7 bewaqoof auraton ka Ajeeb o ghareeb waqia
اسلام علیکم اُمید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے ۔
آج کی کہانی میں خوش آمدید
سات بے وقوف عورتوں کا عجیب قصہ کسی گاؤں میں سات عورتیں ایک جگہ رہتی تھی سارا
دن چرکھا کاٹا کرتی جب ان کے پاس بہت سا سود اکٹھا ہو گیا تو سب نے صلاح کی کہ اس کو شہر لے جا کر بیچ
دیں گی مگر پردہ نشین اور عورتیں تھیں دن کے وقت نہیں نکلتی تھی ایک دن رات کو چادریں اڑ کر سود کی
گھڑیاں سروں پر رکھ کر گھروں سے نکلی شہر پہنچتے پہنچتے رات کے 12 بج گئے گشت کے سپاہی پہرہ دے
رہے تھے انہوں نے جب دیکھا کہ تین عورتیں سروں پر گھڑیاں رکھی چلی آ رہی ہیں وہ سمجھے چور ہے دور
سے للکارا کون ہو تم اور کہاں سےآ رہی ہو یہ ساتوں عورتیں ڈر گئی اور کوئی جواب نہیں دیا سپاہی نے
قریب ا کر پوچھا بولتی کیوں نہیں یہ تمہارے سر پر کس چیز کی گھڑیاں ہیں۔
ایک عورت نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا بھائی یہ سود ہے ہم شہر میں بیچنے جا رہے ہیں سپاہی نے ڈانٹ کر کہا
ہمیں بے وقوف بنا رہی ہو رات کے 12 بجے کون سا بازار کھلا ہے جو تم سود بیچنے جا رہی ہو ضرور کہیں سے
چوری کر کے آرہی ہو چلو میرے ساتھ تھانے یہ سات تو ہاتھ جوڑنے لگی اس کی منتیں کرنے لگی لیکن اس
نے ایک نہ سنی اور انہیں اپنے ساتھ لے گیا تھانے پہنچ کر سپاہی نے دروغہ جس سے ان کی شکایت کی وہ
اس وقت سو رہے تھے نیند میں انہوں نے کہہ دیا کہ حوالات میں بند کر دو ان سب کو ایک کوٹھری میں
بند کر دیا گیا جس میں صرف ایک کھڑکی تھی جو برآمدے میں کھلتی تھی۔
کھڑکی کے سامنے دروغہ جی کا پلنگ لگا تھا جہاں وہ سو رہے تھے وہ ساعتوں کوٹھری میں بند ہو کر پہلے اپنے
قسمت پر روتی رہی اور پھر جب دل ہلکا ہو گیا تو باتیں کرنے لگی ایک نے کہا رات کیسے گزرے گی کوئی قصہ
یا کہانی شروع کرو دوسری نے کہا آپ بیتی سنو گے یا جگ بیتی تیسری نے کہا بہن آپ بیتی سناؤ ۔
پہلی نے اپنی کہانی اس طرح سنانا شروع کی کہ میں ایک چاپراسی کی بیوی تھی گھر میں نہ کوئی ساس تھی نہ
نند دونوں میاں بیوی سکون سے جی رہے تھے میاں کے پاس جتنا روپیہ تھا اس کا انہوں نے مجھے سونا بنوا
دیا تھا اور کہا تھا کہ اپنا زیور احتیاط سے رکھنا نوکری کا کوئی بھروسہ نہیں حاکم بہت بدتمیز ہے ہمیشہ مجھ سے
ناخوش رہتا ہے اگر نوکری چلی گئی تو زیور بیچ کر دکان بناؤں گا میں نے انہیں اطمینان دلایا کہ میں سارا زیور
صندوق میں رکھتی ہوں اور صندوق کو تالا لگا کر چابی اپنے پاس رکھتی ہوں میں سارا دن گھر میں پریشان ہو
