Qissa Chalaak Jatti Ka

Qissa Chalaak Jatti Ka

Qissa Chalaak Jatti Ka

پرانے وقتوں کی بات ہے کسی گاؤں میں ایک جٹ اور ایک جٹی رہتے تھے ان کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی 

ایک روز جھٹ  نے اپنی بیوی سے کہا میں زمین میں ہل چلانے کے لیے جا رہا ہوں تم دوپہر کو میرے لیے 

روٹی لے کر انا گرمیوں کے  دن تھے اور جٹی کو خیال نہ رہا اور دوپہر کے وقت وہ گہری نیند سو گئی جٹی نے 

اپنے بیلوں کو کھول دیا اور بیلوں کے گلے  میں حل جوتنے والی لکڑی ڈال دی اور واپس اپنے گھر کی طرف 

چل پڑ۔

ا راستے میں جٹ کو ایک کھیت میں مونگ کی دال اگی ہوئی نظر ائی جٹ نے وہ دال مونگی توڑ توڑ کر کھانا

شروع کر دی مونگی کا ایک پودا جسے بہت زیادہ پتے لگے ہوئے تھے اس کے نیچے اس جٹ کو ایک شیر خوار

بچی پڑی نظر ائی جو اپنے منہ میں انگوٹھا لیے چوس رہی تھی جٹ اس بچی کو دیکھ کر بہت خوش ہوا جٹ نے

بچی کو وہاں سے اٹھا لیا اور اپنے گھر لے آیا جٹی بھی اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی جٹ اور جٹی نے اسے اپنی

بیٹی بنا لیا چونکہ وہ ماؤں کے پودے کے نیچے ملی تھی اس لیے اس کا نام ہی مونگی رکھ دیا گیا جٹ جٹی نے اس

کی پرورش شروع کر دی اور کچھ عرصے کے بعد جٹ وفات پا گیا ۔

جٹ کے ہاں اللہ تعالی کی رحمت تھی کسی چیز کی کوئی کمی نہ تھی اور جب مونگی جوان ہوئی تو اس کی ماں جٹی

بھی فوت ہو گئی اور اب وہ اتنے بڑے گھر میں اکیلی رہ گئی گاؤں والوں نے سوچا کہ مونگی جوان ہے اور اس

کی شادی کر دینی چاہیے انہوں نے مونگی کی شادی ایک فوجی سے کر دی اور جب فوجی کو چھٹی ہوتی تو وہ گھر

آجاتا کچھ عرصے کے بعد مونگی کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا ایک روز مونگی اپنی گاؤں کی سہیلیوں کے ساتھ

کنویں پر پانی بھرنے کے لیے گئی پرانے زمانے میں کنویں کے ارد گرد بیل گھما کرتا تھا اور لوہے کے بہت

سارے بھوکے کنویں سے پانی نکال نکال کر کنویں سے باہر گراتے رہتے تھے۔

 جس کو رہٹ کہتے ہیں زمینوں کو بھی اسی پانی سے سیراب کیا جاتا تھا اور پینے کے لیے پانی بھی اسی طرح

حاصل کیا جاتا تھا اس کنویں کے ایک طرف دیوار تھی اور ایک چور اس دیوار کے پیچھے چھپا ہوا بیٹھا تھا پہلے تو

مونگی کی سہیلیاں مونگی سے اپنے دل کا حال بیان کرتی رہی مونگی نے بھی اپنی سہیلیوں کو اپنے بارے میں

الف سے یہ تک سب کچھ بتا دیا اور اپنی کہانی سنانے کے بعد موہی بولی کاش میرا بھی کوئی بھائی ہوتا جو

میرے لیے عید لاتا چور کو مونگی بہت پسند آئی اس نے دل میں سوچا کہ اگر شادی کروں گا تو مونگی صحیح

کروں گا جب مونگی اور اس کی سہیلیوں نے پانی سے اپنے اپنے گھڑے بھر لیے اور وآپس اپنے اپنے

گھروں کی طرف چل پڑی تو وہ چور بھی مونگی اور اس کی سہیلیوں کی چپ کر جو باتیں سن رہا تھا ۔

ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا مونگی کے جس سہیلی کا گھر آتا جاتا وہ اپنی باقی سہیلیوں کو رب راکھا یعنی خدا حافظ

