Jadooi kangin

Jadooi kangin

Jadooi kangin

 

اسلام علیکم اُمید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے ۔

آج کی کہانی میں خوش آمدید

آج کی کہانی  ہے  ایک ہولناک اور عبرت ناک کہانی

 اصفہان اسے دیکھ کر جتنا خوش تھا وہ اتنی ہی دل گرفتا اور اداس تھی آج پورے چھ سال بعد وہ آمنے سامنے

تھے کہنےکو تو  چھ سال مگر ایک طویل دکھ بھرا عرصہ جس نے ہمراہ کو صرف آنسو ہی دیے تھے وہ لاکھ

کوششوں کے باوجود اصفہان کو بھول نہ پائی تھی اس وقت دونوں شاپنگ مال کے فوڈ کورٹ میں آمنے

سامنے بیٹھے تھے اصفہان پہلے جیسا ہی تھا بلکہ تھوڑا کمزور ہو گیا تھا جبکہ ہمراہ پہلے جیسی ہی تھی خوبصورت

اور دلکش بس جوآنکھیں مسکراتی رہا کرتی تھیں آب وہاں خاموشی اور اداسی کی گہری چھاپ  تھی اصفہان

خاموشی ہی سے اُسے دیکھتاگیا ہمراہ کیسی ہو ٹھیک ہوں اور تمہارے بغیر کیسے ہو سکتی تھی ۔

میں جانتا ہوں میں نے جو کیا تم جانتی ہو تمہاری رضامندی سے کیا تھا ہاں تو میں نے کب گلہ کیا تم سے

جانتی ہو ہمراہ ان چھ سالوں میں کیا کیا بدل گیا تم نے تو پلٹ کر کبھی میری خبر بھی نہ لی آخر وہ گلا کر ہی گیا کیا

کرتی تم سے رابطہ کر کے اصبہان تمہاری زندگی میں کوئی اور جو آگیا تھا میں کسی کا دل دکھانا نہیں چاہتی

تھی اور نہ ہی کسی کا صبر آزمانا چاہتی تھی وہ بھی کب میرا ساتھ نبھا سکی ہمراہ اصفہان ایک دم ہی اداس ہو گیا

کیا مطلب ہاں ہمراہ نوین اور میرا ساتھ محض چار سال رہا وہ بھی مجھے چھوڑ گئی ایک بیٹے کا تحفہ دیکھ کر کہاں

چلی گئی نوید ہمراہ وہ دوسری بار ماں بننے جا رہی تھی سب کچھ ٹھیک تھا مگر آٹھویں مہینے میں اس کا بلڈ پریشر

اتنا بڑھ گیا کہ لاکھ ڈاکٹرز کی کوششوں کے وہ نہ بچ پائی اور نہ ہی میرا بچہ ائ ایم سوری اصفحان مجھے قطعا

اندازہ نہ تھا کہ تمہارے ساتھ اتنا بڑا حادثہ ہو گیا ہے۔

 اس نے اپنا ہاتھ اصفہان کے ہاتھ پر رکھ دیا اٹس اوکے ہمراہ یہ سب ایسے ہی ہونا لکھا تھا اور تم کیسی ہو ہمراہ

ائی ہوپ کہ تمہاری شادی شدہ زندگی اچھی گزر رہی ہوگی نہیں اصفہان میں یہ نہیں کر سکی میں تمہاری

جگہ کسی اور کو کبھی نہیں دے سکی اور پھر چند ہی ملاقاتوں میں ہمراہ اور اصفہان نے پھر سے ایک ہونے کا

فیصلہ کر لیا۔

 اصفہان کی والدہ اب خاموش تھی شاید یہی تقدیر کا فیصلہ تھا کہ ہمراہ نے ہی  اصفہان کی زندگی کے ساتھی

بننا تھا پانچ سالہ حنان بہت سمجھدار اور پیارا بچہ تھا وہ جلد ہی ہمراہ سےگھل مل گیا نوین اصفہان کی خالہ زاد

تھی جس کو بہت ضد اور ہٹ دھرمی سے اصفہان کی امی نے اصفہان کی زندگی میں شامل کیا تھا مگر یہ

دونوں کی قسمت میں ہی  نہ تھا کہ زندگی گزار پاتے وہ ہمراہ اور اصبہان کو ساتھ دیکھ کر اب خوش تھی