جاتی تھی میں نے شوہر سے کہہ کر ایک بکری لے لی اور اس کا نام بدو رکھا میں بکری سے اپنا دل بہلا لیتی
میاں ناشتہ کر کے دفتر چلے جاتے اور دوپہر کا کھانا کھانے گھر آتے ایک دن میاں کو آنے میں دیر ہو گئی اور
میں انتظار کرتے کرتے تھک گئی مجھے بہت بھوک لگی تھی میں ہمیشہ پہلے شوہر کو کھانا کھلاتی پھر خود کھاتی
تھی ۔
لیکن اُس دن میرے شوہر کو آنے میں بہت دیر ہو گئی میں نے ایک ترکیب سوچی کہ بدو کے ذریعے کھانا
اپنے شوہر کو بھجوا دیتی ہوں میں نے بدو سے پوچھا کیا تم کھانا لے جاؤ گے اس نے گردن ہلا کر ہاں کہا میں
نے خوشی خوشی اس کے بالوں میں چمبیلی کا تیل لگا کر کنگھی کی اور اسے اپنا سارا زیور پہنا دیا یقین مانو بہن وہ
بہت پیاری لگ رہی تھی پھر میں نے ایک اُجلے دسترخوان میں کھانا باندھا اور اس کی گردن میں لٹکا دیا
میں نے اس پر اپنا بھاری دوپٹہ اڑا دیا اور اسے دروازے سے باہر نکال دیا پھر میں نے کھانا کھایا اور برتن
دھوئے پھر اپنے پلنگ پر لیٹی تھی کہ میاں گھبرائے ہوئے ائے اور اتے ہی کہا بیوی جلد ہی کھانا دیں میں
ہنسنے لگی اور کہا کہ میرے ساتھ مذاق نہ کیا کریں کیا آپ کا کھانا اپ تک پہنچا نہیں شوہر نے پوچھا میرا کھانا
کون لے کر گیا میں نے کہا اپنا ہی آدمی لے کر گیا ہے ۔
شوہر نے تیز آواز میں پوچھا اپنا آدمی کون سا اپنا آدمی میں نے کہا کیا تم بدو کو نہیں جانتے شوہر نے کہا تم نے
اس جانور کو کھانا دے کر بھیج دیا میں نے کہا کون سا جانور میں نے اسے انسان بنا کر بھیجا ہے شوہر نے کہا وہ
کیسے میں نے کہا میں نے اسے اپنا سارا زیور پہنا کر اور اپنا دوپٹہ اڑا کر بھیجا تھا تاکہ وہ تمہاری طرف کا چہرے
میں پہنچے تو میری شان میں اضافہ ہو شوہر نے جب یہ سو نا تو سر پیٹ دیا اور فورا گلی میں بھاگا اس نے ہر ایک
سے بدو کا پتہ پوچھا جو بھی سنتا ہنس دیتا آخر وہ کچہری تک پہنچ گیا لیکن بدو کا کچھ پتہ نہ چل سکا اس نے گھر ا
کر مجھے بازو سے پکڑ کر گھر سے نکال دیا کہ ایسی عورت کی میرے گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے بھلا تم ہی بتاؤ
بہن یہ کوئی بات ہوئی۔
دوسری عورت نے کہا بہن میرے میاں کافی پیسے والے تھے وہ تجارت کرتے تھے چھ مہینے گھر پر رہتے
اور چھ مہینے باہر میری شادی کو ایک مہینہ گزرا تھا کہ میاں کو پردیش جانا پڑا میری تنہائی کے ڈر سے اس نے
میری ماں کو بلوا لیا اس نے سارے سال کا سودا سلف گھر میں رکھوا دیا اور کچھ اوپر سے پیسے بھی دے گئے
اس کے علاوہ 20 روپے عید الفطر کے 20 شبراتی کے 20 محرم کے اور 20 بکرا ہی عید کے دے گئے
جب وہ چلے گئے میں نے اماں سے کہا اماں میاں جن جن کے پیسے دے کر گئے ہیں کیوں نہ انہیں آج ہی