کہہ کر اپنے گھر میں داخل ہو جاتی کچھ دیر کے بعد مونگی آکیلی رہ گئی پھر مونگی کا گھر بھی آگیا اور وہ بھی اپنا

پانی سے بھرا ہوا گھڑا لے کر اپنے گھر میں داخل ہو گئی اس طرح اس چور نے مونگی کے گھر کا پتہ معلوم کر

لیا چور واپس اپنے گھر چلا گیا چند دنوں کے بعد وہ چاول چینی سویاں چوڑیاں اور موتی چور کے لڈووں کا

ڈھیر لے کر گٹھلی میں باندھ کر مونگی کے گاؤں آگیا چور نے گاؤں والوں سے مونگی کے گھر کا پتہ پوچھنا

شروع کر دیا بھائیوں یہاں مونگی نام کی کوئی عورت رہتی ہے۔

 لوگوں کے کیا معلوم تھا اس لیے انہوں نے چور کو بتا دیا کہ وہ سامنے والا گھر مونگی کا ہے چور نے مونگی کے

گھر کا دروازہ جا کر کھٹکھٹایا مونگی نے دروازہ کھولا وہ اپنے سامنے ایک اجنبی شخص کو کھڑا دیکھ کر حیران رہ گئی

مونگیں چور سے پوچھا تم کون ہو چور نے کہا میں مونگی کا بھائی ہوں اور مونگی سے ملنا چاہتا ہوں کیا تم مونگی

ہی ہو مونگے کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اس نے جلدی سے کہا میں ہی مونگی ہوں لیکن میرا تو کوئی بھائی

نہیں ہے میں تو اکیلی ہی ہوں چور نے کہا مونگی میں تمہارا بھائی ہوں بچپن میں تم ہم سے بچھڑ گئی تھی اور

آج کئی سال کے بعد ماں کو معلوم ہوا ہے کہ مونگی میری بیٹی اس گاؤں میں رہتی ہے تو ماں نے مجھ سے کہا

کہ جاؤ اور آج اپنی بہن موی سے ملاؤ اور کہنا کہ یہ گٹھلی ماں نے تمہیں عید کے لیے بھیجی ہے چور نے وہ

گٹھلی مونگی کو دے دی اور اس سے کہا بہن اب میں واپس گھر چلتا ہوں مونگی نے وہ گٹھلی لے لی اس نے

چور کو اپنا بھائی سمجھنا شروع کر دیا ۔

مونگی نے چور کو اپنے گھر میں بٹھایا اور اس کے خوب خاطر تواضع کی اسے لسی پیش کی اور اس کے سامنے

کئی قسم کے پھل رکھے اگلے روز جوہر مونگی سے اجازت لے کر چلا گیا مونگی اب بہت خوش تھی اس نے

اپنی تمام سہیلیوں کو بتایا کہ میرا بچھڑا ہوا بھائی مجھے مل گیا ہے اور وہ میرے لیے عید لے کر آیا تھا اس نے

اپنی سہیلیوں کو گٹھلی کی تمام چیزیں دکھائیں اور کھانے کے لیے سہیلیوں کو موتی چور کے لڈو دیے اس کی

سہیلیاں بھی بہت خوش ہوئی اور کہنے لگیں چلو اچھا ہوا تمہیں تمہارا بچھڑا ہوا بھائی تو مل گیا۔

 کچھ دنوں کے بعد چور دوبارہ ایا مونگی اپنے بھائی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اس نے چور کی بہت خاطر

تواضوں کی چور نے مونگی سے کہا بہن اماں جی تمہیں بہت زیادہ یاد کر رہی ہیں آج ماں کی طبیعت خراب ہو

گئی ماں نے مجھے کہا کہ میں مونگی سے ملنا چاہتی ہوں تم جا کر مونگی کو لے آؤ جب مونگی نے اپنی والدہ کی

طبیعت کے خراب ہونے کا سنا تو وہ انکار نہ کر سکی فورا ہی چور کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو گئی اور اس نے

اپنے گھر کا دروازہ بند کیا تالا لگایا اپنے بیٹے کو ساتھ لیا اور چور کے ساتھ جو اس کا بھائی بنا ہوا تھا چل پڑی کچھ

فاصلہ طے کرنے کے بعد مونگی کے بیٹے کو پیاس لگی۔

Qissa Chalaak Jatti Ka

 اس نے کہا اماں مجھے پیاس لگی ہے مونگی نے کہا ماموں سے کہو بچے نے چور سے کہا ماموں ماموں مجھے پیاس

لگی ہے مجھے پانی تو پلاؤ چور نے کہا بیٹا میں ابھی تمہیں پانی پلا دوں گا تھوڑا سا سفر اور طے کر لو پھر ایک کنواں

آ جائے گا وہاں سے جی بھر کر پانی پی لینا مونگی کا بیٹا خاموش ہو گیا اور کنویں کے انے کا انتظار کرنے لگا کچھ

دیر کے بعد مونگی کے بیٹے نے پھر کہا امی مجھے پیاس لگی ہے مونگی بولی مامے سے کہو بچے نے پھر چور سے کہا

ماموں مجھے پیاس لگی ہے مجھے پانی پلا دو چور نے پھر وہی جواب دیا بیٹا تھوڑی دیر صبر کر لو ابھی کنواں آنے ہی والا ہے بچہ پھر خاموش ہو گیا کچھ دیر کے بعد چور کا گاؤں قریب آگیا مونگی کے بیٹے نے تیسری بار اپنی ماں سے پانی مانگا مونگی نے پھر وہی جواب دیا بچے نے چور سے کہا تو چور اگ بگولا ہو کر بولا میں تمہارا کوئی ماموں نہیں ہوں مجھے بار بار مامو کہہ کر نہ بلاؤ جب مونگی کے بیٹے نے غصے سے بھری ڈانٹ سنی تو وہ ڈر گیا اور اپنی ماں کے کندھے سے لگ کر سو گیا۔

 مونگی کو شک ہو گیا کہ ضرور تال میں کچھ کالا ہے اس چور کا رویہ ایک دم کیسے بدل گیا موی بہت چالاک

اور ہوشیار عورت تھی اس نے سوچا کہ کہیں ادمی میرے بیٹے کو مار ہی نہ ڈالے کچھ ہی دیر بعد ایک کنواں آ

گیا مونگی نے ڈول سے پانی نکال کر اپنے بیٹے کو پلایا مونگی کا بیٹا اس قدر ڈر چکا تھا کہ وہ پانی پینے کے بعد پھر

گہری نیند سو گیا مونگی نے اپنے بیٹے کو کنویں کے قریب بھی گھاس پر لٹا دیا اور اسے یہ کہتے ہوئے کنویں کے

سپرد کر دیا حضرت خضر علیہ السلام میں اپنا بیٹا آپ کے حوالے کرتی ہوں اس کی حفاظت کرنا میں واپسی پر

اپنا بیٹا آپ سے لے لوں گی اب مونگی اگے اکیلے ہی چور کے ساتھ روانہ ہو گئی چور بھی خوش ہو گیا چلو بچے

سے جان تو چھٹی چور مونگی کو لے کر اپنے گھر اپنی ماں کے پاس پہنچا چور کی ماں چارپائی پر بیٹھی ہوئی تھی وہ

بہت بوڑھی تھی چور نے کہا ماں ماں دیکھو میں تمہارے لیے کتنی خوبصورت بہو لے کر آیا ہوں۔

 جب مونگی نے یہ سنا تو اس نے حیرانی سے چور کی طرف دیکھا جو اس کا بھائی بنا تھا چور مکارانہ ہنسی ہنس رہا تھا

مونگی نے کہا تم نے تو مجھے اپنی بہن کہا تھا تم نے مجھے دھوکہ کیوں کیا چور بولا تم مجھے اچھی لگی اور مجھے پسند

آگئی اس لیے دھوکے سے میں تمہیں تمہارے گھر سے لے آیا ہوں اب میں تم سے شادی کروں گا چور

نے مونگی کو بتایا ہم سات بھائی چور ہیں ہمارا ایک بھائی ایک آنکھ سے کانا اور یہ ہماری ماں ہے کچھ دیر کے

بعد چور کے باقی چھ بھائی بھی آگئے جب انہوں نے مونگی کو دیکھا تو وہ دیکھتے ہی دیکھتے رہ گئے مونگی بے حد

خوبصورت تھی پھر چور کے باقی بھائیوں میں سے ہر ایک نے کہنا شروع کر دیا کہ اس لڑکی سے تو شادی

میں کروں گا جو چور مونگی کو پہنک بنا کر گھر میں لایا تھا فورا بولا یہ میری ہے صرف میں اس سے شادی

