؤ اور پیڑ کاٹو اچھی مزدوری دوں گا کرموں کلہاڑی اٹھا کر بڑی دیر تک سوچتا رہا اور پھر
بولا بھائی یہ کام تو ہم سے نہیں ہوگا کبھی کلہاڑی چلائی ہی نہیں کوئی اور کام ہو تو بتاؤ ٹھیکیدار نے کہا کچھ
پڑھے لکھے ہو ہمارا منشی نہیں آیا وہ کھاتا رکھا ہے کٹے ہوئے درختوں کا اندراج کرتے ہیں اور یہ بھی لکھو
کون سا درخت کس نے کاٹا کرمو ں بوالا ارے بھائی پڑھے لکھے ہوتے تو شہر جا کر بابوگیری نہ کرتا کوئی اور
کام بتاؤ ۔
ٹھیکے دار اسے ڈانٹ کر بولا چل بھاگ یہاں سے نکٹو نکمے اتنے کام تجھے بتا دیے کام کرنا ہی نہیں تجھے چل
نکل یہاں سے کرموں میاں ہاتھ جھاڑتے ہوئے جنگل میں اندر کی طرف چلے آئے اور دور نکل گئے
دوپہر ہو رہی تھی دھوپ بھی تیز تھی اور بھوک بھی چمک آئی تھی گرموں نے ایک پرانے کنویں کے
کنارے بیٹھ کر روٹی کا اور مال کھولا خیال آیا آج اماں نے پڑوس سے آٹا اتار لے کر روٹی بنائی تھی اگر چار
روٹیاں کھا لی تو رات کو بھوکے پیٹ سونا پڑے گا کنویں کی مینڈ پر بیٹھ کر حساب کتاب کرنے لگا ایک
کھاؤں دو کھاؤں تین کھاؤں کے چاروں کو کھا جاؤ وہ بار بار یہ یہی کہی جا رہا تھا وہ ایک پرانا سا ویران کنواں
تھا یہاں کوئی آتا جاتا بھی نہیں تھا اس کنویں میں چار بریاں رہتی تھی انہوں نے سنا تو انہوں نے سوچا آج نہ
جانے یہاں کون آگیا جو ہمارا بھی باپ ہے اور ہمیں کھانے کی بات کر رہا ہے یقینا کوئی بہت تگڑا سا جن یا
دیو ہے جو بھیس بدل کر ہمارا شکار کرنے آیا ہے وہ چاروں بیچاری ڈرتے ڈرتے باہر آئی اور بولی دیو مہاراج
ہمیں مت کھائیے ہمیں جو حکم دیں گے ہم کریں گے کرموں کی موٹی عقل میں یہ بات اگئی کہ ان پریوں
کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے کڑک کر بولا ہم تمہیں ضرور کھائیں گے ہمیں بڑی بھوک لگی ہے پریاں ڈر سے
تھر تھر کانپتے ہوئے بولی ٹھہریے ہم اپ کے لیے کھانے کا انتظام کرتی ہیں وہ اندر گئیں کنویں میں سے
ایک بڑا سا پتیلا نکال کر لائیں اور بولی یہ لیجیے یہ جادو کا پتیلا ہے۔
جب آپ کہیں گے بھر جا اللہ کے نام پر پلاؤ زردے سے تو یہ آدھا گرم گرم پلاؤ اور آدھا زردے سے بھر
جائے گا گرمو تو بڑا خوش ہوا فورا پلاؤ زردے پر ٹوٹ پڑا جتنا کھا سکتا تھا کھایا باقی وہیں پھینک دیا اور پھر وہیں
لمبی تان کر سو گیا شام کو انکھ کھلی تو گھر کی یاد ائی جنگل میں راستہ بھٹک گیا دوسرے گاؤں جا پہنچا وہاں پر ایک
سرائے میں رات کو روکنے کا فیصلہ کیا پیسہ تو پاس تھا نہیں سرائے کے مالک نے کہا رات کو رکنے کا کرایہ
دینا پڑے گا کرمو ں بولا ہم کرایہ نہیں دیں گے بلکہ رات کو تمہارے یہاں جتنے بھی مسافر رکیں گے
انہیں کھانا کھلا دیں گے تم کھانا مت پکانا۔
سرائی کے مالک نے سوچا عجیب پاگل آدمی ہے ایک خالی پتیلا لے کر ایا ہے اور سارے مسافروں کو کھانا
کھلانے کی بات کرتا ہے اس نے بھی کھانا نہیں پکایا سوچا جب رات کو کھانا نہیں کھلا پائے گا تو دو لاتیں مار کر
باہر نکال دوں گا رات ہوئی اور کھانے کا وقت ہوا کرموں نے حکم دیا کہ تھوڑی سی زمین پاک مٹی سے لپو
سرائے کے مالک نے ایسا ہی کیا اور دل میں سوچتا رہا بچوں اب لات کھانے کے لیے تیار ہو جا لیکن یہ کیا
کرموں نے پتیلا اس لپی ہوئی زمین پر رکھا اور بولا اے پتیلے اللہ کے نام پر بھر جا پلاؤ زردے سے پتیلا فورا
پلاؤں اور زردے سے بھر گیا۔
سرائے کا مالک تو حیران رہ گیا سارے مسافروں نے پیٹ بھر کر پلاؤ زردہ کھایا بچا ہوا اٹھا کر صبح کے لیے
رکھ دیا اب تو سرائے کے مالک نے میاں کرموں کی بڑی خاطر مدارت کی اسے خاص طور پر اپنے کمرے
میں آرام دے بستر پر سونے کے لیے جگہ دی گرم و خوشی سے پھوٹ کر کپا ہو گیا جب قوم خرگوش کے
مزے لینے لگا تو سرائے کے مالک نے چپکے سے پتیلا پار کر دیا اور اس کی جگہ اسی وضع کا عام پتیلا رکھ دیا صبح
گرم اٹھا تو سرائے کے مالک نے رات کے پلاؤ زردے کا ناشتہ کرایا اور رخصت کرتے ہوئے بولا میاں جی
پھرانا اپ تو بڑے اچھے ادمی ہو کرموں خوشی خوشی پتیلا لے کر گھر پہنچا اماں پریشان بیٹھی تھی کہ پہلی بار
کمائی کرنے نکلا نہ جانے کہاں اٹک گیا۔
خیر سے بیٹے کی شکل نظر ائی تو اطمینان ہوا لیکن اس کے ہاتھ میں بڑا سا پتیلا دیکھ کر غصہ اگیا گھر میں نہیں
دانے اور میاں چلے بنوانے اس پتیلے میں کیا میں اپنا سر پکاؤں گی لایا بھی تو کیا لایا کرموں والا ارے ماں تم
خوش ہو جاؤ گے ایسی چیز لایا ہوں کہ روز پورے گاؤں کی دعوت کرتی پھرو گی تم بس اتنا کام کرو کہ تھوڑی
سی زمین پاک مٹی سے لیپ دو اماں کی سمجھ میں خاک کچھ نہیں آیا بکتے جھگتے اٹھ کر مٹی سے زمین لپی میاں
کرمو ں نے اس پر پتیلا رکھ کہا اے پتیلے اللہ کے نام پر بھر جا بلاؤ زردے سے لیکن پتیلا تو ویسے کا ویسا خالی پڑا
رہا کرموں حیران پریشان رہ گیا کہ یہ کیا ہو گیا رات کو سب کو اسی کا پکا ہوا کھانا کھلایا تھا اب جب اماں کے
سامنے سرخرو ہونے کا موقع ملا تو پتیلا دھوکہ دے گیا بہت کہا کہ بھر جا زردے پلاؤ سے بھر جا لیکن کچھ نہ
ہوا اماں نے سر پیٹ لیا کہ ایسا پاگل لڑکا ہے کہیں پتیلے بھی پلاؤ زردے سے خود بخود بنے ہیں۔
اب اتنے بڑے پتیلی کا کروں تو کیا کروں پکانے کو چٹکی بھر اناج نہیں اور یہ 10 سیر کا پتیلا اٹھائے چلا رہا
ہے خیر اماں نے جا کر مہاجن کے ہاں پتیلا گروی رکھوا دیا اور جو پیسے ملے ان سے آٹا دان خرید کر لائی گرم و
بڑی الجھن میں تھا اس کی سمجھ میں نہیں ارہا تھا کہ یہ ماجرہ کیا ہے اس نے طے کیا کہ گل پھر اسی کنویں پر جا
کر بیٹھے گا اور ان پریوں کو پھر ازمائے گا۔
چنانچہ اگلے دن اس نے پھر ہم وہاں سے فرمائش کی کہ چار روٹی پکا دو میں کمائی کرنے جاؤں گا اماں نے پھر
چار روٹیاں پکا دی اور تاکید کی کہ جس کے گھر کام کرتا ہے وہاں سے کوئی ڈھنگ کی چیز لانا اور کوئی پتیلا
مت اٹھا لینا ماں بیچاری سمجھی کہ بیٹا کسی گھر میں کام کرنے لگا ہے انہوں نے یہ پتیلا دیا ہوگا کرم و سیدھا اسی
کنویں پر پہنچا اور منڈیر پر بیٹھ کر پھر ایک کھاؤں دو کھاؤں تین کھاؤں یا چاروں کو ہی کھا جاؤں کا ورد کرنے
لگا پھر وہ چاروں پریاں ڈری سہمی باہر نکلی اور بولی اپ ہمیں مت کھائیے آج یہ میمنہ لے جائیے اب اپ
جب کہیں گے کر دے سونے چاندی کے مینگیاں تو یہ سونے چاندی کے مینگیاں کر دے گا کرموں بولا تم
جھوٹ بولتی ہو تمہارے پتیلے نے ایک مرتبہ کے پلاؤ زردہ ہی نہیں دیا اسے ہم نے پھینک دیا پریوں نے
حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر بولی آج آپ اسے لے جائیے یہ کبھی دھوکہ نہیں دے گی
اپ کا گھر سونے چاندی سے بھر جائے گا کرموں حسب معمول سو گیا شام کو اٹھا تو میمنہ لے کر پھر اسی
سرائے میں رات گزارنے پہنچا سرائے کے مالک نے بڑی اہم وقت کی اہ میاں جی اؤ یہ بکری کا بچہ لے کر
ائے ہو گرم بولا یہ کوئی عام بکری کا بچہ نہیں ہے یہ سونے چاندی کی مگنیاں کرتا ہے سرائے کے مالک نے
مذاق اڑایا ارے میاں جی کے سی اور کو بے وقوف بنانا کہیں بکری کا بچہ بھی سونے چاندی کی مہنگیاں کرتا
ہے گرم کو غصہ آیا میں جھوٹ نہیں بولتا یہ دیکھو اس نے میمنہ سے کہا کر دے سونے چاندنی کی مینگیاں اور
میمنہ نے ڈھیر سے ہی سونے چاندی کی مینگنیاں کر دی سرائے کے مالک کی تو انکھیں پھٹی ہی پٹی رہ گئی
گرموں نے دریا دلی میں سارا سونے چاندی سرائے کے مالک ان مسافروں میں بانٹ دیا یہ سوچ کر کہ
میرے پاس تو میمنا ہے جب چاہوں گا سونا چاندی حاصل کر لوں گا رات کو کرموں نے کو اپنے پلنگ کے
پائے سے باندھ کر سویا ۔
سرائے کا مالک تو تاک میں تھا ہی جیسا ہی کرموں سویا اس نے کمال ہوشیاری سے میمنا کھول لیا اور اس کی
جگہ اسی شکل کا اتنا ہی بڑا میمنا باندھ دیا اگلے روز کرموں میمنے کو لے کر اماں کے پاس پہنچا کرموں کی گود
میں میمنے کو دیکھ کر اماں نے سر بیٹ لیا ارے پتھر پڑے ہیں ایسی عقل پر ارے بے وقوف یہاں اپنے
کھانے کے لالے پڑے ہیں اور تو اس بکری کے بچے کو اٹھا لایا اسے کہاں رکھے کھلاؤں گی کوئی ڈھنگ کی
چیز نہیں لا سکتا تھا ارے اماں یہ کوئی معمولی بکری کا بچہ نہیں ہے یہ تو ہمارے گھر کو سونے چاندی سے بھر
دے گا یہ سونے چاندی کی منگنیاں کرتا ہے ٹھہرو بھی دکھاتا ہوں اس کے بکری کے بچے کو کھڑا کر کے کہا
کر دے سونے چاندنی کی مینگنیا لیکن بکری کے بچے پر کوئی اثر نہ ہوا ویسے ہی کھڑا رہا کربوں نے اسے ایک دو
جھانپڑ رسید کیے تو اس نے اصلی والی گالی کالی مہنگیاں کر دی اماں نے دو دھمکے کرموں کے لگائے عقل بھی
بیچ کر کھا گیا کیا کیوں میمن کو مار رہا ہے کہیں کسی بکری نے بھی سونے چاندی کے مینگنیاں کی ہیں کرموں کی
الجھن عروج پر تھی یہ کیا ماجرا ہے سرائے تک سب کچھ ٹھیک رہتا ہے لیکن ایک گھر ا کر جادو ختم کے ہو
جاتا ہے بہت سوچنے کے بعد کرموں نے اماں سے کہا اماں آج چار روٹیاں اور پکا دے آج ضرور ہی کوئی
کام کی چیز لے کر اؤں گا برا بھلا کہتی اماں نے بکری کا میمنہ پڑوسی کے ہاتھ بیچ دیا آٹا لائی اور بیٹے کے لیے چار
روٹیاں اور تھوڑی سبزی رومال میں باندھ دی۔
کرموں پھر کنویں کی منڈیر پر جا کر بیٹھ گیا اور ایک گاؤں دو کھاؤں تین کھاؤں کے چاروں کو بھی کہا جاؤں
گا ورد کیا پھر پریاں ڈرتی ڈرتی باہر نکلی اب کے انہوں نے کرموں کو ایک جادو کی چھڑی تھی اور کہا کہ اگر
تم اس چھڑی کو اپنے جھونپڑے پر گھماؤ گے تو تمہارا جھونپڑا ایک عالیشان مکان میں بدل جائے گا شام کو
کرموں چھڑی لے کر سرائے پہنچا سرائے کا مالک چکنی چپڑی باتیں کرنے لگا باتوں باتوں میں پوچھنا بھیا جی
کیا لائے ہو بے وقوف کرموں کو سرائے کے مالک پر ذرا بے شک نہیں تھا فورا بولا اج تو ایسی چیز لایا ہوں
کہ تمہاری یہ ٹوٹی پھوٹی سرائے شاندار ہوٹل میں بدل جائے گی سرائے والی کی باتوں میں ا کر کرموں نے
چھڑی گنوائی اور چھوٹی سی ٹین کی سرائے شاندار عمارت میں بدل گئی سارا گاؤں حیران رہ گیا کرموں کی
خاطر مدارت ہوئی شاندار کمرے میں رات کو سلایا گیا اور سونے میں چھڑی بھی پار ہو گئی صبح اٹھ کر گرم و
خوشی خوشی اماں کے پاس آیا اماں بولی اج تو خالی ہاتھ جلاتا چلا رہا ہے اج کوئی جادوگر نہیں ملا کرم بولا اے
اماں آج تو پوچھ مت ایسی چیز لایا ہوں کہ تم خوش ہو جاؤ گی تمہارا یہ ٹوٹا پھوٹا جھونپڑا محل میں بدل جائے گا
کرموں نے باہر نکل کر لاک چھڑی گھمائی لیکن کچھ نہ ہوا جھونپڑا ویسے کا ویسا ہی رہا اماں نے دو ہاتھ پیٹ پر
مارے کمبخت کیا اب افیون بھی کھانے لگا ہے جو دن دہاڑے خواب دیکھنے لگا ہے بس اب میں روٹی نہیں
پکاؤں گی تجھے کچھ کرنا تھا نا نہیں فاقے ہوں گے تب بھی طبیعت صاف ہو گی ۔
کرمو ںلگا خوشامد کرنے میری پیاری اماں بس آج میرے لیے چار روٹیاں اور پکا دو پھر کبھی تم سے روٹی
نہیں مانگا آج مجھے چور کا پتہ لگانا ہے آخر اماں نے روٹی پکا دی اور کرموں روٹی لے کر کنویں کی مین پر پہنچا
وہاں پھر ایک کھاؤں دو کھاؤں تین کھاؤں یا چاروں کو ہی کھا جاؤں گا ورد کرنے لگا آج پریاں بڑے غصے
میں نکلی اور کہنے لگی تم کون ہو اور ہمارے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو ہمیں غلط فہمی ہوئی تھی کہ تم کوئی جن دیو
نہیں ہو مکار آدمی ہو جو ہمیں پریشان کر رہے ہو ہم تمہیں جلا کر خاک کر دیں گے کرموں خوشامد کرنے
لگا نہیں نہیں پریرانی مجھے سزا مت دو میں نے کوئی مکاری نہیں کی میں تو ایک غریب بے روزگار آدمی
ہوں پہلے دن میں اپنی روٹیوں کا حساب کر رہا تھا کہ ایک کھاؤں یا دو کھاؤں اپ لوگ غلط سمجھی اور اپ
نے اپنی مرضی سے وہ تمام چیزیں مجھے دی اب اپ آخری بار میری مدد کیجئے میں مصیبت میں پڑا ہوں آپ
نے جو کچھ سامان مجھے دیا تھا اسے لے کر میں ایک سرائے میں رکا وہاں میں نے انہیں ازمایا اور کھرا پایا لیکن
اگلے دن گھر جا کر اپنی ماں کے سامنے آزمانا چاہا تو سارا جادو ختم ہو گیا ناپتیلا زرد پلاؤں سے بھرا نہ میمن نے
سونے چاندی کے میمنے کی اور نہ چھڑی سے جھونپڑا شاندار عمارت میں بدلا میں اسی گتی کو سلجھانے آج آیا
ہوں میری مدد کیجیے ۔
پری نے کچھ لمحے سوچا پھر بولی تیرے پیچھے چور لگا ہے یہ چھوٹا سا ڈبہ لے جا خبردار کھول کر مت دیکھنا اسی
سرائے میں رکنا جہاں ہر دفعہ رکتے تھے اور ڈبے کو اپنے سرہانے رکھ کر سو جانا پھر تماشہ دیکھنا پریاں
کرموں کو ایک ڈبہ دے کر واپس کنواں میں چلی گئی گرم و روز کی طرح روٹی کھا کر لمبی تان کر سویا شام کو
اٹھ کر سائیں پہنچا سرائے کا مالک تو تاک میں تھا بڑی عزت اور احترام کے ساتھ کرموں کو اندر لے آیا
آرام دیکھ کمرے میں ٹھہرایا پلاؤ زردہ کھلایا پھر پوچھا بھیا جی اج کیا لے کر ائے ہو کرموں نے بے روخی
سے کہا آج کچھ نہیں لایا مجھے نیند آ رہی ہے مجھے سونے دو سرائے کا مالک کرموں کے ہاتھ میں ڈبہ دیکھ چکا
تھا سمجھ گیا کہ یقینا اس ڈبے میں ہیرے جوارات ہوں گے اس لیے بھیا جنہیں ڈبہ کھول کر نہیں دکھایا
غرض کرموں سونے کے لیے لٹ گیا سرائے کے مالک کو جب یقین ہو گیا کہ کرموں سو چکا ہے تو اس نے
چپکے چپکے جا کر ڈبہ سرانے سے اٹھا لیا اور ویسا ہی دوسرا ڈبہ اس کی جگہ رکھ دیا کرم و جاگ رہا تھا اور آنکھوں
کی جھریاں سے یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اب اس کی سمجھ میں آیا کہ گھر جا کر اس کی چیزیں کام کیوں نہیں
کرتی ادھر سرائے کے مالک سے زد نہ ہو سکا اس نے وہیں پر وہ ڈبہ کھول ڈالا تاکہ ہیرے اپنے قبضے میں کر
لے لیکن ڈبے میں سے ہیرے کے بجائے ایک چمڑے کا بل کھایا ہوا چابک نکلا اور لگا سرائے کے مالک کی
کھوپڑی پر وار کرنے دڑا تڑ تڑا تڑ اتنے ہنٹر پڑے کہ سرائے کا مالک چیختے چلانے لگا کرموں اُٹھ کر بیٹھ گیا اور
بولا اب سمجھ میں آیا چوری اور دھوکہ دینے کا انجام کیا ہوتا ہے چلو نکالو میرا اصلی سامان ارے مجھے بچاؤ بچاؤ
میری توبہ میرے باپ کی توبہ اپ کبھی چوری نہیں کروں گا۔
یہ لو اپنا سامان یہ لو پدینہ یہ لو میمنا اور یہ لو اپنی چھڑی اور میری جان بچاؤ کرموں نے چابک سے کہا اے
جادو کے چابک ڈبے میں چلے جا اور یہ بتاتے جاؤ کہ میں سزا کے طور پر اس آدمی کو پہلے کی طرح غریب
لیکن ایماندار بنانا چاہتا ہوں اس کے لیے مجھے کیا کرنا ہوگا چابک سے آواز آئی جادو کی چھڑی الٹی گھماؤ سب
کچھ پہلے جیسا ہو جائے گا اتنا کہہ کر وہ چابک ڈبے کے اندر چلا گیا اور ڈبہ اڑتا ہوا نظروں سے اوجھل ہو گیا
کرموں نے جادو کی چھڑی الٹی گوائی سرائے پھر وہی پرانی والی بن گئی صاحبان والی سرائے میں بدل گئی اور
سونے چاندی کی مینگیاں مٹی اور پتھر کے ٹکڑوں میں بدل گئی میاں کرموں سارا سامان لے کر اماں کے
پاس پہنچے ۔
اماں کو زردہ پلاؤ کے کھلایا میمن نے سونے چاندی کے مہنگیا کی اور کرموں کا چھوٹا سا جھونپڑا شاندار عمارت
میں بدل گیا نہ صرف گاؤں میں بلکہ اس پاس کے علاقوں میں بھی کرموں کی شہرت مل گئی دنیا بھر کے
چور اچکے ڈاکو کرموں کہ یہاں چوری کرنے کی فکر میں رہنے لگے کرموں کے دن کا چین اور رات کی نیند
حرام ہو گئی پڑے پڑے پلاؤ زردہ کھانے اور چوری کے خوف سے نہ سونے سے کرموں کی صحت خراب
رہنے لگی جب حکیم کچھ نہ کر سکے اور پیسہ بھی کام نہ آیا تو اماں نے سمجھایا ۔
بیٹا چین سکون صحت اور خوشی تب تک ہی میسر ہے جب انسان محنت کی روٹی کھاتا ہے ابھی بھی دیر نہیں
ہوئی یہ سارا جادو کا سامان پریوں کو واپس کر دو کوئی کاروبار کرو محنت کرو اللہ تمہاری کھوئی ہوئی صحت اور
خوشیاں لوٹا دے گا محنت میں ہی برکت ہے محنت کی روٹی ہی دل کو سکون دیتی ہے بات کرموں کی سمجھ
میں اگئی اس نے اسی وقت جادو کا سارا سامان پتیلا میمنا اور جادو کی چھڑی سب لے جا کر واپس کنویں میں
ڈال دی گھر پر جو پیسہ تھا اس سے چھوٹی موٹی تجارت شروع کی اللہ نے برکت دی کامیابی اور خوشحالی نے
قدم چومے اماں نے ایک اچھی لڑکی دے کر اس کی شادی کر دی اب کرموں خوش ہے محنت کی روٹی کھاتا
ہے اور چین کی نیند سوتا ہے۔
کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔
اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔
اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