دے دے اماں نے کہا کیوں نہیں بیٹی میں گلی میں کھڑی ہو گئی تھوڑی دیر بعد وہاں سے ایک آدمی گزرا
میں نے اس سے پوچھا کیا تم شبراتی ہو اس نے کہا آپ کو سبراتی سے کیا کام ہے میں نے کہا میرے شوہر
اس کے لیے پیسے دے گئے ہیں وہی اسے دینے ہیں اس نے کہا ہاں ہاں میں ہی شب راتی ہوں۔
وہ پیسے مجھے دے دو میں نے اسے 20 روپے دے دیے میں گلی میں کھڑی رہی کچھ دیر بعد ایک اور ادمی
نظر آیا میں نے اس سے پوچھاچھا کیا تم عیدو ہو اس نے کہا ہاں میں نے اسے بھی 20 روپے دے دیے اسی
طرح ایک اور آدمی آیا میں نے اس سے پوچھا کیا تم رمضان ہو اس نے کہا ہاں ہاں تو میں نے اسے بھی 20
روپے دے دی اسی طرح بکرا عیدو کے پیسے بھی دے دیے ہم ماں بیٹی خوش تھی کہ آج سب کا قرض اتر
گیا میرے گھر میں بہت سارا سامان موجود تھا اسی لیے میں نے محلے کے لوگوں سے کہا کہ اگر کسی کو کوئی
سودا چاہیے ہو تو لے لیا کریں جس کو جو چاہیے ہوتا لے جاتا محلے کی عورتیں میرے زیور اور کپڑے بھی
ادھار لے جاتی اور پھر واپس کر جاتی اسی طرح کچھ ہی دن میں سارا سامان ختم ہو گیا اور بات فاکوں پر آگئی۔
میں نے اپنے شوہر کو خبر بھیجا کہ اگر مجھے زندہ دیکھنا چاہتے ہو تو جلدی واپس آجاؤ شوہر اگلے دن واپس اگیا
اور پوچھا کہ کیا کوئی چوری ہو گئی ہے اتنا سامان اور پیسے کہاں گئے میں نے کہا آپ جس جس کو پیسے دے
گئے تھے میں نے ان کو دے دی میں نے خرچے کے پیسے ساتھ والی عورت کو ادھار دے دی کیونکہ اس کو
ضرورت تھی اور محلے کے لوگوں کو کھانے پینے کی چیزیں چاہیے تھی میں نے ان میں بانٹ دی تھی بس یہ
سننا تھا کہ اس نے مجھے ہاتھ پکڑ کر گھر سے نکال دیا بہن بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی جس پر مجھے گھر سے نکال
دیا گیا۔
یہ سن کر تیسری بیوقوف عورت بولی میرے میاں بھی دفتر میں نوکر تھے اللہ کا دیا ہوا سب کچھ تھا آرام
سے زندگی گزر رہی تھی میری شادی کو تین ماہ ہوئے تھے میرے پکائے گئے سب کھانوں میں میرے
شوہر کو حریرہ بہت پسند تھا میں جب بھی پکاتی میرا شوہر کہتا تم بہت تھوڑا بناتی ہو میرا پیٹ نہیں بھرتا کسی
دن بہت سا بناؤ یہ بات بار بار سن کر میں نے ایک ترکیب سوچی ایک دن جب شوہر دفتر گئے تو میں نے
پڑوسی کو کہہ کر اس کے شوہر سے سوجی شکر اور سارا سامان منگوا لیا گھر میں کنواں تھا میں نے سوجی شکر اور
سارا سامان اس میں ڈال دیا اور بانس لے کر ہلانے لگی تھوڑی دیر بعد چکھا تو فقہ تھا۔
میرے پاس پیسے نہیں تھے میں نے اپنے ہاتھوں کے کڑے بیچ کر اور سامان منگوا لیا میں نے سارا سامان