کروں گا وہ آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے آخر کار چور کی ماں نے کہا بیٹا تم یوں نہ لڑو تم سب گھر سے باہر

چلے جاؤ اور چوری کر کے لاؤ جو سب سے زیادہ قیمتی سامان اور پیسے چوری کر کے لائے گا میں اس کی شادی

مونگی سے کر دوں گی۔

 یہ سن کر تمام چور بہت خوش ہوئے اور چوری کرنے کے لیے روانہ ہو گئے مونگی بیچاری پریشان تھی کہ

کس مصیبت میں پھنس گئی مگر اب وہاں سے فرار آسان نہ تھا چور کی ماں بار بار اپنے سر میں خارش کر رہی

تھی اماں جی میں تمہارا سر دیکھ دوں کہیں سر میں جوئیں تو نہیں پڑ گئیں جو بار بار اپنا سر کھجا رہی ہیں مونگی

نے اتنے پیار بھرے انداز میں کہا کہ چوروں کی ماں انکار نہ کر سکی مونگی نے اس کے سر کے بالوں کو کھولا

اور ان میں کنگی کرنا شروع کر دی جس سے چوروں کی ماں کا سکون ملنا شروع ہو گیا مونگی نے چوروں کی

ماں سے کہا اماں جان تمہارا سر تو جوں سے بھرا ہے اور تمہارے کپڑے بھی بہت گندے ہو گئے ہیں

تمہارے جسم پر میل بھی جمع ہوا ہے۔

 میں ابھی تم کو گرم گرم پانی سے نہلا دیتی ہوں تمہارے جسم سے محل اتر جائے گا اور تمام جوئیں بھی مر

جائیں گی چوروں کی ماں نے پہلے تو بہت انکار کیا لیکن مونگی کے بار بار اصرار پر آخر نہانے کے لیے

رضامند ہو گئی مونگی نے چلہے میں آگ جلائی ایک ایک دیکچے میں پانی بھر کر چولہے پر گرم کرنے کے لیے

رکھ دیا جب پانی خوب گرم ہو گیا اور ابلنے لگا تو مونگی نے چوروں کی ماں سے کہا اماں تمہارے نئے کپڑے

کہاں پڑے ہوئے ہیں وہ بولی بیٹی اس سامنے والی کمرے میں پڑے ہیں مونگی جب اس کمرے میں گئی تو

وہاں سات بڑے بڑے مٹی کے مٹکے پڑے ہوئے تھے مونگی نے ان مٹکوں سے ڈھکن اتار کر ان کے اندر

دیکھا تو اس کے انکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی۔

Qissa Chalaak Jatti Ka

 کیونکہ وہ ساتوں مٹکے سونے چاندی کے اشرفوں سے بھرے ہوئے تھے یہ ساتوں چوروں کی جمع پونجی

تھی مونگی نے کمرے سے چوروں کی ماں کے کپڑے تلاش کیے اور انہیں لے کر کمرے سے باہر نکل آئی

اب مونگی نے چوروں کی ماں کو چارپائی کھڑی کر کے اس کی اوٹ میں کنویں کے پانی سے نہلانا شروع کر

دیا پہلے چوروں کی ماں کو ٹھنڈے پانی سے نہلایا پھر اس کے سر اور بدن پر گرم پانی ڈال دیا جس سے

چوروں کی ماں کا سر اور جسم جل گیا جسم پر چھالے ہی جھالے پڑ گئے بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی

وہ بیچاری بوڑھی عورت تڑپ تڑپ کر مر گئی مونگی نے اسے نئے کپڑے پہنا کر پنگوڑے میں لٹا دیا اس کے

جسم پر ایک چادر ڈال دی ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ سو رہی ہو۔

 چوروں کی پالتو بلی کو اٹا پیسنے والی چکی کے ساتھ رسی سے باندھ دیا بلی نے چکی کے گرد چکر لگانے شروع کر

دیے اس کے چکر لگانے سے جو اواز پیدا ہوتی تھی اس سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے چکی چل رہی ہو پھر مونگی

نے کمرے کی صفائی کی چوروں کے ساتوں مٹکوں سے سونے چاندی کے اشرفیاں اور تمام قیمتی سامان انہی

کے گڈے یعنی بیل گاڑی پر لادا اور بیلوں کو ہانکتی ہوئی اپنے گھر کی طرف چل دی کچھ ہی دیر کے بعد وہ

کنواں آ گیا جہاں اس نے اپنے بچے کو چھوڑا تھا اسے وہاں پر اپنا بچہ مل گیا جو کنویں کے اس پاس سے کھیل رہا

تھا مونگی نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنے بیٹے کو اٹھا کر بیل گاڑی پر رکھا کچھ ہی دیر میں وہ قیمتی سامان سے بھرا

ہوا وہ بیل گاڑی لے کر اپنے گھر اگئی۔

 گاؤں کے لوگ بہت خوش ہوئے کہ مونگی کے بھائی نے اس کو بیل گاڑی بھر کر قیمتی سامان سے دی ہے

ادھر جب ساتوں چور چوری کر کے واپس اپنے گھر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کمرے کا دروازہ بند ہے اور چکی

چلنے کی آواز ارہی ہے ان ساتوں چوروں میں سے جو کانا چور تھا بولا بھائیو بہو ہو تو ایسے ہی جو ماں کا پنگوڑا

جلائے اور خود چکی میں آٹا پسے جب انہوں نے دروازہ کھول کر دیکھا تو ان کی ماں پر مڑے میں مری پڑی

تھی اور چکی کے ساتھ بلی بندھی ہوئی تھی جو چکی کے گرد چکر لگا رہی تھی۔

 جس کی وجہ سے چوروں کو چکی چلتی محسوس ہوئی کمرے میں چوروں کی جمع پونجی تمام چوری کا سامان اور

اشرفیاں غائب تھی مٹی کے مٹکے ٹوٹے ہوئے زمین پر پڑے تھے چور کے گھر مور چور اپنی ماں کے مر

جانے کی وجہ سے بہت روئے ساتوں چوروں نے ارد گرد کے علاقے میں مونگی کو تلاش کرنا شروع کر دیا

کہ شاید وہ اپنے گھر نہ پہنچی ہو اور ابھی راستے میں ہی ہو چوروں نے اپنی ماں کا کفن دفن کرنے کے بعد

مونگی سے بدلہ لینے کا منصوبہ بنا لیا جب رات 12 بجے چور مونگی کے گھر آئے تو انہیں مونگی کا دروازہ ہی

نہ ملا مونگی کو پہلے ہی پتہ چل چکا تھا کہ چور اپنی ماں کو دفن کرنے کے بعد اس کے گھر چوری کرنے اور اپنا

بدلہ لینے کے لیے ضرور ائیں گے اس لیے اس نے گھر کا دروازہ اکھاڑا اور دوسری دیوار میں لگا دیا تاکہ وہ

چور بھول جائیں کہ دروازہ کہاں تھا جو بہن بنا کر مونگی کو اپنے گھر لے گیا تھا چور اپنے چھ بھائیوں کو بھی

لے کر مونگی کے گھر آگیا چور نے کہا بھائیو گھر تو یہی ہے اب اس کا دروازہ وہاں لگا ہے پہلے تو یہاں لگا تھا

چور کے بھائیوں نے کہا بھائی کہیں تم مونگی کا گھر بھول تو نہیں گئے۔

 ایسا نہ ہو کہ یہ کسی اور کا گھر ہو چور نے کہا نہیں بھائیوں گھر تو یہی معلوم ہوتا ہے لیکن دروازہ وہاں کیسے چلا

گیا پھر چوروں نے مونگی کے گھر کی دیوار میں نقب لگانا شروع کر دی یعنی چوری کرنے کے لیے دیوار میں

سوراخ لگانا شروع کر دیا مونگی آواز سن کر جاگ گئی اس نے پہلے یہ کہ تیز درانتی اپنی چرپائی کے قریب

رکھی ہوئی تھی مونگی نے درانتی اٹھائی اور دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئی ہولے ہولے چوروں نے

دیوار میں اتنا بڑا سراخ بنا لیا کہ اب وہ گھر میں آسانی سے داخل ہو سکتے تھے ایک چور نے مونگی کے گھر

داخل ہونے کے لیے دیوار میں اپنا منہ اندر کی طرف کر لیا مونگی نے فورا ہی اپنی تیز درانتی اس چور کی

ناک پر ماری چور کی ناک کٹ کر دور زمین پر جا  گری  درانتی اس قدر تیز تھی کہ چور کو اپنی ناک کٹ جانے

کی تھوڑی بھی تکلیف نہ ہوئی اس نے اپنا منہ دیوار سے پیچھے ہٹا لیا اور باقی چوروں سے بولا بھائیوں مجھے یوں

محسوس ہوتا ہے جیسے دیوار کے آگے کیکر کے کانٹے پڑے ہوئے ہیں جو میری ناک کو لگ گئے ہیں اور

میری ناک پر خارش ہو رہی ہے۔

 پھر دوسرا چور بولا میں تم ادھر ہو جاؤ میں دیکھتا ہوں اب اس نے اپنا سر دیوار کے سوراخ میں گھر کے اندر

کیا تو مونگی نے اس چورکی ناک پر بھی درانتی سے وار کیا اس کی ناک بھی کٹ کر دور زمین پر جا گری اس

نے بھی باقی چوروں سے کہا بھائیوں میری ناک پر بھی خارش ہو رہی ہے ضرور کانٹے ہی ہوں گے پھر

تیسرے چور نے کہا بھائی تم دیوار سے پیچھے ہٹ جاؤ میں دیکھتا ہوں۔

 جب اس چور نے دیوار کے سوراخ سے گھر کے اندر منہ کیا تو مونگی نے اس کی ناک پر بھی درانتی ماری اس

کی ناک بھی کٹ کر زمین پر دور جا گری اسی طرح یکے بعد دیگرے ساتوں چوروں نے دیوار کے سوراخ

سے اندر دیکھا مونگی نے ساتوں چوروں کی ناکوں پر دراندی مار مار کر ان کے ناکے کاٹ دی چور خوفزدہ ہو

کر وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے جب ان کی ناکوں سے خون بہنے لگا تو انہیں تکلیف محسوس ہوئی انہوں

نے چہروں پر ہاتھ لگا کر دیکھا تو ان کی ناکے غائب تھی پھر انہوں نے ایک دوسرے سے کہا بھائیوں مونگی

نے سچ مچ ہماری نہ کاٹ دی ہے وہ جو دیوار میں ہمیں کانٹے محسوس ہو رہے تھے ہماری ناک پر خارش ہو

رہی تھی وہ تو دراصل مونگی نے ہماری ناک ہی کاٹ دی تھی چوروں نے گاؤں کے ایک نائی سے علاج

کروایا پرانے زمانے میں نہ ہی جرا ہوتے تھے جو زخم سیدھے تھے خون تو بند ہو گیا زخم بھی بھر گئے لیکن

ناکوں کے نہ ہونے کی وجہ سے ان کے چہرے بد صورت ہو گئے اب انہوں نے پھر مونگی کے گھر چوری

کرنے کا منصوبہ بنایا اور اپنے اس توہین کا بدلہ لینے کا سوچا ۔

مونگی بیچاری سو رہی تھی کہ ساتوں چور اس کے گھر میں داخل ہو گئے انہوں نے مونگی کی چارپائی اٹھائی اور

سروں پر رکھ کر چل پڑے کچھ دور جانے کے بعد ایک چور نے کہا بھائیو ںمیں تھک گیا ہوں اب مجھ سے

چارپائی نہیں اٹھائی جاتی میری جگہ کوئی اور ا کر چارپائی کو پکڑے جب مونگی نے یہ آواز سنی تو وہ جاگ اٹھی

اسے پتہ چل گیا کہ چور اس کی چارپائی اٹھا کر لے جا رہے ہیں مونگی نے دل میں کہا اب میں بھاگ نہیں

سکتی بھاگی تو چور مجھے پھر پکڑ لیں گے اس لیے چارپائی پر لیٹے ہی رہنا چاہیے راستے میں ایک بوڑ یعنی برکت کا

درخت اگیا اس کے شاخیں بہت جھکی ہوئی تھیں مونگی نے بوڑ کی شاخ کو پکڑ لیا اور درخت پر چڑھ گئی

چوروں کو پتہ ہی نہ چلا اور وہ خالی چارپائی لے کر آگے چلتے چلے گئے کانا چور چارپائی کے پیچھے پیچھے جا رہا تھا ۔

اس نے کہا بھائیوں رک جاؤ تم تو خالی چارپائی اٹھائی لیے جا رہے ہو جو انہوں نے کہا ہم چارپائی اٹھا اٹھا کر

تھک گئے ہیں اور تم کہہ رہے ہو کہ خالی چرپائی لیے جا رہے ہو کانے چور نے کہا بھائیو مونگی تو راستے میں

ایک بوڑ کے درخت پر چڑھ گئی تھی ایک آنکھ والے کی نظر بہت تیز ہوتی ہے رات کو اسے باقی چوروں

سے زیادہ نظر اتا ہے چوروں نے چارپائی نیچے رکھی دیکھا تو واقعی چارپائی خالی تھی تمام چور واپس برکت

 کے درخت کی طرف بھگےمونگی درخت کے اوپر چڑھ کر پتوں میں چھپ کر بیٹھی تھی کانے چور کو مونگی

برکت کے پتوں میں چھپی ہوئی نظر آگئی باقی چوروں نے کہا ہمیں تو کہیں نظر نہیں ارہی کانے چور نے کہا

وہ دیکھو مونگی برکت کے پتوں میں چھپ کر بیٹھی ہوئی ہے باقی بھائیوں نے کانے چور سے کہا بھائی تم ہی

برت کے درخت کے اوپر چڑھ جاؤ اور مونگی کو درخت سے نیچے اتار لاؤ کانا چور برگد کے درخت پر چڑھ گیا

جب وہ مونگی کے قریب پہنچا تو مونگی نے اس کے جبڑے پر لات ماری اور بوڑ کے درخت سے نیچے گر گیا

اور اس کی زبان دانتوں کے نیچے آ کر کٹ گئی کانا چور نیچے اپنے بھائیوں پر گرا۔

 انہوں نے چیخ چیخ کر کہا بلا آگئی بلا وہ سر پر پاؤں رکھ کر وہاں سے بھاگے ان میں سے ایک چور نے کہا

بھائیوں کہیں وہ ہمارا بھائی کانا تو نہیں تھا آؤ دیکھیں ہمارے اوپر کیا گرا تھا جب وہ دوبارہ برکت کے درخت

کے نیچے گئے اور انہوں نے دیکھا تو واقعی وہ ان کا بھائی کانا چور ہی تھا وہ تو تلا ہوا تھا اور عجیب انداز سے بول

رہا تھا اور رو رہا تھا چوروں نے اپنے بھائی کو پہچان لیا لیکن مونگی وہاں سے نو دوگ ہو چکی تھی ساتوں چور

نامراد واپس اپنے گھر لوٹ آئے کانے چور نے گاؤں کے نائی سے اپنا علاج کرایا اور جب وہ ٹھیک ہو گیا تو

چوتھی مرتبہ پھر ساتوں چور مونگی کے گھر آئے انہوں نے مونگی کے گھر کا تمام قیمتی سامان گٹھلیوں میں

باندھ لیا۔

 مونگی جاگ گئی مونگی نے گنڈا سا یعنی ایک لاٹھی جس میں تیز دھار لوہے کا ہتھیار لگا ہوا تھا وہ اٹھا لیا اور

چوروں سے نظر بچا کر اپنے گھر کے دروازے کے باہر جا کر کھڑی ہو گئی ساتوں چوروں نے ایک ایک

گٹھلی اٹھائی مونگی کے گھر سے باہر نکلنے لگے جو چور بھی گھر سے باہر نکلتا مونگی اس کو اسی ہتھیار سے مار ڈالتی

اسی طرح مونگی نے ساتوں کے ساتوں چوروں کو مار ڈالا اب مونگی نے ساتوں گھٹلیوں کو کھولا اور اپنا قیمتی

سامان گھر میں واپس رکھ دیا پھر اس نے سات ایک جیسی کپڑے کی چادریں لی اور ایک ایک چادر میں ایک

ایک چور کو باندھ دیا۔

 صبح فجر کی نماز کے بعد روزانہ ایک فقیر مونگی کے گاؤں میں اتا تھا اور صدا لگاتا تھا جب وہ مونگی کے گھر کے

قریب سے گزرا تو مونگی نے فقیر سے کہا بابا جی اپ سارے دن میں کتنے روپے کما لیتے ہیں فقیر بولا بیٹی

میں سارے دن میں 10 روپے کما لیتا ہوں مونگی نے اس فقیر سے کہا ایک جادوگر مجھے روزانہ تنگ کرتا

تھا آج میں نے اس کو مار کر اس گٹھلی میں باندھ دیا ہے بابا جی اپ گٹھلی کو ایسی جگہ پھینک کر انا جہاں سے

جادوگر واپس نہ سکے اس کے بدلے میں اپ کو 100 اشرفیاں دوں گی فقیر اشرفیوں کا سن کر لالچ میں اگیا

اور بولا میں ابھی اس کو دریا میں پھینک کر آتا ہوں جہاں سے یہ کبھی واپس نہ ا سکے گا مونگی بولی بابا جی اس

جادوگر کو کسی گہری جگہ پر ہی دریا میں پھینکنا ۔

فقیر نے کہا بیٹی تم فکر ہی نہ کرو وہ فقیر اس گٹھلی کو اٹھا کر لے گیا جس میں ایک مرا ہوا چور بنا تھا فقیر نے

گٹھلی دریا میں لے جا کر پھینک دی فقیر سوچ اشرفیوں کا انعام لینے کے لیے واپس گھرایا اس نے بتایا کہ بیٹی

میں اسے دریا میں پھینک آیا ہوں اب مونگی نے دوسرے چور والی گٹھلی نکال کر باہر رکھ دی اور کہا بابا جی

یہ جادوگر اپنے جادو کے زور سے پھر واپس آگیا ہے اب فقیر نے وہ گٹھلی دیکھی تو حیران ہو گیا کیونکہ گٹھلی

بالکل پہلے جیسی گٹھلی کی طرح تھی فقیر نے گٹھلی اٹھائی اور دل ہی دل میں کہا اب میں اسے زیادہ گہری جگہ

پر پھینکوں گا جہاں سے واپس نہ سکے دوسری مرتبہ فقیر گٹھلی دریامت پھینک کر واپس آیا اور ا کر مونگی

سے بولا بیٹی اب تو جادوگر واپس نہیں آیا مونگی نے تیسری گٹھلی نکال کر باہر رکھ دی فقیر اور حیران ہوا

مونگی نے کہا بابا جی یہ جادوگر ہر مرتبہ واپس آ جاتا ہے اسے کسی گہری جگہ پھینک کر اؤ ۔

فقیر کو دل ہی دل میں شدید غصہ آیا اس نے فیصلہ کیا کہ اب میں اس گٹھلی کو اور زیادہ گہری جگہ پر پھینک

دوں گا اس طرح چھ بار ہوا جب فقیر ساتویں بار چور والی گٹھلی کو پھینک کر واپس آنے لگا تو اس کے قریب

سے ایک پنڈی گزرا وہ گنگا اشنان کے بعد رام رام جپتا ہوا گھر کو جا رہا تھا ونڈت نے جسم پر لنگوٹ باندھ

رکھا تھا فقیر نے پنڈت کو بھی اٹھا کر دریا میں پھینک دیا ۔

گویا فقیر نے سات چوروں کی گڈیوں کے ساتھ ساتھ ایک پنڈت کو بھی دریا میں پھینک دیا جب واپس

مونگی کے پاس ایا اور پوچھا بیٹی اب تو جادوگر واپس نہیں آیا مونگی نے کہا بابا جی اب واپس نہیں ایا اپ نے

اسے کہاں پھینکا فقیر نے کہا بیٹی میں نے اسے گہرے دریا میں پھینک دیا جب میں پھینک کر آ رہا تھا تو

جادوگر دریا سے نکل کر رام رام جگتا ہوا میرے آگے چل پڑا میں نے اسے راستے میں ہی دبوش لیا اور دریا

میں پھینک دیا مجھے یقین تھا کہ اب جادوگر وہ واپس نہیں ا سکے گا مونگی بہت خوش ہوئی اس نے فقیر کو

سوچ اشرفیاں انعام میں دے دی اور اپنے گھر میں اپنے بیٹے کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگی جب مونگی کا

خاوند ہم جپتا ہوا میرے اگے چل پڑا میں نے اسے راستے میں ہی دبوچ لیا اور دریا میں پھینک دیا مجھے یقین

تھا کہ اب جادوگر وہ واپس نہیں اس سکے گا مونگی بہت خوش ہوئی اس نے فقیر کو سوچ رفیاں انعام میں

دے دی اور اپنے گھر میں اپنے بیٹے کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگی جب موقع کا خاوند فوجی چھٹی پر واپس

گاؤں ایا وہ سن کر خوش بھی ہوا اور حیران بھی سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔

کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment