Aurat Ki Sab Sy Badi Ghalti

Aurat Ki Sab Sy Badi Ghalti

Aurat Ki Sab Sy Badi Ghalti

اسلام علیکم اُمید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے ۔

آج کی کہانی میں خوش آمدید

والد صاحب کا بزنس عروج پر تھا اور والدہ گھر گھرستی میں کھوئی ہوئی تھی شوہر بزنس کی مصروفیات میں

ان کی ذات سے بھی بے نیاز رہنے لگے تب بھی وہ پرسکون رہی کہ جیون ساتھی کی محبت پر بھروسہ تھا

کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ وہ ان کو دھوکہ دیں گے یقین کی شکست سے محبت کی موت واقع ہو جاتی ہے تب

زندگی زندگی نہیں لگتی میری ماں میں جب اس دکھ سے دوچار ہوئی اپنی شکست کو برداشت نہ کر سکی اور

گھر چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا ان دنوں میری عمر پانچ سال تھی انہیں کسی دکھ درد اور اونچ نیچ کے سمجھنا تھی

والد شروع دن سے میرے لیے ایک بے نیاز اور مصروف شخصیت تھے وہ ہماری زندگی میں موجود تھے

اور نہیں بھی ما ں ایک پرسکون ماحول  میں جینے کی عادی  تھی ان کی شخصیت میں ٹھہراؤ تھا میرا وجود اور

پرسکون گھر ہی ان کے پل کائنات تھا وہ ہے چل کی عادی ہی نہ تھی جب پتہ چلا کہ شوہر نے اپنی نو عمر

سیکرٹری سے خفیہ شادی کر لی ہے تو انہوں نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔

 وہ گریجویٹ تھی اور شادی سے قبل ریڈیو پر مختلف پروگراموں کے لیے سکرپٹ وغیرہ لکھا کرتی تھی ان

دنوں ایسے لکھاریوں کو بہت کم معاوضہ ملا کرتا تھا شادی کے بعد انہوں نے اس مشکلے کو خیرباد کہہ دیا اور

مکمل توجہ اپنے گھر پر مرکوز کر دی تھی مجھے امی ساتھ لے گئی اب جانا کہاں تھا اور رہنا کہاں تھا یہ امی نے نہ

سوچا سوچا تو بس یہ کہ تعلیم یافتہ ہوں کچھ نہ کچھ تو کر ہی لوں گی والد سمجھ رہے تھے کہ بچے کی خاطر کبھی نہ

کبھی حالات سے تھک ہار کر آخری ان کی طرف واپس پلٹ آئیں گی لیکن میری ماں بھی جیسے فولاد کی بنی

تھی ہمت نہ ہا ری ان کے پاس کافی زیور تھا ایک پلاٹ میں ان کے نام تھا بینک میں اتنا روپیہ موجود تھا کہ

پانچ سال باسانی گزارا ہو سکتا تھا سب سے پہلے وہ اپنی ایک پرانی سے ہیلے کے پاس گئی اس پر انہیں بھروسہ

تھا ۔

میں ان کو انٹی عذرہ کے نام سے جانتی تھی والدہ نے انہیں اپنے بارے میں بتایا انٹی نے امی کو سمجھایا کہ تم

صرف اپنی ذات کے بارے میں مت سوچو اپنے بچی کے بارے میں سوچو جس کو تمہارے علیحدگی کے

فیصلے کی وجہ سے باپ کی شفقت اور مضبوط تحفظ سے محروم ہونا پڑے گا تمہیں اندازہ نہیں کہ اس کو اگے

چل کر کس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس گھر کا سربراہ نہ وہاں بچیوں کو غلط ہاتھوں سے بچانا

محال ہو جاتا ہے ماں نوکری کرے یا بچی  کی نگرانی کرے عذرہ تم ایسی بات  بتا رہی ہو کہ میں تمہارے گھر