حالانکہ اصبہان کی امی نویرا خاتون نے ہی  ہمراہ کو اپنی بہو بنانے سے انکار کیا تھا جب اصفہان نے اپنی ماں نویرا خاتون سے ہمراہ کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی ہمراہ اور اصفہان کی شادی کے

بعد ہمراہ نے نہایت عمدگی اور سلیقے سے ان تمام کی زندگیوں کو سنبھال لیا تھا البتہ کوئی تھا جو اب بھی ہمراہ کو

اس جگہ مس فٹ سمجھ رہا تھا۔

 وہ تھی نوین کی ماں زیفن خاتون بظاہر تو بھانجے کی زندگی سنورجانے پر انہوں نے اسے خوب دعائیں دی

تھی مگر اندر ہی اندر وہ جیسے انگاروں پر لوٹ رہی تھی کمرے میں نیم اندھیرا تھا ایک عامل سر جھکائے ان کی

باتیں سن رہا تھا کیا بتاؤں شاہ جی وہ تو ڈائن ہے ڈائن وہ اصفہان سے پہلے ہی شادی کرنا چاہتی تھی اسی لیے

میری بیٹی نوین کو اس کی نظر اور ہائے کھا گئی سیفن خاتون رو رہی تھی تم اب کیا چاہتی ہو پہلے بھی تمہارے

کہنے پر میں نے تمہاری بہن کا دل اس لڑکی ہمراہ کے خلاف کیا تھا اب کیا چاہتی ہو تم بس شاہ جی اس بار کچھ

ایسا کرتے ہیں کہ اپااس لڑکی کو دھکے دے کر گھر سے باہر نکال دیں میں اپنے نواسے سے بہت پیار کرتی

ہوں بھلا بتائیں جو محبت میرے نواسے کو اس کی سگی خالہ دے سکتی ہے وہ کوئی غیر لڑکی تو نہیں دے سکے

گی نا اچھا تو یہ بات ہے اب تم اپنی دوسری بیٹی کو اس گھر کی بہو بنانا چاہتی ہو جی شاہ بابا میں اپنی بیٹی نمرا کو

اصفہان کی بیوی بنانا چاہتی ہوں۔

 وہی تو ہے جو اپنے بھانجے کو ماؤں جیسا پیار دے گی شاہ جی نے آپ کے لیے نظرانہ لائی ہوں جی جی بالکل

زیفن خاتون نے پانچ ہزار کے کئی نوٹ پرس سے  نکال کر تخت پر رکھ دیے ایک چٹنی نظر نوٹوں پر ڈال کر

شاہ جی نے آنکھیں بند کر لیں اس بار بہت ٹیڑھا مسئلہ لے کر آئی ہو تم پر میرا اسرہ تو آپ ہی ہے شاہ بابا وہ تو

اب کفر کی حد تک پہنچ چکی تھی ٹھیک اور اس بار بڑا مشکل کام لے ائی ہو مگر میری مرید ہو خالی ہاتھ واپس

کر دینا میری توہین ہے آپ بتائیں شاہ جی کیا کرنا ہے مجھے وہ بے صبری سے بولی مجھے ایسی عورت کا خون

چاہیے جو اُمید سے ہو اور کوئی ایسا زیور لا کر دو جو وہ لڑکی ہمراہ ہر وقت پہنے رکھے زیفن خاتون کے چہرے

پر پریشانی چھلکنے لگی زیور تو میں لے آؤں گی اور وہ اسے تحفے کے طور پر دے دوں گی البتہ ایسی کوئی عورت

سوچو سوچو کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا شاہ جی نے اس کی سوچ کو تحریک دی اب تم جاؤ اور انتظام ہو

جائے تو آ جانا مجھے ان لوگوں کو بھی دیکھنا ہے۔

Jadooi kangin

 جی شاہ جی وہ عقیدت سے اس کے ہاتھ چومتی اُلٹے پاؤں واپس نکل گئی وہ میرے خدا یقین نہیں آ رہا کہ

میرے گھر میں پھر سے خوشیاں لوٹ آئی ہیں میں بہت خوش ہوں بیٹا اصفہان کی امی نے شرماتی ہوئی ہمراہ

کو گلے سے لگا لیا اصفہان نے اُسے محبت بھری نگاہوں سے دیکھا پھر کچھ دن سے ہمراہ کی طبیعت کچھ

خراب سی تھی اور آج ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد انہیں والدین بننے کی خوشخبری دے ڈالی تھی اصفہان