کنویں میں ڈال دیا لیکن وہ پھر بھی فقہ تھا میں نے تنگ ا کر اپنا سارا زیور پڑوسی کو دے دیے اور کہا اسے بیچ
کر اور سامان لا دو اس نے ایسا ہی کیا میں نے پھر سے سارا سامان کنویں میں ڈال دیا اب کی بار ہریرہ گاڑھا ہو
گیا لیکن اب بھی فقہ تھا۔
میں نے پڑوسی سے پوچھا اب کیا کروں اس نے کہا گھر گروی پر رکھوا کے اور سامان منگوا لو میں نے کہا
ٹھیک ہے یہ کام بھی تم کر دو اس کے شوہر نے جلدی سے گھر ر گروی پر رکھوا کے سامان لا دیا اب کی بار
سامان ڈالا اور ہلایا پھر چکھا تو اب ہریرہ میٹھا تھا میں نے شکر ادا کیا۔ تھوڑی دیر بعد شوہر آگیا اس نے آتے
ہی کھانا مانگا میں نے کہا آج میں نے کھانا نہیں بنایا ہے مجھے وقت نہیں ملا شوہر نے کہا کیوں ایسا کیا کیا ہے
میں نے کہا آج میں نے آپ کے لیے اتنا حریرہ بنایا کہ آپ خوش ہو جائیں گے اس نے کہا آچھا جلدی سے
لا دو میں نے کنویں میں ڈول ڈالا اور ڈول بھر کے ہریرہ باہر نکالا میں نے زبردستی ایک چمچ شوہر کے منہ
میں دیا اس نے کہا یہ کیا کیچڑ میرے منہ میں ڈال دی ہے مجھے یہ سن کر بہت غصہ آیا اور میں نے کہا میں
نے اتنی محنت کی ہے اور آپ اس کو کیچڑ کہہ رہے ہیں میں نے آپ کے لیے کنواں بھر کے ہریرہ بنایا ہے
آب ساری زندگی کھائیں گے تب بھی ختم نہیں ہوگا میں نے شوہر کو بتایا کہ میں نے زیور بیچ کر اتنا سامان
خریدا ہے شوہر نے حیران ہو کر پوچھا کیا زیور بیچ دیا ہے میں نے کہا ہاں اس سے بھی کام نہیں چلا تو میں نے
گھر کو ر گروی میں رکھ کر سامان لے آئی یہ سن کر شوہر غصے میں آگیا اور مجھے پکڑ کر گھر سے باہر نکال دیا کہ
ایسی عورت کی میرے گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
بھلا تو بھی بتاؤ بہن اس میں میرا کیا قصور تھا یہ سن کر چوتھی عورت بولی بہن میرے شوہر سوداگر تھے
گودام سامان سے بھرے رہتے تھے محل سامان لینے آتے اور کبھی شوہر بھی باہر جاتے تھے زیور کپڑے
کی کمی نہیں تھی لیکن میری عادت تھی کہ 15 15 دن کنگھی نہ کرتی تھی اور نہ ہی کپڑے بدلتی تھی شوہر
جب بھی گھر آتے نہ تم خود صاف رہتی ہو نہ گھر کو صاف رکھتی ہو تم سے صاف گھر کی لونڈیاں رہتی ہے
گھر کو صاف کروایا کرو خود بھی صاف رہا کرو یہ صاف سن کر میں تنگ آ گئی تھی ایک دفعہ شوہر کسی کام سے
دو دن کے لیے باہر گئے تو میں نے گودام کھول کر چونے کی بوریاں باہر نکلوائی اور پانی میں گھول کر پورے
گھر میں صفیدی کر دی لونڈیوں نے منع کیا تو میں نے انہیں ڈانٹ دیا۔
پھر زعفران نکلوا کر گھر کی دیواروں پر اس کے پودے بنوائے میں نے ایک بالٹی میں بہت سارا عطر ملایا اور
نہا لیا اپنا سارا زیور پہنا اور تیار ہو کر بیٹھ گئی شام سے پہلے شوہر گھر میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے یہی