میں پناہ لینے آگئی ایسا ہی ہے تو چلو میں چلی جاتی ہوں تم  پریشان مت ہو میں تم پر بوجھ نہ بنوں گی ۔

میرے پاس ہمیں کافی بینک بیلنس ہے تمہارے پاس تو نیز اخلاق اسپورٹ کے لیے میں ائی تھی انٹی عذرہ

کی انکھوں میں آنسو رہے کہنے لگی ایسی بات نہیں ہے تم چاہیں عمر بھر میرے پاس ہو مجھے کبھی بوجھ نہ لگو

گی مخلص دوست  کا صحیح بات سمجھانا فرض بنتا ہے یہ تمہاری مرضی ہے کہ تم جو بھی اپنی زندگی کا فیصلہ بہتر

سمجھو کرو انٹی نے اپنے گھر کا اوپر بڑا حصہ رہنے کے لیے امی کو دے دیا جو فرنیچر سے آراستہ تھا یوں ہم ان

کے پاس رہائش پذیر ہو گئے ان تقریبا چھ ماہ انٹی کے گھر رہے ان کی تین گاڑیاں تھی ایک شوہر افس لے

جاتے دوسری بچوں کے لیے اور تیسری اپنے زیر استعمال لاتی تھی انہوں نے اپنی گاڑی اور ڈرائیور امی کے

لیے وقف کر دیا کہ جہاں چاہیں چلے جائیں ۔

یہ سہولت اُن کو حاصل  ہویہاں ہمیں ہر طرح کا آرام تھا لیکن امی کی بے چینی کم نہ ہوئی آنٹی کرایہ بھی نہ

لیتی تھی اور روز کھانے کے وقت اصرار کر کے بلا لیتی تھی تب امی کو احساس ہوتا تھا کہ جلد از جلد اپنی

علیحدہ رہائش کا انتظام کر لینا چاہیے دوست اتنا اچھا اور خیال کرنے والا ہو تو اس کو طویل عرصے تک

آزمائش میں ڈالے رکھنا ٹھیک نہیں ہوتا والدہ نے مکان کی تلاش جاری رکھی میری تعلیم کا حرج ہو رہا تھا

بالاخر اللہ تعالی نے سنی اور انٹی کے بھائی ناصر صاحب نے جو پراپرٹی کا کام کرتے تھے ایک بہت اچھا

علاقے میں 12 مرلے کا چھوٹا سا بنگلہ نمامہ کان ڈھونڈ لیا ان دنوں پراپرٹی اتنی مہنگی نہ تھی جس قدرآج

ہے بہرحال والد ہ کو مکان پسند آیا انہوں نے فورا ہی خرید لیا کیونکہ ان کوخدشہ  تھا کہ رکھے ہوئے روپے

رفتہ رفتہ گھٹتے ہی رہیں گے انہیں کوئی جوب بھی نہ ملی تھی کہ آمدنی کا در کھلتاوالدہ نے ایک چھوٹی سی سیکنڈ

ہینڈ گاڑی لے لی خود  ڈرائیونگ سیکھی اور ایک اچھے سکول میں مجھے داخل کرا دیا یہاں ہمارا ابسنا بہتر ثابت

ہوا کہ اچھے اور ہمدرد پڑوسی مل گئے جو چھوٹے موٹے مسئلوں میں کام آتے تھے امی اور میں یہاں اکیلے رہ

سکتے تھے یہ لوگ اپنوں کی طرح خبرگیری کرنے لگے ادھر کے فکر سے ازاد ہو کر امی نے اپنی جاب کی فکر

کی لیکن میں سکون سے جلدی گھر ا جاتی تھی اس لیے وہ کسی افس میں مستقل جاب نہ کرسکتی تھی ۔

لہذا والدہ نے انتظار کیا میری بڑی کلاس میں جانے کا اور اس جمع پونجی  سے گھر چلاتی رہی یہاں تک کہ میں

اٹھویں کلاس میں اگئی وہ ریڈیو اسٹیشن صبح چند گھنٹوں کے لیے جاتی تھی جب میں سکول میں ہوتی تھی ایسے