واپسی میں بہت سارے فروٹس اور چاکلیٹ سے لدا پھدا واپس آیا حسب توقع اس کی امی بھی بہت خوش

تھی بس ہمراہ اپنا خیال رکھو بیٹی احتیاط کرو گھر کے کاموں کی فکر نہ کرنا میں اور کام والی رشیدہ مل کر دیکھ لیا

کریں گے ارے ماما بابا آپ لوگ آگئے میں کب سے بور ہو رہا تھا حنان کمرے سے نکل کر بھاگتا ہوا ان کی

طرف آگیا جی میری جان ہمراہ نے اسے محبت سے گود میں اٹھا لیا اور چٹا چٹ اس کے پھولے گالوں کو

چومنا شروع کر دیا بس میرے پاس آجاؤ دادی کی جان نویرا خاتون نے حنان کو اس سے لے لیا بیٹا ہمراہ تم

ذرا احتیاط کرنا اب یوں اُسے گود میں اٹھائے مت رکھو ارے امی کچھ نہیں ہوتا یہ تو میرا بڑا پیارا بیٹا ہے نا

نہیں بیٹی فلحال تمہیں احتیاط کی ضرورت ہے لمحہ بھر کو نویرا خاتون کی نگاہوں کے سامنے کچھ عرصہ پہلے کا

منظر لہرا سا گیا اصفہان نے پل بھر میں ان کی بدلتی کیفیت کو محسوس کر لیا ہاں ہمراہ پلیز کچھ عرصے ہی کے

تو بات ہے پھر شوق سے اٹھائے پھرنا اپنے لخت جگر کو اوکے بابا ہمراہ نے لاپرواہی سے چاکلیٹ کھاتے

ہوئے جواب دیا کیا بتاؤں زیفین میں کتنی خوش ہوں اللہ خیر سے میری ہمراہ کو فارغ کرتے پتہ نہیں کتنی

منتیں مان رکھی ہیں میں نے ۔

نویرہ خاتون اپنی بہن زیفن سے محو گفتگو تھی اور ادھر سے زیفن خاتون کے سینے پرگویا  سانپ لوٹ رہے

تھے ہاں ہاں اپا سب خیر ہو گئی چکر لگاؤں کہ جلد آپ کی طرف اور ہمراہ کے لیے تحفہ بھی لاؤں گی ارے

نہیں زیفن ان سب کی ضرورت نہیں نہیں آپا یہ تو اس کا حق ہے اور بتائیں حنان تو ٹھیک ہے نا ہمراہ اس کا

خیال تو رکھتی ہے نا ارے ایسا ویسا خیال لاڈلا ہے وہ ہمراہ کا دن رات اس کا سایہ بنا گھومتا ہے بس آپا مجھے تو

حنان کا بڑا خیال رہتا ہے آج اپنی اولاد نہیں تو ساری ممتا اس پر نچھاور کرتی ہیں کل کو اگر بدل گئی تو بچہ رل

جائے گا نا ارے نہیں بالکل نہیں میں نے اس کی انکھوں میں ممتا ہی ممتا دیکھی ہے حنان کے لیے وہ ہمیشہ

ایسی ہی رہے گی ہیرا ہے میری بہو تو وہ فخر سے بولی تو زیفن خاتون لمحہ بھر کو خاموش رہ گئی۔

 ارے یہ شور کیسا ہے نمرا بیٹی زیفن خاتون کی انکھ کچن میں سے آتی آوازوں پر کھلی امی جلدی سے ائیں شبانہ

کچن دھوتے  ہوئے گر گئی ہے کافی چوٹ لگ گئی ہے اسے نمرا کی گھبرائی ہوئی آواز پر وہ لپک کر کچن میں

پہنچی شبانہ نے پاؤں شیلف پر رکھا باجی میں گری تو میرے ہاتھ سے نائف سٹینڈ بھی گر گیا تھا پاؤں پر لمبا

کٹ لگا تھا جس سے بھل بھل خون بہہ رہا تھا ایک دم ان کے دماغ میں کچھ آیا تو اسے سنبھال کر لاؤنج میں

لے آئی نمرا میں بینڈج لے کر اتی ہوں وہ لپک جھپک کر کمرے میں جا گھسی بظاہر کام والی شبانہ کی پٹی

کرتے کرتے انہوں نے نہایت ہوشیاری سے اس کا کا خون اپنے ہاتھ میں پہنے سونے کے کڑے پر لگا لیا یہ

