Shahzadi Gul Bahaar
پیارے بچوں آج ہم آپ کو جادوگر کی کہانی سناتے ہیں کسی ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا وہ نیک
اور رحم دل تھا اس کے دو بیٹے تھے وہ بھی بہت نیک تھے بادشاہ اور ملکہ اکثر اداس رہتے تھے کیونکہ ان کی
کوئی بیٹی نہیں تھی انہیں بیٹی کا بہت ارمان تھا وہ دن رات اللہ سے اپنے لیے بیٹی کی دعا کرتے کچھ سالوں
کے بعد خدا نے ان کی دعا سن لی اور انہیں ایک چاند سے بھی کی عطا کی وہ بہت خوبصورت تھی پورے بال
میری انکھیں اور گورا رنگ دونوں بھائیوں کی تو جیسے جان تھی اس میں بادشاہ نے اس کا نام کل بہار رکھا
جیسے جیسے شہزادی گلبہار بڑی ہوتی گئی اس کا حسن اور بھی بڑھتا گیا وقت گزرتا گیا اور شہزادی 18 سال کی
ہو گئی ایک دن شہزادی اپنی کنیزوں کے ساتھ بال کھولے محل کی چھت پر ٹہل رہی تھی کہ وہاں سے
جادوگر کا گزر ہوا وہ شہزادی گلبہار کو دیکھ کر اس کا عاشق ہو گیا تمام کنیزیں جادوگر کا بھیانک چہرہ دیکھ کر ڈر
گئی اور شہزادی کو اپنے گھیرے میں لے لیا جادوگر کا چہرہ کافی خوفناک تھا اس کی تین انکھیں تھیں جادوگر
نے کنیزوں سے پوچھا یہ بھری کون ہے کنیزوں نے جواب دیا کہ پری نہیں ہماری شہزادی گلبھار ہے تم
کون ہو اور یہاں کیوں ائے ہو فورا یہاں سے چلے جاؤ ورنہ شہزادی ا کر تمہارا سر دھڑ سے الگ کر دے گا
جادوگر نے ہنستے ہوئے جواب دیا وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے مجھے اس کو دیکھتے ہی محبت ہو گئی ہے میں اس
سے شادی کروں گا شہزادی کنیزوں کے پیچھے کھڑی جادوگر کی تمام باتیں سن رہی تھی جادوگر نے اچانک
ایک پھونک ماری تمام کنیزیں بے ہوش ہو گئیں پھر جادوگر شہزادی گلبہار کے قریب ایا اور اسے اٹھا کر
اپنی حویلی کی طرف لے گیا جادوگر کے جاتے ہی تمام کنیزیں ہوش میں اگئیں اور دیکھا جادوگر شہزادی کو
اٹھا کر لے گیا ہے انہوں نے یہ تمام کے سب بادشاہ اور اس کے بھائیوں کو بتا دیا جلد ہی یہ خبر جنگل کی انکھ
کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی شہزادوں نے اپنی سپاہی کبھی جنگل کی طرف بھیجے تو کبھی پہاڑوں کی
طرح جب کافی تلاش کے بعد بھی شہزادی کی کوئی خبر نہ ملی تو شہزادوں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ خود باری
باری اپنی بہن کو ڈھونڈنے جائیں گے پہلے بڑا بھائی جائے گا اگر ایک ہفتے تک بڑا بھائی نہ ایا تو پھر چھوٹا بھائی
جائے گا اگلی صبح بڑا بھائی اپنے گھوڑوں پہ سوار اپنی تلوار اٹھائے کھانے پینے کا سامان لے کر جنگل کی طرف
چل پڑا شام ہوتے ہوتے وہ جنگل کے بیچ پہنچ گیا ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا دور اسے ایک ہلکی سی روشنی
نظر ائی شہزادہ وہاں چل دیا قریب پہنچا تو دیکھا وہ ایک جھونپڑی ہے اس نے محسوس کیا کہ جھونپڑی میں
کوئی موجود ہے شہزادے نے اجازت لی جہاں کون ہے کیا میں اندر ا سکتا ہوں اس نے دیکھا ایک نورانی
بزرگ جائے نماز پہ بیٹھے تسبیح پڑھ رہی تھی انہوں نے شہزادے سے جنگل انے کی وجہ پوچھی شہزادے
نے تمام بات بزرگ کو بتا دی بزرگ نے شہزادے کو بتایا اس جادوگر کا نام کانا جادوگر ہے اس جنگل کے
باہر قائد طرف اگ کا دریا ہے اور اس کے بعد پھلوں کا باغ ہے اور اس باغ کے سارے پھل جادوئی ہیں
اور ان پھلوں کو جو بھی کھاتا ہے وہ پتھر کا ہو جاتا ہے اس باغ کے بعد کالی پہاڑیوں کے بیچ میں اس کی حویلی
ہے اور اس حویلی میں ہی تمہاری بہن قید ہے شہزادے نے بزرگ سے پوچھا میں اس حویلی تک کیسے پہنچ
سکتا ہوں بزرگ نے بتایا لو یہ روٹی لے لو جنگل پار کرتے ہی تمہیں بھوک لگے گی ادھی روٹی کھانا اور
ادھی بچا لینا پھر بزرگ نے شہزادی کو اپنی جادوئی چادر دی اور کہا اور یہ چادر بھی لے لو تم یہ چادر اگ پر
ڈالو گے اگ بجھ جائے گی تم اس طرح اس کے باغ میں پہنچ سکتے ہو باغ میں پہنچتے ہی تمہیں پھر بھوک لگے
گی تم وہ بچی روٹی کھا لینا کہ جادوئی پھل کھانے سے تم پتھر کے ہو جاؤ گے بزرگ نے اس شہزادے کو ایک
مٹی کے دانوں والی تسبیح دی اور کہا جب تم پہاڑوں سے ہوتے ہوئے اس کی حویلی میں پہنچو تو یہ تسبیح کے
دانے جادوگر کی ماتھے والی انکھ پر مار دینا تو کچھ دیر کے لیے اندھا ہو جائے گا اور تم اسی وقت اس کی گردن
اڑا دینا شہزادہ بزرگ سے چادر اور تسبیح لے کر محل کی طرف چل پڑا جنگل ختم ہوتے ہی شہزادے کو شدید
بھوک لگی اور بے خیالی میں وہ پوری روٹی کھا گیا اور انکھ کے دریا کی طرف چل پڑا دریا اتے ہی شہزادے
نے بزرگ کی چادر انکھ پر ڈالی اگ بجھ گئی شہزادہ باغ میں داخل ہو گیا ہر طرف لذیذ پھل دیکھ کر شہزادے
کی طبیعت پہنچا گئی شہزادہ خود کو قابو نہ کر سکا اور ایک سیب کھا لیا سیب کھاتے ہی شہزادہ پتھر کا بن گیا.