پروگرام میں شرکت کرتی جو صبح کے وقت ہوتے تھے تاہم ٹی وی کا دور آ چکا تھا ایک ریڈیو پروڈیوسر نے

مشورہ دیا کہ اپ ٹی وی میں قسمت آزمائی کریں وہ وہاں جانے لگی صرف ایڈیٹنگ کا تھوڑا سا کام مل جاتا تا

ہم معاون کے طور پر باقاعدہ جاب نہ ملی اور نہ امی کر سکتی تھی اسی طرح وقت کرتا رہا اب بہت کم سرمایہ رہ

گیا تھا بہت کفایت شعاری سے وقت گزارا۔

 میری فیس سکول کا  خرچہ سبھی اخراجات لازمی تھے جب سرمایہ صفرہوا تو والدہ نے گاڑی فروخت کر دی

وہ رکشوں میں اور میں بس پر سکول آنے جانے لگے شروع دنوں میں ڈیڈی نے دو چار بار رابطے کی کوشش

کی لیکن امی نے ان سےصلح  کی وہ مایوس ہو کر ایک طرف کے ہو گئے ان کے دوسری بیوی سے بچے ہو گئے

تو وہ ادھر ہی مگن ہو گئے پھر ہم سے کوئی واسطہ نہ رکھا اب ہمارے حالات کافی ڈگرگوں ہو گئے تھے اب

روز و شب روٹی کی فکر کے ساتھ میری پڑھائی کے خرچے بڑھنے لگے نوبت زیورات فروخت کرنے تک

اگئی والدہ تو کوئی معقول ملازمت نہ مل سکے تو انہوں نے شیف  کا کورس کر لیا اور کھانے کی چیزیں  گھر پر

تیار کر کے سپلائی کرنے لگی ۔

اس روز  سیکنڈ ایئر کا آخری پرچہ تھا پرچہ ختم ہوا یہاں پر رہا کہ آج بسوں کی ہڑتال ہے سوچا اب کو رکشہ پکڑنا

پڑے گا چند قدم آگے چلے کسی رکشے کا نام و نشان ہی نہ تھا سوچو میں چلتے جا رہی تھی کہ ایک بڑی سی

شاندار کار قریب سے گزرتے ہوئے مجھے پیدل دھوپ میں  چلتے پاکر ٹھہر گئی چار قدم آگے چلے تو کار کے

پنڈوں سے ایک تقریبا 40 45 سالہ شخص نے سر نکال کر کہا بی بی میری گاڑی میں بیٹھ جائیے جہاں کہیں

گے پہنچا دوں گا دھوپ کافی تیز ہیں حدت  سے پیدل چلنا دشوار ہوتا ہے میں نے نظر بھر کر دیکھا یہ کوئی

جوان طالب علم نہ تھا بلکہ کوئی بزنس مین بال بچے دار مگر امیر ادمی لگ رہا تھا لباس اور وضع قطع سے

اشرافیہ میں سے معلوم ہوتا تھا گاڑی بھی چمکتی ہوئی بڑی سی شاندار اور خود بھی  متاثر کرنے والے شخصیت

تھا ڈرائیونگ سیٹ پر اس کا ڈرائیور بیٹھا تھا جس نے اُجلی وردی پہن رکھی تھی سوچا کہ یہ عمر رسیدہ شریف

ادمی ہے اور اس دھوپ میں سواری ملنے کی نہیں ہےرکشے والے بھی سن سٹروک سے بچنے کو درختوں

تلے اپنے رکشے کھڑے کر کے اسی میں سو رہی ہوں گے تیزی سے میں نے فٹ پاتھ سے سڑک پر قدم

رکھے اور گاڑی کے پاس اگئے جانور نے پچھلی نشست کی طرف اشارہ کیا اور اتر کر دروازہ کھولابغیر ایک