خبر انہیں کچھ دن قبل ہی ملی تھی کہ کام کرنے والی شبانہ بھی اُمید سے ہے زیفن خوشی خوشی بہن کے گھر

چلی ائی عامل شاہ جی سے کڑے پر کام کروا کر ائی تھی بس یہ کسی طرح ہمراہ کے ہاتھوں میں اب جانا تھا

مٹھائی سے لدی بہن کو اتے دیکھ کر نویرا خاتون کے سینے پر دھرا ندامت کا بوجھ اپ بھی اپ سے رک گیا

بہن ان کی خوشی میں خوش تھی اس سوچ نے انہیں نہال کر دیا ہمراہ بیٹا ادھر اؤ انہوں نے کھلتی ہوئی ہمراہ

کو اپنے پہلو میں بٹھا لیا ۔

یہ میری طرف سے تمہاری شادی اور آنے والے تحفے کا تحفہ ہے انکار مت کرنا مگر خالہ یہ تو بہت قیمتی ہے

ہاں مگر تم سے زیادہ تو نہیں نا تم میری نواسے کی آب ماں ہو تو میری بھی بیٹی ہی ہوئی نا لے لو بیٹا محبت سے

دیے گئے تحفے کو انکار نہیں کرتے نویرا خاتون ہر بات سے بے خبر محبت سے چور لہجے میں بولی ہمراہ نے

جھجکتے ہوئے کڑا ہاتھ میں پہن لیا ماشاءاللہ بہت جچ رہا ہے جیسے

تمہارے لیے ہی بنا ہو زیفن خاتون نے فرد مسرت سے ہمراہ کو چوم لیا لیکن دل میں نفرت ہی نفرت

بھری تھی بس اب میں یہ کبھی تمہارے ہاتھ سے اترانا دیکھوں بیٹا۔

 اس واقعے سے تیسرے دن کی رات ہمراہ کی آنکھ اچانک کھل گئی کمرے میں ہلکی ہلکی لمپ کی روشنی پھیلی

ہوئی تھی ایسی کی ٹھنڈک میں ماحول کو کافی خوشگوار بنا رکھا تھا مگر کچھ غیر معمولی سا احساس تھا اصفہان کی

طرف اس کی پش تھی عجیب سا تناؤ اورخوف اسے گھیرے ہوئے تھا ہمراہ نے دھیرے سے کروٹ بدلی

اور لمحے بھر میں اس کی چیخیں ہر طرف گونجنے لگی ایک مردہ اس کے پہلو میں پڑا تھا سیدھا کافور کی بو سے

اس کی سانسیں رکنے لگی ہمراہ ہمراہ کیا ہوا وہ وہ اس سے زیادہ ہمراہ نہ بول پائی اور بے ہوش ہو گئی پر ہی میں

سب لوگ اس کے اس پاس تھے یا اللہ کس کی نظر لگ گئی میری خوشیوں کو نویرا خاتون روتے ہوئے اسے

دم کر رہی تھی اور پھر یہ سلسلہ چل ہی پڑا ہمراہ کو ہر دم گھر میں مردے نظر آتے  رہتے۔

Jadooi kangin

 وہ کچھ ہی دنوں میں جیسے جھٹک کر رہ گئی تھی نویرا خاتون اصفہان سب بہت پریشان تھے ہمراہ کو تو لمحہ بھر

بھی تنہا نہ چھوڑا جاتا تھا مگر اب یہ سلسلہ بڑھتا جا رہا تھا ہمراہ کو دورے پڑنے لگے ہاتھ پاؤں مُر جاتے منہ

سے جھاگ آنے لگتا اور ایک دن اسی حالت میں اس کا بچہ ضائع ہو گیا ایک قیامت تھی جو ان پر ٹوٹ پڑی

اصفہان بچوں کی طرح رو پڑا امی یہ میری کسی گناہ کی سزا ہے میرے نصیب میں اب کوئی خوشی نہیں بچی

سب ٹھیک ہو جائے گا بیٹا تم ہمراہ پر دھیان دو یہ تو اس کی پہلی خوشی تھی ہمراہ اپنے ہوش و حواس میں کب

تھی جو اسے یہ احساس ہوتا کہ وہ اپنی زندگی کی پہلی خوشی سے محروم ہو گئی ہے وہ دن تو دن رات میں بھی