پوچھا کیا کوئی عطر کی بوتلیں ٹوٹ گئی ہے آج تو بہت خوشبو آرہی ہے شوہر اتنی جلدی میں تھا کہ اس نے
گھر کی کسی چیز پر غور نہیں کیا اور سیدھا کمرے میں آئے میں تیار ہو کر بیٹھی تھی شوہر مجھے دیکھ کر پہلے ہنسنے
لگے اور پھر کہنے لگے کہ گودام کی چابی دو میں نے کہا ارے گھر تو دیکھیے شوہر نے گھر کی دیواروں کو دیکھا تو
کہا واہ دو دن میں تم نے سارے گھر میں سفیدی کروا دی ٹھیک ہے جلدی سے چابی دو باہر گرہک کھڑے
ہیں میں نے کہا گودام میں کیا رکھا ہے شوہر نے کہا سامان میں نے کہا وہاں کچھ نہیں ہے شوہر نے پریشانی
سے پوچھا کیا ہوا چوری ہو گئی ہے کیا میں نے کہا نہیں چوری کیوں ہوگی میں نے سارا سامان چونے میں ملا
کر گھر کی سفیدی کروائی ہے اور زعفران اور غلاب بھی اس میں ملوایا ہے اور خود بھی عطر سے نہائی ہوں
آپ ہی تو ہمیشہ شکایت کرتے تھے یہ سن کر پہلے شوہر نے اپنا سر پیٹ لیا اور پھر مجھے گھر سے نکال دیا۔
یہ سن کر پانچویں عورت بولی کہ میری شادی کو ابھی ایک مہینہ ہوا تھا کہ شوہر کو پردیش جانا پڑا مجھے اپنے
میاں سے بہت محبت تھی میں ان سے آٹھ دن کی دوری بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی شوہر کے جانے
سے بہت دن پہلے میں نے رونا شروع کر دیا شوہر نے مجھے یقین دلایا کہ میں جلدی واپس آ جاؤں گا میں نے
اس سے پوچھا کہ یہ بتا دیں کہ آپ کہاں جا رہے ہیں اس نے کہا میں بہت دور جا رہا ہوں راستے میں دریا آتا
ہے اور پھرکشتی کے ذریعے دوسری طرف جاتے ہیں میں چپ ہو گئی شوہر چلا گیا رات کسی طرح گزر گئی
لیکن جب دن ہوا تو میرا دل نہ لگا میں نے لوندی سے کہا کہ مجھے میرے شوہر کے پاس لے جاؤ تو اس نے
کہا کہ میں کیسے لے جاؤں راستے میں دریا آتا ہے اور پھرکشتی کے ذریعے جاتے ہیں میں نے اس سے کہا
کیوں نہ گھر میں دریا بنوا لے وہ خوش ہو گئی ہم نے مزدوروں کو بلا کر گھر کی کھڑکیاں اور روشندان بند کر
دیے اور پھر زیور بیچ کر گھر میں پانی ڈلوانا شروع کیا۔
سارے پیسے اور زیور بک گیا لیکن پانی اوپر نہ آیا میں نے محلے کے لوگوں سے کہا کہ کوئی میرا گھر خرید لے
اور پھر مجھے اس میں پانی ڈلوا دیں کوئی شخص نہ مانا آخر ایک ایسا ادمی ملا جس نے یقین دلایا کہ وہ مجھے پانی ڈلوا
دے گا نیز اس نے پانی ڈلوانا شروع کر دیا اور کچھ ہی دیر میں پانی بہت اونچا ہو گیا لونڈی نے پہلے ہی دو
گھڑے الگ رکھ لیے تھے ہم ان گھڑوں پر بیٹھ کر پانی میں اتر گئی اور سفر شروع کیا کبھی میں آگے نکل جاتی
تو کبھی لونڈی اس طرح ہم نے کئی گھنٹوں سفر جاری رکھا جب شام ہونے لگی تو میں نے لونڈی سے کہا کہ