لفظ ادا کیے گاڑی میں بیٹھ گئی پوری سیٹ پر میں ہی موجود تھی دوسرا کوئی نہ تھا جبکہ وہ دونوں اگے بیٹھے

ہوئے تھے بی  بی طالبہ  لگتی ہوں کہاں جانا ہے جی میرا سیکنڈ ایئر کا آخری پرچہ تھا مجھے عالم روڈ جانا ہے میں

بھی ادھر ہی جا رہا ہوں وہاں میرے دوست کا دفتر ہے پھر گاڑی میں خاموشی  طاری ہو گئی مجھے گویا باتوں

میں لگا کرموصوف نے گاڑی کو کسی اور راستے پر ڈالنے کا ڈرائیور

Aurat Ki Sab Sy Badi Ghalti

کو خفیہ اشارہ کر دیا تھا جو میں نوٹ نہ کر سکی کچھ دیر  اپنی سوچوں میں گم رہی اچانک سوچوں کے بھنور سے

نکلی وہ سڑک پر نگاہ ڈالی تو حیران ہوئی کہ کار تیزی سے کسی دوسرے راستے پر برق رفتاری سے دوڑ رہی

تھی مجھے اندازہ ہوا کہ ہم شہر سے کافی دور نکل آئے ہے جب دیکھا کہ یہ کار تو بس چلتی یہ جا رہی ہے تو مجھے

اپنی غلطی کا احساس ہوا بالاخر جرات کر کے میں چیخ پڑی آپ گاڑی کو یہیں روک دیجیے مجھے اسی جگہ اتار

دیجیے میں رکشہ لے لوں گی بی بی یہاں تمہیں کوئی رکشہ کوئی سواری نہیں ملے گی ملے گی یا نہیں ملے گی یہ

میرا مسئلہ ہے بس اپ روکیے گاڑی ڈرائیور نے سڑک کے بیچ گاڑی روک لی مالک اترا اور پچھلے نشست کی

طرف ا کر دروازہ کھولا میں سمجھے مجھے اتارنے کو دروازہ کھولا ہے۔

 لیکن اس سے قبل کہ میں اترتی وہ خود  میرے برابر بیٹھ گیا اور ڈرائیور نے تیزی سے گاڑی چلا دی اب کار

اور تیز فراٹے بھرتی جا رہی تھی اور اس شخص نے مجھے اپنے زور بازو سے قابو کر لیا تھا اف کیا بتاؤں کہ

میرے دل کے کیا حالت تھی میں چلتی  گاڑی سے اترنا چاہتی تھی لیکن اس نے دروازےلاک  کر دیے

تھے اس نے میری ایک نہ چلنے دی میں حواس باختہ ہو چکی تھی ڈرائیور نے ہاتھ پیچھے کر کے کوئی شے دی تو

اس نے میری ناک میں گھسیڑ دی میں تو  خوف سے بے ہوش ہونے لگی  اس نے میرے منہ پر کپڑا باندھ دیا

گرمی اور حبس سے دم گھٹنے لگا ہاتھوں پیروں اور جسم میں جان ہی نہ رہی میں گرنے لگی اس نے مجھے جہاں

سیٹ سے نیچے پاؤں رکھتے ہیں تنگ سی جگہ پر ہاتھوں سے دھکیل کر گرا دیا اور مجھ پر پاؤں رکھ دے۔

 میں بے ہوش ہو گئی ہوش آیا تو کسی دور جگہ بنے ایک بنگلے کے کمرے میں نے خود کو قید پایا وہاں کوئی نہ تھا

بس ایک کھڑکی تھی سلاخوں والی جس کے پٹ بھڑے  ہوئے تھے میرا دم گھٹ رہا تھا میں میز پر جگ رکھا

تھا اس نے پانی تھا اور ساتھ گلاس دھرا تھا پانی گلاس میں ڈالا اور میں نے گٹاگٹ پی لیا۔

 ذرا ہوش بحال ہوئے ہوئے دروازہ کھٹکھٹایا ذرا دیر بعد مجھے قدموں کی چاپ سنائی تھی پھر ایک مردانہ