کمرے کی تمام لائٹس ان کیے رکھ دی ایسا لگ رہا تھا کہ وہ آہستہ آہستہ موت کی طرف بڑھ رہی ہوں اس

تھوڑے سے عرصے میں اس کی تمام تر خوبصورتی ختم ہو چکی تھی ہڈیوں کا پنجر بن گئی تھی۔

 اس تمام صورتحال سے اگر کوئی خوش تھا تو وہ زیفن خاتون تھی اصفہان ہمراہ کو شہر کے تمام بڑے اور اچھے

ڈاکٹرز کو دکھا چکا تھا مگر اس کا علاج لا علاج بن چکا تھا مجھے چھوڑ دو اصفہان ایک ڈاکٹر کے پاس سے واپس گھر

آتے ہوئے ہمراہ نے اصفہان سے کہا کیا مطلب تمہارا میں نے تمہاری زندگی مزید عذاب بنا دی اصفہان

مجھے مار دو یا کسی لاوارث سینٹر میں چھوڑا تو میرا کیا ہمراہ میں کیسے جیوں گا تمہارے بنا تم میری زندگی ہو تم

میرے ساتھ ہو میرے پاس ہو میرے لیے اس سے بڑھ کر کچھ نہیں یہ وقت گزر جائے گا کٹ جائے گا

اللہ پاک کی کوئی آزمائش ہی ہوگی وہ اسے پیار سے سمجھا رہا تھا۔

 تبھی ایک فقیر ان کے پاس چلا آیا دے اس کے نام پر جو سب سے محبت کرنے والا ہے یہ لو  بابا بس میری

بیوی میری زندگی کے لیے دعا کرو لمحہ بھر کے لیے فقیر نے ہمراہ پر نظر ڈالی تیری زندگی کی زندگی داؤ پر لگا

دی ہے تیری کسی اپنے نے یہ نہیں بچے گی وہ اسے ختم کر دے گی وہ تیری زندگی بدل دے گی اصفہان نے

چونک کر اسے دیکھا تبھی لمحہ بھر میں ہمراہ کے چہرے پر جیسے پورے جسم کا خون جمع ہو گیا دفع ہو جا یہاں

سے وہ غرائی ورنہ میرے ہاتھوں تو بھی ختم ہو جائے گا فقیر نے زوردار کہ کہاں لگایا اس سڑک سے پار

جھکیاں ہیں میں وہیں رہتا ہوں کیا پتہ تمہیں کبھی میرے پاس انا ہی پڑے وہ اصفہان کو کہتا ہوا اگے چلا گیا۔

 اصفہان نے کچھ سوچتے ہوئے گاڑی سٹارٹ کر دی ہمراہ بیڈ پر دوائیوں کے زیر اثر بے خبر سو رہی تھی

اصفہان نے آج ہونے والا واقعہ نویرا خاتون کو سنایا وہ دونوں اس وقت اصفہان اور ہمراہ کے کمرے میں

بیٹھے ہوئے تھے حنان ہمراہ کے ساتھ لگا سو رہا تھا ایک ٹانگ ہمراہ کے اوپر رکھے وہ بے خبر تھا ان سارے

حالات میں ہمراہ اور حنان کی آپسی محبت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا بلکہ ہمراہ اسے اور محبت کرنے لگی تھی

نویرا خاتون پر سوچ نگاہوں سے ہمراہ کو دیکھ رہی تھی اصفہان مجھے بھی یہ کوئی اور ہی معاملہ لگتا ہے ایک دم

سے یہ سب کیسے ہو گیا یقینا اس فقیر نے جو کہا اس میں کچھ تو حقیقت ہے تو عوامہ کیا کرنا ہوگا امی پریشان

مت ہو بیٹا یہ مشکلات تو عارضی ہیں یقینا ہمارا رب کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکال دے گا تم ایک کام کرو

دوبارہ اسی جگہ جاؤ اسے ڈھونڈو کیا پتہ وہ فقیر ہماری کچھ مدد کر ہی دے۔

 اصفہان بہت مشکلوں سے اس فقیر کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچا وہاں بہت ساری جھکیاں تھیں پوچھتا وہ اس

جھکی تک پہنچا جو اس فقیر کی تھی فقیر وہاں بیٹھا سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر کھا رہا تھا اصفہان کو دیکھ کر

مسکرایا اور کہنے لگا ا گئے تم اؤ اؤ بیٹا کھانا کھاؤ میرے ساتھ اصفہان خاموشی سے اس کے سامنے جا بیٹھا اور