دوسری طرف بادشاہ اور شہزادہ بے صبری سے شہزادے کا انتظار کر رہے تھے ایک ہفتہ گزر جانے کے
بعد جب شہزادہ واپس نہ آیا تو چھوٹا شہزادہ اپنے بھائی اور بہن کی تلاش میں نکل پڑا اور جنگل میں اسی سمت
چل پڑا جس سمت اُس کا بھائی گیا تھا راستے میں اُست بھی وہ ہی بزرگ نظر آیا اُس نے بھی وہی تمام باتیں
سمجھائیں اور چادر دے کر کہا اپنے بھائی کو جادوگر کے اس باغ میں تلاش کرنا اور اس سے وہ تسبیح لے لینا
شہزادہ بزرگ سے رخصت لے کر وہاں سے حویلی کی طرف چل دیا ہر طرف جنگل ہی جنگل تھا جنگل ختم
ہوتے ہی اسے شدید بھوک لگی مگر اس نے ادھی روٹی ہی کھائی اسی طرح انکھ کے دریا پر چادر ڈالی اور دریا
کی پار چلا گیا پھلوں کا باغ اتے ہی شہزادے کو دوبارہ بھوک لگی باغ کے پھل دیکھ کر اس کا دل بہت للچار تھا
مگر اس نے اپنی ادھی روٹی نکالی اور کھا لی پھر اس نے اپنے بھائی کو تلاش کیا کچھ ہی فاصلے پہ اسے اپنا بھائی
دکھائی دیا وہ اپنے بھائی تک پہنچا اور اس کے ہاتھ سے تسبیح لے کر پہاڑوں کے بیچ سے ہوتا ہوا جادوگر کی
حویلی میں پہنچ گیا۔
اس نے کالے کپڑے پہنے ہوئے تھے جس کی وجہ سے وہ اندھیرے میں بجتے بچاتے اس
کمرے میں پہنچ گیا جہاں اس کی بہن شہزادی گلبہار قیدی شہزادی اپنے بھائی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور
بتایا کہ جادوگر کے انے کا وقت ہو چکا ہے اور اسی کمرے میں چھپ جائے شہزادے نے اسے کہا تم اسے
باتوں میں لگا رہتا میں موقع تے کہیں تسبیح کی دانے اس کی انکھ پہ مار دوں گا کچھ ہی دیر گزری تھی کہ
جادوگر اگیا جادوگر شہزادی سے بولا یہاں کوئی اور بھی ہے شہزادی نے کہا نہیں نہیں میرے علامہ یہاں
اور کوئی نہیں ہے میں اس قید سے تنگ ا گئی ہوں کتنے دن ہو گئے ہیں مجھے کوئی بچانے بھی نہیں ایا اس لیے
میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں تم سے شادی کر لوں جادوگر یہ سن کر خوشی سے اچھل پڑا موقع کا فائدہ
اٹھاتے ہی شہزادہ باہر ایا اور جادوگر کی انکھ پر تسبیح کے دانے مارے جس سے وہ اندھا ہو گیا اور شہزادے
نے اسی وقت اس کا سر قلم کر دیا جادوگر کے مرتے ہی حویلی میں زلزلہ اگیا شہزادہ اپنی بہن کو لے کر فورا
حویلی سے باہر اگیا پھلوں کے باغ میں ایا دیکھا اس کا بڑا بھائی بالکل ٹھیک ہو چکا تھا بزرگ کا شکریہ ادا کیا اور
اپنے محل روانہ ہو گئے جہاں وہ دوبارہ ہنسی خوشی رہنے لگے
پیارے بچوں اس کہانی سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ بھائی اپنی بہنوں کی حفاظت کے لیے بڑے سے بڑے خطرے کی بھی پرواہ نہیں کرتے ہیں۔
اگر آپ اور مزید کہانیاں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کریں۔
بچوں کی کہانیاں ، سبق آموز کہانیاں ، نانی اماں کی کہانیاں