آواز ائی کیا بات ہے بھوک لگی ہے تو گھڑ کی کھولو میں ادھر سے کھانا دے دیتا ہوں ایک پٹھان کی آواز تھی

میں نے کہا تم کون ہو دروازہ کھولو جواب ملا ہم ادھر کا چوکیدار ہیں کمرے کے باہر تالا ہے ہمارے پاس

چابی نہیں ہے ہم دروازہ نہیں کھول  سکتا برآمدے میں ا کر کھڑکی سے تم سے بات کر سکتا ہے میں نے

کھڑکی کےپٹ کھولے تو اس میں عمودی موٹی موٹی سلاخیں قریب قریب فاصلے سے لگی تھی سیدھی

پلیٹ بھی نہیں گزر سکتی تھی صرف ہاتھ باہر کر سکتے تھے یا گلاس گزارا جا سکتا تھا وہ گھوم کر کھڑکی کے

پاس آگیا اس کے کندھے پر بندوق تھی اور کارتوس چمڑے کی پیٹی میں پروئے ہوئے تھے جو اس نے گلے

سے کمر تک لٹکائی ہوئی تھی بولو کیا چاہیے نان اور کباب اس کھڑکی سے پکڑ لو کمرے کے ساتھ سٹور ہے

وہاں میز پر برتن رکھے ہیں وہاں سے پلیٹ وغیرہ لے سکتے ہو غسل خانہ بھی اسی طرف ہے میں سٹور میں

گئی وہاں  بڑی سی اونچی میز رکھی تھی اس پر کچھ برتن تھے اور ایک سٹول بھی میز کے پاس رکھا ہوا تھا جس

پر بیٹھ کر کھانا کھا سکتے تھے ایک طرف دیوار میں دروازہ تھا شاید یہ غسل کھانا تھا سٹور نما کمرے میں کوئی

کھڑکی نہ تھی البتہ ایک روشن دان تھا جو پورا پورا ہوا تھا وہاں سے ہی روشنی اور ہوا ا رہی تھی۔

دفعتا میرے ذہن میں آیا اگر میز کو دیور سے لگا دوں  وہاں سے ہی روشنی اور ہوا ارہی تھی دفعتا میرے

ذہن میں ایا اگر میز کو دیوار سے لگا دوں اور اس پر سٹون رکھ دوں تو روشن دان تک شاید میرا ہاتھ پہنچ

جائے کیونکہ سٹور کے کمرے کی اونچائی اس کمرے سے کم تھی جہاں میں قید تھی یہ خیالاتیں ہی میں

کمرے میں ائی میرے ہاتھ میں پلیٹ تھی میں نے چوکیدار سے کہا اللہ کا واسطہ ہے مجھ پر ترس کھاؤ مجھے

اس جگہ سے باہر نکالو اگر تمہارے کوئی بیٹے ہیں تو تمہیں اس کا واسطہ میں بھی کسی کی بیٹی ہوں یہ لوگ مجھے

دھوکے سے زبردستی یہاں بے ہوش کر کے لے ائے ہیں تو کیا تم اپنی مرضی سے نہیں ایا نہیں بابا ایسی

جگہ کون اپنی مرضی سے اتا ہے میں تو کالج سے اپنا اخری پرچہ دیکھ کر باہر نکلی تھی بسوں کی ہڑتال تھی مجھے

کوئی سواری نہ ملے انہوں نے مجھے زبردستی اغوا کر لیا وہ کھانا خراب ہم سمجھا کہ تم اپنی مرضی سے ایا ہے یہ

لوگ جو عورت یا لڑکے یہاں لاتا ہے وہ سب اپنی خوشی اور مرضی سے اتا ہے لوگ نہیں ہیں تم نے ان کو

بیٹے کا واسطہ لیا ہے تمہاری بیٹی تو تم جتنی ہے اگر اب ہم مجبور ہیں ہم تم کو نہیں نکال سکتا پر تم مجھے یہاں