کھانا کھانے سے انکار کر دیا ارے کھاؤ تو اس نے شفقت سے روٹی کا ٹکڑا اس کی طرف بڑھایا اصفحان پھر

منع کرنا چاہتا تھا مگر کچھ سوچ کر روٹی تھام لی فقیر نے پانی کا پیالہ اس کی طرف بڑھا دیا وہ چپ چاپ روٹی کا

ٹکڑا پانی میں بھگو کر کھانے لگا روٹی حیرت انگیز طور پر نہایت نرم اور میٹھی تھی اور پانی بھی کسی گرم

شوربے جیسا لگ رہا تھا تیسرے نوالے کے بعد اصفہان کی انکھوں کے سامنے دھند سی اگئی اور اسے کچھ خبر

نہ رہی ہر طرف خاموشی چھا گئی تبھی کچھ مناظر اس کے سامنے آنے لگے زیفن خالہ اور وہ مکرو شکل بھٹا

ہلکی ہلکی سرگوشیوں میں ہوتی گفتگو زیفن خالہ کا وہ کنگن اس بھوڈے کو پکڑانا کچھ سیکنڈز میں تمام سچویشن

اس پر عیاں ہو گئی پھر ایک جھٹکے سے وہ واپس لوٹا اب وہ فقیر نماز کی نیت کیے ہوئے تھا آسمان کی طرف

اس کی پش تھی یا اللہ اصفہان ابھی تک بے یقین تھا زیفن خالہ ایسا بھی کر سکتی ہیں اس کا دل اپنے اولاد کے

خون ناحق اور ہمراہ کی حالت پر بلک اٹھا اگر وہ غصے کی لہر نے اس کے پورے وجود کو اپنی گرفت میں لے

لیا۔

 نویرا خاتون حیران پریشان اصوان کی بات سن رہی تھی امی یہ کنگن ہی سارے فساد کی جڑ ہے اسے اتارنا

ہوگا وہ سوتے ہمراہ کے قریب آیا نہیں بیٹا یہ اتنا اسان نہیں جیسا ان بابا نے تمہیں بتایا ہے ویسا ہی کرنا ہوگا

مگر زیفن خالہ کیسے تیار ہوں گی امی وہ تو مجھ پر چھوڑ دو نہ بہرہ خاتون سنجیدگی سے بولی اور فون اٹھا لیا ہیلو

زیفن کیسی ہو نمرا بیٹی کیسی ہے زیفہ ہم بہت پریشان ہیں ہم نے ایک بار پھر غلطی کر دی ہمراہ تو سدا کی

منحوس  لڑکی تھی وہ صرف اصفہان کی خوشیاں کھانا چاہتی ہے دوسری طرف زیفن کا بس نہیں چل رہا تھا

کہ وہ خوشی سے نہ ناچ اُٹھے  مگر بظاہر افسردہ لہجے میں بولی کیا بتاؤں اپا مجھے تو یہ پہلے دن ہی ڈائن لگی تھی مگر

آپ بھی کتنی معصوم ہیں اس چل باز کی باتوں میں اگئی ہاں ہاں زیفن ہمیں بھی بہت افسوس ہے نویرا

خاتون سوچنے لگی کہ یہ کیسی بہن ہے جو بہن کی خوشیوں کی دشمن بن گئی اچھا ہم جو کہہ رہے ہیں زیفن ذرا

غور سے سنو پھر وہ زیفن کو کچھ بتانے لگی

 نمرا زیفن خاتون نویرا خاتون ہمراہ اور اصفہان اب اس فقیر کی جھکی میں موجود تھے ہمراہ اور نمرہ نہایت

حیرت سے اپنے اطراف دیکھ رہی تھی جبکہ زیفہ خاتون کے چہرے پر دبی دبی خوشی تھی نویرا خاتون بے

تاثر چہرے کے ساتھ وہاں بیٹھی ہوئی تھی اصفہان کا چہرہ تو اندرونی حالت کا گواہ تھا فقیر بابا سر جھکائے کچھ

پڑھنے میں مشغول تھے انہوں نے سر جھکائے ہمراہ کو مخاطب کیا بیٹی ہمراہ اپنے ہاتھ سے یہ کنگن اتار کر اپنی

خالہ ساس کو دے دو ہمراہ نے یہی کیا اور یہ کرنے کے بعد ہی اسے لگا کہ جیسے وہ کسی نامعلوم شکنجے سے آزاد

ہو گئی ہو زیفہ خاتون کنگن تھا مےبیٹھی تھی خاتون یہ کنگن اپنی بیٹی کو پہنا دو جی وہ گڑبڑا گئی فقیر بابا نے

چمکدار نگاہیں اس پرگاڑ دی کیوں بہت مشکل لگ رہا ہے یہ کرنا بیٹی کی خوشیاں چاہتی ہو نا اس کے لیے کچھ

بھی کرنے کو تیار تھی نا تو اب کیا ہوا کیسا روبو دبدبہ تھا فقیر بابا کے چہرے پر کہ زیفن خاتون نے بنا کو چونچرا

کیے کنگن نمرا کو پہنا ڈالا نمرا کی آآنکھیں اب بند ہونے لگی وغیرہ خاتون کپکپائی کچھ بھی ہو وہ ان کی بہن

تھی جسے گود میں انہوں نے کھلایا تھا بابا اس بچی کا کچھ قصور نہیں قصور تو اس بچے کا بھی نہیں تھا بی بی جو دنیا

میں ائے بغیر چلا گیا وہ چلا لی ہو گئی زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور جو انسان خود کو اس کی برابری پر

لانے کی کوشش کرے وہ صرف سزا کا حقدار ہوتا ہے آب سارا معاملہ زیفن خاتون پر آیا ہوا نمرا جھٹکے لے

رہی تھی اس کی نظروں میں تمام مناظر گھومنے لگے جو کچھ زیفن خاتون نے کیا امی وہ تکلیف اور کرب سے

چلائی امی مجھے بچائیں یہ اپ نے کیا کیا کیوں کیا امی وہ سارے مردے مجھے کھینچ رہے ہیں مجھے اپنے ساتھ

لے جانا چاہتے ہیں اب نمرا اپنا گلا پکڑے پکڑے زمین پر گر گئی چہرہ نیلا ہو رہا تھا اب وہ کچھ بول بھی نہیں پا

رہی تھی دونوں ہاتھوں سے نادیدہ مردوں کو گویا اپنے پاس سے ہٹا رہی تھی فقیر بابا بچا لے میری بیٹی کو

زیفن خاتون یکا یک زار و قطار رونے لگی نویرا اپا مجھے معاف کر دو ہمراہ اصفہان مجھے معاف کر دو میں خطا وار

ہوں مجھے سزا دیں میری بیٹی کا کوئی قصور نہیں یہ معصوم ہے بے گناہ ہے اب وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی

تھی ہمراہ سمیت سب پتھرائی انکھوں سے یہ سب دیکھ رہے تھے بابا معاف کرتے ہیں انہیں ہمراہ نے

ایک دم فقیر بابا سے کہا میں نے انہیں معاف کیا ہے بابا سب معاف کیا پھول سے نملا اب کچھ بھی بول

نہیں پا رہی تھی بابا نے کچھ پڑھ کر نمرا پر دم کیا۔

 وہ ساکت ہو گئی خاتون اتارو کنگن اور دبا دو یہیں انہوں نے زیفن خاتون کو گھورتے ہوئے کہا وہ جلدی

جلدی سب کرنے لگی شکریہ بابا تم اور تمہارا وہ شیطان مرشد پھر کوئی حرکت کرو گے کیا نہیں کبھی نہیں

ارے دل میں کیا ہے بی بی وہ بولو خیر تمہارا مرشد ہمیشہ کے لیے معذور ہو گیا ہے ہاتھوں سے پیروں سے

اور زبان سے اور یہی تمہاری بھی سزا ہے زیفن خاتون اب کچھ بولنے کی کوشش کر رہی تھی مگر ان کی

زبان ہمیشہ کے لیے مفلوج ہو چکی تھی جو لوگ کسی کے لیے گھڑا کھودتے ہیں وہ خود ایک دن اس میں گر

جاتے ہیں اپنے مفاد کے لیے کبھی کسی کی زندگی کو برباد نہ کرے جادو ٹونا کرنے والوں کی سزا دنیا میں بھی

ہے اور آخرت میں بھی۔

کہانی پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اپنا خیال رکھیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔اللہ خافظ۔

اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔

بچوں کی کہانیاں ،     سبق آموز کہانیاں ،        نانی اماں کی کہانیاں

Share and Enjoy !

Shares

Leave a Comment