اگر بیچ راستے میں رات ہو گئی تو ہم کیا کریں گے لونڈی نے کہا ہم اپنے گھر کی چھت پر بیٹھ جائیں گے اور
میں پڑوسی سے کھانا لے آؤں گی صبح پھر ہم سفر شروع کریں گے میں نے کہا پاگل آب یہاں کہاں سے
گھر آگیا لونڈی کہنے لگی ارے آب رات کی فکر نہ کریں دیکھیں ہم تو میاں صاحب تک پہنچ بھی گئے۔
یہ سن کر میں نے دیکھا تو میاں صاحب چھت پر کھڑے تھے میں نے ان سے کہا آپ ہمیں چھوڑ کر چلے
گئے تھے تو ہم خود آگئی چلیں آب ہم گھر سے نکل لیں شوہر نے کہا پاگل عورتوں یہ تم لوگوں نے گھر کا کیا
حال بنا رکھا ہے سارا محلہ ہنس رہا ہے میں تو کچھ کاغذ بھول گیا تھا وہی لینے آیا تھا اس نے بڑے سے راستے
سے ہمیں باہر نکالا لونڈی کو تو بہت مارا اور مجھے گھر سے نکال دیا آب بتاؤ یہ بھی کوئی وجہ تھی گھر سے نکالنے
کی۔
آب چھٹی عورت اپنا قصہ سنانے لگی میری شادی کو ایک ماہ گزرا تھا کہ رمضان شریف شروع ہو گیا ساس
اور نندے اپنے گھر چلی گئی آب بہت خوش تھی میرا شوہر ایک افسر تھا گھر میں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں تھی
رمضان آبھی چل رہا تھا کہ ایک دن شوہر کہنے لگا بیگم میں نے بہت سے لوگوں کے یہاں افطاری کی ہے
آب میں چاہتا ہوں کہ آخری روزے والے دن سب کو دعوت دوں میں نے کہا کیوں نہیں شوہر نے کہا
ٹھیک ہے پھر آخری روزے والے دن باورچی سب کھانا بنا دیں گے تم بس نکلوا کے بھیج دینا میں نے کہا
بالکل بے فکر ہو جاؤ سب ہو جائے گا آخری روزے والے دن میں نے صبح سے تیاری شروع کر دی مختلف
قسم کے کھانے بنوائے گئے بہت سی قسموں کے شربت تیار کیے گئے مزیدار کھیر تیار ہوئی جب مہمان
آنے لگ گئے تو میں چھت پر بیٹھ کر گننے لگی جب تعداد 40 سے زیادہ ہوئی تو مجھے بہت غصہ آیا کہ آخر
ایک بار بلانے پر یہ سب کیوں اگئے روزہ جب افطار ہوا صاحب نے مختلف شربت جی بھر کر پیے پھر کھیر
کھائی ایسا لگتا تھا جیسے انہوں نے پہلی بار کھانا دیکھا تھا آخر نماز کا وقت ہوا تو سب نماز پڑھنے لگے میں نے
سوچا کہ ہر طرح کے شربت پینے اور افطاری کرنے کے بعد اگر مہمانوں کی طبیعت خراب ہو گئی تو میرے
شوہر کی بہت بدنامی ہوگی یہ سوچ کر میں نے سارے کھانے چھت سے نیچے گرا دیے اور کچھ بھی نہ چھوڑا
نماز کے بعد میرا شوہر میرے پاس آیا اور کہا کہ جلدی سے کھانا بھجوا دو میں نے اسے ساری بات بتائی کہ
اس ڈر سے کہیں لوگوں کی طبیعت خراب نہ ہو جائے اور آپ کی بدنامی نہ ہو میں نے سارا کھانا پھینک دیا
یہ سننا تھا کہ میرا شوہر سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور کہا کہ بے وقوف عورت تم نے میری ناک کٹوا دیا آب میرے
گھر میں تمہاری کوئی جگہ نہیں ہے یہاں سے آبھی نکل جاؤ۔
ساتویں عورت نے کہا بہنوں میں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی لیکن میرے لیے کوئی رشتہ
نہیں آ رہا تھا میری چھوٹی بہنوں کی سب کی شادی ہو گئی تھی میری اماں بہت پریشان رہتی تھی ایک دن
کسی کا رشتہ میرے لیے آیا تو اماں نے تنخواہ کم ہونے کے باوجود بھی ہاں کر دی اماں نے بہت سا سامان مجھے
دیا پہلے تو سب ٹھیک تھا لیکن مہینے بعد جب شوہر نے 50 روپے دے کر کہا کہ اس سے گھر چلانا تو میں
بہت پریشان ہوں میں نے اماں کے گھر کبھی اتنے کم پیسوں پر گزارا نہیں کیا تھا میں نے ایک پڑوسی کو
دوست بنا لیا اور ہر ماہ ایک ایک زیور بیچ کر گزارا کرتی رہتی اس طرح ایک سال گزرا اور سارا زیور بک گیا
انہیں دنوں اماں کی طبیعت خراب ہو گئی اور میں شوہر کو لے کر اماں کے پاس آگئی ہم نے بہت کوشش کی
لیکن اماں کی طبیعت ٹھیک نہ ہوئی اور اماں چل بسی میں نے شوہر سے کہا کہ بڑی ہونے کے ناطے اماں کی
ساری تدفین اور رسومات میں کروں گی شوہر نے کہا لیکن میرے پاس پیسے نہیں ہیں میں نے کہا آپ
قرض لے لیں اس نے کہا میں قرض کہاں سے دوں گا اگر تم اماں کی کوئی بھاری چیز اُٹھا لو تو میں یہ کام کر
سکتا ہوں میں نے کہا ٹھیک ہے تم فکر نہ کرو اس نے دو ہزار کا قرض لیا اور اس طرح شان و شوکت سے
سارا کچھ ہو گیا سب نے میرے شوہر کی بہت تعریف کی میں نے پھر سے میں سے کچھ بھی نہ لیا میرے
شوہر حیران تھے لیکن میں نے انہیں کہا میں نے بھاری چیز اُٹھا لی ہے اپ فکر نہ کریں رات کو جب سب سو
گئے تو میں شوہر کو لے کر اماں کی کمرے میں گئی اور کہا دیکھو میں نے کیا اُٹھایا ہے شوہر نے پتھر دیکھ کر کہا
اس کے نیچے اصرفیاں ہیں میں نے کہا نہیں وہ کیوں ہوگی یہ وہ پتھر ہے جس پر بیٹھ کر اماں نماز پڑھتی تھی
آپ ہی نے تو کہا تھا کہ کوئی بھاری چیز اٹھانا مجھے اس سے بھاری کوئی چیز نہ ملی یہ سننا تھا کہ میرا شوہر سر پکڑ
کر بیٹھ گیا پھر مجھے پکڑ کر جنگل میں چھوڑ گئے تاکہ ساری زندگی بھٹکتی رہوں اپنی اپنی کہانی سنا کر ساری
عورتیں اپنی اپنی گٹھری پر سر رکھ کر سو گئی صبح ہوئی تو دروغہ صاحب نے سپاہی کو کہا ان سات عورتوں کو
چھوڑ دو اور ان کا سوت بیچ کر انہیں پیسے لا دو کیونکہ وہ ان کی ساری کہانیاں سن چکے تھے اور انہیں یقین ہو
چکا تھا کہ یہ دنیا کی سب سے بے وقوف عورتیں ہیں ۔
کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔
اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔
اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