سے نکل جانے میں مدد تو کر سکتے ہو نا کیسے مدد کر سکتا ہے ہم کیا تم دیوار توڑ سکتے ہو ہم تو دیوار نہیں توڑ سکتے

ہم ملازم ہیں عرصے سے ادھر ڈیوٹی کرتا ہے مجھے یقین نہ تھا چوکیدار میری مدد کرے گا کیونکہ وہ تو انہی کا

ادمی تھا لیکن شاید وہ ایک اچھا انسان تھا اس کا ضمیر زندہ تھا کہنے لگا تم بتاؤ کیسے تمہاری مدد کروں کوئی بھی

باہر نکلنے کا راستہ نہیں ہے میں نے کہا سٹور میں ایک روزان ہے میں دبلی پتلی ہوں اس میں سے گزر سکتی

ہوں وہ کہنے لگا ہمارے شامت لانے کا ارادہ ہے تمہارا اور ہم کو پرواہ نہیں ان کو بہت راز ہمارے پاس ہے

لیکن بات سمجھو یہاں سے باہر نکلنے کے لیے روشندان تک تمہارا چڑھنا ممکن نہیں ہے روشن دان پر چڑھ

جاؤ گے تو ہم ادھر سے بانس کی سیڑھی لگا کر تم کو اتار لے گا تم بھاگ جانا ہم چیٹ کو بول دے گا کہ تم خود

بھاگ گیا ہے رات کو اٹھ سے نو بجے تک ہم کو گھر جا کے کھانا لانے کی اجازت ہے ہم تمہارے لیے بھی

کھانا اپنے گھر سے لائے گا تم کل صبح سے پہلے اگر نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ وہ صبح 10 بجے ادھر واپس ا جائے گا

ہم تو نہیں معلوم تم کو ادھر لانے کا اس کا کیا مقصد ہے گھر کے ساتھ ہمارے دوست کا گھر ہے ہم اسی سے

ٹیکسی لا سکتا ہے وہ ٹیکسی چلاتا ہے میں نے کھانا میز پر دھرا اور میز کو دیوار کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا

میں جتنی بھاری اور ٹوتھ تھی کہ اگر کوئی دوسرا وقت ہوتا تو مجھ سے ایک انچ اگے نہ سرکائی  جاتی لیکن اس

وقت اللہ نے ایسی ہمت دی کہ میں نے پوری قوت سے کبھی ایک طرف سے کبھی دوسری طرف سے

اس کو ذرا ذرا اگے سرکانا شروع کر دیا جہاں تک کہ میں دیوار سے لگانے میں کامیاب ہو گئی ذرا دیر کو دم لیا

اب پیاس محسوس ہو میں نے پانی پیا نان کا ٹکڑا توڑ کر منہ میں رکھا وہ آدھا نان پیٹ میں اتار لیا تھوڑے سے

طاقت آئی سٹول کو گھسیٹا اور اس کو میز پر رکھنے میں کامیاب ہو گئی اور پھر اس پر چڑھ گئی دیوار کا سہارا لے

کر دونوں ہاتھوں سے روشندان کے چوکھٹ پکڑ لی پوری طاقت لگا کر روشندان پر چڑھی وہ کافی کشادہ  تھا

میں نے دیکھا سامنے بڑی بڑی مونچھوں والا باروب شخص روشن دان پر نظریں جمائے تھا میز کے  گھسیٹنے

کی آواز سنتا رہا تھا مجھے دیکھ کر وہ دیوار کے قریب آگیا بولا میں سیڑھی لا رہا ہوں ادھر ہی رہنا اگر کوئی اتا نظر

آئے تو اتر جانا سپہر کا وقت تھا 15 منٹ میں سیڑھی لے آیا اور دیوار سے اس طرح لگا دی کہ میں روشن

دان سے گزر کر سیڑی کو پکڑ سکتی تھی کچھ مشکل تو ہوئی میرے پہلوروشندان  سے باہر نکلتے وقت چھل گئے

لیکن میں نے ہمت نہ ماری جب سیڑھی کے ڈنڈے پکڑ لیے تو خان نے سہارا دیا اور میں باہر اگئی سیڑھی

سے اتر کر اس نے مجھے ایک کھلی گڑیا کی طرح زمین پر رکھ دیا ۔

Aurat Ki Sab Sy Badi Ghalti

کہا کہ گھر سے چادر بھی لیتا ہے تمہارے لیے یہ اوڑھ لو  میں سڑک پار کرا دیتا ہوں ادھر میرا دوست ٹیکسی

یہ موجود ہے اس میں بیٹھ جانا اور گھر کا پتہ بتا دینا وہ تمہیں تمہارے گھر پہنچا دے گا خان تم دھوکا تو نہ کرو

گے نا میں بہت ڈرے ہوئے ہوں ڈرو نہیں یہ خان کا وعدہ ہے ہمارا بیٹی ہیں تمہارا دوست ہے مگر  سمجھو

ہمارا بھائی ہے تم نے دھوپا کھایا ہے تو اب ڈرنا تو لازم ہے نا اچھا چلو اب جلدی کروں اب دیکھو گے سیٹ

لوگ ا کر ہم سے کیسے باز پرس کرے گا مگر پرواہ نہیں ہے جب تم گھر پہنچ جاؤ تو ان کو اس نمبر پر اطلاع کرنا

چلو جلدی کرو وہ اگے اگے اور میں اس کے پیچھے پیچھے چادر میں لپٹی چل رہی تھی وہاں ادم نا ادم زاد اللہ

جانے کون سی جگہ تھی خان  سڑک کے اس طرف ہی ٹھہر  گیا سڑک میں نے اکیلے پار کی سڑک کے

دوسری جانب ٹیکسی میں ایک شخص موجود تھا جو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا اس نے کہا بیٹی جلدی کرو

ٹیکسی دروازہ کھلا ہوا تھا مجھے اس نے پچھلی نشست پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

کچھ کے جا کر پوچھا کدھر جانا ہے میں نے روڈ کا نام بتایا بولا تم تو بہت دور آ چکا ہے ہم کو وہاں تک پہنچنے میں

بھی ڈیڑھ دو گھنٹہ لگ جائے گا تم نیچے ہو کر  بیٹھو  میں چاہتا ہوں کہ تم کو کوئی نہ دیکھے اللہ کا شکر کیا کسی نے نہ

روکا نہ کسی نے دیکھا یہاں تک کہ ہم شہر میں داخل ہو گئے میں چادر میں اچھی طرح خود کو لپیٹے بیٹھی تھی

چہرہ بھی چادر میں چھپا رکھا تھا جب وہ روڈ آیا جہاں سے میرا گھر نزدیک تھا تو میری جان میں جان اگئی میں

راستہ بتاتے جاتے تھے وہ ٹیکسی کو ادھر موڑتا جاتا تھا یہاں تک کہ میں اپنے گھر کے دروازے پر پہنچ گئی

یہاں روتے انکل میں نے کہا یہی میرا گھر ہے۔

 اس نے پوچھا اندر کون ہے میں نے کہا میری امی تم ابھی اترنا نہیں یہ کہہ کر وہ خود اُتر گیا اور دروازے  پر

دستک دی  امی نے دروازہ کھولا امی بے حد پریشان حال دکھائی دے رہی تھی باجی اپ کا بیٹی ہم لے ایا ہے وہ

گاڑی میں بیٹھا ہے امی دوڑ کر ائی میں نے ان کو دیکھا تو چہرے سے چادر ہٹائی کہاں تھے تم میری تو جان

نکال دے تم نے میں اتری اور گھر کے دروازے پر ہی ان کے گلے لگ گئی اور مجھے اندر لے گئی بھول ہی گئی

کہ جو شخص یہاں تک لایا ہے وہ باہر کھڑا ہے میں نے کہا امی سب بتاتی ہوں پہلےاس انکل کا شکریہ ادا کریں

جو مجھے بڑی مصیبت سے باحفاظت نکال کر یہاں تک لایا ہے امی کو ہوش ایا دوڑ کر باہر گئی کہا بھائی اندر ا جاؤ

اس پانی وغیرہ پیو تمہارا بہت باہر شکریہ وہ بولا ہم جاتا ہیں باجی بس یہ اطمینان کرنا تھا کہ اپ کا بیٹی صحیح جگہ

پہنچ گیا ہے وہ انجانا مخلص محسن بغیر کوئی انعام لیے چلا گیا امی کو احوال  بتایا روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں

تھی انہوں نے گلے لگایا وہ بھی خوب روئیں پھر کہا کل جب تم نہ لوٹی میں نے شام تک انتظار کیا جب رات

ہو گئی میں تڑپنے لگی کبھی سوچتی تھانے جاؤں پھر سوچتے کیا خبر تم آ پولیس والے تو اور رسوا کریں گے

تمہاری ایک دو سہیلیوں کو فون ملایا بس ایسے ہی بات بنا کر تمہارا پہنچا اگر آج تم نہ آتی تو محلے محلے تم کو

ڈھونڈنے نکل پڑتے گلے گلی آواز لگاتی جاتی اب میرا صبر جواب دے گیا تھا آج پہلی بار احساس ہو رہا ہے

کہ میں نے تمہارے باپ کو چھوڑ کر کتنی بڑی غلطی کی تھی ان کا ساتھ ہوتا تو یہ نوبت نہ اتی نہ کوئی اس

بات کا احساس کتنی مدت بعد ہوا تھا اور مجھے جب ڈیڈی سے بچھڑی تھی اس دن سے آج تک یہ احساس

رات اور دن پل پل میرے ساتھ رہا ہے کہ اے کاش میں اس سائبان تلے  ہوتی جس کو باپ کہتے ہیں اور

عورت سمجھتی ہے کہ بچے صرف اسی کو پیارے ہوتے ہیں حالانکہ بچے باپ کو بھی پیارے ہوتے ہیں اللہ

کرے کبھی کسی بچے کی ماں اسے نہ بچھڑے اور نہ ہی باپ جدا ہو کہ اگر ماں کے پیروں تلے جنت ہے تو

باپ کا سایہ بھی اتنا ہی ٹھنڈا ہوتا ہے جو بچوں کو زمانے کی کڑی دھوپ اور سختیوں سے بچاتا ہے اس کے بعد

والدہ نے مجھے اگے نہ پڑھنے دیا اور انٹی عذرہ نے میرا رشتہ اپنے بھائی کے بیٹے سے کروا دیا اب میں ایک

کامیاب ازدواجی زندگی گزار رہی ہوں لیکن آج میں والد کی جدائی کے خلش دل سے نہیں نکال سکتی تہیہ

کیا کہ حالات جو بھی ہوں اپنے بچوں کو ان کے والد سے کبھی جدا نہ کروں گی ۔

دوستو یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مرد اپنی اولاد کو سکھ دینے کے لیے ان کی خواہشات پوری کرنے کے لیے

اپنی جوانی لگا دیتا ہے دن رات محنت کرتا ہے لیکن جب عورت کوئی روزگار حاصل کر لے کوئی جاب کر

لے تو وہ ان کو آزاد سمجھنے لگتے ہیں اور سوچتی ہے کہ اب وہ اکیلی رہ لے گی حالانکہ یہ اس کی غلط فہمی ہے

سبھی ایک جیسی نہیں لیکن اکثر عورتیں جب کچھ کمانے لگے تو انہیں لگتا ہے کہ انہوں نے مرد کی

ضرورت نہیں اپ کیا کہتے ہیں اس بارے کمنٹ باکس میں ضرور بتائیں ملتے ہیں اگلی کہانی میں تب تک

کے لیے اللہ حافظ۔

کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment